(Last Updated On: )
ارشد کمال
اے بساطِ آگہی! توُ کِس لئے رُوپوش ہے
بے نوا سائل ترا در پر ترے بے ہوش ہے
قطرہ قطرہ پی چکی ہے گُمرہی کی ہر شراب
کیسے کہہ دوں پھر کہ دنیا اب تلک باہوش ہے!
میرے گھر کا پاسباں ہے اک سگِ عصرِجدید
شورِ شبخوں سُن کے بھی بُت کی طرح خاموش ہے
جب سے میری پُشت پر ہے حاکمِ دوراں کا ہاتھ
میں خطیبِ وقت ہوں،دنیا ہمہ تن گوش ہے
چوں چرا کرنے کی عادت چھوڑدی ہم نے میاں!
خیرمقدم اب ہمارا ہر جگہ پُرجوش ہے
بَک رہا ہے جانے کیا کُچھ ایک مجنوں کی طرح
اُس پہ دعویٰ یہ کہ ارشدؔ تُو سراپا ہوش ہے؟