وہ متلاشی نگاہوں سے اردگرد دیکھ رہی تھی۔
“پتہ نہیں کہاں ہے وہ۔۔۔ مجھے یہاں چھوڑ کر خود نجانے کہاں چلا گیا۔”
وہ بڑبڑاتی ہوئی چل رہی تھی۔
“کچھ ڈھونڈ رہی ہیں بھابھی؟”
سامنے سے آتا احسن مسکراتا ہوا بولا۔
“نہی۔۔۔ہاں وہ۔۔۔ وائز کو۔”
وہ اٹک اٹک کر بولی۔
“وہ یہاں آ کر بھی سکون سے نہیں بیٹھتا چلیں میں فون کر کے پوچھتا ہوں پھر بتاتا ہوں آپ کو۔”
وہ کہتا ہوا آگے چل دیا۔
وہ سر جھکاےُ چلتی ہوئی کمرے میں آ گئی۔
“کیا کبھی سوچا تھا زندگی ایسی ہو جاےُ گی؟ ایک زانی انسان کے ساتھ رہنا پڑے گا۔”
وہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھی تھی۔
“اس سے تو اچھا یہی ہوتا میں مر جاتی ہاسپٹل میں۔۔۔ ابو آپ نہ آتے مرنے دیتے مجھے۔”
وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاےُ بلک رہی تھی۔
“مجھے یہ سب نہیں چائیے۔۔۔ یہ عیش و عشرت۔۔۔ مجھے بس ایک اچھا انسان چائیے تھا با کردار انسان۔۔۔اس وائز جیسا نہیں۔”
وہ ہچکیاں لیتی بول رہی تھی۔
گرم مادہ تیزی سے اس کے رخسار کو بھگو رہا تھا۔
“ایسے انسان کے ساتھ رہنے سے بہتر کیا موت نہیں؟ زرش تمہیں کیوں موت نہیں آتی؟ کیسے زندہ ہو تم؟”
آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔
وائز کب دروازہ کھول کر اندر آیا اسے علم ہی نہ ہوا۔
وہ بنا آہٹ پیدا کئے اس کے سامنے آ کر زمین پر بیٹھ گیا۔
یکدم اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو چہرے سے ہاتھ ہٹا دئیے۔
پہلی بار وائز کو تکلیف ہوئی تھی اسے دیکھ کر۔
اس کی سرخ انگارہ بنی آنکھیں جو شکایت کر رہی تھیں۔ چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
آج وہ خود کو اس کا مجرم گردان رہا تھا۔
“زرش؟”
وہ ہاتھ بڑھا کر بولا۔
وہ پلک جھپکنے سے قبل پیچھے ہو گئی۔
اسے ترس آ رہا تھا اس کی حالت پر۔
“تم ایسے کیوں رو رہی ہو؟”
وہ الجھ کر بولا۔
اسے کیا سوال کرنا چائیے تھا وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔
“خوش ہونا چائیے مجھے؟”
وہ تنک کر بولی۔
“دیکھو میں نکاح کر چکا ہوں تمہارے ساتھ۔”
وہ لب کاٹتا ہوا بولا۔
“نکاح کرنے سے وہ نگاہ مٹ نہیں جاےُ گا۔ تم میرے گناہگار ہو۔۔۔اور ہمیشہ رہو گے تم کچھ بھی کر لو اس گناہ کو ختم نہیں کر سکتے۔”
وہ کرب سے بول رہی تھی۔
“خدا کہتا ہے نفرت گناہ سے کرنی چائیے گناہگار سے نہیں۔۔۔ ”
وہ چہرہ جھکا کر بولا۔
“اور تم تو جیسے محبت کے لائق ہو نہ؟ تم تو میری نفرت کے بھی لائق نہیں۔”
وہ غم و الم کی حالت میں چلا رہی تھی۔
“ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن۔”
وہ بولتا ہوا خاموش ہو گیا۔
“مجھے طلاق دے دو۔۔۔ تمہارے ساتھ رہنا کسی سزا سے کم نہیں ہے۔ تمہاری یہ شکل دیکھتی ہوں تو وہ سب یاد آتا ہے مجھے۔ وائز تم مر کیوں نہیں جاتے؟”
وہ اس کا گریبان پکڑتی ہوئی بولی۔
وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔
اسے جیسے تکلیف ہوئی تھی۔
“ایسے تو مت بولو۔”
وہ سادگی سے بولا۔
