وہ ایک کچا گھر تھا۔ اس کے در و دیوار غربت کی داستان سنا رہے تھے۔ گھر کے ساتھ ہی ایک شکستہ چھپر بنا ہوا تھا جس کے نیچے مویشی بیٹھے جگالی کر رہے تھے۔ ارد گرد سرسبز کھیت لہلہا رہے تھے۔ یہ ظہیر کا گھر تھا۔ شہر سے بہت دور ایک پسماندہ گاؤں میں واقع ایک چھوٹا سا گھر۔ وہ خود اس وقت اپنے گھر سے چند میل دور ایک اسکول میں بیٹھا تعلیمی سفر طے کر رہا تھا۔ یہ اسکول اس چھوٹے سے گاؤں کا اکلوتا اسکول تھا۔ اسکول سے کچھ دور ایک چھوٹا سا قصبہ بھی تھا جہاں ضروریات زندگی کا سامان ملتا تھا۔ ظہیر اس اسکول میں جماعت دہم کا طالب علم تھا۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی جب اسکول میں بریک ہوئی تو وہ بجائے باہر جانے کے اپنی نشست پر ہی بیٹھا رہا۔ جب سب لڑکے باہر چلے گئے تو اس نے اپنے بیگ سے کچھ صفحات نکالے۔ قلم اس کی جیب میں ہی موجود تھا۔ اس نے جلدی جلدی لکھنا شروع کر دیا تھا۔
وہ ایک کہانی نگار تھا اور انتہائی مخدوش مالی حالات ہونے کے باوجود بھی لکھنے کا یہ شوق جاری رکھے ہوئے تھا۔ اس کے گھر والے تو اتنی حیثیت بھی نہ رکھتے تھے کہ اس کی تعلیم کا خرچ برداشت کر سکیں۔ اسکول کی بنیادی اشیاء کی خریداری کے لیے بھی اسے کافی تگ و دو کرنا پڑتی تھی۔ کہانی کو ڈاک خانے کے ذریعے بھیجنے کے لیے بھی اسے کافی پاپڑ بیلنا پڑتے، لیکن وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھا۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وہ ہر اتوار کو کئی میل پیدل سفر کر کے ایک نرسری فارم میں جاتا اور وہاں دن بھر پلاسٹک کی خالی تھیلیوں میں مٹی بھرنے کی مزدوری کرتا۔ وہی پلاسٹک کی تھیلیاں جن میں نرسری والے پودے اگاتے ہیں۔ اس کام سے ملنے والی اجرت سے وہ کاغذ، ڈاک ٹکٹ اور لفافے لے آتا تاکہ کاغذ قلم کے ساتھ اس کا رشتہ جڑا رہے۔ اس وقت وہ ہر چیز سے بے خبر روانی و تسلسل سے لکھتا چلا جا رہا تھا، اور پھر اس نے بریک کے آدھے گھنٹے میں ہی ایک کہانی لکھ ڈالی۔ کہانی کو دوبارہ پڑھتے ہوئے وہ زیر لب مسکراتا بھی جا رہا تھا۔ پھر اس نے بیگ سے ڈاک لفافہ نکالا اور کہانی کو لفافے میں رکھ کر اس پر پتہ لکھنے لگا۔ اب اس کی کہانی سفر کے لیے تیار تھی۔ چھٹی کے بعد وہ تیز رفتاری سے چلتا ہوا ڈاک خانے کی طرف بڑھا اور لفافہ لیٹر باکس کے حوالے کر دیا۔ اب اس کا صرف ایک کام باقی تھا اور وہ تھا پرانے رسائل خریدنا۔ نئے رسائل خریدنے کے لیے اس کے پاس رقم نہیں ہوتی تھی، اور رسائل کے نا خدا مدیران اور مالکان حضرات کہانی نگاروں کو ایک اعزازی کاپی بھیجنا بھی حرام سمجھتے تھے، اس لیے وہ پرانے رسائل خریدتا تھا۔ مگر اس کے لیے یہاں ایک مسئلہ اور تھا کہ اسے رسالہ دو ماہ بعد ملتا تھا، مگر وہ اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتا تھا، رسائل کی دکان پر پہنچ کر اس نے پرانے رسائل طلب کیے اور قیمت ادا کر کے گھر کو روانہ ہو گیا، کیوں کہ وہاں پر بہت سارے کام اس کے منتظر تھے۔
٭…٭…٭
