پروفیسر آفاق صدیقی(کراچی)
پرسش غم کو پھر آجانا تازہ دم ہوجانے دو
کوری آنکھوں رات کٹی ہے جاؤ اب سو جانے دو
تم کیوں اپنے عیش و طرب کو تج دینے کی بات کرو
حال ہما را اور بھی ابتر ہوتا ہے ہو جانے دو
اکثر تنہا رہ کر بھی میں تنہا کب رہ پاتا ہوں
بھولی بسری یادوں میں کھو جاتا ہوں کھو جانے دو
ہر بندھن اس جگ جیون کا جیتے جی کا بندھن ہے
دنیا سے منہ پھیر کے کوئی جاتا ہے تو جانے دو
میں کانٹوں کو پھول سمجھ کر اپنا دامن بھر لوں گا
کوئی میری راہ میں کانٹے بوتا ہے بو جانے دو
اور بہت ارمان ہیں دل میں چھوڑو بھی آفاق میاں
آپ نہ کوئی رکنا چاہے مت رکنے دو جانے دو
***
پروفیسر آفاق صدیقی
کیا زمیں کیا آسماں کچھ بھی نہیں
ہم نہ ہوں تو یہ جہاں کچھ بھی نہیں
دیدہ و دل کی رفاقت کے بغیر
فصل گل ہو یا خزاں کچھ بھی نہیں
کیا قیامت ہے کہ اب اس شہر میں
اعتبار جسم و جاں کچھ بھی نہیں
پتھروں میں ہم بھی پتھر ہو گئے
اب غم سود و زیاں کچھ بھی نہیں
کیسے کیسے سر کشیدہ لوگ تھے
جن کا اب نام و نشاں کچھ بھی نہیں
ایک احساس محبت کے سوا
حاصل عمر رواں کچھ بھی نہیں
کوئی موضوع سخن ہی جب نہ ہو
صرف انداز بیاں کچھ بھی نہیں