“کاش۔۔۔ کاش میں تم سے بدلہ لے سکتی۔ لیکن میں نے اپنے رب پر چھوڑ دیا ہے۔ وہی حساب لے گا تم سے۔”
وہ جھٹکے سے اس کی کالر چھوڑتی کھڑی ہو گئی۔
وہ لب بھینچ کر فرش کو گھورنے لگا۔
اس کا ایک ایک لفظ سچ تھا۔
یہ لمحہ تھا جب اسے اپنے کئے پر افسوس ہونے لگا۔
~~~~~~~~
“آج تو نہیں جا سکتے تم دونوں۔”
گل ناز بیگم ملازمہ کو گھورتی اس سے مخاطب تھیں۔
“کیوں؟”
وہ بےچینی سے پہلو بدلتی ہوئی بولی۔
“آج احسن کی منگنی ہے تو بھائی اور بھابھی کا ہونا لازمی ہے۔”
وہ آہستہ سے بولیں۔
“جی۔۔ ”
وہ سر جھکا کر بولی۔
“بیٹا میں جانتی ہوں جو ہوا اس کا ازالہ ممکن نہیں لیکن پھر بھی وائز کی جانب سے میں معافی مانگتی ہوں۔۔۔ میں شرمسار ہوں کہ میری اولاد نے ایسا کام کیا۔”
وہ زرش کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوئی بولیں۔
آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔
“نہیں پلیز آپ معافی مت مانگیں۔”
وہ ان کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
“یہ بھی جانتی ہوں کہ اس معافی کا کوئی فائدہ نہیں لیکن کیا کر سکتی ہوں اب میں؟”
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولیں۔
“پلیز آپ یہ سب مت بولیں۔”
اسے برا لگ رہا تھا۔
“قصور تو میرا ہی ہے اسے اچھے برے کی تمیز نہیں سیکھا سکی میں۔۔۔ بیٹا تم ایک کام ضرور کرنا، اپنے بچوں کی تربیت میں ان کے باپ کو ہرگز بولنے مت دینا۔ ہم تو گاؤں کی ان پڑھ لڑکیاں شوہر کے آگے دب جاتی ہیں لیکن تم ایسا مت ہونے دینا۔”
وہ التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
“جی۔۔۔ ”
اس نے مسکرانے کی سعی کی لیکن مسکرا نہ سکی۔
“اگر مجھے خاموش کر کے بٹھایا نہ ہوتا تو شاید صورتحال کچھ اور ہوتی۔۔۔ ”
وہ باہر دیکھتی تاسف سے بولیں۔
زرش خاموش رہی۔۔۔ شاید بولنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔
“تم ایسا کرو اپنے کمرے میں جاؤ اب۔۔ وہ پارلر والی آنے والی ہو گی۔”
وہ شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولیں۔
“جی اچھا۔”
وہ سر ہلاتی باہر نکل گئی۔
گزشتہ روز کی مانند آج بھی وہی سماں تھا۔
گارڈن مہمانوں سے بھرا تھا۔روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔
نور بےچینی سے اردگرد دیکھتی چل رہی تھی۔
بلآخر وہ دکھائی دے گیا جس کی تلاش میں اس کی نگاہیں تھیں۔
وہ مسکراتا ہوا سٹیج کی جانب بڑھ رہا تھا۔
“یہ کیسا ستم ہے قسمت کا؟”
وہ ٹیبل پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
دو اشک ٹوٹ کر اس کے رخسار پر آ گرے۔
وہ مسکراتا ہوا سدرہ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
وہ ضبط کئے کھڑی تھی۔
دل اسے دیکھ کر کمزور پڑتا جا رہا تھا۔
وہ لب بھینچے اسے دیکھ رہی تھی۔
آنکھیں تھیں جو جل بجھ رہی تھیں۔
سرخ آنکھوں سے بہتے اشک اپنی ادھوری محبت کی داستاں سنا رہے تھے۔
احسن سدرہ کو انگوٹھی پہنا رہا تھا۔
ایک نظر اس نے نور پر ڈالی۔
نور دائیں ہاتھ سے چہرہ صاف کرنے لگی۔
