ادھیڑ عمر اجو کے لئے ستار ہوٹل اندھیرے میں جلتا ایک ایسا دیا تھا جس کی پھوٹتی روشنی میں وہ اپنے جینے کے راستے تلاش کیا کرتا۔ دن بھر رکشہ ریڑھی کھینچنے کے بعد شام کو اپنی سانسوں کی اجرت گننے وہ بلا ناغہ ہوٹل پر پہنچ جاتا۔ سانولی رنگت اور درمیانے قد کا دبلا اجو اپنی بذلہ سنجی اور دلچسپ حرکتوں کی وجہ سے ہوٹل کے مردہ ماحول میں سانسیں بانٹ کر اسے متحرک کر دیتا۔ وہ اپنے سر کے گرد ہمیشہ نیلا چیک دار مفلر لپیٹے رکھتا جس میں کبھی کبھارسرخ گلاب بھی اڑسا نظر آ جاتا۔ اپنی سانسوں میں چرس کی ملاوٹ کرنے والے اجو کے منہ سے ایسی پھلجھڑیاں پھوٹتیں کہ بندہ بشر ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو جاتا۔ لوگ اس کے مخصوص مزاحیہ انداز میں اس سے فلموں کے بول سنتے، اس کی عجیب گھٹی گھٹی آواز میں گانے سنتے، حکومت اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے کبھی خلاف اور کبھی حق میں نعرے لگواتے۔ وہ ایکٹنگ میں خاصا ماہر واقع ہوا تھا۔ جب کبھی وہ مختلف فلمی اداکاروں کی نقل اتارتا تو ہر طرف قہقہوں کی آندھی چل پڑتی اور اکثر اپنے منہ سے ساز بجا کر اپنے بے سر و پا ناچ سے لوگوں کو دلچسپ تفریح مہیا کرتا۔ معاوضہ کے طور پر چائے کے ساتھ ساتھ اسے تھوڑی بہت نقدی بھی مل جایا کرتی، جس سے اس کے نشے پانی کاسامان ہو جاتا۔ اجّو صحیح معنوں میں ستار ہوٹل کی دھڑکن تھا۔
شام کا اندھیرا پھیلتے ہی ستار ہوٹل جاگ اٹھتا اور لوگ دنیا کے بکھیڑوں سے فرار ہو کر وہاں پناہ لینے آ جاتے۔ جہاں وہ گھنٹوں باتوں کی بارش میں بھیگتے اور موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتے رہتے۔ فضا میں گرم چائے سے اڑتی بھاپ اور سگریٹ کے تیرتے مرغولوں کے ساتھ ساتھ ہر طرف تمباکو کی سڑاند بھی رچی بسی ہوتی۔ ہوٹل کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اب وہ ایک دکان سے پھیل کر دونوں اطراف کی چار پانچ دکانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ غرض ستار ہوٹل ماں کی طرح تھا، جو دن بھر کے تھکے ماندے لوگوں کو اپنے پہلو میں بٹھا کر ان کی تھکن اپنے اندر اتار لیتا۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ اس جاگتے ماحول کو دھڑکنیں اجّو ہی عطا کرتا۔ وہ اپنی انوکھی گپ شپ اور منفرد حرکتوں کی بدولت ہر خاص و عام میں اتنا مقبول ہو چکا تھا کہ لوگ اسے شغل مستی کے لئے شادی بیاہ کی محفلوں میں بھی بڑے اہتمام سے بلایا کرتے، جہاں اجو کے دلچسپ چٹکلوں اور حرکتوں سے محفلیں دھنک رنگ اختیار کر جایا کرتیں۔
اجو کی سب کے ساتھ اچھی خاصی واقفیت ہو گئی تھی اور وہ ہر کسی کے بارے میں تھوڑا بہت ضرور جانتا تھا مگر خود اس کے بارے میں کسی کو بھی صحیح طور سے معلوم نہیں تھا کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ اس کی ذات، اس کا مذہب اور اس کی پہچان کیا ہے؟ جب کبھی اجّو سے اس کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ ایک دم سنجیدہ ہو کر آنکھیں اوپر کو چڑھا لیتا، ماتھے پر بل لے آتا اور گردن ٹیڑھی کر کے اپنے مخصوص انداز میں کہتا:
