شکیل صاحب اور ان کی بیگم کو جیسے ہی اس رشتے کے بارے میں معلوم ہوا تھا وہ اگلے ہی دن صبح صبح ہی ان کے گھر آ گئے تھے ناشتہ انہوں نے ان لوگوں کے ساتھ ہی کیا تھا ان کے ساتھ تابش بھی آیا تھا ان کی آمد کا سن کے نگہت بیگم بھی نیچے آ گئی تھیں اس وجہ سے وہ اور روحان بھی انہی کے ساتھ ناشتے کر رہے تھے
سب خوش گپیوں میں مصروف تھے سوائے منیہا تابش اور زینیہ کے تابش اور منیہا اک دوسرے کو گھورنے میں مصروف تھے اور زینیہ اور فاتینا کو حسین صاحب سے ڈانٹ پڑی تھی نماز پڑھ کے دوبارہ سو جانے کی وجہ سے فاتینا تو نارمل تھی جبکہ زینیہ کا منہ پھولا ہوا تھا
“چھان بین کروا لیتے ہیں اگر لوگ اچھے ہوئے تو پھر بلا لیں گے انہیں کسی دن” حسین صاحب کی ساری باتیں سننے کے بعد شکیل صاحب نے کہا تھا
“میرا بھی یہی خیال ہے میں تو ابھی دو تین دن مصروف ہوں یہ کام تم ہی کر دو” ان کی ہاں میں ہاں ملاتے حسین صاحب نے انہیں ذمہ داری سونپی تھی
“اگر آپ لوگ برا نہ منائیں تو یہ کام میں کر دیتا ہوں مائرہ میرے لیے بہنوں کی طرح ہی ہے اور اک بھائی کا فرض ادا کر کے مجھے خوشی محسوس ہو گی” شکیل صاحب کے بولنے سے پہلے روحان بول اٹھا تھا سب نے چونک کے اسے دیکھا تھا
“ہاں کیوں نہیں تمہاری قابلیت پہ تو کوئی شک نہیں اور مجھے امید ہے تم اچھی طرح چھان پین کرواؤ گئے کیوں حسین؟” شکیل صاحب نے خوش دلی سے کہتے آخر میں حسین صاحب کی تائید چاہی تھی جنہوں نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تھا اک مہینہ ہونے والا تھا انہیں حسین صاحب کے یہاں کرائے پہ رہتے ہو اور اس دوران اپنی شرافت کی وجہ سے حسین صاحب کے دل میں جگہ بنا چکا تھا
ان کی تائید پہ روحان کے چہرے پہ مسکراہٹ چھائی تھی تبھی اچانک اس کی نظر مریم پہ پڑی تھی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی اس کے دیکھنے پہ مریم نے تیزی سے اپنی نگاہوں کا زوایہ بدلا تھا اس کی اس حرکت سے روحان کے چہرے پہ مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی
“چلیں ٹھیک ہے مجھے آفس کے لیے دیر ہو رہی ہے میں نکلتا ہوں اور ان شاءاللّٰہ رات تک لڑکے اور اس کے خاندان کی ساری ڈیٹیلز آپ کے پاس موجود ہوں گی” روحان نے دسترخوان سے اٹھتے ہوئے کہا تھا جواباً حسین صاحب مسکرائے تھے روحان بھی ان کی طرف مسکراہٹ اچھالتا کچن کی طرف بڑھ گیا تھا تا کہ وہاں موجود سنک پہ ہاتھ دھو سکے
“مریم بیٹا جاؤ روحان کو تولیہ دو اس نے ہاتھ خشک کرنے ہوں گے” اس کے جاتے حسین صاحب نے مریم کو کہا تو وہ جی کہتی اٹھ کے اندر چلی تھی
کچن کی طرف بڑھتے روحان کے چہرے پہ اک دفعہ پھر مسکراہٹ چھائی تھی وہ ابھی ہاتھ دھو ہی رہا تھا کہ مریم ٹاول لیے وہاں آئی تھی روحان نے ہاتھ دھونے کے بعد اس کے ہاتھ سے ٹاول پکڑا تھا
