{ اَدھ کھُلی کھڑکی }
قہقہہ تو درکنار، اب تو امامہ کے چہرے پر مسکراہٹ بھی نظر نہ آتی تھی۔ صبر کے سانچے میں ڈھل کر خامشی کا پیکر بنی پھرتی تھیں۔ اگر کبھی بولتیں بھی تو بے زاری اور تلخی سے بھرے جملے ادا ہوتے۔ ان کی زندگی کی ساری چاشنی تو زہر میں بدل گئی۔ زندگی کو قرض سمجھ کر جی رہی تھیں۔ ہمیشہ سے ایسی نہ تھیں، ایک وقت تھا جب شائستگی، خوش ذوقی، شستہ مزاجی، رعنا خیالی، نازک مزاجی، چاشنی، تابناکی، رنگینی اور شادابی ان کی شخصیت کا مرقع تھی اور وہ۔۔ حسن کا مرقع تھیں۔
یہی نازک اندام لڑکی جب بولنے پر آتیںتو بڑے سے بڑے مقرر کو لاجواب کر دیتیں اور لکھنے پر آتیں تو اچھے اچھے زود قلم بسیار نویس ادیب ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے۔ اچھی خاصی حسن و جمال کی دلدادہ تھیں، فنونِ لطیفہ تو جیسے ان کے خمیر میں رچا بسا تھا۔ مزاج شاعرانہ اور ادبی ذوق کی حامل تھیں۔
لڑکپن تو ایسے ہی گزر گیا جوانی میں ابھی قدم نہ رکھا تھا کہ ذمہ داریوں کا احساس ہونے لگا۔ بھائی کے ہوتے ہوئے ساری ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں۔سیف، گڈو اور پھر صفیہ۔۔ باری باری سب کی لکھائی پڑھائی کے بعد گھر بس گئے۔ رفتہ رفتہ امامہ ایسی بیل بن گئیں کہ جس گرد لپٹتیں اسے امر کر دیتیں۔
اور اُن کی زندگی سے وابستہ ہر شخص ایک نومولود پودے کی طرح اُن کی ذات سے امرت کا رس نچوڑ کر تناور درخت بن جاتا پھر اُنہیں اپنی شاخوں سے الگ کر دیتا ۔ امامہ ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے محلے کے سبھی چھوٹے بڑے کی باجی بن گئیں اور ان کی ہم جولیاں ایک ایک کر کے اپنے مقدر کے لکھے بندھن میں بندھ کر رخصت ہوتی گئیں۔ ایک دو بار ماں نے سمجھایا بھی۔۔
’’ دیکھ امّو۔۔ تیری عمر نکلی جا رہی، کتنے لوگ انتظار میں کھڑے ہیں، جن کی تجھے فکر تھی وہ خیر سے اپنے گھر بار والے ہو گئے اب تجھے کس بات کا انتظار۔۔‘‘
ہر بار ماں کو جلا کٹا جواب ہی ملتا۔۔
’’آپ تو تھم کے رہیں امّاں۔۔ اگر اتنی فکر ہوتی تو یہ سب جو میرے ذمے ہے کچی عمر میں میرے سر پہ نہ ڈالتی۔‘‘
بھابھی آئیں تو گھر کا سارا نظام بدل کے رہ گیا۔ باجی کو ایسی شخصیت کے ساتھ گزارا کرنا پڑا جو تعلیم یافتہ تو تھیں مگر حسِ لطیف سے عاری بلکہ حد درجہ بد مذاق۔ پھر یوں ہوا کہ سلسلہ در سلسلہ درد کا قافلہ ان کے دل کے نخلستان میں اترتا اور ٹھہرتا رہا۔
مسلسل اتنے سال مشین چلانے کے سبب کندھوں اور گردن کے پٹھوں میں کھچاؤ پیدا ہو گیا۔ صحت کی خرابی کے باعث کاروبار ٹھپ ہو گیا باجی کی باری آئی تو سب نے آنکھیں پھیر لیں، خوبصورتی اور دلبری پر بڑی عمر کا پارہ چڑھ چکا تھا محبت کے دعوے دار بھی منظر سے غائب ہو گے۔ان کے قہقہے اور ہنسی تو جیسے خامشی کے اندھے کنویں میں کھو گئی۔ اپنی ذات میں تنہا رہنے لگیں۔ پھر بھی جرأت اور عالی حوصلگی تو دیکھیں مجال ہے جو کسی غیر کے سامنے شکوہ کریں۔