آنسو تیزی سے بہنے لگے تھے۔
لب کپکپا رہے تھے۔
وہ دونوں انگوٹھی پہنا کر مسکراتے ہوۓ سب کو دیکھ رہے تھے۔
احسن کی نگاہیں ابھی بھی نور پر تھیں۔
نور نے بے رخی سے رخ موڑ لیا۔
اسے اپنی آنکھوں کے سامنے سیاہی دکھائی دے رہی تھی۔
اگلے لمحے وہ ہوش سے بیگانہ زمین بوس ہو گئی۔
وہ بےچینی سے اسے دیکھنے لگا۔
“نور۔۔۔ ”
کسی کی آواز گونجی اور سب اس کی جانب متوجہ ہوۓ۔
اسے اٹھا کر اندر کمرے میں لے گئے۔
کچھ ہی دیر میں اسے ہوش آ گیا لیکن فنکشن ختم ہو چکا تھا یا شاید وہ خراب کر چکی تھی۔
“تم ٹھیک ہو؟”
اس کے اردگرد سب خواتین موجود تھیں۔
“جی۔۔۔ ”
وہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔
“کیا ہوا تھا نور بیٹا؟”
گل ناز بیگم نرمی سے استفسار کرنے لگیں۔
“چکر آ گیا تھا شاید۔”
وہ اپنی کیفیت پر قابو پاتی ہوئی بولی۔
“آپا آپ لوگ ابھی یہی رک جائیں نور ٹھیک ہو جاےُ تو پھر چلے جانا۔ میں ملازمہ کے ہاتھ کچھ کھانے کو بھیجتی ہوں۔”
وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئیں۔
~~~~~~~~
“اب سب کو معلوم ہے تو تم یونی میرے ساتھ جاؤ گی۔”
وہ کمرے سے باہر نکلتا ہوا بولا۔
اس کا منہ میں جاتا ہاتھ رک گیا۔
“مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ۔”
وہ سرد مہری سے بولی۔
“مجھے کوئی بحث نہیں کرنی۔۔۔ بتا دیا ہے میں نے۔”
وہ کہتا ہوا کچن میں چلا گیا۔
زرش نے پلیٹ پرے کھسکا دی۔
ان کی شادی کی خبر کسی وبا کی مانند پوری یونی میں پھیل چکی تھی۔
وہ وائز سے قبل یونی میں داخل ہو گئی۔
آتے جاتے سٹوڈنٹس اسے دیکھ کر باتیں کر رہے تھے۔
“کیسی ہو زرش؟”
مشل اس سے ملتی ہوئی بولی۔
“ہاں۔۔ ٹھیک ہوں۔”
وہ بولتی ہوئی چلنے لگی۔
وائز متلاشی نگاہوں سے دیکھتا چل رہا تھا۔
جب اسے کوئی دکھائی نہ دیا تو فون نکال کر ڈیپارٹمنٹ کی جانب چل دیا۔
“ہاؤ کوڈ یو۔۔۔ ”
جینی اس کے سینے پر مکہ مارتی ہوئی بولی۔
اس سے قبل کہ وہ پھر سے وار کرتی اس نے جینی کا ہاتھ پکڑ لیا۔
پیشانی پر بل ڈالے وہ اسے دیکھنے لگا۔
“یہ سب کیا ہے؟”
وہ اس پر آنکھیں گاڑھتا ہوا بولا۔
“تم اس زرش سے کیسے شادی کر سکتے ہو؟”
وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔
“میری لائف میں جو مرضی کروں۔۔۔ تم کون ہوتی ہو مجھ پر حکم چلانے والی؟”
وہ اس کی کلائی پر گرفت مضبوط کرتا ہوا بولا۔
آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔
“آہ۔۔۔ وائز چھوڑو! مجھے درد ہو رہا ہے۔”
وہ اس کا ہاتھ ہٹانے کی سعی کر رہی تھی۔
چند قدم کی مسافت پر زرش اور مشل کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔
“اپنی حد میں رہا کرو تم جینی ورنہ بہت برا ہوگا۔”
وہ جھٹکے سے اس کی کلائی آزاد کرتا کلاس میں چلا گیا۔
“زرش تم نے تو بتایا ہی نہیں۔۔۔ ”
دائم شکایتی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
“پلیز مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی۔”
وہ بے رخی سے کہتی کلاس کی جانب چل دی۔