“مجھے اس دن کے لیے شکریہ کہنا تھا آپ نے میرے دوست کی آمد پہ چائے بنا کر بھیجی تھی” روحان نے اس سے ہم کلام ہونے کے لیے بات نکالی تھی
“کوئی بات نہیں” مریم نے مختصر سا جواب دیا تھا
“ویسے میں تو آپ کو سنجیدہ سمجھتا تھا مگر کل یہ انکشاف ہوا کہ آپ بھی اپنی بہنوں سے کم نہیں” اس کے لیے دیے انداز پہ بھی روحان نے ہار نہیں مانی تھی اک اور بات نکالی تھی اس کا اشارہ ان کے کیریاں توڑنے کی طرف تھا
“مجھے لگتا ہے آپ کے ہاتھ خشک ہو گئے ہیں اس لیے پلیز ٹاول دے دیں” اپنی بات کو اک دفعہ پھر نظرانداز کیے جانے پہ اس نے گہرا سانس بھرتے ٹاول اسے واپس کیا اور کچن سے باہر چلا گیا تھا مریم بھی اس کی پشت کو گھورتے ہوئے کچن سے نکل گئی تھی
روحان ان سب کو خدا حافظ کہتے چلا گیا تھا اقر اس ک پیچھے منیہا، نویرہ، مائرہ،روش اور تابش بھی اٹھ گئے تھے اپنی اپنی یونی اور سکول جانے کے لیے شکیل چچا بھی تھوڑی دیر میں اٹھ جاتے اور تابش نے یونی جانا تھا اس لیے چچی یہی رک گئی تھیں اور انہیں لینے رامش نے آنا تھا اس کی طبعیت تھوڑی ناساز تھی اس لیے اس نے آفس سے بھی آف لیا تھا اور ان کے ساتھ بھی نہیں آیا تھا
وہ سب آگے پیچھے صحن سے برآمدے میں آئے تھے سب سے آگے منیہا تھی اور سب سے پیچھے تابش جو کہ بدلہ لینے کے لیے بےچین تھا اس کا ارادہ اپنے ساتھ لائے نقلی سانپ سے منیہا کو ڈرانے کا تھا اسے پتہ تھا ایفیکٹ اس سے سب ہوں گی مگر بدلہ تو لینا تھا
وہ تیزی سے ان کو کراس کرتے آگے بڑھا تھا اور نامحسوس انداز میں اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تھا اور منیہا کے پاس سے گزرتے جلدی سے جیب سے ہاتھ نکالتے سانپ منیہا کے قدموں میں پھینکا تھا اور آگے بڑھ گیا تھا
“سانپ، سانپ” اپنے پاؤں سے کسی چیز کا ٹکرانا محسوس کر کے منیہا نے جوں ہی نیچے دیکھا وہاں موجود سانپ کو دیکھتے وہ پیچھے ہوتے چلائی تھی اور ساتھ باقی تینوں بھی وہ سانپ تھا تو ربڑ کا مگر دیکھنے میں بلکل اصلی لگ رہا تھا
ان کے چلانے کی آواز سن کے برآمدے سے سب بوکھلاتے ہوئے باہر صحن میں بھاگے تھے گیٹ کے پاس پہنچا تابش بھی بوکھلانے کی ایکٹنگ کرتے دوڑتا ہوا ان تک آیا تھا ان سب کے پہنچنے سے پہلے وہ ان تک پہنچا ہوا تھا
“پیچھے ہٹو میں دیکھتا ہوں” انہیں پیچھے کرتے اس نے بغور سانپ کو دیکھنے کا دکھاوا کیا تھا
“یہ تو ہل جل ہی نہیں رہا” اونچی آواز میں بڑبڑاتے اس نے آگے بڑھ کے سانپ کی پونچھ پکڑی تھی اس کی اس حرکت پہ ان سب کی ہلکی سی چیخ نکلی تھی
“ارے یہ تو نقلی سانپ ہے ربڑ کا اس سے ڈر گئیں تم؟” تابش نے منیہا کو دیکھتے مصنوعی حیرانگی سے کہا تھا
“منیہا بندہ پہلے دیکھ ہی لیتا ہے خوامخواہ میں ڈرا کے رکھ دیا سب کو” حسین صاحب جو ان کی چیخیں سن کے ڈر گئے تھے انہوں نے اسے ڈپٹا تھا ان کی چیخ سن کے جو ان کے ہاتھ پاؤں کانپنا شروع ہوئے تھے ابھی تک کپکپا رہے تھے
