وہ ڈرئیو کر رہا تھا جب اس کے فون پہ رنگ ہوئی۔۔ آئی ڈی پہ مائی لیڈی کالنگ لکھا آ رہا تھا۔۔ موبائل دیکھ کر اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔
لگتاہے میری جان سے انتظار نہیں ہو رہا۔۔ فون اٹھاتے ہی وہ خوشگوار انداز میں بولا۔۔
عفان آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے۔۔ یہاں میں اتنی پریشان ہو رہی ہوں۔۔ اس کے لہجے سے خفگی صاف ظاہر تھی۔۔
کیوں پریشان ہو میری جان۔۔ گھر ہی آ رہا ہوں۔۔ عظمی آپی نہیں آئئ کیا؟ ؟۔۔ ایک ہاتھ سے فون سنبھالے دوسرے سے ڈرائیو کرتے وہ اس سے بات کر رہا تھا۔۔
کہہ رہی تھی بچوں کو سکول بھیج کر آ جاتی ہوں۔۔ بس ابھی آتی ہی ہوں گی۔۔
چلو پھر میں بھی گھر ہی آ رہا ہوں۔۔ پھر تینوں بیٹھ کر انجوئے کرتے ہیں۔۔ بلکہ باہر گھومنے جائیں گئے۔۔ اس کی خفگی مٹانے کو وہ خوشگوار لہجے میں گویا ہوا۔۔ جانتا تھا وہ باہر کا سن کر ہی خوش ہو جائے گی۔۔
ہاں تو پھر جب تک آ رہے ہیں تب تک فون آن رکھیں۔۔ مجھ سے باتیں کرتے آئیں۔۔ اس کے لہجے میں موجود فرمائش کے عنصر کو محسوس کر کے وہ مسکرایا۔۔
اچھا میری ماں۔۔ یہ بتائو۔۔ برنچ ٹائم میں کچھ کھایا یا نہیں ۔۔
نا۔۔ جب آپ کے آنے پہ ہم باہر جا جو رہے ہیں تو مجھے کیا ضرورت ہے کچھ بھی کھانے کی۔۔ اب کہ وہ کھلکھلائی۔۔
ہاہاہا۔۔ یعنی میرا خرچہ کروانے کا پروگرام ہے۔۔ کان اور کندھے کے درمیان فون کو اٹکاتے اس نے قہقہہ لگایا۔۔
ہاں نا۔۔ میں آپ کی جیب ڈھیلی نہیں کروں گی تو اور کون کرے گا۔۔ وہ فل فارم میں آ چکی تھی۔۔ عفان سے بات کرنےسے اس کا دھیان کافی حد تک بٹ گیا تھا۔۔
کیا ہوا ہے عفان۔۔ خاموش کیوں ہو گئے۔۔ اس کے کوئی بھی جواب نہ دینے پہ اس نے پھر سے متوجہ کیا۔۔
کچھ نہیں یار۔۔ یہ لوگ بھی نا روڈ کے آگے لکڑیاں رکھی ہیں۔۔ انہی کو اتر کر اب پیچھے کرنے لگا ہوں۔۔ اس کی بات پہ آسیہ کا دل پھر اسی لہہ میں دھڑکنے لگا جس میں صبح سے دھڑک رہا تھا۔۔
آپ نہ جائیں عفان۔۔ وہاں سے واپس آ جائیں۔۔ کچھ ہونے کا ڈر اسے پھر سے گھیر چکا تھا۔۔
کیا ہو گیا ہے مائی لیڈی میں تو بسس۔۔ اس کی بات اس کے منہ میں ہی رک گئی تھی کیونکہ سامنے سے گولی تھی اور عفان کے سینے میں پیوست ہو گئی تھی۔۔
عفان۔۔ وہ چلائی لیکن وہاں سننے والا کون تھا۔۔ فون تو عفان کے ہاتھ سے چھوٹ چکا تھا۔۔
درد کی شدت سے وہ وہی گر گیا۔۔ یوں لگ رہا تھا جیسے سینا جل رہا ہو اس کا۔۔ اسے قدموں کی آواز آ رہی تھی۔۔ شاید گولی مارنے والا اس کے قریب آ رہا تھا۔۔
آنکھیں اس کی ابھی تک کھلی تھی جب مارنے والا اس کے بلکل سامنے آ گیا۔۔ کوئی اسے کہتا کہ آج سورج مغرب سے نکلا ہے تو شاید وہ یقین کر لیتا۔۔ لیکن جو شخص اس نے دیکھا تھا جس نے ابھی تھوڑی دیر پہلے اسے گولی ماری تھی اس پہ یقین نہیں آ رہا تھا اسے۔۔
