“آپ بالکل سچ کہہ رہے ہیں، مسٹر جیک” میں نے خوش ہو کر کہا۔
“زلزلہ کے وقت مجھے خود یہی محسوس ہوا تھا کہ زلزلہ صرف ایک خاص حصے میں آیا تھا حالانکہ اسے پورے جنگل میں آنا چاہئے تھا ۔ لیکن مسٹر جیک میں ایک بات آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ ”
“پوچھو” جیک نے کبڑے کو دیکھتے ہوئے کہا جو پھر ہلنے کی کوشش کررہا تھا۔
“کبڑے کے وہ ساتھی جن کے بارے میں آپ نے کہا ہے کہ وحشی ہیں اب کہاں ہیں؟ ایسا تو نہیں کہ وہ اس نیولے کی مدد کرنے یہاں آ پہنچیں، تب تو ہم مصیبت میں پھنس جائیں گے۔ ”
“نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، وہ لوگ اب ادھر نہیں آ سکتے، ایک تو وہ ان سب کھنڈرات کو بہت مقدس خیال کرتے ہیں اس لئے ادھر کا رخ نہیں کر سکتے، دوسرے میں جو اتنے عرصے غائب رہا تو خالی ہاتھ نہیں بیٹھا رہا، کچھ نہ کچھ کر کے ہی آیا ہوں۔ ” جیک نے آہستہ سے جواب دیا۔
“جیک مجھے تم پر فخر ہے ۔” جان نے خوش ہو کر کہا:
“تمہارے بارے میں ہم نے غلط رائے قائم کرلی تھی، معاف کرنا۔ ”
جیک نے جواب تو کچھ نہیں دیا بلکہ مسکرانے لگا ، اس کے بعد وہ کبڑے کی طرف مڑا اور خوف ناک آواز میں کہنے لگا:
“چیتن، تم خود ہی بتاؤ کہ تم کون سی موت مرنا پسند کرو گے ۔ اس کا فیصلہ میں تم پر ہی چھوڑتا ہوں۔ ”
“مجھے معاف کردو ، میں بالکل بے قصور ہوں، مسٹر جان! مجھے معاف کر دیجئے” کبڑے نے یکایک کہنا شروع کر دیا اور اس کی یہ حات دیکھ کر عبدل نے غصے میں آکر زور سے زمین پر تھوک دیا ۔ گویا ا س نے حقارت ظاہر کی تھی ، کبڑے کی یہ بزدلی اسے پسند نہیں آئی تھی، جیک یہ دیکھ کر زور سے ہنسا اور پھر بولا:
“تمہاری حالت اس وقت عجیب ہے ، ابھی کچھ دیر پہلے تم ایک مظلوم لڑکے کو قتل کرنے والے تھے، اور اب معافی مانگ رہے ہو۔ دنیا کے ظالم لوگ ظلم کرتے وقت یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک دن کہیں انہیں بھی معافی مانگنی نہ پڑ جائے ۔ بہر حال تمہیں معاف نہیں کیا جائے گا، میں نے تمہارے بارے میں یہ سوچا ہے کہ جس گڑھے میں تم نے فیروز کو گرایا تھا، اسی جیسے ایک گڑھے میں تمہیں گرا کر اسے اوپر سے مٹی سے ڈھک دیا جائے ۔ ”
“نہیں۔۔۔۔” کبڑا خوف کے مارے بری طرح چلایا:
“ایسا غضب مت کرو، مجھے معاف کردو، میں ظالم نہیں ہوں، مجھے ظلم کرنے پر عبدل نے مجبور کیا تھا ، جو سزا دینی ہے اسے دو، میں بالکل بے قصور ہوں ۔ مجھے لالچ نے اندھا کر دیا تھا ، مگر یہ سب کچھ اس بدمعاش عبدل کا کیا دھرا ہے، اسے سزا دو اور مجھے چھوڑ دو۔ ”
“او احمق کبڑے چپ رہ” عبدل کافی دیر کی خاموشی کے بعد آخر کار ایک خوف ناک آواز میں بولا:
“موقع ملتے ہی میں تجھے تیری غداری کا ایسا سبق دوں گا کہ تو ہمیشہ یاد رکھے گا۔ ”
“اگر تم زندہ رہے ، کیوں کہ میرا ارادہ ہے کہ چیتن کے ساتھ تمہیں بھی زمین میں زندہ دفن کر کے تمہاری قبر پر ایک اہرام بنوا دوں ۔ تم مصری ہو نا ، اس لئے بولو کیا خیال ہے؟ ” جیک نے مسکرا کر کہا۔
