پروفیسر نذر خلیق(خان پور)
سجاد ظہیر ایک شخصیت کا نام ہے ۔شخصیت کے اوصاف ہر آدمی میں نہیں ہوتے۔شخصیت ہمہ جہت خوبیوں کے مالک آدمی کو کہا جا سکتا ہے ۔ شخصیت اس آدمی کو کہتے ہیں جو نظریے کا خالق ،ایک تحریک کا سرخیل اور انقلاب کا داعی ہوتا ہے یا اقبال کے اس شعرکی عملی تعبیر ہوتا ہے۔
نگہ بلند سخن دل نواز، جاں پر سوز یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
سجاد ظہیر واقعتا بلند نگاہ کے مالک تھے ۔ان کی روح میں درد تھا جو استحصال زدہ طبقے کے لیے تھا۔ سجاد ظہیر وہ شخص تھا جس نے سیاست اور ادب میں نئے نظریات کا اضافہ کیا ۔سجاد ظہیر پر الزامات بھی لگائے گئے،پابندِ سلاسل بھی کیا گیا، طعن و تشنیع کے تیر بھی پھینکے گئے اور دلبرداشتہ اتنا کیا گیا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر ہندوستان سدھار گئے لیکن چونکہ سجاد ظہیر ُدھن کے پکے تھے اور اپنے نظریے میں سچے تھے اس لیے وہ جہاں بھی رہے اپنے نظریے کی ترویج کے لیے کوشاں رہے اور جب تک زندہ رہے تب تک ترقی پسند تحریک پھلتی پھولتی رہی اور جونہی دنیا سے رخصت ہوئے ترقی پسند تحریک کے تناور درخت کو بھی گھن لگ گیااور دیکھتے ہی دیکھتے ترقی پسند تحریک میں وہ قوت باقی نہ رہی جو اسے تا دیر قائم رکھ سکتی۔
ــ ’’افکار‘‘کا سجاد ظہیر نمبر اس لیے اہم نمبر ہے کہ اس کے ذریعے سجاد ظہیر کی شخصیت اور اس کے سیاسی و ادبی نظریات کی ٹھیک ٹھیک انداز سے عکاسی کی گئی ہے۔’’افکار‘‘کا سجاد ظہیر نمبر دسمبر ۳۷۹۱ء میں شائع ہوا تھا۔اس نمبر کے مدیر صہبا لکھنوی تھے جو خود بھی اپنے دور کے ایک معروف ترقی پسند تھے۔ اس نمبر میں’’ سجاد ظہیر کی یاد میں‘‘ صہبا لکھنوی کا اداریہ خاصے کی چیز ہے کیونکہ اس اداریے سے نہ صرف سجاد ظہیر کی شخصیت سامنے آتی ہے بلکہ ترقی پسند تحریک کے خدو خال بھی ابھر کر سامنے آجاتے ہیں ۔اس اداریے میں ترقی تحریک کے بہت اہم گوشے شامل ہیں۔صہبا لکھنوی اس اداریے میں لکھتے ہیں۔
’’سجاد ظہیر۔۔ہمارے نئے ادبی عہد کی ایک فعّال شخصیت تھے جنہوں نے ساری عمر ادب کے تعمیری رجحانات ، نئے خیالات، نئے تصورات اور زندگی کی بسیط پہنائیوں میں ادیب کو دیانت اور اظہارِصداقت کا حوصلہ دیا۔ انہوں نے مسائلِ حیات کو ادیب سے اس طرح وابستہ کیا کہ ادب و زندگی قدم بہ قدم اور پہلو بہ پہلو سفر کرنے لگے۔ انہوں نے ترقی پسند انجمن قائم کر کے برصغیر کے ادبی ماحول کو یک سر بدل دیا۔ ان کا یہی کارنامہ اتنا مقصدی اور عظیم ہے کہ وہ تاریخِ ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ بعض لوگوں کو ان کی سیاست سے اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کو ان کے ادبی کارنامے ہیچ نظر آتے ہیں لیکن یہ دونوں پہلو ان کی عملی اور مقصدی زندگی کے اتنے کامیاب پہلو ہیں کہ نہ ان کی سیاسی اہمیت کم کی جا سکتی ہے نہ ان کی ادبی عظمت۔ انہوں نے جس خلوص، لگن اور جذبہ ایثار سے ساری عمر جدوجہد کی اور جتنا ادبی سرمایہ چھوڑا ہے، وہ ان کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے‘‘۔(۱)
سجاد ظہیر نمبرمیں یوں تو تمام مضامین اور تخلیقات بہت اہم ہیں لیکن اس نمبر کے مندرجہ ذیل مضامین نہایت ہی اہم ہیں کیونکہ ان مضامین کے ذریعے سجاد ظہیر کی شخصیت اور ان کی ادبی حیثیت سامنے آتی ہے۔ قدوس صہبائی کا مضمون’’ترقی پسند ادب اور سجاد ظہیر‘‘مختار زمن کا مضمون ’’یادوں کے چراغ‘‘عتیق احمد کا مضمون’’سجاد ظہیر کی ادبی اہمیت ‘‘فہمیدہ ریاض کا مضمون ’’سجاد ظہیر سے دو ملاقاتیں‘‘ فیض احمد فیض کی نظم ’’جامِ الوداعی‘‘ قمر ہاشمی کی نظم’’بیمار ادب کا مسیحا‘‘ساغر صدیقی کی نظم’’دلِ ایشیاء‘‘ محسن بھوپالی کی نظم ’’دشنام یار ‘‘اور احمدرئیس کی نظم ’’منزل کی روشنی‘‘ ۔