“لیکن ابا،،،،” اس نے کچھ کہنا چاہا تھا
“لیکن ویکن کچھ نہیں چپ کر کے جاؤ یونیورسٹی” انہوں نے اس کی بات کاٹتے سختی سے کہا تھا حسین صاحب کچھ زیادہ ہی برہم تھے ان کی چیخیں سن کے انہیں لگا تھا نجانے کیا ہو گیا ہے انہیں لگا تھا بس ان کے دل کی دھڑکن بند ہونے لگی ہے
منیہا جو پہلے ہی ڈر کے مارے رونے والی ہوئی تھی حسین صاحب کے سب کے سامنے یوں ڈانٹنے پہ اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آ گئے تھے اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے تابش کو دیکھا تھا کیونکہ وہ سمجھ گئی تھی اس سے بدلنا لینے کے لیے اس نے یہ سب کیا تھا
جبکہ اس کی آنسو بھری آنکھیں خود پہ جمی دیکھ کر وہ ساکت ہوا تھا کیا کچھ نہیں تھا ان آنکھوں دکھ، غصہ، شکوہ، شکایت ان آنکھوں سے اپنی آنکھیں ہٹانا تابش کو دنیا کا مشکل ترین کام لگا تھا مگر وہ جلدی ہی نظریں پھیر گیا تھا کیونکہ اگر وہ مزید ان آنسو بھری آنکھوں میں دیکھتا تو شاید ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتا تھا
مریم نے منیہا کی طرف بڑھنا چاہا تھا مگر اس سے پہلے ہی منیہا تیز تیز قدم اٹھاتی گیٹ کراس کر گئی تھی اس کے پیچھے باقی تینوں بھی بھاگی تھیں تابش شرمندگی کی وجہ سے مزید نہ ٹھہر سکا اور وہاں سے نکل گیا تھا
ان کے جاتے وہ سب بھی برآمدے کی طرف بڑھے تھے حسین صاحب نے اک تھکی تھکی نظر دروازے پہ ڈالی اور مڑے تھے زینیہ پہلے ان سے ناراض تھی اور اب انہوں نے منیہا کو بھی ڈانٹ دیا تھا لوگوں کی باتوں کا خوف اک دفعہ پھر ان پہ حاوی ہونے لگا تھا ڈپریشن آہستہ آہستہ ان پہ پھر اٹیک کر رہا تھا جس کی وجہ سے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ اپنا ضبط کھونے لگے تھے
___________________________
جب سے عادل آفندی کے والدین رشتے کی بات کر کے گئے تھے تب سے مائرہ حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی تھی اسے اس کے گھر کا ایڈریس کیسے ملا اور اس نے اپنی پسند کو اپنے ماں باپ کی پسند کیسے بنایا؟
اس کا دماغ انہی سب باتوں میں الجھا ہوا تھا اور ان کے جواب بس عادل آفندی ہی دے سکتا تھا اللّٰہ اللّٰہ کر کے وہ یونی پہنچی تھی یونی پہنچتے ہی اس نے عادل آفندی کی تلاش میں نظریں گھمانا شروع کر دی تھیں اور اس کی تلاش جلد ہی ختم ہو گئی تھی وہ اسے کلاس روم کی طرف جاتا دکھا تھا مائرہ نے بھی اپنے قدم تیزی سے اس کی طرف بڑھائے تھے
“مسٹر آفندی رکیے پلیز” اس کے نزدیک پہنچتے مائرہ نے پھولی سانسوں کے درمیان اسے پکارا تھا عادل اس کی آواز سن کے مسکراتے ہوئے رکا تھا جیسے وہ جانتا ہو کہ وہ ضرور آئے گی اور اپنا رخ اس کی طرف کیا تھا