“اہرام تیری قبر پر بنے گا حبشی کی اولاد” عبدل نے چیخ کر کہا:
“اس دنیا میں ایسا کوئی جی دار نیہں جو عبدل کو مار سکے ، کیونکہ عبدل اس ہتھیار سے خود کو بچانا جانتا ہے۔ ”
اتنا کہتے ہی عبدل نے اپنا وہی چاند نما خنجر لہرا کر جیک کی طرف پھینکا اور پھر جو بھی ہونا تھا وہ ایک سیکنڈ میں ہو گیا ، جیک کے بجائے عبدل زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا اور وہ عجیب سا مڑا ہوا خنجر جیک کے ہاتھ میں تھا ۔ عبدل بری طرح چیخ رہا تھا چاند کی اس ہلکی روشنی میں دیکھنے کی اب مجھے کافی عادت ہو گئی تھی، آنکھیں پھاڑ کر جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ عبدل کی ران سے خون بہہ رہا ہے ۔
“کیوں اب کیوں پڑے سسک رہے ہو؟” جیک نے بے دردی سے کہا:
“بے وقوف آدمی، تم اتنا نہیں جانتے کہ یہ ہتھیار اصل میں ہم افریقی لوگوں کی ایجاد ہے ۔ جب ہم اسے استعمال کرنا جانتے ہیں تو اس سے بچنے کا گُر بھی جانتے ہیں، تم سمجھتے تھے کہ تمہارا یہ ہتھیار مجھے زخمی کرکے تمہارے پاس واپس چلا جائے گا، مگر احمق انسان دیکھ لے کہ اب کیا ہوا؟ تو خود ہی زخمی ہوگیا ہے اور تیرا یہ چاقو تجھے زخمی کر کے اب میرے پاس واپس آ گیا ہے ۔ ”
“مجھے معاف کردو جیک۔ ” عبدل نے کراہتے ہوئے کہا: “میں تمہاری چالاکی سے واقف نہ تھا، اب ہم دونوں تم سے اور جان سے معافی مانگتے ہیں، یقین کرو ، اب ہم کبھی غداری نہیں کریں گے ۔ ”
“نہیں، تم دونوں کو اب ہمارا ساتھ چھوڑ دینا ہوگا۔ “جان نے بڑی دیر بعد اس گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔
“ایسا ظلم مت کیجیے” کبڑے نے عاجزی سے کہا:
“اس طرح تو ہم مرجائیں گے، ہمارے پاس اب کوئی ہتھیار نہیں ہے، ہتھیار کے بغیر ہم کس طرح اس بھیانک جنگل میں واپس جا سکتے ہیں؟ ”
میں نے یہ سن کر مسکرا کرکہا “تمہارا جادو پھر کس دن کام آئے گا۔ اپنے جادو کے زور سے ایک بندوق بنالو۔ ”
“ٹھیک ہے فیروز، بیٹا اب تم کو میرا مذاق اڑانے کا پورا حق پہنچتا ہے ۔” کبڑے نے سر جھکا کر جواب دیا، وہ واقعی شرمندہ تھا۔
“اچھا ، میں تمہاری یہ درخواست مان لیتا ہوں ، مجھے تم پر رحم آتا ہے، تم اب ہمارے ساتھ ہی رہو گے ، مگر یاد رکھنا اگر آئندہ تم نے ہم سے غداری کی تو انجام اچھا نہ ہوگا۔ “جان نے بندوق اپنے کندھے پر لٹکاتے ہوئے کہا۔
جیک نے اس بات پر بہت زور دیا کہ ان دونوں کو فوراً ختم کر دیا جائے۔ اس کا خیال تھا کہ بچھو ڈنک ضرور مارتا ہے، مگر جان نے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا ۔ اور مجبوراً جیک کو جان کی بات ماننی ہی پڑی ۔ اس کے بعد ہم نے عبدل کی مرہم پٹی کی، عبدل واقعی اب شرمندہ تھا اور کبڑے کی بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔ اس کی نگاہیں نیچی تھیں اور اب وہ مجھ سے نظر ملا کر بات بھی نہ کرتا تھا ۔ اگر سچ پوچھئے تو میں بھی ان دونوں سے خوف زدہ تھا ۔ میں نے دل میں سوچ لیا تھا کہ چاہئے سورج مشرق کے بجائے مغرب سے نکلنے لگے مگر میں ان دونوں بدمعاشوں کا کبھی اعتبار نہ کروں گا۔
