اس کی ماں غم سے نڈھال تھی باپ کا دل جیسے پھٹا جا رہا تھا اور وہ خود ہاسپٹل کے ٹھنڈے کوریڈور پر گھٹنوں کے بل جھکی گڑگڑاتے ہوئے اس کے لئے دعائیں مانگ رہی تھی۔
چھ گھنٹے تک اس کا آپریشن چلا تھا ڈاکٹرز نے بتایا کہ وہ کومہ میں جا چکا ہے دعا کریں صبح تک ہوش آ جائے گا۔
اور وہ رات تو صدیوں جیسی طویل ہو چکی تھی صبح کے انتظار میں اس کی آنکھیں تھک گئیں، دعائیں مانگتے اس کے لب سوکھ گئے اور جب صبح ہوئی تو وہ مر گیا، اس کا بھائی مرگیا۔
اس کا باپ اپنے بال نوچ رہا تھا اس نے زنبیل شاہ کو اپنے ہاتھوں سے کھلایا تھا اسے اپنے کندھوں پر بٹھا کر باغ کی سیر کروائی تھی اس کی کبھی کوئی فرمائش نہیں ٹالی تھی اس میں انہیں اپنا راہب نظر آتا تھا اور اس نے ان کے بیٹے کو مار ڈالا تھا وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
وہ سونم سے کہہ رہے تھے اور سونم کے لئے انہیں سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔
اگلے روز انگلینڈ سے پھپھو بھی آ چکی تھی گھر میں ایک بار پھر سے صف ماتم بچھ گئی اور یہ دکھ اب کبھی پرانا ہونے والا نہیں تھا۔
٭٭٭
’’اماں تھوڑا سا کھا لو۔‘‘ وہ نوالہ ہاتھ میں لئے اماں کے پاس بیٹھی تھی اماں نے پچھلے دو روز سے کچھ نہیں کھایا تھا اب بھی سونم بڑی لجاجت اور نرمی سے کھانے پر اصرار کر رہی تھی جب اماں نے اتنی عجیب بات کہی کہ ضبط کے باوجود اس کی آنکھوں میں سمندر اُمڈ آیا۔
’’تم کھالو میں تو راہب کے ساتھ کھاؤں گی۔‘‘ اماں نے اسے پچکارا تھا اور وہ روتے ہوئے حواس باختہ سی اماں کو دیکھے جا رہی تھی۔
’’اس میں رونے والی کیا بات ہے اب راہب کے بغیر کھانا کھانے کی عادت بھی نہیں رہی میں دیکھوں ذرا کہاں رہ گیا۔‘‘ وہ اسے ڈپٹتے ہوئے خود دروازے میں جا کھڑی ہوتیں ان کے سامنے ہی تو راہب کی میت اٹھی تھی پھر بھلا ایسی باتیں … اماں کو کیا ہو گیا تھا۔
’’ابا!‘‘ وہ اٹھ کر ابا کے کمرے میں آئی تاکہ انہیں مطلع کر سکے مگر وہ سینے پر ہاتھ رکھے درد سے دوہرے ہوئے جا رہے تھے اس کے لبوں سے بے ساختہ چیخ نکل گئی تھی پھپھو کے ساتھ مل کر وہ فوراً انہیں ہاسپٹل لے گئی تھی بروقت طبی امداد ملنے کی وجہ سے ان کی جان تو بچ گئی لیکن ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ ان کے دل کے دو والو بند ہو چکے ہیں اور ان کے دل کی وینز بہت ویک ہیں جس کی وجہ سے بلڈ سرکولیشن میں پرابلم ہو رہی ہے اور یہ ہارٹ پین بھی اسی عمل کا رد عمل ہے۔
’’اس کا کوئی علاج؟‘‘ سونم کی رنگت زرد پڑنا شروع ہو چکی تھی ڈاکٹر نے پانی کا گلاس اسے تھمایا جسے واپس میز پر رکھتے ہوئے وہ بے تابی سے بولی تھی۔
’’ہاں ان کا بائی پاس کروانا پڑے گا۔‘‘ ڈاکٹر کا لہجہ تسلی آمیز تھا۔
’’میں عمر سے بات کرتی ہوں پھر ہم بھائی صاحب کو انگلینڈ لے جاتے ہیں وہاں کے ڈاکٹرز زیادہ قابل ہیں تم فکر مت کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ پھپھو نے بروقت مثبت فیصلہ کیا تھا، سونم نے ابا کے دوست چاچا فضل دین کو بلوا کر اپنی زمینیں اور گھر فروخت کروا دیا تھا پھپھو آج پھر ابا کو چیک اپ کے لئے شہر لے کر گئی ہوئی تھیں اماں کی ہنوز وہی حالت تھی، ہر کسی سے پوچھتی تھیں کہ راہب کو کہیں دیکھا ہے، کبھی اس پر غصہ ہونے لگتی تھیں کہ وہ اپنے گھر کیوں نہیں جاتیں اور کبھی گھنٹوں ایک ہی جگہ پر بیٹھی کسی غیر مرئی نقطے کو گھورتی رہتیں۔