“میں جانتا ہوں آپ کیا پوچھنے آئی ہیں یہاں بات کرنا مناسب ہے نہیں ہے کہی بیٹھ کے بات کرتے ہیں” اسے منہ کھولتے دیکھ کر عادل نے کہا تھا مائرہ نے اچنبھے سے اسے دیکھا تھا اور پھر اس کی تقلید میں کارویڈ سے نکل کے گراؤنڈ کے نسبتاً اک سنسان گوشے میں آئی تھی
“آپ یہی جاننا چاہ رہی ہیں نا کہ مجھے آپ کے گھر کا ایڈریس کیسے ملا؟ میری پسند میرے ماں باپ کی پسند کیسے بن گئی؟” اس کے پوچھنے پہ مائرہ کا منہ پورے کا پورا کھل گیا تھا اس کے تاثرات دیکھ کر عادل محظوظ ہوا تھا
“وہ دراصل بات یہ ہے کہ آپ کے انکار کے اک دو دن بعد یونی سے آف ہوتے ہی میں نے مناسب فاصلہ رکھ کے آپ کے گھر تک آپ کا پیچھا کیا تھا کیونکہ آپ نے تو مجھے ایڈریس دینا نہیں تھا اور ایڈمن بلاک والوں نے بھی مجھے ہری جھنڈی دکھانی تھی اس لیے میں نے اپنی مدد آپ کے تحت آپ کا گھر کھوج ہی لیا تھا” عادل نے سینے پہ ہاتھ باندھتے اطمینان سے اپنی ساری کاروائی اس کے گوش گزاری تھی جسے سن کے حیرت اور صدمے سے اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے
“مسٹر آفندی دس از ٹو مچ اگر کوئی یہ محسوس کر لیتا کہ آپ میرا پیچھا کر رہے ہیں کیا عزت رہ جاتی میری؟” اس کے دیے گئے جھٹکے سے سنبھلتے مائرہ دھیمی آواز میں غرائی تھی
“پہلی بات میں نے مناسب فاصلہ رکھا ہوا تھا تا کہ کسی کو شک نہ ہو اور آپ کے محلے میں پہنچتے تو میں اک عجب سٹریٹجی اپنائی تھی” اس کی بات پہ مائرہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا
“جب میں آپ کے پیچھے محلے میں اینٹر ہوا تھا تب جب بھی کوئی شخص گزرتا میں اسے روک کے پوچھتا تھا یہاں اک رشتے کروانے والی بوا رہتی ہیں مجھے ان سے ملنا ہے ان کا گھر کہاں ہے” عادل نے مزے سے کہا تھا
“لیکن آپ کو کیسے پتہ ہمارے محلے میں رشتے کروانے والی بوا رہتی ہیں؟” مائرہ نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھتے پوچھا تھا
“نہیں پتہ تھا بس تُکا مارا تھا اور یہ تُکا صحیح ہو کر آپ تک پہنچنے کو وسیلہ بن جائے گا یہ نہیں پتہ تھا” اسے جواب دیتے عادل ہلکا سا مسکرایا تھا
“اور اگر ہمارے محلے میں کوئی رشتہ کروانے والی بوا ہوتی ہی نا پھر؟” زینیہ کے پوچھنے پہ عادل نے لاعلمی سے کندھے اچکائے تھے جیسے کہنا چاہ رہا ہو تب کی تب دیکھی جاتی
“اس سے اگلے ہی دن میں اپنے والدین کو لے کر ان کے گھر گیا تھا میں نے ماما بابا کو کہا تھا کہ ان کے سامنے آپ کا ذکر بھول کے بھی نہیں کرنا ان سے یہ کہیے گا ہمیں اپنے بیٹے کے لیے لڑکی کی تلاش ہے کسی کے منہ سے آپ کا ذکر سنا اس لیے یہاں آئے اور اس کے بعد وہ مختلف رشتوں کا بتاتیں کیا پتہ ان رشتوں میں آپ کا بھی نام آ جاتا اور شاید اللّٰہ کو میری پختہ نیت اس قدر پسند آ گئی کہ اس