رات بغیر کسی خاص واقعے کے آرام سے گزر گئی ۔ وہیں بارہ دری کے قریب ہم نے زمین صاف کر کے دوبارہ بستر بچھا دئیے اور پہلے کی طرح باری باری پہرہ دے کر آرام سے سوتے رہے ۔ صبح ہوئی تو بندروں کے ایک غول نے ہمیں خوں خوں کر کے جگایا۔ بار بار وہ ہمارے قریب آتے اور بھبکی دیتے۔ عجیب عجیب حرکتیں کرتے ، ان کی ان حرکتوں سے میں بہت خوش ہوا ۔ دن بھی خدا نے کیا چیز بنائی ہے۔ ہر قسم کا ڈر اور خوف اس کی روشنی میں ختم ہو جاتا ہے۔ صبح ہوتے ہی ہماری تھکن دور ہو گئی اور ہم نے پھر سے تازگی محسوس کی۔ اب چونکہ عبدل اور کبڑے سے نقشہ کا راز چھپانا ضروری نہ تھا ۔ اس لئے جان اور جیک نے ان دونوں کے سامنے ہی میرا کمبل ہٹا کر خزانہ کا نقشہ دیکھا، نقشے میں دکھائے گئے راستے سے ظاہر ہوتا تھا کہ جس جگہ ہم کھڑے ہیں اس کے شمال مغرب میں پچیس گز کے فاصلے پر ایک زینہ ہے اور یہی زینہ اس مقام پر جاتا ہے جہاں خزانہ موجود ہے ۔ خزانے سے خود کو اس قدر قریب محسوس کر کے ہر ایک کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی، یکایک سب میں کام کرنے کا جوش پیدا ہو گیا۔ خچروں پر سے ضروری سامان اتارا گیا ۔ عبدل کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ جب جان فاصلہ ناپ کر اسے جگہ بتائے تو وہ فوراً کھدائی شروع کر دے۔ عبدل اب ہمارا ہر حکم ماننے پر مجبور تھا ، اس لئے جان نے جب اسے وہ جگہ بتائی جہاں کھدائی کرنی تھی تو اس نے کدال اور پھاؤڑا لے کر اپنا کام شروع کر دیا۔ کبڑا مٹی ہٹاتا جاتا اور عبدل لگاتار کدال زمین پر چلاتا جاتا ۔ ہم حیرت ، اشتیاق اور تعجب سے اس جگہ کو اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے ابھی کوئی عجوبہ دیکھیں گے ۔
اور سچ بات تو یہ ہے کہ وہ عجوبہ جلد ہی ہمارے دیکھنے میں آ گیا۔ ایک بار عبدل نے جب پوری طاقت سے کدال زمین میں ماری تو وہ ایک خطرناک چیخ مارتے ہوئے زمین میں دھنستا چلا گیا۔ زمین اندر سے کھوکھلی نکلی۔ یہ بات جان کی مرضی کے مطابق تھی اور اس کی یہی خواہش تھی کہ کہیں سے کسی کھوکھلی زمین کا پتہ چلے ، وہ کھوکھلی جگہ اب مل گئی تھی ۔ دراصل یہ زینہ تھا جو اوپر سے بند کر دیا گیا تھا ۔ عبدل نے جب مٹی ہٹائی تو وہ اس زینے کے اندر جا گرا تھا۔ پھر فوراً ہی اس کی آواز آئی کہ اس کے قدموں کے نیچے کچھ سیڑھیاں محسوس ہوتی ہیں ، جلدی جلدی باقی سب مٹی بھی ہٹائی گئی اور اب جو ہم نے غور سے دیکھا تو عبدل ایک زینے کی سیڑھیوں پر کھڑا تھا۔ آگے جاکر یہ سیڑھیاں ختم ہو جاتی تھیں اور وہاں سے ایک زمین دوز راستہ شروع ہو جاتا تھا۔ جان نے یہ دیکھ کر جلدی سے ٹارچ اٹھائی اور ہمیں پیچھے آنے کا اشارہ کر کے خود بھی اس زینے میں اتر گیا، اب ہم خزانے تک پہنچنے والی زمین دوز سرنگ میں داخل ہو رہے تھے۔
