ڈاکٹر خالد سہیل( کنیڈا)
’وہ جب کہانی لکھنے بیٹھا تو اس کے ہاتھوں نے بغاوت کر دی‘
کچھ میرا بھی ایسا ہی حال تھا جب میں سلطان جمیل نسیم کے افسانوں کے مجموعے ’ایک شام کا قصہ‘ کے بارے میں اپنے تاثرات لکھنے بیٹھا۔اس سے پہلے میں بیسیوں کتابوں پر تبصرہ اور درجنوں ادبی شخصیات کے بارے میں اپنی رائے لکھ چکا ہوں۔ لیکن وہ کتاب پڑھ چکا تو میری آنکھیں نم تھیں اور ہاتھ شل۔ میں بہت کچھ لکھنا چاہتا تھا اور بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن جب انسان بہت کچھ کرنا چاہے تو کچھ بھی نہیں کر پاتا‘کچھ بھی نہیں کہہ پاتا‘ کچھ بھی نہیں لکھ پاتا۔چنانچہ میں نے قلم رکھ دیا اور بہت دیر تک خلاؤں میں گھورتا رہا۔اب اس سحر سے قدرے باہر نکلا ہوں تو کچھ لکھنے بیٹھا ہوں۔
اس کتاب میں جو کہانیاں ہیں اور جو خواب ہیں وہ سب ادھورے ہیں۔ادھورے اس لئے نہیں کہ افسانہ نگار کے فن میں کوئی کمی ہے۔ وہ ادھورے اس لئے ہیں کہ وہ متقاضی ہیں کہ قاری انہیں پڑھ کر اپنے اندر سمو لے اور وہ اس کے دل‘ اس کے ذہن اور اس کے شعور میں تکمیل کی حدوں کو چھوئیں کیونکہ یہی شہہ پاروں کا کمال ہے کہ وہ اپنے قاری کو شریکِ سفر بناتے ہیں اور مشترکہ منزلوں کی تلاش کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن میں نے جونہی ان کہانیوں اور خوابوں کو جذب کرنا چاہا میرا دل زخمی ہونے لگا۔ میرا ذہن کراہنے لگا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔میں ان کہانیوں کو اپنے شعور میں نہ رکھ سکا لاشعور میں اترنے لگیں اور ڈراؤنے خواب بن کر ڈرانے لگیں کیونکہ وہ خواب اس گلی‘ اس کوچے‘ اس شہر اور اس دھرتی کے ہیں جو میری بھی دھرتی ماں ہے لیکن میں نے پہلی بار افسانہ نگار کی زبان سے اس کی درد بھری کہانی سنی اور مجھے اندازہ ہوا کہ مجھے اس دھرتی ماں سے جدا ہوئے اتنا طویل عرصہ ہو گیا ہے اور میں اس کے درد و غم سے اتنا دور ہو گیا ہوں کہ ان کے بارے میں سوچتا ہی نہیں اور اگر سوچتا بھی ہوں تو زیادہ غور نہیں کرتا اور اگر غور کرنا بھی چاہتا ہوں تو کسی جرنلسٹ کے کالم سے متاثر ہو کر‘ کسی صاحبِ دل اور صاحبِ ذوق افسانہ نگار کی نگارشات سے متاثر ہو کر نہیں۔
سلطان جمیل نسیم نے ان کہانیوں میں کراچی شہر اور پاکستان کا کچھ اس طرح نقشہ کھینچا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ان کہانیوں میں فن اور زندگی کے سارے رشتے موجود ہیں جو ہمیں اس شہر کے مختلف باسیوں کے درد اور غم اور کرب سے متعارف کرواتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ پچھلی چند دہائیوں میں امن اور سکون سے زندگی گزارنے والے کیسے دہشت اور وحشت میں گھر گئے ہیں۔ ان کہانیوں میں:
۔۔ان بچوں کی کہانیا ں بھی ہیں جو بچپن سے ہی ماں باپ کے سائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