جنید جیسے ہی کمرے میں پہنچا، اس نے اپنا اسکول بیگ اتار کر بیڈ پر پٹخا، اور تیزی سے بیگ کھولنے لگا۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ بہت بے تاب ہے اور بیگ میں کوئی خاص چیز ہے جس کی اسے تلاش ہے۔ دوسرے ہی لمحے بچوں کا ایک نیا نویلا چم چم کرتا میگزین اس کے ہاتھوں میں تھا۔ ’’ماہ نامہ چراغ‘‘
وہ زیر لب بڑبڑایا۔ سرورق کا جائزہ لینے کے بعد اس نے فہرست پہ نظر دوڑائی اور اسے دیکھتے ہی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ کیوں کہ اس کے پسندیدہ لکھاری کی کہانی رسالہ کی زینت بنی ہوئی تھی۔ یہ لکھاری ظہیر احمد تھا۔ اس نے فہرست سے صفحہ نمبر دیکھا اور سب سے پہلے وہی کہانی پڑھنے لگا۔ چند ہی منٹوں میں اس نے وہ کہانی پڑھ ڈالی۔
’’واہ، کیا زبردست کہانی لکھی ہے، یہ کہانی ہمارے کام آ سکتی ہے، یہ بالکل منفرد ہے، کمال کا تخیل ہے۔‘‘
اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا اور پھر اپنا موبائل نکال کر ایک نمبر ڈائل کرنے لگا، جلد ہی رابطہ قائم ہو گیا۔
’’السلام علیکم، انس!! میں نے کہانی تلاش کر لی۔‘‘ جنید نے رابطہ ہوتے ہی پر جوش انداز میں کہا۔ اور پھر دوسری طرف سے بات سننے لگا۔
’’ہاں بھئی اس کہانی کے مطابق ہمارا ڈرامہ سب سے شاندار ہو گا۔‘‘
’’بالکل، تم پڑھو گے تو تمہیں اندازہ ہو ہی جائے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے دوست! میں تمہیں کہانی واٹس ایپ کرتا ہوں، دیکھنا اس خاکے کو پیش کر کے ہم مقابلہ جیت جائیں گے۔‘‘
’’اوکے ان شاء اللہ، پھر مجھے بتانا ضرور۔‘‘ اس کے ساتھ ہی رابطہ ختم ہو گیا۔ انس اور جنید دونوں دوست تھے، ان کے اسکول میں اسٹیج ڈرامہ پیش کرنے کا مقابلہ ہو رہا تھا اور انہیں کسی منفرد کہانی کی تلاش تھی جس سے وہ اپنا ڈرامہ ترتیب دے سکیں، اور جنید نے اپنے ڈرامے کے لیے ظہیر کی کہانی کو منتخب کیا تھا، اس نے کہانی اپنے دوست انس کو واٹس ایپ کی اور ایک بار پھر مطالعہ کرنے لگا۔ اسی اثناء میں اسے امی کی آواز سنائی دی جو اسے کھانے کے لیے بلا رہی تھیں۔ وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور کھانے کی میز کی طرف چل دیا۔
٭…٭…٭
’’سر میں اندر آ سکتا ہوں۔‘‘
مغیث صاحب نے نظریں اٹھا کر دیکھا، ان کے آفس کے دروازے پر سرکولیشن منیجر ٹھہرا مسکرا رہا تھا۔ یہ ماہ نامہ چراغ کا دفتر تھا اور مغیث صاحب رسالہ کے مدیر تھے۔ اس وقت کمرے میں مدیر صاحب کے ساتھ اس میگزین کے مالک نثار ہمدانی بھی موجود تھے۔
’’آئیں ندیم صاحب۔‘‘ مغیث صاحب نے مسرت کا اظہار کیا۔
’’السلام علیکم!‘‘ ندیم صاحب نے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ دونوں نے جواب دیا اور پھر مغیث صاحب نے انہیں کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’شکریہ سر!!‘‘ ندیم صاحب نے کہا اور پھر وہ کرسی پر بیٹھ گئے۔
’’کہیے، کیسے آنا ہوا؟‘‘
سلام دعا کے بعد مغیث صاحب نے دریافت کیا۔