سرنگ میں داخل ہوتے ہی ہمیں ایسی بدبو محسوس ہوئی جو کسی جگہ کے ہزاروں سال تک بند رہنے کے باعث پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمیں ایسا لگا جیسے کوئی ان دیکھا ہاتھ ہمارا گلا گھونٹ رہا ہے ۔ وہم کے ہم قائل نہیں تھے، جان خود بھی ایک بہت اچھا سائنس داں تھا، اس لئے اس نے بتایا کہ آکسیجن کی کمی کے باعث اس سرنگ میں دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ جلدی جلدی مگر لمبے سانس لیں، صدیوں کے بعد یہ دروازہ آج کھلا ہے ، اس لئے ہوا بھی اس میں دیر سے داخل ہوگی۔ ہم نے اس کی ہدایت پر فوراً عمل شروع کر دیا ، جوں جوں ہم سرنگ میں اندر بڑھتے جا رہے تھے اندھیرا اتنا ہی بڑھنے لگا تھا ۔ ٹارچ کی روشنی ناکافی محسوس ہرنے لگی تھی۔ ہمارا قاعدہ تھا کہ ٹارچوں کو زیادہ استعمال نہیں کرتے تھے ۔ ضرورت کے وقت صرف ایک ٹارچ جلاتے اور باقی بند رہنے دیتے، مگر اس جگہ ہم نے مشعلیں جلا لی تھیں۔
ہلکے ہلکے قدم بڑھاتے ہوئے آہستہ آہستہ ہم آگے بڑھتے گئے ۔ سرنگ تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ گھپ اندھیرا ، عجیب قسم کی پراسرار خاموشی ۔ ختم نہ ہونے والی لمبی سرنگ، ہلکی سی سرسراہٹ جو نہ جانے سانپوں کی تھی یا شاید زہریلے جانوروں کی۔ ایک انجان سا خوف دلوں پر طاری تھا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کریں؟ مجھے اس ماحول اور ایسی خطرناک جگہوں پر چلنے پھرنے کی اب عادت سی ہو گئی تھی ، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے میں ایسے بہت سے حادثوں سے دوچار ہو چکا تھا ، اس لئے اب زیادہ ڈر نہیں لگتا تھا۔ دیکھا جائے تو ان حادثوں کی چکی میں پس کر اب میں بے حد نڈر بن چکا تھا۔
آخر کار ایک وقت ایسا آیا جب کہ یہ سرنگ آگے جا کے ہمیں بائیں طر ف مڑتی ہوئی دکھائی دی ، ادھر مڑنے کے بعد ہم اندازاً پندرہ منٹ تک لگاتار چلتے رہے ۔ مگر سرنگ ختم نہ ہوئی۔ عجیب جگہ تھی ہم اس تنگ سرنگ میں چلتے چلتے گھبرا گئے تھے۔ مگر خزانے کی خواہش اتنی تیز تھی کہ واپس لوٹا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔ مجبوراً خدا پر بھروسہ کر کے ہم آگے ہی آگے چلتے گئے ۔ میں آپ سے جھوٹ بولنا نہیں چاہتا، یقین مانئے کہ پورے تین گھنٹے تک ہم سرنگ میں اِدھر ادھر بھٹکتے رہے ، کبھی یہ سرنگ دائیں طرف مڑ جاتی اور کبھی بائیں طرف۔ ناامید ہوکر ہم لوگ واپس لوٹنے ہی والے تھے کہ یکایک سرنگ میں ہمیں ایک دروازہ نظر آیا۔ دروازے کے کواڑ شیشم کی لکڑی کے تھے، مگر اتنے مضبوط ہونے کے باوجود بھی جگہ جگہ سے کھوکھلے ہوگئے تھے ۔ ایک موٹی رسی سے دروازے میں مہر لگی ہوئی تھی ، خدا جانے وہ کون سے ہاتھ تھے جنہوں نے اس دروازے پر یہ مہر لگائی ہوگی؟ ہم پانچوں سانس روکے ہوئے حیرت سے اس دروازے کو دیکھ رہے تھے ۔۔ یہ وہ دروازہ تھا جس کے کھلتے ہی ہماری تقدیر بھی کھل جانے والی تھی۔