’’اوئے بیوقوفا! تجھے اتنا بھی نہیں پتہ کہ اجّو کہاں سے آیا ہے؟ اللہ سے پوچھ، وہ تجھے بتائے گا کہ اجّو جنت سے آیا ہے۔‘‘
یہ بات کر کے اجّو خود ہی ایک بلند قہقہہ لگاتا اور لوگوں کے ہونٹوں پر ہنسی کی بے شمار پتلیاں ناچنے لگتیں۔ اس کی ایسی ہی بے سر و پا باتوں کی وجہ سے کچھ لوگ اسے نیم پاگل تصور کرتے تھے۔ مگر اکثر وہ بڑی منطقی باتیں کر کے سب کو حیران کر دیا کرتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار کسی نے مذاق میں اسے پاگل کہہ دیا تھا۔ اجّو کے دل میں یہ بات کسی تیر کی طرح ایسی جا گڑھی کہ وہ اس آدمی کے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور ایک جھٹکے سے اس کی جیب سے پین نکال کر اپنی ہتھیلی پر ایک ٹیڑھی میڑی سی شکل بنائی۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ اجّو نے ہتھیلی اس آدمی کے سامنے کرتے ہوئے بہت جذباتی انداز میں پوچھا۔ غصے کی شدت سے اس کے ہونٹوں سے جھاگ نکل آیا تھا۔
’’آدمی ہے۔‘‘ اس شخص نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’مانتے ہو نا کہ یہ آدمی ہے؟‘‘ اجّو نے اس پر نظریں گاڑتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔
’’ہاں مانتا ہوں۔‘‘ وہ آدمی بدستور مسکراتے ہوئے بولا۔
’’اوئے بیوقوفا! جو انسان آدمی کی شکل بنا لے، وہ پاگل کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
اجّو نے طنزیہ کہا اور ایک بلند سا قہقہہ لگا دیا۔ وہ آدمی بھی کھسیانا ہو کر ہنسنے لگا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ آس پاس کے لوگ بھی اس کی بے ساختگی اور سادگی پر کھلکھلا اٹھے۔ کبھی کبھی وہ ہوٹل پر کام کرنے والے لڑکوں کا ہاتھ بھی بٹا دیتا اور اکثر لوگوں کی میزوں پر چائے اور پانی کا جگ بھی پہنچا دیا کرتا۔ اپنی ان ہی با توں کی وجہ سے اجّو لوگوں کے دلوں پر راج کرتا تھا۔ مجھے اْس سے اتنا انس ہو گیا تھا کہ اسے دیکھنے میں ہوٹل پر ضرور حاضری دیتا۔
ان ہی دنوں میرے ایک دوست کے بیٹے کی شادی طے پا گئی۔ سب دوستوں کی شدید خواہش تھی کہ شادی میں اجو کو ضرور بلایا جائے۔ اور جب میں نے اسے دعوت دی تو وہ ہنستے ہوئے بولا:
’’بابو صیب۔۔۔ یہ تو اچھا ہوا کہ آپ نے مجھے بلا لیا اگر آپ نہ بلاتے تو میں یہ شادی ہی رکوا دیتا۔‘‘
میں اس کی بات سن کر ہنس پڑا۔ وہ مجھے ہمیشہ بابو صیب ہی کہا کرتا۔ شادی شروع ہوتے ہی اجو ہوٹل سے سیدھا میرے دوست کے ہاں آ جاتا، جہاں سب لوگ اس کے شدت سے منتظر ہوتے۔ وہ ہمیشہ قہقہوں کا طوفان اپنے ساتھ لے کر آتا۔ پوری پوری رات شغل مستی میں گزر جاتی۔ مختلف گانوں اور ڈھول کی تھاپ پر اجو مزے مزے کے ڈانس کرتا، مزاحیہ گانے سناتا، چائے کے دور چلتے، لطیفہ گوئی ہوتی، پھبتیاں کسی جاتیں۔ غرض وہ خوب ہلڑ مچائے رکھتا۔ بچے، بوڑھے، جوان سب کے اندر اجو زندگی بھر دیتا۔