ہا۔۔ ہاشم۔۔ ٹوٹے لفظوں سے اس کا نام لیا ۔۔
ہاں میں۔۔ اس کے پاس وہ ایک گٹنا زمین پہ رکھ کر بیٹھا۔۔
کک۔۔کیوں۔۔ درد سے اس سے بولا نہیں جا رہا تھا مگر بوکنا ضروی تھا کیونکہ وہ پوچھنا چاہتا تھا کہ میں کیوں۔۔
معاف کرنا ویرے مگر گدی کے لیے کچھ بھی۔۔ کہتے ساتھ ہی اس نے ایک آخری گوکی اس کے دل کے مقام پہ ماری تھی اور عفان کا ادھ موا وجود بلکل بے جان ہو گیا۔۔
آنکھیں کھلی تھی۔۔ شکوہ کناں تھی۔۔ التجا تھی۔۔ کچھ کہنے کی تڑپ تھی لیکن ہاشم کو تو اس وقت صرف گدی نظر آ رہی تھی۔۔ ان آنکھوں میں تو اس نے غور سے دیکھا ہی نا تھا۔۔
خدا حافظ ویرے۔۔ اس کی آنکھیں ہاتھسے بند کرتا وہ اٹھا۔۔ اور وہاں سے دور جاتا گیا۔۔ چہرے پہ ایک کمینی مسکان تھی۔۔ جو اس کی بے حسی کا پتہ دے رہی تھی۔۔
اسے یقین تھا کہ اس نے کام مکمل کیا ہے۔۔ اب کون دیخھے گا کہ کس نے عفان کو قتل کیا۔۔ ایک نا معلوم فرد پہ بات ختم ہوو جائے گی۔۔ لیکن وہ بھوک گیا تھا کہ اللہ سب دیکھتا ہے اور سنتا بھی ہے۔۔
***
عفان۔۔ گولی لگنے کی آواز پہ وہ چلائی۔۔ لیکن کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ فون اس ہاتھ سے گر چکا تھا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید چلاتی اسے عفان کے اٹکنے کی آواز آئی تھی۔۔
ہاشم۔۔ وہ جانتی تھی کہ ہاشم عفان کا چھوٹا بھائی ہے۔۔ اس وقت اس نے اپنی چیخوں کا گلا گھونٹ دیا۔۔ وہ سننا چاہتی تھی کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔۔
ہاں میں۔۔ فون سے اب ابھرنے واکی آواز یقینا ہاشم کی تھی۔۔
کک۔ کیوں۔۔ عفان کی اٹکتی آواز سن کر اس نے بشکل اپنے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ کر اپنی چیخوں کا گلا گھونٹا۔۔
معاف کرنا ویرے۔۔ لیکن ھدی کے لیے کچھ بھی۔۔ اس کی بات سن کر آسیہ کا دل کیا کہ اس کا منہ توڑ دے کیسا سنگدل تھا وہ۔۔
ساتھ ہی ایک اور گولی کی آواز آئی تھی اور بس وہی آسیہ کو لگا کہ اس کی زندگی ختم ہو گئی۔۔ ہاتھ سے موبائل چھوٹ گیا۔۔
عفان۔۔ آواز سرگوشی سے زیادہ نہ تھی۔۔ کیونکہ جو گیا تھا وہ تو اس کی سرگوشیاں کیا اس کا دل کی بات بھی سن لیتا تھا۔۔
عفان۔۔ اب کہ وہ چیخی تھی۔۔ اور عظمی جو ابھی فلیٹ میں داخل ہوئی تھی اس کی چیخ سن کر فورا اندر کی طرف لپکی۔۔ لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی وہ کمرے کے بیچ و بیچ ہوش سے بیگانہ ہو چکی تھی۔۔
***
اب ان کی حالت نارمل ہے۔۔ جلد ہوش آ جائے گا۔۔ دماغ جاگنے مکے بعد یہ پہلا جملہ سنا تھا اس نے۔۔ وہ آنکھیں کھوکنا چاہتی تھی پر لگا جیسے منوں بوجھ پلکوں پہ آ گرا ہو۔۔
ہمت کر کے اس نے مشکل سے آنکھیں کھولی تھی۔۔ پہلے دھندھلاہٹ اور پھر کچھ کچھ ٹھیک نظر آنے لگا۔۔
