حرمین مجھے تم سے بات کرنی ہے ابھی۔۔۔ وقار بہت غصے میں لگ رہا تھا۔۔۔
حرمین آج اکیلے ہی لیب میں بیٹھی پراجیکٹ فائل تیار کر رہی تھی، کیونکہ شفا طبعیت کہ ناساز ہونے کی وجہ سے آج کلاس کہ لیے نہیں آی تھی۔۔
کیا ہوا وقار؟؟ حرمین چونک اٹھی پانچ ماہ بعد وقار حرمین سے بات کرنے آیا تھا ۔۔ حرمین کہ انکار کے بعد وقار نے حرمین سے دور رہنا شروع کردیا تھا۔۔۔
کیا تم دس منٹ کہ لیے میرے ساتھ کلاس میں چل سکتی ہو؟ مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے تم سے۔۔۔ وقار نے سرد لہجے میں کہا۔۔۔
ہاں بولو وقار اچانک کیا ہو گیا؟؟ حرمین تشویش کہ عالم میں اسے دیکھ رہی تھی۔۔
وہ دونوں کلاس روم کہ بیچ میں کھڑے تھے دو طرف کی دیوار شیشے کی بنی ہوئ تھی۔۔ اور سامنے کی پوری دیوار پر وائٹ بورڈ لگا ہوا تھا۔۔
تم یہ بتاو کہ ہماری دوستی کو ایک سال ہو گیا ہے نہ؟؟ وقار بھویں چڑھا کر پوچھ رہا تھا۔۔
ہاں تو؟؟ حرمین نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔۔۔
تم مجھے اپنا بیسٹ فرینڈ مانتی تھی نہ۔۔۔ تم نے مجھے جس کو تم اپنا سب سے اچھا دوست مانتی تھی اسکو ریجکٹ کردیا۔۔۔ اور وہ لڑکا جس کو یہاں آے ہوے ابھی صرف پانچ ماہ ہی ہوے ہیں تم نے اسکا پرپوزل اکسیپٹ کر لیا؟؟ کیوں؟؟؟ تم جانتی ہی کتنا ہو اسکو؟؟ کتنا؟؟
کیونکہ وہ دونوں اس وقت کالج میں تھے اس لیے وقار بہت آہستہ سے بات کر رہا تھا لیکن اسکے لہجے کی سختی صاف نظر آرہی تھی۔۔۔
دیکھو وقار بات ایک سال یا پانچ ماہ کی نہیں ہوتی۔۔۔ دل ہے کسی پر بھی آسکتا ہے۔۔ اور تم مجھے ہر لحاظ سے ایک اچھے انسان لگتے ہو مگر میرے دل میں کبھی تمھارے لیے کچھ تھا ہی نہیں۔۔۔ اصفر مجھے اچھا لگا مجھے نہیں پتا کیوں کب کیسے میں اس میں انٹرسٹ لینے لگی مگر میں نے جان بوجھ کر تو اس سے محبت نہیں کی نہ۔۔۔ حرمین بہت اطمینان سے اسکو سمجھا رہی تھی۔۔۔۔
مجھے کیوں ریجکٹ کیا؟؟ اس لیے نہ کہ میں اصفر سے ذیادہ اسمارٹ نہیں ہوں خوبصورت نہیں ہوں میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے۔۔۔ وقار اسکی توہین کر رہا تھا۔۔۔
بکواس بند کرو اپنی۔۔۔ پیسہ، خوبصورتی سب آنے جانے کی چیز ہیں۔۔۔ ساری بات دل کی ہوتی ہے۔۔ اور میں کیا اس کہ پیسے پر عیاشیاں کرتی ہوئی نظر آرہی ہوں تمھیں؟؟ حرمین کو اپنی توہین برداشت نہیں ہوئ۔۔۔۔
تو پھر۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ آگے کچھ کہتا کلاس میں باقی اسٹوڈنٹ آنے لگے تھے اس لیے اسکی بات ادھوری ہی رہ گی۔۔۔
___________________________
گول ٹیبل کہ چاروں طرف کرسیوں پر لڑکے بیٹھے تھے۔۔ انکے ہلیے انکے خاندانوں کا پتہ دے رہے تھے سب کہ ہاتھ میں سگریٹ اور منہ میں چھالیا چل رہی تھی۔۔