کچھ اشتیاق اور کچھ خوف کے ملے جلے انداز میں جان نے اس رسی کو ہاتھ لگایا، ہاتھ لگاتے ہی رسی اس طرح جھڑ گئی جیسے مٹی کی بنی ہوئی ہو، پھر جیک نے آہستہ سے دروازہ کو اندر کی طرف دھکیلا ، دروازے کی لکڑی کے اندر ہاتھ یوں داخل ہو گیا جیسے وہ لکڑی نہ ہو بلکہ کاغذ ہو ۔ کبڑے اور عبدل کے چہروں پر بے حد خوف چھایا ہوا تھا، اور اس سناٹے میں ان کی سانسوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ دروازہ کھلتے ہی ہماری آنکھیں چندھیا گئیں ، مشعلوں کی ہلکی سی سسکتی ہوئی روشنی ہیروں کے ایک عظیم الشان ڈھیر سے ٹکرا کے سورج کی روشنی کے برابر ہو گئی تھی۔ ہیروں سے نکلتی ہوئی کرنوں نے پورے کمرے کو بقعہ نور بنا دیا تھا۔
ہمیں جیسے سکتہ سا ہو گیا ۔ جہاں کھڑے تھے وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے ۔ روشنی اتنی تیز تھی کہ ہماری آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں۔ میں نے کمرے میں ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں ۔ جگہ جگہ آئینے لگے ہوئے تھے اور ان آئینوں کے کناروں پر کئی کئی سو قیراط وزنی ہیرے جڑے ہوئے تھے ۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ سنگھار کا کمرہ یہی ہے ، ہیروں کے علاوہ سونے کے لاتعداد زیور، ایسے زیور جنہیں آج ہم دیکھ لیں تو دنگ رہ جائیں ۔ وہاں قرینے سے چنے ہوئے تھے۔ خدا جانے اتنے بھاری زیورات صدیوں پرانے زمانے کی عورتیں کس طرح پہنتی ہوں گی !
اس خزانے کی اگر میں تعریف بیان کرنے لگ جاؤں تو میرے خیال میں کئی ہزار صفحے بھی ناکافی ہوں گے ، اس لئے آپ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ خزانہ اتنا بڑا تھا ، اتنا بڑا تھا کہ پوری دنیا کے خزانے اس کے آگے ہیچ تھے ۔ اس خزانے کو دیکھ کر ہم کس طرح زندہ رہے یہ ایک معجزہ سے کسی طرح کم نہیں ۔ بس ، میں خزانے کی تعریف میں اتنا ہی کچھ کہہ سکتا ہوں۔
خزانہ دیکھ کر عبدل اور کبڑے چیتن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، جان نے بڑے ضبط سے کام لیا ۔ حالانکہ اتنی دولت دیکھ کر انسان کو خوشی سے پاگل ہو جانا چاہئے، مگر ایک لمبی سانس لینے کے بعد اس نے کہا۔
“یہ دولت مجھے اپنے لئے نہیں چاہئے، مجھے محل تعمیر نہیں کرنے جو اس خزانے کو پا کر خوشی سے ناچنے لگوں، مجھے تو ان اندھے لڑکوں کی قسمت پر رشک آ رہا ہے جن کی آنکھیں اس خزانے کی مدد سے ٹھیک ہو جائیں گی ، مگر آپ لوگوں نے چوں کہ میرے ساتھ ہمدردی کی ہے ۔ اتنے لمبے اور کٹھن سفر میں میرا ساتھ دیا ہے۔ اس لئے خزانے کا دسواں حصہ آپ سب میں برابر بانٹ دیاجائے گا۔ کیا میری یہ بات آپ کو منظور ہے؟ ”
“ہمیں آپ کی ہر بات منظور ہے۔ ” صرف عبدل اور کبڑے نے خوشی سے چلا کر کہا۔