آسیہ میری جان۔۔ اسے آنکھیں کھوکتا دیکھ کر عظمی اس کے قریب آئی۔۔ وہ جو چھت کو گھور رہی تھی ایک نظر انہیں دیکھا۔۔ نرس شاید جا چکی تھی۔۔
آپی۔۔ اب آنکھوں میں پہچان بڑھ رہی تھی۔۔ پر ذہن ابھی بھی مائوف سا تھا۔۔
ہاں آپی کی جان۔۔ میرا تو دل کر رہا ہے تمہارے بلائیں لے ڈالوں اتنا پیاری گڑیا کا تحفہ دیا ہے تم نے تو۔۔
بات کرتے انہوں نے پاس پڑے کاٹ کی طرف اشارہ کیا۔۔ جس میں ایک ننھی پری سو رہی تھی۔۔
عفان۔۔ ایک نظر کاٹ کی طرف دیکھ کر اس نے عفان کا پوچھا۔۔ آج اسے پورے ایک دن بعد ہوش آیا تھا اور فکر تھی بھی تو صرف عفان کی۔۔
عظمی سب جان گئی تھی کہ عفان کا قتل ہوا ہے یہ بات آسام نے ہی پتہ کروائی تھی لیکن ڈاکٹر نے اسے سٹریس فری رہنے کو کہا تھا اور یہ خبر تو آسیہ کے لیے موت تھی۔۔
وہ۔۔ وہ ٹھیک ہے۔۔ عظمی کی اپنی آواز اس کا ساتھ نہ دے رہی تھی۔۔
نہیں نہیں۔۔ وہ ٹھیک نہیں تھے۔۔ انہیں گولی لگی تھی۔۔ آپی مجھے بتائے وہ کہاں ہیں۔۔ ہذیانی انداز میں بولتی وہ اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
آسیہ میری جان۔۔ صبر کرو۔۔ اللہ کو یہی منظور تھا۔۔ عظمی کی بات پہ آسیہ کے ہاتھوں کی حرکت رک گئی۔۔ وہ جو دعائیں کر رہی تھی کہ ایسا کچھ نہ ہو۔۔ اس کا دل جو کہہ رہا ہے وہ جھوٹ ہو۔۔
لیکنہر دعا کہاں پوری ہوتی ہے۔۔ آسیہ کی بھی نہ ہوئی تھی۔۔ ہ چپ چاپ لیٹی تھی۔۔ آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ نکلے کن پٹی میں جزب ہو رہے تھے۔۔ کہنے کو اب کچھ نہ بچا تھا بلکہ شاید جینے کو ہی کچھ نہ بچا تھا۔۔
***
عفان کی میت کیا آئی تھی گھر میں کہرام سا مچ گیا تھا۔۔ وڈی اماں کو تو یقین ہی نہ آ رہا تھا کہ ان کا جوان بیٹا قتل ہو گیا ہے۔۔ ایک وہی تو تھا جن سے انہوں نے بے پناہ محبت کی تھی۔۔
جو اس گھر کی رونق تھا۔۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا قاتل کو تڑپا تڑپا کر مارے لیکن پولیس کوئی ثبوت نہ ملا تھا۔۔
کتنی دیر تو وہ دکھ اور غم سے کمرے سے باہر بھی نہ جاتی تھی۔۔ ان کا دل ہی نہ کرتا تھا۔۔ تین ماہ ہو گئے تھے اس کی موت کو۔۔ لیکن وڈی اماں کو لگتا تھا وہ ابھی آئے گا اور مجھ سے لپٹ کر کہے گا۔۔
اماں آپ کے ہاتھ کے آلو کے پراٹھے کھانے کو دل کر رہا ہے۔۔
لیکن اسے نہ آنا تھا نہ وہ آیا۔۔ ان کی آنکھیں راہ تکتے تکتے پتھر کی ہو گئی پر وہ نہ آیا۔۔ گدی اب ہاشم نے سنبھال کی تھی۔۔
اور وہ بس سارا سارا دن اپنے کمرے میں بند رہتی۔۔
رفتہ رفتہ انہوں نے خود پہ خول چڑھا لیا۔۔ ایک سختی کا ایسا خول جسے شاید کوئی بھی کبھی چٹخ نہ پاتا۔۔
***
عظمی۔۔ مجھے لگتا ہے کہ روشم کو تمہیں اب آسیہ کو دینا چاہیے ۔۔ اب تو اس کی عدت بھی ختم ہو گئی ہے۔۔ بچی کے ساتھ رہے گی تو دھیان بٹ جائے گا اس کا۔۔