مبائل پر میسج کی ٹون پر اس نے مبائل اٹھایا جسکی اسکرین پر حرمین کا نام چمک رہا تھا۔۔۔ (بہت یاد کر رہی ہوں تمھیں کہاں ہو) میسج پڑھ کر اسکے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکان آئ اس سے پہلے وہ مسیج ٹائپ کرتا اسکے برابر میں بیٹھے لڑکے نے ٹوک دیا۔۔۔
یار اصفر چھوڑ نہ موبائل کو مجھے ٹپ دے یار اس میچ پر میرے ایک لاکھ لگے ہیں۔۔۔ شاداب بہت پریشان لگ رہا تھا۔۔۔
کرتا ہوں کچھ میں۔۔۔ اصفر نے اسکو ٹال دیا۔۔۔
موبائل پر ایک بار پھر میسج ٹون سنائ دی اصفر نے موبائل اٹھایا اور میسج ٹائپ کیا۔۔۔۔
یار تجھے میں کیا کہہ رہاں ہوں تو اس فضول کام میں لگا ہے چھوڑ اسکو رکھ یہ موبائل۔۔۔ اس بار شاداب نے غصے میں کہا۔۔
میں تیرے باپ کا نوکر نہیں ہوں سمجھا۔۔۔۔ جا۔۔۔ جا کر خود دیکھ اپنا کام۔۔۔ اصفر ایک جھٹکے میں کرسی سے اٹھا اور اسکو بری طرح سناتا ہوا چلا گیا۔۔۔
فل سپیڈ میں وہ کار ڈرائیو کر رہا تھا جب اسکے موبائل پر کال آی۔۔۔۔
ہیلو۔۔ اصفر نے کال یس کرتے ہی پہلا جملا بولا۔۔۔
جہاں بھی ہو ابھی اسی وقت میرے آفس میں آو۔۔۔ دوسری طرف سے ابراہیم احمد کی بھڑکتی ہوئ آواز آی۔۔۔
کیوں۔۔۔۔ اصفر نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
تمھارے اس کیوں کا جواب میں تب دونگا جب تم یہاں آو گے۔۔۔ ابراہیم احمد کے لہجے کی سختی اسے پریشان کر رہی تھی۔۔۔
اس سے پہلے وہ جواب دیتا ابراہیم احمد فون رکھ چکے تھے۔۔۔
،_________
دس مالے کی بلڈنگ کہ تھرڈ فلور پر واقعہ اس آفس کے اندر خوبصورت چیئر پر وہ اکیلا ہی بیٹھا تھا۔۔۔ کچھ دیر بعد شیشے کہ دروازے سے ابراہیم احمد اندر تشریف لاے۔۔۔
یہ تم کیا حرکتیں کر رہے ہو؟؟ وہ سخت لہجے میں سوال کر رہے تھے۔۔۔۔
کیا مطلب ہے۔۔۔ کیسی حرکتیں؟؟ اصفر کو کچھ شک ہوا۔۔ وہ جتنے بھی غلط کام کرتا تھا وہ سب ابراہیم احمد سے پوشیدہ تھے۔۔ پھر ایسی کیا بات ان کے علم میں آگی تھی جو وہ اس طرح ری ایکٹ کر رہے تھے۔۔۔
ذیادہ انجان مت بنو سجھے۔۔۔ آج صبح میرے پاس ایک لڑکی کی کال آی ہے اور اس نے کہا ہے کہ تمھارے پاس اسکی تصویریں ہیں اور تم اسکو بلیک میل کر رہے ہو کہ وہ تم سے ملنے نہیں آی تو تم اسکو بدنام کر دوگے۔۔۔ ابراہیم احمد دونوں مٹھیاں بند کیے خود کو کنٹرول کر رہے تھے۔۔۔
کیا۔۔۔ وہ ایک دم سے کرسی سے کھڑا ہوگیا۔۔ یہ کیا بکواس کر رہی ہے وہ لڑکی میں ایسی کسی لڑکی کو نہیں جانتا۔۔۔ وہ اپنی صفائ پیش کر رہا تھا۔۔۔
جھوٹ مت بولو اس لڑکی کو تم نہیں جانتے تو اسکو تمھارا نام کیسے پتا اسنے مجھے تمھاری تصویر تک دکھائ ہے۔۔۔ ابراہیم احمد کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔۔۔