وہ ابھی اماں کو سلا کر دھلے ہوئے کپڑے پھیلانے چھت پر آئی تھی جب منڈیر کے اوپر جھکتے ہی اس کی نظر ہاسپٹل کی ادھوری عمارت سے ٹکرائی۔
’’تم دیکھنا ایک دن اس گاؤں میں بڑا ہاسپٹل بنواؤں گا اور ابا کا خواب پورا کروں گا۔‘‘ وہ کہیں نہیں تھا مگر ان فضاؤں میں اس کا احساس ابھی باقی تھا ہر سو اس کی آواز گونجتی تھی۔
’’سونو۔‘‘ وہ آہٹ پر پلٹی تھی اور اپنے سامنے ہابیل شاہ کو کھڑے دیکھ کر دم بخود رہ گئی تھی۔
٭٭٭
عمر نے ان کو انگلینڈ بلوانے کا سارا انتظام کر لیا تھا کل صبح اسے ہمیشہ کے لئے یہ گاؤں چھوڑ جانا تھا، منڈیر کے قریب جھک کر اس نے آخری ہار اپنے گاؤں کو دیکھنا چاہا نیم تاریکی میں ہر شے دھندلی دکھائی دے رہی تھی بوڑھے برگد کی وہ شاخ بھی جو زمین پر جھکی ہوئی تھی جس پر بیٹھ کر وہ اسے کہانیاں سنایا کرتا تھا۔
’’میری سوہنی بنو گی۔‘‘ پیار کا وہ پہلا اقرار اسے آج بھی یاد تھا۔
’’ان بارہ گھنٹوں کے بعد میں ہجر کو کبھی اپنے درمیان آنے نہیں دوں گا۔‘‘ اور اب وہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جا رہا تھا۔
’’تم تو میری زندگی ہو تمہیں چھوڑ کر بھلا زندہ کیسے رہوں گا۔‘‘ اور وہ زندہ تھا۔
’’تم نے فیصلے کا اختیار مجھے سونپ کر اچھا نہیں کیا اب تو میں تمہیں پا کر بھی ہمیشہ کے لئے کھو دوں گی تم عمر بھر میرے ہو کر رہو گے لیکن میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں گی کاش تم نے یہ سب نہ مانگا ہوتا۔‘‘ اور پھر اگلی صبح وہ اماں اور بابا کے ساتھ ہمیشہ کے لئے انگلینڈ آ گئی تھی آنے سے پہلے اس نے ایک کام کیا تھا اس نے عدالت سے کیس واپس لے لیا تھا اس نے زنبیل شاہ کو سزا سے بچا لیا تھا اس نے اپنے بھائی کے قاتل کو چھوڑ دیا تھا لیکن… معاف نہیں کیا تھا۔
٭٭٭
دونوں کے فائنل ایگزام ہو چکے تھے اور آج شاید وہ اسے آخری بار ملنے آئی تھی پارک کے تنہا گوشے میں دونوں خاموش اور لاتعلق سے بیٹھے تھے جیسے کہنے سننے کو اب کچھ باقی نہ رہا ہو۔
اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مما کی جانب سے بھی اس رشتے پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے اس پر یہ رعنا شاہ، جس نے لڑنے سے قبل ہی سرینڈر کر لیا تھا اور اس سے بھی یہی توقع لگائے بیٹھی تھی۔
’’اگر قسمت نے یہ چند خوبصورت لمحے ہمارے دامن میں ڈال دیے ہیں تو کیا ضروری ہے کہ تم منہ پھلا کر بیٹھو۔‘‘ وہ اس کی مسلسل خاموشی پر قدرے چڑ کر بولی تھی۔
’’مجھے نہیں چاہیے یہ چند خوبصورت لمحے۔‘‘ انداز ہنوز خفگی بھرا تھا۔
’’آئس کریم کھاؤ گے۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے راہب کا والٹ اٹھا لیا جو اس نے گاڑی کی چابی کے ساتھ لاپرواہی سے بینچ پر پھینکا ہوا تھا۔
’’تمہیں یہ سب ایک مذاق لگ رہا ہے نا۔‘‘ وہ اس کی جانب دیکھ کر مزید خفگی سے بولا مگر رعنا کا دھیان تو ہاتھ میں پکڑے والٹ کی جانب تھا جسے بے دھیانی میں وہ کھول چکی تھی اور اس میں سجی ہابیل شاہ کی تصویر نے اسے چونکا ڈالا تھا۔