۔۔ان نوجوانوں کی کہانیاں بھی ہیں جو سکول اور کالج چھوڑ کر شدت پسند گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
۔۔ان جوانوں کی کہانیاں بھی ہیں جو ملازمت چھوڑ کر پستول خرید لیتے ہیں اور بھتہ جمع کرنے لگتے ہیں۔
۔۔ان ماؤں کی کہانیاں بھی ہیں جن کے بیٹے صبح گھر سے جاتے ہیں تو لوٹ کر نہیں آتے۔
۔۔ان باپوں کی کہانیاں بھی ہیں جو ملکی حالات سے اتنا گھبراتے ہیں کہ بیٹوں کوامن کی زندگی گزارنے کے لئے امریکہ بھیج دیتے ہیں اور پھر ان بیٹوں کی لاشیں واپس آتی ہیں کیونکہ انہیں کسی نے پراسرا رطریقے سے قتل کر دیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور
۔۔ان بہنوں کی کہانیاں بھی ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے بھائیوں کو سپاہی ہتھکڑیاں لگا کر لے جاتے ہیں
یہ کہانیاں پڑھتے پڑھتے انسان بھول جاتا ہے کہ دوست کون ہے اور دشمن کون‘ اپنا کون ہے پرایا کون۔کس سے بچا جائے‘ کس پر اعتماد کیا جائے۔یہ اس شہر کی کہانیاں ہیں جس پر خانہ جنگی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور خوف نے خیمے گاڑ دیے ہیں۔یہ خوف شہر میں ان نقاب پوشوں کا روپ دھار لیتا ہے جو اجنبی انسان کو دن دھاڑے اغوا کر کے لے جاتے ہیں اور جب وہ احتجاج کرتا ہے تو اذیت سہتا ہے
’میرے منہ پر ایک بھرپور طمانچہ پڑا‘ پسلیوں پر گھونسا اور پنڈلیوں میں ایک زور دار ٹھوکر‘
نجانے کتنے معصوم انسان نجانے کتنی قتل گاہوں میں بے وقت کی موت کا انتظار کرتے رہتے ہیں
بقول شاعر:
ہمارا شہر تو چھوٹا ہے لیکن ہمارے شہر کا مقتل بڑا ہی
اور جب کوئی قاتل کو تلاش کرنے نکلتا ہے تو اسے مصطفی زیدی کا شعر یاد آتا ہی
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانی
جب شہر کا یہ حال ہو تو لوگ گھروں میں چھپ جاتے ہیں ‘فیکٹریاں بند ہو جاتی ہیں اور درختوں سے چڑیاں اڑ جاتی ہیں اور یہ کسی شہر کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔ایسے شہر میں رہنے کا اثر یہ ہے کہ ہر شہری کہتا ہے ’خوف ایک دھند کی طرح مجھ پر پھیلتا رہا‘۔لیکن آخر ایسا کیوں ہے ؟ ہر حساس شہری اور ادیب پوچھتا ہے کہ کس نے ’لڑکوں کے ہاتھ سے کتاب چھین کر کلاشنکوف تھما دی ہے‘۔
سلطان جمیل نسیم ایک ماہر طبیب کی طرح اس شہرِ خوف کی علامات یوں بتاتے ہیں۔
’بچے کے منہ میں دودھ نہیں ہے خون ہے۔۔ماں کے سینے میں چھاتیاں نہیں ہیں زخم ہیں ۔ ۔ ۔ جوانوں کی شہہ رگ سے فوارے نکل رہے ہیں۔۔بوڑھے خاک میں روندے جا رہے ہیں۔۔ہوا سسک سسک کر کہہ رہی ہے بھاگ جاؤ۔۔زمین اچھال رہی ہے جاؤ۔۔پرچھائیاں چیخ رہی ہیں بھاگو۔۔میں کبھی انٹرکانٹی نینٹل کی طرف بھاگتا ہوں۔۔کبھی جنگل کی طرف دوڑتا ہوں۔۔اجتماعی قبریں منہ کھولے راستے میں پڑی ہیں‘
