اگلی صبح وہ دیر تک سوتی رہی تھی پھر اٹھ کر مائرہ کے ساتھ ناشتہ کیا آج دونوں کا لنچ باہر کرنے کا ارادہ تھا اسی غرض سے وہ الماری میں سر گھسائے اپنا وائیٹ اور پرپل پھولوں والا اسکارف ڈھونڈ رہی تھی جب اسے راہب کی آمد کی اطلاع ملی۔
اگرچہ اس نے کل کہا تھا کہ وہ اسے اپنی مما سے ملوائے گا مگر پھر بھی وہ اس کے آنے کی توقع نہیں کر رہی تھی کیونکہ یہ وعدہ تو ہر ویک اینڈ پر کرتا تھا وہ سارا دن انتظار کرتی رہتی مگر وہ نہیں آتا تھا اگلے روز اس کے استفسار پر مزے سے کہتا۔
’’میں تمہیں ایک دوست کے طور پر اپنی مما سے متعارف نہیں کروانا چاہتا۔‘‘ اور آج بھی اسے یقین تھا کہ وہ نہیں آئے گا مگر اپنے سابقہ ریکارڈ کے برعکس وہ خوب نک سک سا تیار اس کے سامنے کھڑا تھا
’’آئی کانٹ بلیو کہ تم آ چکے ہو اور مجھے اپنے گھر لے کر جا رہے ہو۔‘‘ وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے حیرت سے بولی تھی۔
’’اس میں اتنا سرپرائز ہونے کی کیا بات ہے فائنل سے پہلے مجھے کوئی فیصلہ کن قدم تو اٹھانا ہی تھا اب محض تمہارے جواب پر تو زندگی برباد نہیں کی جا سکتی۔‘‘ گاڑی کو روڈ پر ڈالتے اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
’’ہاں مگر میں تمہارا ساتھ دینے کا کوئی وعدہ نہیں کر رہی۔‘‘
’’مجھے بھی تم سے کچھ ایسی ہی امید تھی اطمینان رکھو یہ سب اب میں اپنے بل بوتے پر کروں گا۔‘‘
’’اور تم کیا کرنے والے ہو۔‘‘ رعنا نے تیکھی نگاہ اس پر ڈالی۔
’’تمہیں کڈنیپ کرنے والا ہوں۔‘‘ وہ چڑ کر بولا جس پر وہ منہ پھلا کر گلاس ونڈو سے باہر دیکھنے لگی تھی۔
اگلے چند لمحوں میں گاڑی گرین اسٹریٹ میں داخل ہو چکی تھی ہاؤس نمبر سیون کے قریب آتے ہی اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔
’’مما!‘‘ وہ مرکزی دروازے سے پکارتا ہوا لاؤنج میں آیا تھا، دائیں سائیڈ پر واقع کچن سے کھانے کی خوشبو باہر تک آ رہی تھی۔
’’مما دیکھیں تو کون آیا ہے۔‘‘ اس نے دوسری بار پھر با آواز پکارا تھا۔
آ رہی ہوں بابا۔‘‘ آواز کے ساتھ چہرہ نمودار ہوا۔
میرون اور بلیک رنگ کے سوٹ میں ملبوس شانوں پہ گرم شال اوڑھے ایک با وقار سی خاتون ان کے پاس آ کر رک چکی تھیں۔
سفید گلابی رنگت، بڑی بڑی آنکھیں اور تیکھے نقوش کی حامل راہب کی مما بہت گریس فل اور خوبصورت تھیں۔
کچن سے لاؤنج تک کے چند قدم کے فاصلے تک رعنا ان کا مکمل جائزہ لے چکی تھی۔
’’مما یہ رعنا شاہ ہے۔‘‘ راہب نے دونوں کے مابین آدھا ادھورا سا تعارف کروایا تھا جس پر اس کی مما ٹھٹھک سی گئیں تھیں۔
وہی چہرہ وہی رنگت اور ویسی ہی مغرور اور سفاک آنکھیں، وہ جانے کہاں کھو گئی تھیں کہ رعنا کے سلام کا جواب دینا بھی بھول گئیں۔
’’تم لوگ بیٹھو میں کھانا لگاتی ہوں۔‘‘ رعنا نے اشارے سے پوچھا تھا۔
’’انہیں کیا ہوا؟‘‘ جواب میں وہ لاعلمی سے شانے اچکا کر خود بھی ان کے ساتھ میز پر برتن لگانے لگا تھا۔
بس اس سے انہوں نے اس کا پورا نام پوچھا تھا اور پھر معذرت کر کے اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں۔
مما کا یہ ایب نارمل سا رویہ راہب سے بھی ہضم نہیں ہو رہا تھا، رعنا اپنی خفت مٹانے کے لئے اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی تھی۔
’’راہب اب تم مجھے ہاسٹل ڈراپ کر آؤ۔‘‘ دو چار لقمے کھانے کے بعد وہ اٹھ گئی مگر لاؤنج میں لگی تصویر کو دیکھ کر اسے ٹھٹکنا پڑا تھا۔
’’یہ تصویر۔‘‘ وہ انلارج تصویر کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
