آفاق صدیقی (کراچی)
محرمِ جاں کوئی دیوار نہ در لگتا ہے
اپنا گھر تو کسی اور کا گھر لگتا ہے
باغ سرسبز ہے لیکن یہ شجر کیسے ہیں
جن کی ہر شاخ پہ زہریلا ثمر لگتا ہے
جانے کس جادۂ خوں ریز پہ چل نکلے ہیں
ہر قدم اک نئے مقتل کا سفر لگتا ہے
خود فریبی کو تباہی کا بھلا کیا احساس
اپنا ہر عیب ہمیں کارِ ہنر لگتا ہے
ہم بھی دیکھیں تو کہیں وفا کی صورت
کوئی بتلائے وہ بازار کدھر لگتا ہے
آفاق صدیقی
محبت بے نیازِعہدو پیماں ہے جہاں میں ہوں
خزاں کا نام بھی فصلِ بہاراں ہے جہاں میں ہوں
بیاباں ہے نہ محمل ہے نہ اب محمل نشیں کوئی
جنوں بے گانہء جیب وگریباں ہے جہاں میں ہوں
کوئی چرچا نہیں افسردگی کا غنچہ وگُل میں
ادائے جورِ گلچیں لطفِ ساماں ہے جہاں میں ہوں
کہیں روشن ہیں دل کے داغ جلتے ہیں کہیں آنسو
جدھر دیکھو چراغاں ہی چراغاں ہے جہاں میں ہوں
سبکساران ساحل کی رواداری سے کیا حاصل
مزاجِ زندگی کانوسِ طوفاں ہے جہاں میں ہوں
جہنم بن گئی ہو اپنی بے تابی تو کیا کیجیے
بظاہر ایک فردوسِ لگاراں ہے جہاں میں ہوں
امید چارہ سازی اور اس دورِ جراحت میں
وفور درد ہی خود اپنا درماں ہے جہاں میں ہوں
فرا رعافیت کی کوئی صورت ہی نہیں بنتی
بڑی مضبوط ہر دیوارِ زنداں ہے جہاں میں ہوں
آفاق صدیقی
زندگی اور اس دور کی زندگی
اک نئی تیرگی اک نئی روشنی
یہ زمیں تو زمیں ماہ وانجم پہ بھی
آگہی اپنا جادو جگانے چلی
بزم ہستی میں ہے کس قدر دلکشی
پھر بھی محسوس ہوتی ہے کوئی کمی
معتبر کوئی غم ہے نہ کوئی خوشی
اف یہ تہذیبِ حاضر کی جلوہ گری
دیدنی ہے محبت کی افسردگی
جیسے مرجھا کے رہ جائے کوئی کلی
بڑھ گئیں اور بھی دل کی بے چینیاں
جی بہلنے کی جب کوئی تدبیر کی
دیکھ کر تیری محفل کی رنگینیاں
دم بخود ہے مرے شوق کی سادگی
خواہش ولولے کاوشیں حوصلے
کتنی خوش فہمیوں میں ہے ہر آدمی
قربت لہوشاں اور عمرِ رواں
بہتے پانی پہ چھٹکی ہوئی چاندنی
روحِ انسانیت اور یہ کشمکش
جیسے گرداب میں ڈوبتی سوہنی
آفاق صدیقی
انہیں قید وبند کا غم ہو کیا جو ہر امتحاں سے گزر گئے
سبھی عاشقانِ شکستہ دل یونہی اپنی جاں سے گزر گئے
بڑی پر خطر تھی رۂ طلب مرا ذوق وشوق بھی ہے عجب
دیا ترے پیار نے حوصلہ تو کہاں کہاں سے گزر گئے
کوئی مال وزر کی ہوس رہی نہ جچی کسی کی سکندری
ہمیں مل گئی وہ قلندری ہر این وآں سے گزر گئے
تری جستجو مری جانِ جاں ہمیں کو یہ کوہے بہر زماں
کبھی ہم زمیں سے گزر گئے کبھی آسماں سے گزر گئے
ہمیں بے خودی نے خبر نہ دی کہ نشیب کیا ہے فراز کیا
دلِ دوستاں کی تلاش میں صفِ دشمناں سے گزرگئے
انھیں سرکشی کی سزا نہ دے کہ ازل سے مستِ الست ہیں
جو بغیر سجدہ کئے ہوئے ترے آستاں سے گزر گئے
آفاق صدیقی
جب تک ترے جمال کی رعنائیاں رہیں
کیا کیا نہ میری حوصلہ افزائیاں رہیں
نظارہ درمیاں تھا تجھے کیسے دیکھتے
آنکھوں میں کچھ عجیب سی پرچھائیاں رہیں
تجھ سے بچھڑ گئے تو ہمیں جلوتوں میں بھی
سب سے قریب تر تری تنہائیاں رہیں
یاد آئی جب کبھی ترے لہجے کی نغمگی
دھیمے سروں میں گونجتی شہنائیاں رہیں
پانی پہ جب بکھر سا گیا چودھویں کا چاند
میری نگاہ میں تری انگڑائیاں رہیں
ممکن ہے خود کو بیچ کے بھی کچھ نہ مل سکے
بازار میں اگر یہی مہنگائیاں رہیں
آفاقؔوہ نہیں ہے تو کیا رونقِ حیات
کہنے کو لاکھ انجمنِ آرائیاں رہیں