علامات بتانے کے بعد وہ ایک مسیحا کی طرح تشخیص بھی کرتے ہیں اور چبھتے ہوئے سوال بھی پوچھتے ہیں۔
’’ رکشوں کے شور اور بسوں کے دھوئیں کے ساتھ ساتھ نفرت کی دھند‘ بارود کی بو‘ مرنے والوں کی چیخیں‘ زخمی ہونے والوں کی کراہیں‘ پس ماندگان اور لواحقین کی گریہ و زاری سے ہوا بھی بوجھل ہو گئی ہے۔ فضا اتنی مسموم ہوئی کہ لوگ اپنے روزگار پر جاتے ہوئے خوف کھانے لگے۔۔۔یہ خانہ جنگی کیسی ہے۔۔؟ متحد ہو کر اپنے اصل دشمن سے مقابلہ کیوں نہیں کرتے۔ بھوک اور جہالت جو تمہاری نسلی دشمن ہیں انہیں کھلی چھوٹ کیوں دے رکھی ہے؟‘‘
سلطان جمیل نسیم ہر صفحے پر قاری کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہیں اور اسے آئینہ دکھاتے ہیں لیکن وہ آئینہ چکنا چور ہو چکا ہے کیونکہ اس شہر کے باسیوں کی انائیں چکنا چور ہو چکی ہیں ان کی کرچیاں عوام و خواص کے لاشعور میں گھس چکی ہیں۔کتاب کے آخر تک قاری لہو لہان ہو چکا ہوتا ہے۔
وہ کہانیاں پڑھ کر مجھے اپنی ایک غزل کے دو اشعار یاد آ گئے۔
کیا تم نے کبھی اپنا مقدر نہیں دیکھا ہر گھر میں جو بستا ہے یہاں ڈر نہیں دیکھا
راتوں کی تو کیا بات ہے اس شہر میں خالدؔ برسوں سے کبھی دن بھی منور نہیں دیکھا
آخر دن بھی منور نہ ہونے کی وجہ؟ بقول سلطان جمیل نسیم ’ ’اندھیریے میں لپٹی ہوئی اتنی راتیں اور اتنے دن گزر چکے تھے کہ ان کے ذہن میں روشنی کا تصور بھی دھندلا سا گیا تھا‘‘
سلطان جمیل نسیم نے اپنی کتاب کا نام اپنے افسانے ’ایک شام کا قصہ‘ کی وجہ سے رکھا ہے جس میں شہر کے میدان میں ایک لاش پڑی ہے اور سارے شہری اسے پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پہچان نہیں پاتے ۔۔۔’’اس لئے کہ وہ بے سر کی لاش ہے‘‘
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ وہ کون تھا جس کا سر قلم کر دیا گیا۔ اس سر میں کیا سودا تھا جو دوسروں کے لئے اتنی پریشانی کا باعث بنا کہ وہ اسے قبول نہ کر سکے۔آخر ایک شخص آتا ہے بے سر کی لاش کو دیکھتا ہے اور ہجوم سے خطاب کرتے ہو کہتا ہے ’’سنو۔۔یہ شخص۔۔یہ لاش جس کی بھی ہے وہ ہم میں سے تھا۔۔ہم شاید آج نہ پہچانیں۔۔لیکن کل۔۔ہماری گردنین اس کے احسان کے سامنے جھک جائیں گی کیونکہ یہ ہم میں سے ہے۔۔اور اس نے یہاں دیواروں میں پڑے شگاف دیکھے ہیں۔۔اس نے کوئی راستہ ضرور چنا ہوگا۔۔اس نے کوئی ایسی بات ضرور سوچی ہوگی جو ہم سب کو ایک لمبے عرصے بعد۔۔ایک عمر کی جدائی کے بعد۔۔اس سر زمین کی طرف لے جائے جو ہم سے روٹھی ہوئی ہے۔۔اسی لئے اس کا سر قلم کر دیا گیا۔۔آؤ۔۔ہم عہد کریں کہ اس دیوار کو۔۔۔‘‘
لیکن اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے لوگ جانے لگتے ہیں۔ وہ کہتا ہے:
