٣٠ اپریل آگئی تھی ۔۔۔
افروز فیکٹری پہنچ چکا تھا۔۔۔
جب آفس میں انٹر ہوا تو شیبہ وہاں موجود تھی۔ افروز کے اندر داخل ہوتے ہی شیبہ کرسی سے اتھ کھڑی ہوئی یہ شیبہ کی زندگی کا پہلا دن تھا کہ آفس میں کسی کے آنے پر وہ کھڑی ہوئی تھی۔
آؤ افروز یہاں کرسی پر بیٹھو۔۔۔۔۔۔۔
یہ افروز کی زندگی کا پہلا دن تھا کہ افروز اے-سی روم میں بیٹھا تھا۔
یہ میڈم آپ کے روم میں سردی کیوں ہے۔
وہ اوپر اے-سی چل رہا ہے نا۔
اچھا اے-سی سے سردی نکلتی ہے میں تو سمجھتا تھا کہ سردی صرف اپنے مہینوں میں آتی ہے۔
اچھا اسی آفس میں تمھارا کام ہو گا۔کام کا میں تمھیں سمجھا دوں گی۔ ابھی تم میرے ساتھ آو میں تمھیں ینیفارم لے دوں______ افروز کے پاس بس ایک ہی سوٹ تھا جو اس نے پہنا ہوا تھا اور اس کو بھی کئی پیوند لگے ہوے تھے۔ شیبہ نے افروز کو اپنی گاڑی می بٹھایا۔
آپ کو پتہ ہی ہے کہ شیبہ گاڑی بہت تیز چلاتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہی گاڑی کی سپیڈ ١٢٠ تک پہنچ گئی۔
افروز حیران تھا کہ گاڑی اتنی تیز چل رہی ہے اور کوئی جمپ نہیں لگ رہا۔
سنئیے میڈم۔۔۔
ہاں بولو۔۔۔۔۔
وہ میڈم جب گاؤں سے کوئی بھی گدھا گاڑی گزرتا تو میں اس پر بیٹھتا تہ وہ تھوڑا ہی تیز بھاگتا تو کھڑک کھڑک کی آواز آنے لگتی اور جمپ بھی بہت لگتے اور یہ تو نہ کھڑک رہی ہے اور نہ ہی جمپ لگ رہا ہے۔
ار ے اس پہ جمپ نہیں لگتے۔
کچھ دیر بعد پھر افروز بولا۔
سنئیے میڈم۔۔۔۔
ہاں بولو۔۔۔۔۔
وہ میڈم باہر دیکھیں درخت پيچهے بھاگ رہے ہیں
۔شیبہ مسکرانے لگی۔۔۔۔۔
نہیں یہ درخت نہیں پي بھاگ رہے گاڑی کی اتنی سپیڈ ہے اس لئیے ایسا لگ رہا ہے۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ شہر پہنچ گئے۔۔۔۔۔شیبہ نے ٣ پینٹس اور شرتس لے کر دیں اور پھر جوتوں کی
دکا ن سے جوتے بھی خرید کر دئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بھر واپسی کا رخ کیا
ابھی راستے میں ہی تھے کہ افروز چلایا ۔۔۔
رکیےمیڈم رکیے۔۔۔۔۔۔۔
شیبہ نے بریک لگائی اور افروز نیچے اترا اور پیچھے بھاگا ایک آدمی ننگے پاؤں چل رہا تھا افروز نے اپنے نیا جوتا اتارا اور اس کو پہنا دیا اور واپس گاڑی کی طرف لوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب کچھ شیبہ گاڑی کے شیشے سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اّج اس كو يقين هوا افروز جوتاچراتا نهي اٹهاتا هي۔۔۔۔۔
اور پھر شیبہ نے گاڑی کا رخ شہر کو کیا اور افروز کو نیا جوتا لے کر دیا اور اس سے کہا کہ آئندہ وہ کسی کو اپنا جوتا نہ دے اگر کوئی ضرورت مند نظر آے تو مجھے بتانا میں نيا جوتا لا دوں گی۔
اور وہ واپس آفس پہنچ گئے۔ شیبہ نے افروز کو اس کا کام سمجھا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افروز کو وہاں کام کرتے ہوے تین مہینے ہو گے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیبہ افروز کی سادگی اور سخاوت سے اس قدر متاثر ہوئی کہ شیبہ کو افروز سے محبت ہونے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر وہ خود کو افروز کے قابل نہیں سمجھتی تھی۔ وہ خود کو افروز سے نیچا جانتی تھی۔ اور کبھی اظہار محبت نہ کر سکی۔
جب افروز مہینے کی چھٹیوں پر گھر جاتا تو پورا آفس ویران محسوس ہوتا۔
١٣ اکتوبر کوشیبہ کا برتھ ڈے ہوتا اور ایک بہت بڑی پارٹی کا انعقاد کیا جاتا تھا۔بڑےبڑے امیرزادوں کو مدعو کیا جاتا۔ شیبہ کے بنگلہ کو بجلی کےقمقموں سے خوب سجایا جاتا۔ اس ١٣ اکتوبر کو بھی پارٹی کا انعقاد کیا گیا اور شیبہ کا بنگلہ کے چاروں طرف رونقیں ہی رونقیں تھیں مگر اس بار صرف ایک ہی ہستی کو مدعو کیا گیا تھا ۔