“بس تو اب ہمیں اس خزانے کو اسی طرح چھوڑ دینا چاہئے، اور اپنے اگلے سفر کے لیے روانہ ہو جانا چاہئے ، کیوں کہ وہ سفر اس خزانے سے کہیں زیادہ ضروری ہے ۔ سرنگ کو ہم دوبارہ باہر سے بند کر دیتے ہیں اور تمام اہم نشانات مٹا کر سمندر کی طرف چلتے ہیں، وہاں سے کوئی کشتی لے کر اس جزیرے کی تلاش کرتے ہیں، جو ہماری اصل منزل مقصود ہے ۔ کیا خیال ہے آپ حضرات کا؟ ”
جان نے مشعل بجھا کر ٹارچ نکال کر جلا لی۔
“بالکل بجا فرماتے ہیں آپ۔ ” صرف میں نے اور جیک نے جواب دیا، کبڑا اور عبدل دونوں خاموش رہے۔
“بس تو آئیے اب واپس چلیں۔ ”
یہ کہہ کر جان واپس مڑا، لیکن عبدل اور کبڑا چیتن بار بار پیچھے مڑ کر خزانے کے ڈھیر کو دیکھتے رہے، دروازہ دوبار ہ بند کرنے کے بعد صرف میں نے ہی یہ محسوس کیا کہ جان کی اس حرکت سے وہ دونوں بدمعاش خوش نہیں ہیں، میں نے ان سے چوکنا رہنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ اس لئے اب ان کی ہر بات کو شک کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہو گیا تھا ۔ اب میری یہ حالت تھی کہ بھرے ہوئے پستول پر ہر وقت میرا ہاتھ رہتا تھا، جان اور جیک کی حفاظت اب بہت ضروری تھی، اور مجھے یقین تھا کہ یہ پستول کسی نہ کسی وقت ضرور کام آئے گا ۔ عبدل ہم سے آگے تھا جان اس کے پیچھے اور اس کے بعد ہم سب، جان نے اپنی ٹارچ عبدل کو دے کر کہا کہ وہ اس کی روشنی آگے پھینکتا رہے تاکہ سب آسانی سے سرنگ کا راستہ طے کرتے رہیں۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ عبدل سرنگ سے جلد سے جلد نکل جانا چاہتا ہے، اور پھر مجھے جس بات کا خدشہ تھا وہ ہو کے ہی رہی۔
سرنگ ایک بار جیسے ہی دائیں طرف مڑی ، عبدل نے ٹارچ بند کردی۔ اب چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا اور اس کے ساتھ ہی کسی کے اندھا دھند آگے بھاگنے کی آواز آ رہی تھی ۔ جیک نے گھبرا کر جان سے کہا:
“مسٹر جان، یہ کم بخت ضرور دغا کرے گا، جلدی دوسری ٹارچ جلائیے ، اور فیروز۔ تم کہاں ہو؟ ”
” جی فرمائیے۔۔۔” میں نے جلدی سے جواب دیا: “میں آپ کے پیچھے ہوں۔ ”
“خبردار، کبڑا جانے نہ پائے۔ ”
“بے فکر رہئے، اس کی کمر سے میرے پستول کی نال لگی ہوئی ہے۔ ”
“شاباش، مجھے تم سے یہی امید تھی۔ ”
اتنا کہہ کر جیک نے بھی اندھیرے میں آگے بھاگنا شروع کر دیا، کیوں کہ جان کو ٹارچ ڈھوندنے اور اسے جلانے میں کافی دیر لگ گئی تھی، ٹارچ جلتے ہی جان نے بھی جیک کا تعاقب کیا، پستول کو کبڑے کی کمر سے لگا کر میں نے بھی اسے آگے بھاگنے پر مجبور دیا۔ اب حالت یہ تھی کہ ہم لگاتار آگے بھاگے جا رہے تھے ۔ مگر عبدل کا کہیں پتہ نہ تھا، ہم اسے نظروں سے اوجھل ہونے نہیں دینا چاہتے تھے ، کیوں کہ ایسے خطرناک دشمن کو آزاد کردینے سے ہماری مہم خطرے میں پڑ سکتی تھی ۔ بھاگتے بھاگتے ہمیں ایک گھنٹہ ہو گیا، مگر عبدل کا پتہ چلنا تھا نہ چلا، جو راستہ پہلے ہم نے آہستہ آہستہ تین گھنٹے میں طے کیا تھا وہی اب بھاگ کر صرف ایک گھنٹہ میں پورا کر لیا۔ جب ہم اس جگہ پہنچے جہاں سے ہم پہلی بار اس سرنگ میں داخل ہوئے تھے، تو ہمیں اچانک رک جانا پڑا۔ کیوںکہ زینہ میں اب مٹی اور پتھر تیزی سے گر رہے تھے، سیڑھیاں ایک حد تک چھپ چکی تھیں۔ اگر ہم چاہتے کہ کسی طرح اچک کر اوپر کھلی ہوا میں پہنچ جائیں تو اب یہ تقریباً ناممکن ہو گیا تھا کیوں کہ اوپر کی زمین کھودنے کے بعد جو زینہ نمودار ہوا تھا اور جس میں ہم پہلی بار داخل ہوئے تھے اب اس زینے میں عبدل اوپر سے مٹی اور پتھر ڈال رہا تھا، وہ چاہتا تھاکہ زینہ ہمیشہ کے لئے بند کر کے ہمیں جیتے جی اس سرنگ میں دفن کر دے۔ ایک حد تک وہ اپنے اس ارادے میں کامیاب بھی ہو چکا تھا ۔ کیوں کہ زینہ اوپر تک مٹی سے لبا لب بھر گیا تھا۔ صرف اتنا سا سوراخ باقی رہ گیا تھا ، جس میں سے عبدل ہمیں اوپر کھڑا ہوا نظر آ رہا تھا۔ ہمیں تو صرف اس کے ہاتھ ہی نظر آ رہے تھے اور ان ہاتھوں میں پھاؤڑا تھا۔ ہم اگر چاہتے کہ کسی طرح گولی چلا دیں ، تو ہماری یہ کوشش بے کار ہی جاتی ، کیوں کہ مٹی وہ اس تیزی سے ڈال رہا تھا کہ ہاتھ کا نشانہ نہیں لیا جا سکتا تھا اور پھر یہ بھی ڈر تھا کہ گولی مٹی میں ادھر ادھر ہی دھنس جائے گی، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اب کیا کریں، کیوں کہ سوراخ بند ہونے میں اب کوئی کسر نہیں رہ گئی تھی۔ دو تین بار عبدل مٹی ڈالتا تو وہ سوراخ ضرور بند ہو جاتا اور ساتھ ہی ہم سب بھی جیتے جی موت کے مونہہ میں پہنچ جاتے۔
یکایک مجھے ایک ترکیب سوجھی، میں نے جلدی سے جان اور جیک کے کانوں میں وہ ترکیب بتائی اور پھر فوراً چیخا۔
“یہ کیا کر رہے ہو عبدل؟ ”
میرا خیال تھا کہ عبدل جواب دینے کے لئے کچھ دیر کے لئے ضرور رک جائے گا، اور یہی ہوا اس نے فوراً جواب دیا۔
“اپنے بجائے اب تمہیں زندہ دفن کر رہا ہوں، جیک چاہتا تھا نا کہ مجھے دفن کرکے اہرام بنا دے، اب میں اس کی قبر پر اہرام بناؤں گا۔ ”
“لیکن اس سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا؟ “جان نے چلا کر پوچھا، اوراس موقع سے فائدہ اٹھا کر جیک جلدی جلدی زینے کے اندر کی مٹی ہاتھوں میں اٹھا کر سرنگ میں اندر کی طرف ڈالنے لگا ۔ میں اس کا مقصد سجھ گیا ، جیک کو توقع تھی کہ مٹی کم ہونے کے بعد زینہ کے اوپر کی مٹی خود بخود اندر دھنسے گی اور راستہ ضرور کھلے گا۔
“فائدہ؟” عبدل نے ایک بھیانک قہقہہ لگا کر جواب دیا:
“فائدہ یہ ہوگا مسٹر جان کے اوپر سے یہ زمین برابر کر دینے کے بعد آپ لوگ ہمیشہ کے لئے یہاں دفن ہو جائیں گے ۔ انسان کی لاش سڑنے میں دیر ہی کیا لگتی ہے ، مشکل سے ایک یا ڈیڑھ ہفتہ۔ یہ عرصہ میں اوپر انتظار کرتے ہوئے گزار لوں گا ، جب آپ کے ڈھانچے ہی ڈھانچے رہ جائیں گے تو میں پھر اس جگہ کو دوبارہ کھودوں گا ، اور آپ کے ڈھانچوں میں ٹھوکریں مارتا ہوا، خزانے تک پہنچ جاؤں گا پھر کون مجھے اس عظیم خزانے کو حاصل کرنے سے روک سکتا ہے؟ کیوں کیسی ترکیب ہے، سن کر جی خوش ہوگیا نا، آپ میں سے بھلا کسی کو ایسی ترکیب سوجھ سکتی تھی؟ ”