مہندی کی رسم جاری تھی اور اجو ڈھول کی تھاپ پر تھرک رہا تھا، دوسرلے لڑکے بالک بھی اس کا پورا پورا ساتھ نبھا رہے تھے بلکہ ایک مقابلے کا سماں بندھ گیا تھا۔ جوں جوں ڈھولوں میں شدت آتی جا رہی تھی، اجو کے ڈانس میں بھی تیزی آتی جا رہی تھی۔ تمام لوگ گھیرا ڈالے مسکراتے ہوئے اس کے ڈانس کو دیکھ رہے تھے، جو پسینے میں ڈوبا نئے نئے انداز میں ٹھمکے لگا رہا تھا کہ اس دوران کسی نے پٹاخے پھوڑ دیے۔ پتہ نہیں کیسے داخلی دروازے پر لٹکتے سجاوٹ کے رنگ برنگے بھڑکیلے پردوں پر اچانک چنگاریاں جا پڑیں۔ پلک جھپکتے میں آگ بھڑک اٹھی اور پردے دھڑ دھڑ جلنے لگے۔
’آگ لگ گئی۔۔۔۔ آگ لگ گئی۔۔۔۔‘‘ کا واویلا مچ گیا اور چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ ڈھول بجنا بند ہو گئے اور تھرکتے جسم یک لخت ساکت ہو گئے۔
آگ۔۔۔ آگ۔۔۔ کی آوازوں نے ماحول میں سراسیمگی بھر دی اور چہروں پر پریشانی کی آگ جل اٹھی۔ جلتے پردوں اور آگ کی بڑی بڑی لپٹیں دیکھ کر اچانک اجو کی حالت غیر ہو گئی اور وہ تھر تھر کانپنے لگا۔
’’آگ بجھاؤ۔۔۔۔ جلدی کرو یار۔۔۔۔ خدا کے لئے جلدی سے اس آگ کو بجھاؤ۔۔۔‘‘
وہ زور زور سے چلانے لگا۔ میں اجو کی بوکھلائی ہوئی حالت پر ششدر رہ گیا۔ شکر ہے کہ کسی نقصان کے بغیر جلد ہی آگ پر قابو پا لیا گیا مگر اجو ایک دم سے بجھ گیا اور ساری مستیاں اس کے اندر یوں سو گئیں جیسے آگ پردوں کو نہیں، اس کے اندر کہیں لگی ہو۔ ہنگاموں سے فارغ ہونے کے بعد جب وہ رات گئے سونے کے لئے لیٹا تو اس کا چہرہ بجھا ہوا تھا۔ میری نظریں اسی پر ہی لگی تھیں۔ وہ کافی دیر تک جاگتا اور بار بار کروٹیں بدلتا رہا۔ اسے جب نیند نہ آئی تو وہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔ اس کی بے چینی نے مجھے بھی بے چین کر دیا اور تھوڑی دیر بعد میں بھی اٹھ کر اس کے پیچھے چلا گیا۔ وہ ایک بند دکان کے تھڑے پر سر جھکائے چپ چاپ بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا اور چرس کی بو دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔
’’کیا بات ہے اجو! کوئی مسئلہ ہے کیا؟‘‘ میں نے اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگا
’’بابو صیب۔۔۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ یہ آگ انسان سے کتنی نفرت کرتی ہے۔‘‘
وہ سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے بولا مگر میرے جواب دینے سے پہلے وہ دوبارہ گویا ہوا
’’بابو صیب۔۔۔ جلتی ہوئی چیزوں میں در اصل انسان کی خوشیاں جل رہی ہوتی ہیں اور بکھری ہوئی راکھ، راکھ نہیں انسان کی خوشیاں ہوتی ہیں۔‘‘
میں اس کے منہ سے اتنی گہری اور سنجیدہ باتیں سن کر حیران رہ گیا۔