شیبہ نے اپنے ابو کو بتایا تھا کہ اس مرتبہ صرف میرے مہماں ہی آئیں گے آپ کسی کو مدعو نہ کیجیے گا یا پھر کسی اور دن کر لیجیے گا۔۔۔۔
افروز کو رات ١٠ بجے کا ٹایم دیا گیا کیونکہ آج کی پارٹی کی عظیم ہستی وہ ہی تھا۔
ٹایم ١٠ کے قریب تھا شیبہ افروز کے آنے کا شدت سے انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
9:50 منٹ ہوے تھے کہ افروز مین گیٹ سے انٹر ہوا گیٹ اس کی آمد کےلے پھلے سے ہی کھلا ہوا تھا۔ افروز نیلی جینز سفید شرٹ کالا کوٹ اور ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لاتا دکھائی دیا۔
ہیپی برتھ ڈےشیبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھینک یو سو مچ افروز۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میری طرف سے ایک چھوٹا سا تحفہ آپ کےلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں یہ آپ کا بہت بڑا تحفہ ہے میرے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھینک یو سو مچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی کے مہمان کہاں ہیں؟
آج کے مہمان بس آپ ہی ہو۔۔۔۔
میں کچھ سمجھا نہیں!!!!!!
تم سمجھو گے بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوروہ جو اتنا کچھ پکا ہوا ہے وہ کہاں جاے گا؟
وہ ہم جھونپڑی والے بھائیو کو دے آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے علاوہ میں ان بھائیوں کے لیے بہت سے جوتے بھی لائی ہوں وہ بھی ان میں تقسیم کرنے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے میڈم آپ بھی کمال کرتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تمہاری ہی صحبت کا اثر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا باتیں چھورو اور یہ کیک کاٹو۔۔۔۔۔۔۔
افروز نے کیک کاتا اور پھر دونوں نے تھوڑا تھوڑا کھایا اور آپس میں باتیں کرنے لگے۔۔۔۔۔
افروز تم جانتے ہو تم دنیا کے امیرترین انسان ہو۔۔۔۔
ارےمیڈم ٥٠ ہزار کی سیلری سے کوئی امیر نہیں بن جاتا۔۔۔
نہیں افروز امیر صرف پیسوں سے ہی نہیں بنا جاتا۔۔۔۔۔دولت پیسہ ہی نہیں ہوتی۔ اصل دولت کچھ اور ہی ہوتی ہے جو صرف تمہارے پاس ہے اور جب سے تم سے ملی ہوں میری دنیا ہی بدل گئی ہےاور اگر میں تم سے نہ ملتی پو اس دنیا سے متعارف ھوئے بغیرہی چلی جاتی۔بظاہر تو میرے پاس بہت کچھ ہے مگر درحقیقت میں بہت خالی تھی۔اور خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے چلی جاتی۔۔۔۔!
افروز آج میں تم سے بہت خاص بات کہنے جارہی ہوں اس لیے اس تقریب میں صرف آپ کو مدعو کیا۔۔۔۔
ایسی بھی کیا خاص بات ہے؟؟
افروز میں تم سے بہت پیار کرتی ھوں۔کیا مجھے اپنا جیون ساتھی بناؤ گے؟؟؟
شاید میں آپ کے قابل نئ ھوں مگر آپ جیسا بننے کی کوشش کروں گی۔۔۔۔۔۔۔
افروز کی آنکھوں میں خوشی کے آنسوں ڈگمگا رہے تھے۔۔ میڈم جانتی ھوں جب میں نے پہلی بار آپ کو دیکھا تھا مجھے اسی وقت ہی آپ سے محبت ہوگئ تھی۔آپ کی حوبصورتی کی کشش نے اسی وقت ھی مجھے آپ کا دیوانہ بنا دیا تھا ورنہ میں اتنا بھی کمزور نئ تھا کہ ایک لڑکی سےسر پھڑوا لیتا۔۔مگر ایک غریب کی ایک امیر سے کیا محبت اس لیے میں نے اپنے جزبات کو اپنے تک ہی محدود رکھا۔ جانتی ھو آپ جب آفس میں کام کر رہی ہوتی تھی تو میں ترچھی نظروں سے آپ کا دیدار کرتا رہتا تھا۔
مطلب جوتوں کے علاوں بھی کچھ چراتے ہو۔
دونوں کے چہروں پر خوشی کی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
پھر بہت جلدی ہی شیبہ اور افروز کی شادی ہوگئی۔آج افروز اس پوری فیکٹر کا مالک ہے۔ دونو بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔اور ان دونوں کی زندگی کا مقصد صرف غریبوں کی مدد کرنا ہے۔۔۔۔۔۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...