عفان کو گئے پانچ ماہ ہونے کو تھے۔۔ لیکن آسیہ کی حالت اب بھی پہلے دن جیسی تھی۔۔ روشم چونکہ پری میچور تھی اس لیے اسے ذیادہ کئیر کی ضرورت تھی جو کہ آسیہ ایسی حالت میں اسے نہ دے سکتی تھی۔۔
اس لیے اسے عظمی ہی پال رہی تھی۔۔
آپ جانتے تو ہے اس کی حالت کو آسام۔۔ اس کے پاس روشم کو دے بھی دوں تو اسے فرق ہی نہیں پڑتا۔۔ یہ روتی ہے تو اسے سنائی ہی نہیں دیتا۔۔ وہ تو بس جیسے گم صم سی ہو گئی ہے۔۔ اس سب کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔
آسام کا آئیڈیا اس حوالے سے سراسر فلاپ تھا۔۔
یہ تو ہے۔۔ تم نے اس سے بات کی۔۔ عفان کے گھر والوں کے حوالے سے۔۔
آسام چاہتا تھا کہ آسیہ عفان کے گھر جائے اور بتائے کہ روشم ان کا خون ہے تا کہ روشم اپنی ولدیت فخر سے بتا سکے۔۔ لیکن آسیہ کو ڈر تھا۔۔ اسے لگتا تھا کہ جیسے انہوں نے عفان کو مارا ہے وہ اس کی بیٹی کو بھی مار دے گی۔۔ اور اس بات پہ اس نے کافی ہنگامہ بھی کیا تھا۔۔
کہاں آسام۔۔ وہ تو اس بارے میں کچھ سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔۔ بس ایک ہی بات کہتی ہے۔۔ کسی کو پتہ نہ چلے کہ اس کی بیٹی ہے۔۔ اور شاید وہ ٹھیک بھی ہے اگر ہاشم اہنے بھائی کو مار سکتا ہے تو اس ننھی جان کے ساتھ کیا کرے گا۔۔ اب تو سنا ہے گدی پہ بھی وہ بیٹھا ہے۔۔
عظمی کو تو سوچ کر ہی جھرجھری لی تھی۔۔ اس کے نزدیک ہاشم جتنا ظالم دنیا میں شاید کوئی اور نہیں تھا۔۔
ہمم۔۔ کہہ تو تم ٹھیک رہی ہوم۔ خدشہ تو اس کا بھی ٹھیک ہے۔۔ لیکن اب جب اس کی ولدیت میں ہم عفان کا نام لکھیں گئے تو کبھی نہ کبھی تو سوال اٹھے گا نا عظمی۔۔
آسام کی سوئی اس کی ولدیت پہ ہی اٹکی تھی۔۔
آسام۔۔ روشم کو بیڈ پہ لٹاتے اس نے آسام کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔
اور آسام جانتا تھا کہ یقینا اسے کوئی بات منوانی ہے کیونکہ جب بھی وہ ایسا کرتی تھی تو یعنی کوئی بات منوانا چاہتی تھی۔۔
ہاں کہو۔۔
آسام میں سوچ رہی تھی کہ کیوں نہ ہم روشم کو اپنی ہی بیٹی پرف کر دے۔۔ اسکی ولدیت میں کیوں نہ آپ اپنا نام لکھوا دیں۔۔ عظمی کی بات پہ آسام ایکدم چونکا۔۔
عظمی کیا ہو گیا ہے تمہیں تم جانتی ہو یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔ آسام کو اس کی بات سن کر جھٹکا لگا۔۔
ہاں جانتی ہوں ۔۔ پر باتیں سب آسیہ کی بھی تو ٹھیک ہیں۔۔ روشم کی زندگی صرف اسی صورت میں محفوظ رہ سکتی ہے۔۔ اس کا ہاتھ پکڑے وہ مسلسل۔اسے قائل کرنے کی کوشش میں تھی۔۔
تم نے سوچ لیا ہے تم اپنی منوا کر ہی چھوڑو گی تو ٹھیک ہے پھر۔۔ کر لو اپنی مرضی۔۔۔ آسام نے بھی نیم ہی سہی پر رضامندی دے دی تھی ۔۔
اوہ۔۔ تھینک یو سو مچ آسام۔۔ فرط جذبات سے وہ اس کے گلے کگ گئی تھی جبکہ آسام اس کی بچوں سی حرکت پہ مسکرا دیا۔۔