سجاد ظہیر نمبر میں’’ متاعِ لوح و قلم ‘‘کے عنوان سے سجاد ظہیر کی تخلیقات کے کچھ حصے بھی شامل کیے گئے ہیں جو سجاد ظہیر کی ادبی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان ادبی تخلیقات سے سجاد ظہیر ایک شاعر، ایک ناول نگار، ایک محقق، نقاداور افسانہ نگار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
مختار زمن ’’یادوں کے چراغ‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’میں نے سجاد ظہیر کو صرف دو مرتبہ دیکھا ہے۔ ایک دفعہ تقسیمِ ہند سے چند روز پہلے الہ آباد میں اور دوسری اور آخری مرتبہ پارسال لندن میں۔ ان کا ناولٹ اور مضامین البتہ پڑھے ہیں اور ان کی ادبی و سیاسی سرگرمیوں سے مجھے تھوڑی بہت واقفیت ضرور ہے۔ بلا شبہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھ کر انہوں نے ادب کو نئی جہت سے آشنا کیا‘‘۔(۲)
عتیق احمد اپنے مضمون’’سجاد ظہیر کی ادبی اہمیت ‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر دیکھیے تو سجاد ظہیر کی ادبی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے کہ سماجی اور سیاسی کاموں میں اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود انہوں نے ادب کو محض وقت گزاری یا قلم گھسنے کا مشغلہ نہیں جاتا ،بلکہ وہ اس کے ذریعہ اپنی عملی زندگی کے تجربات، اپنے مطالعے، مشاہدے اور نظریاتی عقائد کو دوسروں تک پہنچانے کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے لیکن اس ذریعے کو انہوں نے کبھی بھونڈے تبلیغی انداز میں استعمال نہیں کیا بلکہ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے وہ عدیم الفرصت ہونے کے باوجو دادبی کام بھی بڑی دل جمعی اور یک سوئی کے ساتھ کرتے تھے، اس لیے کہ وہ تحریر کو بھی اپنی عملی زندگی کی دوسری مصروفیات اور ذمہ داری سمجھتے تھے۔ سماجی اور سیاسی کاموں اور ذمہ داریوں کی طرح ادب بھی ان کی۔COMMITMENT کا ایک جزو تھا ۔ بحیثیت مجموعی سجاد ظہیر کا ادبی رول ایک رہنما کا تھا۔ بالخصوص ترقی پسند تنقید میں ان کا مرتبہ اور ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ان کی نظریاتی اور عملی تنقید دونوں ہی نے ہمارے ترقی پسند نقادوں کو راہ دکھائی ہے۔ یہ راہ عقل پسندی، اعتدال پسندی اور ماضی کی صحت مند اور بیمار روایات میں فرق کرنے کی راہ ہے۔ یہ راہ جذباتیت پسندی، بے جا جوش و خروش کا مظاہرہ کرنے اور بے سوچے سمجھے ماضی کو بیک قلم مسترد کر دینے کی راہ کی بڑی شدّت سے نفی کرتی ہے۔ ان معنیٰ میں سجاد ظہیر ہمارے ایسے ادبی راہنما کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی تحریروں کی علمیت، منطق، نقطہء نظر اور طریق استدلال کی اہمیت آج بھی ویسی ہی ہے جیسا کہ اب سے بیس پچیس برس پہلے والی نسل کے لیے تھی اور آج بھی ان کی تحریروں سے ہمارے نوجوان اپنے فکر و شعور کی جلا کا کام لے سکتے ہیں۔‘‘(۳)
فیض احمد فیض اپنی نظم’’جامِ الوداعی‘ ‘ میں سجاد ظہیر سے جدائی پر یوں اپنے غم کا اظہار کرتے ہیں۔
نہ اب ہم ساتھ سیر گلُ کریں گے نہ اب مِل کر سرِ مقتل چلیں گی
نہ اب دشتِ جنوں کی شامِ غمگیں نہ گل گشتِ بُتاں کی صبحِ رنگیں
حدیثِ دلبراں باہم کریں گے نہ خونِ دل سے شرحِ غم کریں گی
نہ لیلائے سخن کی دوست داری نہ غم ہائے وطن میں اشک باری
سنیں گے نغمہ زنجیر مِل کر نہ شب بھر مِل کے چھلکا ئیں گے ساغر(۴)