’میری آواز ٹوٹ گئی۔۔میری بات ادھوری رہ گئی،،میدان میں کھڑے ہوئے لوگ آہستہ آہستہ رخ پھیر کے اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف ۔۔یہ اطمینان لئے واپس جا رہے تھے کہ ان کے سر ان کی گردنوں پر سلامت ہیں‘۔۔۔۔۔۔کہانی کا یہ کردار آخر لاش کے قریب جاتا ہے اور کہتا ہے
’’ پھر میں اسِ تنِبے جان کے اوپر یوں لیٹ گیا کہ اب کوئی دیکھے تو اس کو یہ لاش۔۔۔بے سر کی نظر نہ آئے‘‘
ایک مردہ جسم کو‘ ایک مردہ لاش کو اپنے سر کی قربانی دینا۔۔یہ سلطان جمیل نسیم کی ادبی کرامت ہے تخلیقی معجزہ ہے۔
ان کہانیوں میں سلطان جمیل نسیم جہاں قید و بند کی کہانیاں سناتے ہیں وہیں آزادی کے نغموں کا ذکر بھی کرتے ہیں۔جہاں تاریکی کا نوحہ سناتے ہیں وہیں روشنی کا مژدہ بھی بیان کرتے ہیں۔جہاں رات کا ذکر کرتے ہیں وہیں صبح کی امید بھی دلاتے ہیں۔اور ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم سب مسافر ہیں اور قافلوں کا حصہ ہیں اور ’ مسافروں کے گھر نہیں ہوتے اور قافلے پڑاؤ ڈالتے ہیں‘ ان قافلوں کی آنکھوں میں امن کے‘ آشتی کے‘ انصاف کے خواب ہیں اور وہ ایسے نوجوانوں‘ ایسے مسافروں اور ایسے جیالوں کی تلاش میں ہیں جو اپنے آدرشوں کے لئے قربانیاں دے سکیں اور ان خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کر سکیں ۔
سلطان جمیل نسیم کو یقین ہے ایک دن ان گلی کوچوں میں‘ اس شہر میں‘ اس دھرتی پر آشتی کا سورج نکلے گا لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ابھی خواب دیکھنے والے زندہ ہیں جو اس حقیقت سے باخبر ہیں صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کااور جوئے شیر لانے کے لئے وہ قربانیاں دینے کے لئے تیا ر ہیں
اگر سلطان جمیل نسیم میرے پاس ہوتے تو میں ان کو گلے لگاتا اور ان کا وہ ہاتھ چوم لیتا جس نے یہ فن پارے یہ شہہ پارے تخلیق کئے ہیں۔ میری نگاہ میں ’ایک شام کا قصہ‘ ایک ایسی کتاب ہے جو اردو ادب میں ان کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔
سلطان جمیل نے کہانی کی بنت اور اظہار کے لئے جو طریقہ اپنایا ہے وہ روایت سے گہری وابستگی رکھتے ہوئے بھی جدید انداز اور طرزِ احساس اور حسیت اظہار کے روایتی رویوں سے مل کر ان کے یہاں انفرادیت اور پہچان کی گواہی دیتے ہیں۔ان کی کہانیاں جدید عہد کے مسائل‘ فرد کی آزادی‘ اور آشوبِ شہر‘ شہروں کی میکانکی کیفیات اور کسی حد تک سیاسی سماجی صورت کا احاطہ کرتے ہوئے جدید عہد کے انسان کی بے سرو سامانی اور دکھ درد کی تصویریں پیش کرتی ہیں۔اِن کا فرد آشوب زدگی میں جینے کی امنگ لئے مسلسل آگے بڑھنے اور زندہ رہنے کے عمل سے گزرتا ہے۔اظہاری طور پر انہوں نے اگرچہ جدید علامتی اسلوب کو نہیں اپنایا ہے لیکن روحِ عصر اور موضوع کی سماجی ہم آہنگی نے اِن میں جدید طرزِاحساس کو ایک عجیب مزاج اور لہجے میں نمایاں کیا ہے اور یہی
ان کی پہچان ہے۔ رشید امجد