’’یہ تصویر۔‘‘ اس کی آنکھیں جیسے باہر کو ابل آئی تھیں۔
’’ڈیڈی ہیں میرے۔‘‘ اس نے بٹوہ جھپٹ کر دوبارہ سے بینچ پر پٹخا اور اسے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا۔
’’تم کیوں نہیں سمجھتی میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر۔‘‘
’’تمہارے ڈیڈی میرے چاچو ہیں۔‘‘ وہ بولی تو اس کی آواز کپکپا رہی تھی راہب اپنی جگہ ساکت سا ہو کر رہ گیا تھا۔
’’میں پاکستان جا رہی ہوں۔‘‘ وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی جیسے چاچو کو ابھی راستے سے پکڑ کر لے آئے گی اور وہ آ بھی جائیں گے۔
’’کیا ڈیڈ آ جائیں گے۔‘‘ وہ اس کی راہ میں حائل ہوا تھا اور وہ رک گئی تھی اس نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ کیا سونم آنٹی اور چاچو کے رشتے میں کوئی گنجائش بھی باقی تھی یا نہیں۔
’’ان دونوں کی علیحدگی نہیں ہوئی۔‘‘ راہب نے اس کی آنکھوں کا سوال پڑھ لیا تھا رعنا کے چہرے پر کلیاں سی کھل اٹھی تھیں اس نے بے ساختہ گہرا سانس بھرا۔
’’لیکن معاملہ خاصا نازک اور پیچیدہ ہے مما نے کبھی مجھے بتایا تو نہیں مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ مما نے ڈیڈ کو خود چھوڑا تھا، اب اگر ڈیڈ نے آنے سے انکار کر دیا تو…‘‘
’’ایسا نہیں ہو گا۔‘‘ وہ نفی میں سر ہلانے لگی تھی۔
’’اور اگر ایسا ہوا بھی تو تم میرا ساتھ دو گی۔‘‘ اس نے آس بھری نظروں سے رعنا زنبیل شاہ کو دیکھا جو اس سے نظریں چرا کر باٹل پام کی شاخوں پر پھدکتی چڑیا کو دیکھنے لگی تھی۔
’’میں تمہیں کسی آس کی ڈور میں باندھنا نہیں چاہتی مجھ سے ایسا کوئی عہد نہ لو۔‘‘ وہ اپنا بیگ اٹھا کر خود بھی اٹھ گئی تھی راہب نے اب کی بار اسے نہیں روکا تھا۔
دونوں ساتھ چلتے ہوئے ڈرائیووے تک آئے تھے وہ شام دونوں نے ایک ساتھ گزاری تھی۔
٭٭٭
اگلی صبح اسے رعنا کو سی آف کرنے جانا تھا سونم نماز پڑھ کر لاؤنج میں آئی تو وہ نک سک سا کہیں جانے کو تیار کھڑا تھا۔
انہوں نے ایک حیرت بھری نگاہ وال کلاک کی جانب دوڑائی صبح کے چھ بجے تھے عموماً وہ صبح دس بجے سے پہلے نہیں اٹھتا تھا۔
’’خیریت۔‘‘ انہوں نے اچنبھے سے دریافت کیا۔
’’میں رعنا کو ایئرپورٹ ڈراپ کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ اس نے جھوٹ بولنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی اس لئے سچ بتا دیا۔
اس روز کے بعد سے وہ اپنے فائنل ایگزیم میں مصروف ہو چکا تھا پھر دونوں کے مابین دوبارہ اس ٹاپک پر بات نہیں ہوئی تھی۔
’’چلو اچھا ہے وہ جا رہی ہے تو پھر کہاں رابطہ ہو پائے گا دونوں کے درمیان۔‘‘ اس کے جانے کے بعد انہوں نے اطمینان سے سوچا اور فون اسٹینڈ کی جانب بڑھ گئیں ان کا خیال تھا کہ اب انہیں عمر سے راہب اور لائبہ کے رشتے کی بات کر لینی چاہیے۔
عمر وہیں مانچسٹر میں رہتا تھا آپریشن کے دوران اس کے ابا کی ڈیتھ ہو گئی تھی اماں بھی چند ماہ ہی ساتھ نبھا سکیں اس کے پاس ننھا راہب تھا جس کا نام اس نے بھائی کے نام پر رکھا تھا حالانکہ عمر پھپھو اور فاطمہ بہت اچھے تھے ہر طرح سے اس کا خیال رکھتے عمر اور فاطمہ کی ان دنوں نئی نئی شادی ہوئی تھی مگر وہ اس کا دل بہلانے کے لئے ہر جگہ زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹ کر لے جاتے تھے وہ بارہا احتجاج کرتی۔
