(Last Updated On: )
مشق جنوں کرتا رہتا ہوں
جانے کب وہ مرد صفت لمحہ آ پہنچے
جو معمول کی اس شائستہ نظم کا دامن چاک کرے
دید برہنہ سچائی کی، لفظوں کو بے باک کرے
آنسو، توڑ کے ساحل خالی آنکھوں کا
اس ظلمت کی مٹی کو نمناک کرے
کوئی مداوا؟۔۔۔۔اوسطیوں کی نسل مجھے
اپنی عمروں کے ترکے سے عاق کرے
دل کہتا ہے
آ خطرے کی سب سے اونچی چوٹی پر
جان کو عریاں کرنے کا وہ رقص کریں
جس کو دیکھ کے ساری دنیا پاگل ہو
خون کے اندر صدیوں کی خفتہ آنکھوں میں ہلچل ہو
اور شرر بھر وقفے میں یہ آدھی نظم مکمل ہو
***