“زرش اب تم اس طرح سے بات کرو گی مجھ سے؟”
وہ اس کی راہ میں حائل ہو گیا۔
“اوکے آئم سوری۔۔۔ ٹائم کم تھا سو خیال نہیں رہا۔”
وہ پیشانی مسلتی ہوئی بولی۔
دائم کے ساتھ مشل کھڑی تھی۔
کلاس کے اندر کھڑا وائز ان تینوں کو دیکھ رہا تھا۔
پیشانی پر بل پڑ گئے۔ آنکھوں سے غیض چھلکنے لگا۔
گردن کی رگیں تنی ہوئی تھیں۔
“تم میری ہیلپ کر دینا جو لیکچر مس ہوۓ۔۔۔”
اس نے موضوع بدلا۔
“تمہیں جو ہیلپ چائیے ہو لے لینا اور ہاں۔۔۔ ”
دائم۔ پرجوش انداز میں بول رہا تھا۔
“یہ کیا ہو رہا ہے یہاں؟”
وہ دونوں کے بیچ آتا ہوا بولا۔
“دائم میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں۔”
وہ وائز کو نظر انداز کر کے کہتی ہوئی کلاس کی جانب بڑھنے لگی لیکن تبھی اس کی کلائی وائز کے ہاتھ میں آ گئی۔ مجبوراً اسے رکنا پڑا۔
“کیا مصیبت ہے تمہیں؟”
وہ ضبط کرتی مدھم آواز میں بولی۔
“عزت دار گھرانے کی لڑکیاں یہ سب نہیں کرتیں۔”
وہ چبا چبا کر بولا۔
“تمہیں یہ زیب نہیں دیتا۔ اور مجھ پر رعب جمانا بند کرو۔ میں تمہاری جاگیر نہیں ہوں۔”
وہ کاٹ دار لہجے میں بولی۔
وہ اسے کلاس سے باہر لے آیا۔
“تم میری جاگیر ہی ہو۔ ہمارے ہاں عورتیں شوہر کے علاوہ کسی کو نظر اٹھا کر دیکھتی بھی نہیں ہیں۔ اور تم۔۔۔ ”
وہ خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا بولا۔
“یقیناً ایسا ہی ہوتا ہوگا کیونکہ ان کے شوہر زانی نہیں ہوں گے نہ۔۔۔”
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔
یہ الفاظ وائز کے منہ پر آ لگے۔
وہ دانت پیستا اسے گھورنے لگا۔
“پہلے اپنا دامن صاف کرو دوسروں پر کیچڑ بعد میں اچھالنا۔ اور تم جیسے گھٹیا انسان کو ضرورت نہیں مجھے عزت کا سبق سیکھانے کی۔”
وہ چبا چبا کر کہتی کلاس میں چلی گئی۔
“ہوں۔۔۔ ”
وہ دیوار پر مکہ رسید کرتا ضبط کرنے لگا۔
“تم مجھے پاگل کر دو گی۔”
وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلنے لگا۔
~~~~~~~~~
“یہ کیا ڈرامہ کیا تھا تم نے میری منگنی والے دن؟”
وہ فون کان سے لگاےُ خفگی سے بولا۔
“وہ ڈرامہ تھا؟”
وہ متحیر رہ گئی۔
“اور کیا تھا؟”
وہ تنک کر بولا۔
“تم کہہ رہے ہو تو پھر ڈرامہ ہی ہوگا۔”
وہ سرد آہ بھرتی ہوئی بولی۔
“اب تو بہت خوش ہو گی نہ تم؟”
وہ طنز کر رہا تھا۔
“ہاں بلکل۔۔۔ اب میں بھی آزاد ہو گئی ہوں۔”
وہ بچی کچی عزت سمیٹنا چاہتی تھی۔
“تبھی یہ منگنی کی میں نے تاکہ تمہارے راستے سے رکاوٹ ہٹ جاےُ۔”
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
“شکر ہے کبھی تم نے میرا بھی خیال کیا۔”
وہ ہاتھ کی پشت سے رخسار رگڑتی ہوئی بولی۔
“لیکن تمہیں تو کبھی نہیں آےُ گا۔”
وہ شکوہ کر گیا۔
“میں جتنا بھی کر لوں تمہیں دکھائی ہی نہیں دے گا۔ تم بس وہی دیکھو گے جو دوسرے لوگ دکھائیں گے۔”
وہ تاسف سے بولی۔
“میں اپنی آنکھوں پر یقین رکھتا ہوں۔۔ اتنا بیوقوف نہیں ہوں جو لوگوں کی باتوں پر اعتبار کر بیٹھوں۔”
وہ تلملا اٹھا۔
“عجیب بات ہے نہ منگنی کرنے کے بعد بھی تم مجھ سے بات کر رہے ہو۔۔ ”