نے مجھے آپ تک پہچانے کا وسیلہ آپ کو ہی بنا دیا میرے پاس ہمارے سارے بیج کی اک گروپ فوٹو تھی وہ میں ماما کو دکھائی ہوئی تھی اور جب آپ نے رک کے بوا کو سلام کیا تھا ماما آپ کو پہچان گئی تھیں اور انجان بنتے بوا سے آپ کے بارے میں پوچھا تھا اور ان کے آپ کے بارے میں تفصیلات بتانے کے بعد ماما ان کے پیچھے پڑ گئی تھیں کہ ہمیں ان کے ہی گھر لے کر جائیں اور اس کے نتیجے میں میرے والدین کل آپ کے گھر موجود تھے” عادل کی باتیں سنتی مائرہ کا اپنی سماعتوں پہ یقین نہیں آ رہا تھا سنجیدہ اور اپنے کام سے کام رکھنے والا عادل آفندی ایسا بھی کچھ کر سکتا ہے
“اگر میں چاہتا تو ڈائریکٹ بھی آپ کے گھر رشتہ لے کر آ سکتا تھا لیکن میں جانتا ہوں جنتے منہ اتنی باتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی یہ پوائنٹ ضرور اٹھاتا کہ ہم دونوں کے بیچ پہلے ہی کچھ چل رہا ہو گا اس لیے میں ڈائریکٹ نہیں آیا کیونکہ محبت عزت دینے کا نام کیچڑ اچھالنے کا نہیں اینڈ ناؤ ایکسکیوزمی کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے” اسے وہی ساکت چھوڑتے وہ کلاس کی طرف بڑھ گیا تھا اور پیچھے وہ کتنی دیر گم سم وہی کھڑی رہی تھی
__________________________
زینیہ ناشتے کے بعد کمرے میں گھس گئی تھی آج وہ اپنی ناراضگی میں چچی کے پاس بھی نہیں بیٹھی تھی انہوں نے اس کا پوچھا تو مریم نے کمرہ بند کرنے کی وجہ بتائی تو چچی نے تاسف سے سر ہلایا تھا
ہوتا ہے ایسا کوئی چاہے کچھ بھی کہتا رہے اتنا خاص فرق نہیں پڑتا لیکن جو لوگ آپ کے دل قریب ہوں ان کا غصے میں کہا گیا اک لفظ بھی سینے میں تیر بن کر لگتا ہے اور یہاں بھی کچھ ایسا ہی سین تھا حسین صاحب کی ڈانٹ سیدھی دل پہ لگی تھی
اپنا دکھت اور غصے کو کم کرنے کے لیے وہ کمرے میں بند رہی تھی تب بھی کم نہ ہوا تو ان سب کا اک اک سوٹ جو دھونے والا تھا وہ دھونے بیٹھ گئی تھی کسی نے اسے کچھ نہیں تھا کیونکہ وہ سب جانتے تھے وہ ایسے ہی کاموں میں خود کو مصروف کر کے اپنا غصہ کم کرتی ہے
گیٹ کے قریب ہی اک سائیڈ پہ کپڑے دھونے کے لیے اک الگ جگہ بنائی گئی تھی کپڑے دھونے کے بعد انہیں پھیلانے کے لیے ٹوکری اٹھا ابھی وہ چند قدم ہی چلی تھی کہ گیٹ کی بیل بجی تھی ٹوکری وہی رکھتے وہ دروازے کی طرف بڑھی تھی
“کون؟” دروازے کے پاس رکتے اس نے اک دفعہ پوچھنا ضروری سمجھا تھا
“میں رامش” باہر سے جواب آیا تو اس نے دروازہ کھولا دیا تھا
“السلام علیکم کیسی ہیں آپ؟” رامش نے گیٹ میں کھڑے ہی زکام زدہ آواز میں پوچھا تھا اور ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑے ٹشو سے ناک صاف کی تھی
“وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں” رکھائی سے جواب دیتی وہ اک سائیڈ پہ ہوئی تھی تا کہ وہ گزر سکے اور وہ دروازہ بند کرے جبکہ رامش اس کی رکھائی پہ حیران ہوتا آگے بڑھا تھا