’’یہ کیسی باتیں کر رہے ہو اجو؟‘‘ میں نے اس کے اداس چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’بابو صیب۔۔۔ آپ نے آگ میں صرف چیزیں جلتی دیکھی ہوں گی مگر میں نے خواہشوں کے زندہ وجود جلتے دیکھے ہیں۔ لوگوں نے آج تک روح نہیں دیکھی ہو گی مگر میں نے روح کو جھلستے دیکھا ہے۔‘‘ اس نے دکھی لہجے میں کہا اور سگریٹ کا ایک لمبا کش لینے کے بعد اسے تھڑے پر مسل کر دور پھینک دیا۔ اس کی باتیں مجھے پریشانیوں کے دشت میں دھکیل رہی تھیں۔ میں اجو کا سناٹوں میں گھرا یہ روپ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔
’’اجو میرے دوست۔۔۔ بات کیا ہے؟ کیوں اتنے دکھی ہو گئے ہو؟ کوئی بوجھ ہے تو مجھے بتاؤ۔‘‘
میں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ملائمت سے کہا
’’بابو صیب۔۔۔ لوگوں نے ہمیشہ ہنستا مسکراتا ہوا اجو دیکھا ہے مگر آج میں آپ کو آگ میں جلتا ہوا اجو دکھاؤں گا۔‘‘
اس نے میرے چہرے پر آنکھیں گاڑتے ہوئے جواب دیا اور میں اس کی بات سن کر چونک اٹھا۔
’’بابو صیب۔۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ میں ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور میرا باپ محلے کی مسجد کا پیش امام تھا۔ مجھ سے تین بڑے بھائی دینی تعلیم سے وابستہ تھے مگر ان کے برعکس میں کھلنڈری طبیعت رکھتا تھا۔ میں کرکٹ کا ایک اچھا کھلاڑی تصور کیا جاتا اور میرا دل دماغ ہر وقت کرکٹ میں ہی اٹکا رہتا۔ جس کی وجہ سے میرا باپ آئے روز مجھے کوستا رہتا۔ وہ مجھے نکما اور ناکارہ سمجھتا اور گھر پر ایک بوجھ تصور کرتا تھا۔ میرا باپ اکثر کہا کرتا کہ یہ اجمل کسی روز میری ناک کٹوا کے رہے گا۔
ایک روز میچ کی وجہ سے رات گئے گھر آنے پر میری شامت آئی ہوئی تھی اور میرا باپ مجھے شدید ڈانٹ ڈپٹ رہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ کچھ لوگ میرے باپ کے پاس آئے اور وہ بوکھلائی ہوئی حالت میں فوراً ان کے ساتھ چلا گیا۔ میں نے باپ کے چہرے پر شدید غصہ اور نفرت دیکھی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں مسجد کے سپیکروں سے میرے باپ کی آواز گونج رہی تھی۔
’’تمام غیرت مند مسلمان ایک ضروری اعلان سنیں۔۔۔ ابھی ابھی معلوم ہوا ہے کہ سبزی منڈی کے ساتھ والی کالونی جہاں کافر اور مشرک بستے ہیں۔ وہاں کسی نے ہمارے مذہب کی کھلم کھلا توہین کی ہے اوراس پر ہم کسی صورت چپ نہیں بیٹھ سکتے۔ جس کسی غیرت مند مسلمان کے دل میں اسلام کی تھوڑی سی محبت بھی زندہ ہے تو وہ فوری طور پر کافروں کی کالونی پہنچے اور توہین کا بدلہ لے۔‘‘
میرے باپ کا چہرہ غیض و غضب سے سرخ ہو رہا تھا۔ وہ میرے تینوں بھائیوں کو ساتھ لے کر روانہ ہونے لگا تو میں نے اس کے پاؤں پکڑ لئے۔
’’بابا! خدا کے لئے رک جائیں۔ یہ ظلم مت کریں، لوگوں کو روک لیں۔‘‘
مگر اس نے میری ایک نہ سنی۔ مجھے پاؤں سے ٹھوکر مارتے ہوئے دور ہٹایا اور غصے کی حالت میں باہر نکل گیا۔