’’کباب میں ہڈی کا کیا کام۔‘‘ تو فاطمہ لاڈ سے اس کے گلے میں بازو ڈال دیتی تھی۔
’’ہم کیا کریں ہمیں ہڈی کے بغیر مزہ ہی نہیں آتا۔‘‘ پھر کچھ عرصے بعد انہیں ایک ایشین سکول میں جاب مل گئی تو وہ مانچسٹر سے لندن چلی آئی تھی سب نے روکنے اور منع کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس پر خود داری کا بھوت سوار تھا پھر وہ تنہا رہنا چاہتی تھی۔
سب کے درمیان ہر وقت ہنسنا باتیں کرنا آؤٹنگ پر جانا وہ اس بناوٹ بھری زندگی سے عاجز آ چکی تھی مگر ان سب نے ان کا ساتھ پھر بھی نہیں چھوڑا تھا، فاطمہ کا مسلسل اس کے ساتھ رابطہ تھا، اس کے تین بچے لائبہ عبید اور حمزہ تھے لائبہ راہب سے دو سال چھوٹی تھی اور اس نے راہب کے ساتھ دلہن کے روپ میں ہمیشہ سے اسے ہی دیکھا تھا۔
دوسری جانب بیل جا رہی تھی فون فاطمہ نے ہی ریسیور کیا تھا مگر انہوں نے کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد فون رکھ دیا تھا، انہوں نے سوچا یہ ابھی کچھ زیادہ ہی قبل از وقت ہے انہیں پہلے راہب کو منانا چاہیے راہب کے نام کے ساتھ ہی ان کے تصور میں ایک بار پھر سے رعنا زنبیل شاہ چلی آئی تھی۔
’’کاش رعنا تم زنبیل شاہ کی بیٹی نہ ہوتی تو میں چند پھول راہب حیات احمد کی تربت پر نچھاور کرنے کے لئے بھیجتی۔‘‘ راہب کی یاد نے ان کی آنکھوں کو نم کر دیا وہ کتنی بدنصیب تھیں کہ بھائی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے بھی نہیں جا سکتی تھی، مسکراتی ہوئی اس بلیک اینڈ وائیٹ تصویر کو انہوں نے اپنے پلو سے صاف کرتے ہوئے دوبارہ دیوار پر لٹکا دیا تھا۔
٭٭٭
’’مجھے یاد کرو گے۔‘‘
’’میں تمہیں یاد نہ بھی کروں تم پھر بھی مجھے یاد آؤ گی۔‘‘
’’میں تم سے فون پر رابطہ رکھوں گی۔‘‘
’’احسان ہو گا آپ کا۔‘‘
’میں جلد واپس آؤں گی۔‘‘
’’میں نے ابھی سے انتظار کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘
’’اپنا خیال رکھنا۔‘‘
’’تم بھی۔‘‘ فلائیٹ کی اناؤنسمنٹ ہونے لگی تھی وہ آخری بار اس کی جانب دیکھ کر مسکرائی اور پھر دلنشین لہجے میں بولی۔
’’موسم ہجر اس بات کی نوید ہے کہ وصل کی بہاریں لوٹ کر آئیں گی۔‘‘
٭٭٭
وہ واپس آیا تو اس نے سونم کو کافی ریلیکس اور مطمئن محسوس کیا تھا وہ ٹی وی دیکھتے ہوئے کافی کے سپ لے رہی تھیں وہ ان کے قریب جا کر بیٹھا تو وہ اس کی سمت متوجہ ہوئیں۔
’’ناشتہ کرو گے۔‘‘
’’پراٹھا اور آملیٹ۔‘‘ اس نے خوشگوار لہجے میں فرمائش کی تھی سونم تو کچھ اور توقع کیے بیٹھی تھی کہ وہ افسردہ ہو گا بھوک ہڑتال کرے گا لیکن رنج و ملال کا کوئی رنگ ڈھونڈے سے بھی اس کے چہرے پر نظر نہیں آ رہا تھا ان کے دل میں ایک اور الجھن کا اضافہ ہوا تھا۔
’’چلو خیر وجہ جو بھی ہو لیکن میرے لئے یہ احساس کافی ہے کہ اس نے بات کو اپنے دل و دماغ پر زیادہ سوار نہیں کیا اب میں جلد ہی اس کی نسبت لائبہ کے ساتھ طے کر دوں گی تو وہ رعنا کو مکمل طور پر بھول جائے گا۔‘‘ وہ سب سوچتی کچن میں چلی آئیں۔
٭٭٭