وہ پے دے پے وار کرنے لگی۔
“تم سے بات کرنے کا روادار کون ہے یہاں۔۔ ”
کہتے ساتھ ہی اس نے کھٹاک سے فون بند کر دیا۔
وہ نم آنکھوں سے فون کو دیکھتی مسکرانے لگی۔
~~~~~~~~
اس دبیز خاموشی میں اسے کسی کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا کمرے کے پاس آیا۔
دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا۔
نیم تاریکی میں کوئی وجود زمین پر بیٹھا سسکیاں لے رہا تھا۔
وہ بےچینی سے آگے بڑھا۔
“کون ہو تم؟”
اس کی آواز کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔
وہ چہرہ اٹھا کر شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
ان آنکھوں میں تیرتا کرب اسے واضح دکھائی دے رہا تھا۔
“تم میرے گناہگار ہو۔”
زرش اشک بہاتی ہوئی بولی۔
اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں۔
کمرے کی لائٹ آن تھی۔
وہ پوری آنکھیں کھولے چھت کو گھورنے لگا۔
“کیا وہ خواب تھا؟”
وہ بولتا ہوا بیٹھ گیا۔
جگ سے گلاس میں پانی انڈیلا اور پینے لگا۔
“وہ میرے باعث تکلیف میں ہے۔”
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔
“میں کیا کروں اب؟”
وہ بے چینی سے بولا۔
“میں نے غلط کیا اسکے ساتھ، ایک کمزور لمحے میں وہ فیصلہ لیا۔ وائز تم تو کسی کو اس کی اجازت کے بنا چھونے کے روادار نہیں تھے۔ اب کییسے اس کی یہ تکلیف دور کروں؟”
وہ مدھم آواز میں سرگوشیاں کر رہا تھا۔
“اس کا کوئی جرم نہیں تھا لیکن پھر بھی میں نے اسے سزا دے دی۔ وائز رضی حیات تم اس کے مجرم ہو۔”
وہ اسی پوزیشن میں بول رہا تھا۔
نیند آنکھوں سے خفا ہو چکی تھی۔
وہ چہرہ اٹھا کر کھڑکی سے پار دیکھنے لگا۔
پورا شہر نیند میں ڈوبا ہوا تھا۔
وہ بیڈ سے اتر کر ٹہلنے لگا۔شاید ایک وہی تھا جو رات کے اس پہر بےچین تھا۔
وہ لائٹ آف کر کے واپس بیڈ پر آ گیا۔
وہ بار بار کروٹ بدل رہا تھا لیکن نیند تو جیسے اب خفا ہو گئی تھی۔
“اب اس ٹائم کیا کروں میں؟”
وہ کوفت سے کہتا اٹھ بیٹھا۔
کچھ سوچ کر اس نے سیگرٹ اور لائٹر نکالا اور صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔
“شاید اس سے کچھ افاقہ ہو جاےُ۔”
وہ سرمئی دھواں اڑاتا ہوا بولا۔
باقی کی رات یونہی سیگرٹ پیتے بسر ہوئی کیونکہ نیند اس پر مہربان نہ ہوئی۔
~~~~~~~~
3 ماہ بعد:
ہر رات کی مانند آج بھی وہ اٹھ بیٹھا۔
“یہ خواب میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ رہا؟ کیسے اس سے جان چھڑواؤں؟”
وہ سر پکڑتا ہوا بولا۔
“تم مجھے معاف نہیں کرنا چاہتی۔۔۔ میں کیسے ازالہ کروں اپنی اس غلطی کا؟”
وہ جھنجھلا کر کہتا لیمپ آن کرنے لگا۔
گزشتہ تین ماہ سے اس کے ساتھ یہی ہو رہا تھا۔
رات گئے اس کی آنکھ کھل جاتی اور باقی کی آدھی رات وہ سیگرٹ پی کر گزارتا۔
صبح کی کرن کے ساتھ وہ سیگرٹ ایش ٹرے میں مسلتا باہر نکل آیا۔
معمول کے مطابق زرش کچن میں تھی۔
“ایک کپ چاےُ مل سکتی ہے؟”
وہ سر پر ہاتھ رکھے کرسی پر بیٹھ گیا۔
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