میں فوری طور پر اپنے دوستوں کی طرف بھاگا اور انہیں ساتھ لے کر جوزف کالونی پہنچ گیا، کیونکہ وہاں کے کچھ لڑکے میرے دوست تھے اور میری ٹیم میں کھیلتے تھے۔ وہاں آدھا شہر پلٹا ہوا تھا اور کچھ گھر دھوئیں کے بادلوں میں گھرے آگ میں جل رہے تھے۔ اور پھر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کچھ مشتعل لوگ ایک نوجوان کو بالوں سے پکڑ کر ایک گھر سے گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے۔ خوف اس کے چہرے کو نوچ رہا تھا۔ وہ نوجوان تڑپتا ہوا بار بار ان کے آگے ہاتھ جوڑ رہا تھا۔ معافیاں مانگ رہا تھا۔ ان کے پاؤں پکڑ کر ان کے سامنے گڑگڑا رہا تھا۔ اور بار بار کہہ رہا تھا
’’میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں کسی کے مذہب کی توہین کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ خدا کے لئے میری پوری بات سن لیں۔‘‘
مگر بھرے مجمعے میں اس کی ایک نہ سنی گئی۔ لوگ مشتعل ہو کر اس پر پل پڑے اور اس پر ڈنڈوں، ٹھڈوں، تھپڑوں اور مکوں کی بارش کر دی۔ وہ مسلسل تڑپتا چیختا رہا، معافیاں مانگتا رہا مگر بے سود۔ اس دوران کسی نے اس پر پٹرول چھڑک دیا۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کو بچانے کے لئے آگے بڑھا اور مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو ہم پر بھی ڈنڈے برسا دیئے گئے اور لوگ ہمیں بھی اس کے ساتھ ہی جلانے کے درپے ہو گئے۔ بڑی مشکل سے میرے باپ نے مشتعل لوگوں کے چنگل سے مجھے نکالا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس تڑپتے ہوئے نوجوان کو آگ لگا دی گئی۔ اس کا جلتا ہوا وجود چیختا چلاتا سڑک پر دوڑتا رہا۔ وہ لوگوں کی طرف رحم کی بھیک کے لئے بڑھتا تو غصے میں بپھرے ہوئے لوگ اس پر پٹرول چھڑک دیتے، جس سے آگ کے شعلے اور اس کی چیخیں اور بھی بلند ہو جاتیں۔
بابو صیب۔۔۔ میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا۔ وہ جلتا ہوا لمحہ آج بھی میرے اندر جل رہا ہے۔ لوگ اس وقت تک وہاں کھڑے رہے جب تک وہ زندہ وجود کوئلے میں تبدیل نہیں ہو گیا۔ اس دن میں بھی اندر سے جل کر کوئلہ بن گیا۔ اس کے بعد میرے باپ نے مجھے راکھ سمجھ کر گھر سے باہر پھینک دیا۔ بس اب میں ہوں، یہ ظالم دنیا ہے اور میری آوارہ گردی ہے۔‘‘
اجو کے لہجے میں دکھوں کی آگ جل رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں نمی اتری ہوئی تھی۔ میں حیران و پریشان اسے دیکھے جا رہا تھا۔ واقعی میرے سامنے ایک ایسا اجو بیٹھا ہوا تھا جو آگ میں جل رہا تھا۔
’’بابو صیب۔۔۔ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ ایک وجود کو زندہ جلا کر کوئی عقیدہ جلایا جا سکتا ہے؟‘‘
اجو نے بڑے معصوم لہجے میں سوال کیا۔ مگر میرے پاس سوائے خاموشی کے اور کوئی جواب نہیں تھا اور میں نے وہی خاموشی اس کے ہونٹوں پر باندھ دی۔