’’میرے ماموں ہیں۔‘‘
’’کہاں رہتے ہیں۔‘‘
’’ان کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔‘‘ اس انکشاف پر رعنا نے بے ساختہ پلٹ کر اسے دیکھا تھا اسے جانے کیوں دکھ سا ہوا۔
’’تم جانتی ہو انہیں۔‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘ حالانکہ وہ انہیں نہیں جانتی تھی مگر پھر بھی یہ چہرہ دیکھا بھالا سا لگ رہا تھا راستہ بھر دونوں ہی الجھے ہوئے خاموش سے ہی رہے تھے راہب کو مما کا بی ہیویر الجھا رہا تھا تو رعنا کو وہ تصویر میں مسکراتا شخص۔
٭٭٭
’’مما آپ کو رعنا اچھی نہیں لگی۔‘‘ اسے ڈراپ کرنے کے بعد وہ سیدھا سونم کے بیڈ روم میں آیا تھا وہ آنکھیں موندے لیٹی تھیں آہٹ پر پلکوں کے در وا کیے اور پھر راہب کے استفسار پر ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے صاف گوئی سے بولیں۔
’’نہیں۔‘‘ اور وہ ان کے جواب پر ششدر رہ گیا تھا۔
’’کیوں؟‘‘ اس کے لبوں سے بے ساختہ نکلا۔
’’تم نے ایک سوال پوچھا تھا جس کا جواب میں نے دے دیا اور بہتر ہو گا اگر تم اس لڑکی کا خیال اپنے دل سے نکال دو۔‘‘
’’مما لیکن…‘‘
’’میں اس وقت سونا چاہتی ہوں۔‘‘ اس کی بات کاٹتے ہوئے انہوں نے آنکھوں پر بازو رکھ لیا تھا گویا یہ واضح اشارہ تھا کہ وہ اس ٹاپک پر مزید بحث نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
٭٭٭
پچھلے دو گھنٹوں سے وہ مسلسل ذہن پر زور ڈالتے ہوئے یہ سوچنے کی کوشش میں ہلکان ہو چکی تھی کہ اس نے تصویر کہاں دیکھی ہے اتنا تو اسے یاد تھا کہ اس نے اس تصویر کو اپنے گھر میں ہی کہیں دیکھا تھا۔
’’مگر کہاں … بام تصور میں اس نے ہر کمرے کا جائزہ لے ڈالا مگر سب بے سود، تھک ہار کر وہ بیڈ پہ گرنے والے انداز میں بیٹھ گئی، عجیب سی کشمکش تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اس تصویر کو لے کر اتنی ڈسٹرب کیوں ہے، ’’یاد آیا‘‘ اچانک اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا۔
’’روشنی پھپھو… ہاں … نہیں … یقیناً۔‘‘ یہ تصویر اس نے پھپھو کی کتاب میں دیکھی تھی اپنی چوبیس سالہ زندگی میں وہ محض ایک بار ہی تو اس کمرے میں گئی تھی۔
یہ بہت پرانی بات تھی اس وقت نانا جان کی وفات پر اس نے زندگی میں پہلی بار اس وسیع و عریض حویلی کے اس بند دروازے کو کھلتے ہوئے پھر اس کے کمرے سے اپنی نام نہاد پھپھو کو نکلتے ہوئے دیکھا تھا نام نہاد اس لئے کہ اس سے پہلے اس نے بس ان کا ذکر سنا تھا اپنی عمر کے آٹھ سال بعد ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود اس نے پہلی بار انہیں دیکھا تھا صرف دس منٹ کے لئے آخری سفر پر جاتے نانا جان کو وہ آخری بار دیکھنے آئی تھیں اور تب موقع سے فائدہ اٹھا کر وہ ان کے کمرے میں جا گھسی تھی۔
بند کمرے کو دیکھ کر وہ اکثر سوچا کرتی تھی کہ نہ جانے اس کمرے میں ایسا کیا ہے جو اسے مقفل رکھا جاتا ہے لیکن کمرے میں جا کر اسے خاصی مایوسی ہوئی وہ تو بے حد سادہ اور عام سا کمرہ تھا۔
ایک سنگل بیڈ، ایک تخت پوش، سیف الماری اور ریک میں رکھی چند کتابیں، ایک کتاب بیڈ پر اوندھی پڑی تھی اس نے اٹھا کر دیکھا تو اچانک کچھ نکل کر نیچے گرا۔
وہ ایک تصویر تھی۔
اور ایسا چہرہ اس نے اپنی میں فیملی کہیں نہیں دیکھا تھا، اس شخص کے نقوش اتنے شفاف اور کھرے تھے کہ اتنے برس گزرنے کے باوجود بھی اس کے حافظے میں ثبت ہو کر رہ گئے تھے۔
پھپھو کے کمرے اور راہب کے گھر میں ایک ہی تصویر کا ہونا اور سونم آنٹی کا عجیب و غریب ری ایکشن وہ گہری سوچ میں ڈوب چکی تھی۔
٭٭٭