قمر ہاشمی کی نظم ’’بیمار ادب کا مسیحا‘‘ بھی خاصے کی چیز ہے۔
’’انگارے‘‘ سے ہوئی یہ حقیقت بھی آشکار توڑا حصار حرف اسی دل شکستہ نے
ذہنوں کو آگہی کا وہ زہر اب دے گیا جس میں کہ تلخیوں کا ، حوادث کا تھا شعور
اب وہ ہمارے لفظ و بیاں میں ہے جلوہ گر اب وہ ہماری رزمِ گہِ شعر کی سپر(۵)
ساغر صدیقی نے سجاد ظہیر کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔
نہ جانے تیری طرح اور آج کتنے ہیں زمانے بھر میں ہلاکِ نظامِ زرداری
مگر ہے خوں سے انہی کے ظہور رنگِ شفق کہ جلوہ گر ہے ہر اک سمت صبحِ بیداری
نیا سماج ، نیا آدمی، نئی دنیا یہی ہے تیری متاعِ حیات و فکر و نظر
بہ ایں سلاسل و زنداں یہ ہو نہیں سکتا تری ضیا سے منوّر نہ ہو جبینِ سحر
نئے جہاں کے پیمبر، نئی سحر کے رسول مرے وطن کے درخشندہ آفتاب سلام(۶)
احمدرئیس اپنی نظم ’’منزل کی روشنی‘‘ میں سجاد ظہیر کو اداس نسلوں کا ہم سفر کہہ کر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
تمہیں یقیں تھا؍کہ تم امر ہو؍سدا جیو گے؍سدا سلامت رہو گے؍دنیائے علم و فن میں؍تمہارا پیکر؍حسیں گلِ تر ہے؍جس کی خوشبو؍ہزار صدیوں تلک رہے گی؍تمہارا سایہ؍اداس نسلوں کا ہم سفر ہے؍ملول چہروں کا چارہ گرہے؍
تمہاری آواز؍ایک تحریک بن گئی ہے؍تمہارے عزم و عمل کی تاریخ بن گئی ہے؍تمہیں یقیں تھا؍کہ تم مسیحؔو خضرؔ کے ہمزادوہم نوا ہو؍زمیں کے دل کی؍حسیں دعاہو!؍۔۔تمہارا یہ اعتماد ہی تو؍ہمارے خوابوں کی دل کشی کا بنا تھاضامن؍
ہماری منزل کی روشنی ہے!!(۷)
شعراء کے ان جذبات و احساسات سے سجاد ظہیر کی شخصیت اور ان کا ادبی مقام کا اندازہ کیا جاسکتاہے اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سجاد ظہیر واقعی ایک بلند شخصیت تھے۔ غالبؔ نے اس طرح کی شخصیت کا یوں نقشہ کھینچا ہے۔
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے گھِستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
گویا سجاد ظہیر پختہ عزم کی مالک شخصیت تھے جنہوں نے عمر بھر اپنے نظریے سے وفا کا ثبوت دیاتاہم یہ بات بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی شخصیت اور کوئی بھی بڑا کار نامہ ہمیشہ قائم نہیں رہتا۔ بالکل غالبؔ کے اس شعر کی طرح اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں، مرے نزدیک اک بات ہے اعجازِ مسیحا ، مرے آگے
ہم کہہ سکتے ہیں کہ سجاد ظہیر ایک نظریے کا نام ہے ، ایک تحریک کا نام ہے،ہے، ایک سیاسی اور انقلابی راہنما کا نام ہے جس نے ادب او رسیاست کو نئے گوشوں سے واقف کیا۔ پسے ہوئے طبقے کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا۔وہ ایک محقق ،نقاد ، شاعر، ناول نگار ، افسانہ نگار، اور گہری نظر رکھنے والے دانشور تھے۔ انہوں نے ادب کو جس نظریے اور جس جہت سے روشناس کرایا اس سے اختلاف کرنے کا حق محفوظ ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ادبی دنیا میں ارتعاش اور مسابقت کی فضا بھی انہوں نے ہی پیدا کی اور’’ افکار ‘‘کا سجاد ظہیر نمبر سجاد ظہیر کی شخصیت کے ان تمام پہلوؤں کو نمایاں کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ افکار (سجاد ظہیر نمبر ) سجاد ظہیر کی یاد میں ، ص:۳۱،۳۷۹۱ء
۲۔ ایضاً مختار زمن(یادوں کے چراغ)ص:۷۵
۳۔ ایضاً عتیق احمد(سجاد طہیر کی ادبی اہمیت)ص:۰۶
۴۔ ایضاً فیض احمد فیض(جام الوداعی)ص:۱۹
۵۔ ایضاً قمر ہاشمی(بیمار ادب کا مسیحا)ص:۲۹
۶۔ ایضاً ساغر صدیقی (دل ایشیا) ص:۳۹
۷۔ ایضاً احمد رئیس (منزل کی روشنی )ص:۵۹