ان کے آنچل میں دکھ پنپنے لگے۔ دل تو گویا درد کا آنگن بن چکا تھاجس میں نت نئے غم کے پھول کھلتے تھے اور خیالات بے یقینی کی زد میں آ کر نومیدی کی وہ رہگذر بن چکے تھے جہاں سے امید و اعتماد کا گزز ممکن نہ تھا۔گویا ان کی ہستی غم اور بے یقینی کے بیچ معلق تھی اور وہ زندگی کی المناک چوکھٹ پر کھڑی تھیں۔ رشتہ داروں کے تکلفات ان کے زخموں کی تہوں میں نیشتر کا کام کرتے۔ وہ ذمہ داریوں کی گراں بار زنجیروں اور بے مہر رشتوں کے تپتے بھاری سلاسل کے ہم رقاب لا منتہی راہوں پر اس روانی سے چل رہی تھیں گویا ان کے پیروں کی آبلوں سے بھری ہتھیلیاں کسی خاردار رہگذر کی متلاشی ہیں۔
بے التفاتی اور محرومی کا شکار زندگی اس سفر کی وجہ سے لہولہان ہوتی جا رہی تھی لیکن وہ پریشاں، گریزاں چلی جا رہی تھیں۔ ان کی نرم رو رفتار تند و تیز ہوا کی مانند بڑھتی جا رہی تھی۔ لیکن اس بے بسی اور بے چارگی کے با وصف وہ کبھی چہرے پر ملال نہ آنے دیتیں۔
ایک رات اشعر کو اکیڈمی سے لوٹنے میں تاخیر ہو گئی چوک میں اﷲ دتہ مونگ پھلی والا رات گئے تک گرم گرم مونگ پھلی بیچتا تھا ۔ اشعر ا س سے مونگ پھلی لے رہا تھا۔ اس کے پاس سے چادر میں لپٹی ایک خاتون تیزی سے گزریں۔ جب اشعر کو اس کے گزرنے کا احساس ہوا تب تک وہ خاتون کافی دور جا چکی تھیں۔ دھند کے باعث اتنی دوری سے پہچاننا مشکل ہو رہا تھا۔ اشعر کو عجب سی مانوسیت کا احساس ہوا۔ وہ اس خاتون کے پیچھے ہو لیا۔ قریب پہنچا تو معلوم ہوا یہ تو باجی ہیں۔ رات کے اس پہر اتنی سخت سردی میں اس ویران گلی میں گشت کرنے کا سبب اشعر کی سمجھ میں نہ آیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ گشت بھابھی کے ناروا سلوک اور مسلسل جھگڑوں سے بیزاری کا اعلان ہے۔ کسی طرح سمجھا بجھا کر اشعر اپنے گھر لے گیا۔ اس کا گھر ایک ڈربے نما چھوٹے سے کمرے پر محیط تھا۔ اس نے جلدی سے چائے بنائی، چائے کا کپ باجی کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔۔
’’میں جانتا ہوں باجی ، بھابھی کی ناروا باتیں آپ کی طبیعت سے میل نہیں کھاتیں۔ مجھے اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ آپ نے تمام عمر مصائب و آلام کو فراخ دلی سے قبول کیا ہر حال میں صبر اور شکر کا دامن تھامے رکھا ۔ ایسا نہیں کہ مجھے آپ کی تکلیف کا احساس نہیں ۔ میں آپ کی دل سے قدر کرتا ہوں ۔ آپ نے غیر ہو کر بھی ہمیشہ میرے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا ۔ میرا بھی دل چاہتا ہے میں آپ کی خدمت کروںمگر آپ کی خودداری میرے راستے میں حائل ہو جاتی ہے ۔ میں جب بھی آپ کی طرف قدم بڑھاتا ہوں میرے قدموں میں لرزش آجاتی ہے اور ایک خوف سا طاری ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ لرزش لغزش میں نہ بدل جائے۔ یہی خوف مجھے بعض رکھتا ہے۔ آج آپ کو اس حال میں دیکھا تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔ ‘‘