میرا پورا جسم یہ سنتے ہی سن ہو گیا ۔ کتنا خوف ناک ارادہ تھا ، اگر خدانخواستہ اس کا یہ ارادہ پورا ہوگیا تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ تھا ، یہ سوچ کر میں نے پھر کہا۔
“مگر تمہارا ساتھی، یعنی یہ کبڑا، اس کا کیا ہوگا؟ ”
“وہ غدار ہے ، اور اس کی غداری کی یہی سزا ہے جو اب اسے ملے گی ۔ ” اتنا کہہ کر ظالم نے پھر مٹی ڈالنی شروع کردی ، خوف کے مارے میں بری طرح لرز رہا تھا اور کبڑا موت کے ڈر سے سہم کر بار بار چیخیں مار رہا تھا، صرف جان اور جیک سکون سے کھڑے تھے ۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ اب کیا کریں؟ اس وقت سوائے خدا کے اور ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔ میری آنکھیں ڈبڈبا آئیں سچے دل سے میں نے خدا سے لو لگائی ۔ اپنے گناہوں سے توبہ کی اور دعا کی کہ یا اللہ صرف تیری ہی ذات ہے جو اس ظالم سے ہمیں چھٹکارا دلا سکتی ہے ، اگر ہماری زندگی باقی ہے تو ہمیں اس قید سے رہائی دلا، دل میں اتنی دعا مانگنے کی دیر تھی کہ اچانک مٹی پڑنی بند ہوگئی ۔ ساتھ ہی بہت چھوٹے سے سوراخ سے ہمیں عبدل کا ہاتھ دکھائی دینا بھی بند ہوگیا تھا ۔ نہ جانے کیا بات تھی جو عبدل اب مٹی نہیں ڈال رہا تھا، حیرت کی بات یہ تھی کہ نہ تو اس کے قدموں کی آواز سنائی دے رہی تھی، اور نہ ہی اس کی اپنی آواز ۔ بڑی حیرت کی بات تھی ۔ جیک لگا تار اپنا کام کئے جا رہا تھا اور پھر آزادی کی امید میں کبڑے نے بھی اس کی مدد کرنی شروع کردی ۔ جلد ہی میں اور جان بھی جیک کے ساتھ اس کام میں شریک ہو گئے ۔ کم از کم پندرہ منٹ میں ہم نے وہ مٹی اندر سرنگ میں پھینک دی ، جس نے پہلے زینہ ڈھک لیا تھا۔ جلدی جلدی ہم سیڑھیاں طے کر کے اوپر پہنچے ، پستول ہم تینوں کے ہاتھوں میں تھے۔ خیال تھاکہ عبدل کہیں چھپا ہوا ہوگا اور ہم اس کی بے خبری میں اسے جا کر پکڑ لیں گے۔ مگر۔۔۔۔
مگر باہر کا منظر دیکھ کر خوشی کے مارے میرے آنسو نکل آئے ، ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے میں نے آسمان کی طرف دیکھا ، میرا دل بڑے خاموش انداز میں خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کیوں کہ خدا نے میری دعا سن لی تھی، عبدل زمیں پر چت پڑا ہوا تھا اس کا پورا جسم نیلا پڑ گیا تھا، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں اور چہرے پر تکلیف کے آثار تھے ، پہلے تو میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہوا لیکن جب میری نظر قریب ہی ایک بل میں گھستے ہوئے سانپ پر پڑی تو حقیقت کا پتہ چلا ، ظالم عبدل کو ایک زہریلے سانپ نے ڈس لیا تھا اور وہ زہرا تنا تیز تھا کہ فوراً ہی اپنا اثر بھی کر گیا، اور اب۔۔۔۔ اب عبدل بالکل بے جان تھا۔