وہ سوچ میں پڑ گیا اس نے آج تک اپنی زندگی میں بہت غلط کام کیے تھے مگر کسی لڑکی کی عزت پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا کیوں کہ اسکی نظر میں یہ ایک مرد کہ درجے سے نیچے گرا ہوا کام تھا اور اسکو اپنی مردانگی پر بہت ناز تھا۔۔۔ پھر کون تھی وہ لڑکی جو اسکو پھسا رہی تھی۔۔
محبت ایک خواہش ہے جسکے پورے ہونے پر اسکی جستجو ختم ہوجاتی هے، جیسے بچپن میں تم کسی کھلونے کی ذد کرتی تهیں اور جب تک ابو نہ دلاتے تهے تم اسکے لیۓ تڑپتی رہتی تهیں اور جب ابو تمھاری خواہش پوری کر دیتے تهے تو تم کچھ دیر کھیلنے کہ بعد اسکو کمرے کہ کسی کونے میں پهیک کر کسی دوسرے کھلونے سے کھیلنے کو چلی جاتی تهیں۔۔۔۔۔۔شزا نے اپنی بات مکمل کر کے اپنا رخ اسکی طرف کیا،
مگر وه اب تک نیلے آسمان میں چمکتے ستاروں کو گھور رہی تهی، وه دونوں کافی دیر سے چھت پر آسمان کے نیچے لیٹی ستاروں کی جھرمٹ میں گم تهیں۔۔۔۔۔
شزا حرمین کی تایا زاد بہن تھی۔۔ تایا ابو اور تائ امی کہ انتقال کہ بعد اسکو( اشفاق صدیقی ) حرمین کہ والد نے پالا تھا۔۔۔ شادی کہ بعد وہ دوسری بار یہاں آی تھی۔۔۔
تمهے میری بات سمجھ آی؟؟ شزا نے اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلاتے ہوۓ کہا۔۔۔
جسکے بارے میں آپ مجھے سمجھا رہی ہیں وه محبت نہیں دل لگی ہے، اسکی نگاہیں اب بھی آسمان میں کھوئ ہوئی تهیں۔۔۔
اچھا وه کیسے؟؟ شزا نے جھٹ سے سوال کر دیا۔
جب انسان دنیا میں آتا ہے تو سب سے اول محبت کرتا ہے اپنی ماں سے، اگر آج ابو ہماری امی کو چھوڑ ریں اور دوسری بیوی لے آۓ تو کیا تم سوتیلی ماں سے محبت کر لوگی اور اپنی ماں کو چھوڑ دوگی؟؟ نہیں نہ، پتہ ہے کیوں؟ کیونکه محبت ایک خدمت ہے ایک عبادت ہے جب ہمیں کسی سے محبت ہوتی ہے تو ہم اپنے محبوب کو محبت سے سنوارتے ہیں اور جب ہم اسکو سنوارتے ہیں تو ہمارا رنگ اسکے رنگ میں مل جاتا ہے، وه ہمارے لیۓ عام سے خاص ہوجاتا ہے، محبت ہمارے لیۓ کھلونه نہیں مشغلہ بن جاتی ہے، جیسے ایک بچے کا بہترین مشغلہ کھلونے سے کھیلنا ہوتا ہے، ویسے ہی ہمارا مشغلہ محبوب سے محبت کرنا بن جاتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا،
محبت کر کہ سکون ملتا ہے جبکه دل لگی صرف دل بہلاتی ہے۔۔۔
تم نہیں سمجھو گی حرمین۔۔۔ شزا نے گردن دوسری طرف موڑ لی۔۔۔
__________________
ناشتے کی میز پر ابھی وہ آکر ہی بیٹھا تھا کہ ابراہیم احمد اس پر برس پڑے۔۔۔
میں نے تمھیں سمجھایا تھا نہ کہ اس لڑکی سے دوبارہ کوئی رابطہ نہیں کرنا۔۔۔
میں اس لڑکی کو جانتا نہیں ہوں تو رابطہ کیا کروں گا ڈیڈ۔۔۔ وہ ہر الفاظ پر زور دے رہا تھا۔۔۔