اشعر نے چند ہمدردی کے جملے کہے ، اس کی اس ہمدردی کی تمازت نے وضع داری کے خول سے گزر کر باجی کے سیسہ جیسے سخت دل کو پگھلا دیا۔
ان کے نہاں خانۂ دِل میں برسوں سے چھپا درد کا لاوا پوری شدّت سے اُبل کر باہر آپڑا۔ خلافِ عادت ان کی گہری آنکھوں کی سوکھی ندی سے آنسو چھلکنے لگے۔ وہ مسلسل اپنے آنسو پونچھتی جا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ اشعر کو دعائیں دیتی جا رہی تھیں۔ اس روز سے باجی کے حواس پر نا آسودگی کا عذاب نہیں بلکہ ایک بار پھر وفا داری کی سحر آ گیں کیفیت حاوی ہو گئی ۔ اس کٹھن اور صبر آزما سفر کے بعد انہیں تشفّی ہوئی۔ اب وہ سب سے خوش اسلوبی سے پیش آنے لگیں۔
ان کی زندگی میں جیسے معنویت پیدا ہو گئی تھی۔ اشعر کی صورت میں اﷲ پاک نے باجی کو اولاد سے نواز دیا تھا۔ وہ ہر وقت اسی کا دم بھرتی رہتیں۔ ان کی منتشر زندگی مربوط کہانی کی شکل اختیار کرنے لگی۔ وہ اشعر پر محبت نچھاور کرنے میں لگی رہیں اور اشعر بھی ان سے شفقت کشید کرنے لگا۔ جب کبھی ان کے قدموں میں آ کر بیٹھتاتو فرطِ شفقت سے باجی کی پلکیں نمناک ہو جاتیں۔ ان کی معصوم کیفیت دیکھ کر اشعر پر معصوم مسرت طاری ہو جاتی۔
اشعر کی تعلیم ابھی نا مکمل تھی۔ پھر کیا تھا ۔۔ وہ دن رات اسی کو سنوارنے میں لگ گئیں۔ اشعر کی ماں اس کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی انتقال کر گئیں۔ اس کا بچپن اسی محرومی میں گزرا۔ باجی نے جب اسے ممتا کے آنچل میں لپیٹا تو اسے احساس ہوا جیسے کسی گم شدہ جذبے نے اس کی زندگی کی بے رونقی کو شکست دے کر چپکے سے اس کی گود میں ممتا کی خوش بو انڈیل دی۔ پڑھائی کے اخراجات اشعر کی دسترس سے باہر تھے۔ چناچہ کالج چھوڑ کر اشعر نے کوئی نوکری ڈھونڈنے کا ارادہ کیا۔ باجی ایسا کیسے ہونے دیتیں وہ تو امید کی ادھ کھلی کھڑکی سے اشعر کی ترقی کا چڑھتا سورج دیکھ رہی تھیں۔ اور ان کی دور رس نگاہیں اشعر کے روپ میں اپنے پچھلے پہر کا سہارا دیکھ رہی تھیں۔ اشعر کے بارہا منع کرنے کے باوجود باجی نے اپنی اکلوتی متاع (بالیوں کی جوڑی) اشعر کی ہتھیلیوں پر دھر دی۔
’’ابھی انہیں بیچ کر داخلہ کروا لو رفتہ رفتہ باقی رقم کا انتظام بھی ہو جائے گا‘‘
’’پر باجی۔۔ آپ میری خاطر۔۔‘‘
’’پر ور کچھ نہیں، تیری خاطر نہیں اپنے لیے کر رہی ہوں۔تو بڑا افسر بنے گا تو مجھے مدینہ بھجواسکے گا نا؟ میں نے کہہ دیا تو بس کہہ دیا‘‘