اس نے اس کے روکھے لہجے کی وجہ پوچھنی مگر اس کا سپاٹ چہرہ دیکھتے اس نے اپنا خیال جھٹکا تھا اور قدم آگے بڑھائے تھے تبھی اس کے موبائل کی میسج ٹون بجی تھی اس نے بغیر رکے جیب سے موبائل نکالا اور میسج دیکھنے لگا جس کا نتیجہ یہ نکلا کے وہ کپڑوں والی ٹوکری نہ دیکھ سکا اور اس سے ٹھوکر کھا کے خود بھی نیچے گرا اور ٹوکری گرنے سے اس میں موجود کپڑے بھی اس میں سے نکل کے ادھر اُدھر زمین پہ سلامی دینے لگے تھے
“یہ کیا کیا آپ نے میری ساری محنت مٹی میں ملا دی آپ اپنی آنکھوں کا استعمال کر کے نہیں چل سکتے” زینیہ جو گیٹ بند کر کے اس کے پیچھے آ رہی تھی کپڑوں کو زمین پہ بکھرے دیکھ کر وہ غرائی تھی
رامش جو سیدھا ہو کے اپنے موبائل کو اٹھا رہا تھا اس نے اک نظر زینیہ کو دیکھا پھر زمین پہ بکھرے کپڑوں کو اور آخر میں اس کی نگاہ اپنے ہاتھ میں پکڑے موبائل پہ پڑی تھی جس کی سکرین زمین پہ گرنے سے ٹوٹ گئی تھی
“آئی ایم سوری” اس کے موڈ کو دیکھتے اپنے موبائل کی شہید ہوئی سکرین پہ فاتحہ پڑھتے اس نے معذرت کر لی تھی
“اچار ڈالوں میں آپ کی سوری کا پہلے دیکھنا ہوتا نہیں پھر سوری کر لو” وہ نیچے بیٹھ کے کپڑے ٹوکری میں ڈالتے بڑبڑا رہی تھی رامش نے حیرت سے اسے دیکھا تھا وہ تو زینیہ کو بڑی کم گو اور سنجیدہ سمجھتا تھا مگر وہ تو بھڑکا ہوا آتش فشاں لگ رہی تھی رامش نے مزید کچھ کہنے کی بجائے اندر جانا ہی مناسب سمجھا تھا زینیہ بھی اس کی پشت کو گھورتی واپس کپڑے دھونے کے لیے مڑی تھی
“یہ باہر زینیہ کیوں لوگوں کے خون کی پیاسی بنی ہوئی ہے؟” برآمدے میں آ کر رامش نے سلام دعا کے بعد پوچھا تھا
“لگتا ہے ہماری زینی کا غصہ رامش بھائی پہ نکل گیا ہے” فاتینا نے ہنستے ہوئے کہا تھا
“ہوا کیا ہے؟” فاتینا کی بات کو نظرانداز کرتے مریم نے رامش سے پوچھا تھا جس کے جواب میں اس نے ساری داستان سنائی تو چچی سمیت وہ دونوں بہنیں ہنس دی تھیں
“ابا سے ڈانٹ پڑی ہے اسے دو تین دن وہ ایسے ہی رہے گی” فاتینا نے ہنستے ہوئے اس کی معلومات میں اضافہ کیا تھا
“تو وہ کیا ڈانٹ کھانے کے بعد ایسی ہی خونخوار ہو جاتی ہیں؟” حیرت در حیرت تھی اس کے لیے اس کی بات سن کے فاتینا نے زوروشور سے سر ہلایا تھا
اس کی شکل پہ چھائی حیرانی دیکھ کر فاتینا کا زور زور سے ہنسنے کا دل کر رہا تھا مگر مریم کی ڈانٹ کے ڈر سے چپ تھی پھر تھوڑی دیر اور بیٹھنے کے بعد رامش اپنی والدہ کو لے کر چلا گیا تھا چچی سے ملتے ہوئے بھی زینیہ کا چہرہ سپاٹ ہی تھا اس کا ڈانٹ پہ ایسا ری ایکشن دیکھ کر رامش اپنے مستقبل کو لے کر پہلے ہی الرٹ ہو چکا تھا کہ اسے کھبی ڈانٹنا نہیں
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...