شادی کے ہنگامے ختم ہوتے ہی شہر پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ شہر کی ایک مشہور عبادت گاہ میں دھماکہ ہو گیا، جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف خوف کی زہریلی ہوائیں چل پڑیں اور دہشت گردی کی چنگاری سلگ کر شعلوں میں تبدیل ہو گئی۔ دن دہاڑے شہر کے مختلف علاقوں میں چار پانچ قتل اور پھر دستی بموں کے حملوں نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور چاروں طرف نفرت کے الاؤ جل اٹھے۔ ہر چہرے پر سیاہ رات چھا گئی اور دلوں میں خوف بھر گیا۔ جب یہ بے رحم آگ کئی گھروں کو جلا کر اپنا دائرہ وسیع کرنے لگی تو شہر بھر میں کرفیو لگا دیا گیا۔ دہشت گردی کے راج کے بعد چند دنوں تک کرفیو کا راج رہا۔ کشیدگی کم ہوئی تو کرفیو ختم کر دیا گیا اور لوگ سہمے سہمے گھروں سے باہر نکلے۔ خوف و ہراس ابھی تک چاروں طرف سانس لے رہا تھا اور لوگ آنے جانے میں بہت محتاط تھے۔
ایک ہفتے کی غیر حاضری کے بعد آج شام کو میں ستار ہوٹل جا پہنچا مگر وہ اب بھی اجڑا اجڑا سا لگا۔ دہشت کے اژدہے نے ہوٹل کی رونقوں کو بھی نگل ڈالا تھا اور وہ پوری طرح سے آباد نہیں ہو پایا تھا۔ زیادہ تر وہی لوگ تھے جن کا ہوٹل کے ساتھ گھر جیسا تعلق تھا۔ مگر ہوٹل زیادہ دیر تک ویرانی کا عذاب نہ سہہ سکا۔ لوگوں کی چہل پہل پھر سے شروع ہو گئی اور وہ آباد ہونے لگا۔ مگر اجّو کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ سارا منظر وہی تھا اور اجّو اس منظر سے یوں غائب تھا، جیسے بغیر چاند کے تاروں بھرا آسمان۔ اس کے بغیر ہوٹل اجڑا اجڑا اور ماحول پھیکا پھیکا لگ رہا تھا۔ وہ ہر آنکھ کی ضرورت تھا اوراسے نہ پا کر سب کو ادھورے پن کی دیمک چاٹنے لگی۔ میں بے چینی سے روزاس کی راہ تکتا کہ اجّو ابھی سامنے سے قہقہے لگاتا آتا ہی ہو گا۔ انتظار کرتے کرتے آنکھیں تھک جاتیں مگر اجو کا دور دور تک کچھ پتہ نہیں تھا۔ شاید ہوٹل کو کسی کی نظر لگ گئی تھی اور کوئی وہاں سے اجو کے گونجتے قہقہے لپیٹ کر لے گیا تھا۔ مگر آج ہوٹل پر اجو کی موت کی بھیانک خبر گردش کرتی ہوئی ہر چہرے کو نچوڑ رہی تھی۔ شہر کے ایک سنسان علاقے سے اجو کی جگہ جگہ سے کٹی پھٹی برہنہ لاش ملی تھی، جسے بے پناہ تشدد کے بعد گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ اخبار میں اس کی تصویر بھی چھپی تھی۔ اس کے ماتھے پر گولی کا سوراخ تھا اور بھنچے ہوئے منہ کے ساتھ اس کی کھلی آنکھیں میرے چہرے پر گڑی تھیں۔ جیسے وہ مجھ سے آج بھی پوچھ رہا ہو:
’’بابو صیب۔۔۔ کیا کسی وجود کو زندہ جلا کر کسی کا عقیدہ جلایا جا سکتا ہے؟‘‘
آج بھی میرے پاس اس کے جلتے ہوئے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا اور میں نے آج بھی اس کے ہونٹوں پر خاموشی باندھ دی۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...