باجی جب یوں حق جتا کر بات کرتیں تو وہ چپ ہو کر رہ جاتا۔ لیکن اس بار وہ ان کی ہاں میں ہاں ملانے سے کترا رہا تھا۔ باجی کا حکم تھا اور پھر اس کے اپنے سپنوں اور مستقبل کا سوال تھا، چپ سادھنے میں ہی بھلائی جانی۔ اشعر کو داخلہ مل گیا وہ دن رات پڑھنے میں لگ گیا اور باجی بھی دن رات ایک کر کے سلائی کرنے لگیں۔ پھر وہ دن بھی آ گیا جب اشعر انجینئر بن کر ان کے سامنے کھڑا تھا۔
اس روز ان پر بے بسی اور خوشی کی ملی جلی کیفیات طاری تھیں ، یہ طے کرنا مشکل تھا کہ وہ اداس ہیں یا خوش جب وہ اشعر کو اس کی دلہن کے ہمراہ ملک سے باہر رونہ کر رہی تھیں۔ اشعر بھی پلٹ پلٹ کر انہیں دیکھتا رہا۔ لیکن وقت کی نایابی کے باعث رک نہ سکا۔ اس کو گئے ایک سال گزر گیا نہ اشعر ہی آیا نہ اس کی خبر۔ باجی حسبِ عادت اس کی لمبی عمر اور کامیابی کی دعا کرتی رہتیں۔ ان کے کندھے لٹکنے لگے ، آنکھوں کی بینائی جانے کے قریب تھی پھر بھی ان کی نگاہیں ہر وقت اس کی راہ تکتی رہتیں۔ وہ ایک بار پھر بے زاری و بے بسی میں پسنے لگیں۔ کبھی زندگی کے دورِ آخر میں بیاضِ دل پر رقم اشعر کی شخصیت کی تمکنت اور رفعت کو یاد کر کے تلخی بر تلخی سے نجات کے بہانے تلاشتی رہتیں۔ کبھی یادوں کے جمگھٹوں میں گھری اشعر کی شریر سی اداؤں کو یاد کر کے احساسِ نا یابی سے آنکھیں چرانے لگتیں۔
ہر چند کہ ابھی بھی امید کی ادھ کھلی کھڑکی میں کھڑی تھیں لیکن اس بار امید کا سورج غروب ہوتا جا رہا تھا ۔ سورج کو غروب ہوتا دیکھ کر وہ آنکھیں موند لیتیں جیسے یہ حقیقت فریبِ محض ہے۔ اشعر بھی ان کی زندگی میں آنے والے باقی لوگوں کی طرح چلتا بنا لیکن زمانے سے انہیں لاکھ شکایت سہی اشعر سے کوئی گلہ نہ تھا ہوتا بھی کیوں اس کے اظہارِ ہمدردی نے باجی کی برسوں سے خالی جھولی کو بھر دیا تھا۔ البتہ اس بات سے کسے انکار کہ اشعر نے بھی دوسروں کی طرح پلٹ کر خبر نہ لی تھی۔ باجی کے پاس اس حقیقت کے احساس کی گنجائش نہ تھی۔ پر ان کے پاس اتنی دیر سوچنے کی مہلت بھی تو نہ تھی ۔ ان کی متحرک زندگی میں ٹھہراؤ کی گنجائش نہ تھی۔ ابھی اتنے کام باقی تھے، ماں کی دوا لانی تھی، بھتیجوں کو سکول چھوڑنا تھا اور راشن ختم ہو چکا تھا وہ بھی تو باجی کی ذمہ داری تھی۔ الماری میں کپڑوں کی تہہ کے نیچے سے پیسے اٹھائے، چادر میں لپٹی بازار جانے کے لیے دروازہ کھولا تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ اشعر ان کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں عمرہ کے دو ٹکٹ تھے۔ آج بھی اس کی آنکھوں میں وہی احساسِ تشکر اور محبت کی شدت تھی جو اب باجی کے لیے محض یاد بن کے رہ گئی تھی۔
٭٭٭