***
مجھے پتہ تھا میری بارش کہ دیوانی اتنی ٹھنڈ میں بھی اوپر ہی ہو گی۔۔ اس کے پیچھے کمر میں بازو حائل کرتے وہ اس کے کندھے پہ ٹھوڑی رکھ کر بولا۔۔
اس کی بات پہ آسیہ مسکرائی۔۔
جب پتہ تھا تو پھر بھی نیچے آوازیں دے رہی تھی۔۔ اس کے ہنسنے پہ اس نے ٹھوڑی اٹھا کر گھور کر اسے دیکھا۔۔
تم سن رہی تھی۔۔؟؟ پھر بھی جواب نہیں دیا۔۔ عفان کو برا لگا تھا۔۔
ہاں کیونکہ مجھے پتہ تھا۔۔ اب مجھے میرے جواب دیے بغیر بھی ڈھونڈ لے گئے۔۔ اس کے محبت بھرے جواب پہ عفان کا دل کیا اس پہ قربان ہو جائے۔۔
خیر یہ تو میری محبت ہے پھر۔۔ جو تم جہاں بھی ہو تمہیں ڈھونڈ لیتی ہے۔۔ وہ دوبارہ سے اپنی ٹھوڑی اس کے کندھے پہ رکھ چکا تھا۔۔
ویسے ایک بات تو بتائو۔۔ اپنا حصار تنگ کرتے وہ گویا ہوا۔۔
جی پوچھے۔۔
اگر کبھی تمہیں مجھے ڈھونڈنا پڑ گیا تو۔۔ فرض کرو اگر کبھی میں گم ہو گیا تو کیا کرو گی۔۔ وہ اسے شاید ڈرا رہا تھا۔۔ لیکن آسیہ کے چہرے پہ اطمینان تھا یوں جیسے وہ جانتی ہو کہ ایسا تو ممکن ہی نہیں۔۔
اس کے حصار سے نکلے بغیر وہ اس کی طرف مڑی۔۔
مسٹر عفان ایسا کبھی نہیں ہو گا۔۔ کیونکہ آپ میرے سینے میں دل بن کر دھڑکتے ہیں۔۔ آپ کی وجہ سے ہی زندہ ہوں میں۔۔ آپ دور جائیں گئے تو بند ہو جائے گا یہ۔۔ اور مجھے پتہ ہے آپ اسے بند ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔۔
اس کی بات پہ عفان ایک لمحے کو سہم گیا تھا۔۔ اس نے اپنے لب اس کی پیشانی پہ رکھے۔۔
کیسی باتیں کر رہی ہوں مائی لیڈی۔۔ میری لیڈی تو مجھے زن مریدی کے طعنے دیتی یہ کونسی عورت ہے بھئی۔۔ اس کے ماتھے سے اپنے لب ہٹاتا وہ خوشگوار انداز میں گویا ہوا۔۔ مقصد شاید صرف اس کی بات کے اثر کو زائل کرنا تھا۔۔
کیونکہ وہ ایسا کبھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ اتنی گہرائی میں جائے اسے تو بے فکر سی آسیہ پسند تھی۔۔
یہ عورت بھی آپ کی بیوی کا ہی روپ ہے۔۔ اور اس کو ایک لڑاکا بیوی بننے میں دیر نہیں لگے گی اگر آپ اس نے آئسکریم نہ کھلائی تو۔۔ اس کی بات پہ وہ دل کھول کر کھلکھلایا۔۔
ویسی ہی رات تھی۔۔ ویسے ہی وہ چھت پہ کھڑی تھی۔۔ نہیں تھا تو عفان نہیں تھا۔۔ اس کی ہنسی گونج اسے اہنے کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔۔
عفان چلا گیا ہے تو کیوں زندہ ہوں میں۔۔ میرا دل تو اس کے ساتھ دھڑکتا تھا۔۔ وہ چلا گیا ہے تو کیوں زندہ ہوں میں۔۔
مجھے بھی مر جانا چاہیے ۔۔ ہاں مجھے مر جانا چاہیے ۔۔ خود سے کہتے وہ دیوار کے اوپر چڑھی۔۔
عفان نہیں تو میں بھی نہیں۔۔ دیوار پہ کھڑی وہ خود سے بولی۔۔
ایک نظر نیچے دیکھا۔۔ اچھا خاصی اونچائی پہ وہ کھڑی تھی۔۔ لیکن اسے اس وقت کسی چیز کا ہوش نہ تھا۔۔ وہ تو اپنے حواسوں میں ہی نہ تھی۔۔
اس نے ایک گہرا سانس لے کر آنکھیں بند کیں۔۔ اور خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...