آج کھائی ہے چار دِن کے بعد
کِتنی مِیٹھی لگی ہے روٹی آج
آؤ ہم اِس کو نوچ کر کھائیں
شرم کیسی ہے، اِس میں کیسی لاج؟؟
حُکمرانوں نے اِنتہا کر دی
بے ضمِیری کی، بے حیائی کی
کِس ڈِھٹائی سے کر رہے ہیں آج
بات یہ اپنی پارسائی کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال میرا فقط حُکمراں سے اِتنا ہے
کہِیں پہ عدل اگر ہے، کہاں ہے، کِتنا ہے؟؟
کہِیں بھی کوئی اِدارہ، جو صاف سُتھرا ہو؟
تباہِیوں کے دھانے پہ مُلک جِتنا ہے
کبھی تھا لُقمۂ و کپڑا، مکان خطرے میں
ابھی تو ساتھ میں عِزّت کے جان خطرے میں
انا کی دوڑ میں ہو، تُم غلام ضِد کے ہو
ہمارا مُلک ہے، پُرکھوں کی آن، خطرے میں
حیا نہِیں ہے تُمہیں بات کیسی کرتے ہو؟
کِسی غرِیب سی بستی میں دیکھو آ کر بھی
بِلکتے بُھوک سے بچّوں کو، زرد چہروں کو
گُزارا کرتے ہیں کُچھ لوگ مٹّی کھا کر بھی
سہُولتوں کی طلب جُرم شہر زادوں کا
مگر جو گاؤں میں ہیں اُن کا جُرم کیا ہے بتا؟
یہ بُوند بُوند کو پانی کی کیوں ترستے ہیں؟
تُمہارے بچّے یہاں رہ سکیں گے آ کے، بتا
ہماری مانگ بھلا کیا ہے، عیش کا ساماں؟
نہیں ہے، مانگتے ہیں صرف ہم تو آب و ناں
نہِیں ہے بس میں اگر وہ بھی پِھر تو چُلّو بھر
کہِیں بھی تُم کو ملے گا کبھی تو آبِ رواں
کمال کیا ہے جو تُم میں ہے پیشرو میں نہ تھا
نچوڑا اُس نے بھی، اب تُم بھی خُوں نِچوڑو گے
دِیۓ جو زخم گِرانی کے پیشرو نے ہمیں
بھرے ہیں پِیپ سے وہ زخم، اُن کو پھوڑو گے
خُدا تباہ کرے تُم سے حُکمرانوں کو
چُرا کے لے کے گئے مُلک کے خزانوں کو
خُدا کی لاٹھی کی آواز تو نہِیں لیکن
اکیلے چھوڑے گا ہرگز نہ بے زبانوں کو