سرخ نیند سے بوجھل آنکھیں۔
وہ نوٹ کر رہی تھی اکثر اس کی آنکھیں ایسی ہی ہوتیں۔
“یہ لو۔”
وہ کپ اس کے سامنے ٹیبل پر رکھتی ہوئی بولی۔
“تم مجھے معاف نہیں کر سکتی؟”
وہ زرش کو نہیں دیکھ رہا تھا۔
وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگی۔
“آج تمہیں کہاں سے یاد آ گئی معافی کی؟”
وہ طنز کر رہی تھی۔
“پہلے بھی مانگ چکا ہوں۔”
وہ اس کی جانب دیکھتا ہوا بولا۔
“اور میں پہلے بھی جواب دے چکی ہوں۔ بار بار پوچھنے پر بھی جواب وہی رہے گا بدلنے والا نہیں اس لئے یہ کوشش ترک کر دو۔”
وہ کہتی ہوئی کچن میں چلی گئی۔
وہ کپ کو گھورنے لگا۔
“ایسے کب تک چلے گا؟”
وہ ضبط کرتا ہوا زور سے بولا تاکہ وہ سن سکے۔
“جب تک ہم دونوں میں سے کوئی ایک مر نہیں جاتا۔”
وہ بےحسی سے گویا ہوئی۔
وہ اثبات میں سر ہلاتا چاےُ پینے لگا۔
~~~~~~~~
“امی رکشے میں چلتے ہیں۔۔۔میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔”
زرش چادر اٹھاتی ہوئی بولی۔
“وائز گھر نہیں تھا کیا؟”
وہ پرس اٹھاتی ہوئی بولیں۔
“آج سنڈے ہے گھر پر ہی تھا۔”
وہ سر جھکا کر چلنے لگی۔
“پھر بھی تم اکیلی آئی ہو؟”
وہ آہستہ سے بولیں۔
“مجھے عادت ہے۔”
وہ مختصر سا کہہ کر رکشہ دیکھنے لگی۔
وہ سرد آہ بھرتیں اسے دیکھنے لگیں۔
وقت کے ساتھ ماں باپ کو تو صبر آ گیا تھا لیکن زرش جیسے آج بھی وہیں کھڑی تھی۔
“کیا ہوا ڈاکٹر سب ٹھیک ہے نہ؟”
ثریا فکرمندی سے بولی۔
“جی جی۔۔۔ مبارک ہو آپ نانی بننے والی ہیں۔”
وہ پیشہ ورانہ مسکراہٹ لئے بولیں۔
“نانی۔۔ ”
وہ زیر لب دہراتی مسکرانے لگیں۔ لیکن اگلے ہی لمحے اس خوشی پر اوس پڑ گئی۔
“آپ انہیں چیک اپ کے لئے لاتی رہیے گا۔”
ثریا اثبات میں سر ہلاتی کھڑی ہو گئی۔
زرش سن چکی تھی۔
اس کے چہرے پر خوشی کی رمق تک نہ تھی۔
“چلو گھر چلیں۔۔ ”
وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
“آپ جائیں۔۔۔ میں اپنے گھر جا رہی ہوں۔”
وہ اپنا ہاتھ چھڑواتی ہوئی بولی۔
چہرہ سپاٹ تھا۔
“تم ٹھیک ہو؟”
انہیں پریشانی لاحق ہوئی۔
“جی۔۔۔ ”
وہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔
“اچھا ٹھیک ہے پھر۔”
وہ سانس خارج کرتی رکشے میں بیٹھ گئیں۔
زرش لب کاٹتی انہیں نظروں سے اوجھل ہوتا دیکھ رہی تھی۔
“عجیب سے حالات ہے۔۔ کم از کم میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ کچھ لوگ ترستے ہیں اس نعمت کے لئے اور مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں؟”
وہ منہ پر ہاتھ پھیرتی چلنے لگی۔
اس نے چابی نکالی اور اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول کر اندر آ گئی۔
توقع کے مطابق وائز لاؤنج میں بیٹھا چینل بدل رہا تھا۔
ہاتھ میں سیگرٹ تھی۔
“تم مجھے بتا کر بھی جا سکتی تھی۔”
وہ ایل ای ڈی کی آواز بند کرتا ہوا بولا۔
“جانتی ہوں۔”
وہ کہتی ہوئی اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔
“اس کا کیا ری ایکشن ہو گا؟”
وہ وائز کو دیکھتی سوچنے لگی۔