اور کتنا جھوٹ بولو گے؟؟ اس نے مجھے رات کو پھر کال کی تھی کہ تم اسکو دھمکا رہے ہو۔۔۔ وہ اس پر برس رہے تھے۔۔۔
بس کردیں آپ۔۔۔ وہ لڑکی جھوٹ بھی تو بول سکتی ہے نہ ہمارے بیٹے کو بدنام کرنے کہ لیے؟؟ کلثوم اصفر کی حمایت لینے لگیں۔۔۔
ایک دن میں۔۔۔ ایک دن میں پتہ لگا لوں گا کہ وہ کون ہے بس آپ ایک دفعہ میرا اس لڑکی سے سامنا کروادیں۔۔۔ وہ غصے بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔۔۔
بس کردو۔۔۔۔ تم جانتے ہو اسکو۔۔ جتنے کونفیڈینس سے وہ کہہ رہی ہے مجھے تو لگتا ہے یہ کافی پرانہ شوق ہے تمھارا۔۔۔۔ وہ طنز کے تتر چلا رہے تھے۔۔۔
اووہ پلیز ڈیڈ۔۔۔۔ آپ میرا لیول جانتے ہیں اگر مجھے ایسے شوق پالنے ہی ہوں تو میں اپنے لیول کہ مطابق پالوں گا۔۔۔ اور آپ میرے کال ریکارڈ چیک کرلیں۔۔۔ پتہ چل جاے گا۔۔۔ وہ آپے سے باہر ہو رہا تھا۔۔۔۔
ٹھیک ہے اگر وہ واقعی تمھیں پھسا رہی ہے تو میں کل تک پتا کروالوں گا اور اگر تمھاری بات بال برابر بھی جھوٹ نکلی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔ کیونکہ یہ میری ریپوٹیشن کا سوال ہے۔۔۔۔
________________________________
صبا تمھاری وجہ سے ہر رشتہ ٹھکرا رہی ہے۔۔۔۔ پلیز وقار بیٹا مان جاؤ بہت چاہتی ہے وہ تمھیں۔۔۔ شاہدہ بیگم نرمی سے اسکا ہاتھ تھام کر سمجھا رہی تھیں۔۔۔
امی کسی نے میری زندگی کو عذاب بنا یا اب میں کسی کی زندگی عذاب بناؤ؟؟ جب میں اسکو چاہتا ہی نہیں ہوں تو کیوں اسکو اپنی زندگی میں شامل کروں؟؟؟ میں اکیلا جل رہا ہوں اس آگ میں کسی اور کو اپنے ساتھ نہیں جلا سکتا۔۔۔۔ اسکے الفاظ لڑکھڑا رہے
تھے۔۔۔
بیٹا تم جب صبا سے اپنی محبت کو بدلو گو تو تم اس آگ سے نکل جاؤ گے۔۔۔ وہ بہت پیار سے اسکو سمجھا رہی تھیں۔۔۔
زینب کسی اور کو چاہتی تھی۔۔۔ حرمین کسی اور کو چاہتی ہے۔۔ کیوں میرے نصیب میں میری محبت نہیں ہے؟؟ وہ بھیگی آنکھوں سے شاہدہ بیگم کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
بیٹا نصیب کی بات نہیں کرو۔۔۔ ہاتھ سے چھین کر لے جا سکتا ہے کوئی نصیب سے چھین کہ نہیں لے جا سکتا۔۔۔ وہ وقار کہ سر پر ہاتھ پھیر رہی تھیں۔۔۔
اگر نصیب خراب نہیں ہے تو آج کیوں رو رہا ہوں میں؟؟ وہ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔۔۔
انسان اپنی ہی کوتاہیوں کی وجہ سے روتا ہے۔۔ ہر بار نصیب کی خرابی نہیں ہوتی کبھی کبھی انسان خود غلط فیصلے کرلیتا ہو جو اس وقت تو بہت اچھے لگتے ہیں لیکن ان کے نتائج انسان کو توڑ دیتے ہیں۔۔۔ ہیرا چاہے کتنا ہی قیمتی کیوں نہ ہو اگر منہ کو لگا لیا تو موت واقعہ ہوجاتی ہے۔۔۔ وہ اسکے سر میں انگلیاں پھیرتے ہوے کہہ رہی تھیں۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...