’’سر! بات یہ ہے کہ پچھلے آٹھ ماہ سے ایک لکھاری تواتر کے ساتھ ہمارے رسالہ میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی ہر تحریر بہت منفرد ہوتی ہے اور یہ بات آپ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ قارئین کے خطوط میں اس کہانی نویس کی کتنی تعریف ہوتی ہے۔ میں ظہیر احمد کی بات کر رہا ہوں۔‘‘ ندیم صاحب نے جلدی جلدی کہا۔
’’اچھا، ٹھیک ہے، میں سمجھ رہا ہوں، آپ بات مکمل کیجیے۔‘‘
مغیث صاحب نے سر ہلایا۔
’’سر، اس بار مجھے ایک حیرت انگیز بات معلوم ہوئی ہے جو میں آپ کو بتانا چاہتا تھا، وہ یہ کہ ہمارے رسالہ کی سرکولیشن پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے، اور میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ ظہیر احمد ہے۔ اس بات کا ثبوت قارئین کے بہت سارے خطوط ہیں، اور کچھ لوگوں نے تو کال کر کے تعریف کی ہے اور سالانہ ممبر شپ بھی لی ہے، جبکہ کچھ باتیں ہمارے پبلک ایجنٹس نے بتائی ہیں اور میں نے جب سارے اعداد و شمار جمع کیے تو بہت حیران ہوا، رسالہ کی سرکولیشن میں پندرہ سو سے دو ہزار تک کا اضافہ ہوا ہے، اس اضافے کی دیگر وجوہات بھی ہوں گی لیکن اس میں زیادہ کردار ظہیر کی کہانیوں کا ہے۔‘‘
ندیم صاحب نے پر جوش لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے، یہ ہمارے لیے اچھی خبر ہے۔ ظہیر احمد کی کہانیاں واقعی بہت خوبصورت ہوتی ہیں، ابھی کل کی ڈاک سے اس کی ایک اور نئی کہانی موصول ہو چکی ہے۔‘‘ مغیث صاحب نے بتایا۔
’’سر! میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم ظہیر احمد سے ملیں اور اس سے سلسلہ وار کہانیاں لکھوائیں یا کوئی ناول لکھنے پہ آمادہ کریں، یہ رسالہ کے لیے زیادہ مفید ہو گا۔‘‘ ندیم صاحب نے رائے پیش کی۔
’’آپ کا کیا خیال ہے جناب؟‘‘ مدیر صاحب نے ہمدانی صاحب کی طرف دیکھا۔
’’ہمم۔۔ ہوں۔۔! سوچتے ہیں اس پہلو پر، لیکن آپ جانتے ہیں کہ پھر اسے معاوضہ بھی دینا پڑے گا، ابھی تک تو سارا کام مفت ہی چل رہا ہے۔‘‘ ہمدانی صاحب ہنسے۔
’’جی، یہ تو ہے۔‘‘ مغیث صاحب نے کہا۔
’’ہاں اور یہ ضروری نہیں کہ سرکولیشن بڑھنے کی وجہ ظہیر ہو، باقی لکھاری بھی تو ہیں۔‘‘ ہمدانی صاحب نے نکتہ اٹھایا۔
’’جی بالکل جناب، باقی لکھاری بھی ہیں اور وہ بھی اچھا لکھتے ہیں لیکن قارئین ظہیر کی ڈیمانڈ بہت زیادہ کرتے ہیں۔‘‘ ندیم صاحب اپنی بات پر مصر تھے۔
’’چلیے، کچھ عرصہ تک ایسے ہی چلنے دیتے ہیں۔ بعد میں دیکھ لیں گے اور اگر ظہیر احمد اتنا ہی ضروری ہوا تو ہم اس کے نام سے خود کوئی ناول لکھ کر چھاپ دیں گے۔‘‘ ہمدانی صاحب نے تیز تیز بولتے ہوئے کہا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ مغیث صاحب اور ندیم صاحب اپنے مالک کی یہ سوچ سن کر دنگ رہ گئے تھے، مگر وہ کچھ نہیں کہہ سکتے تھے، لہٰذا وہ خاموش ہو گئے۔
٭…٭…٭
ظہیر ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر پڑا بخار سے جل رہا تھا۔ کھانسی کی شدت اسے نڈھال کر چکی تھی اور کھانس کھانس کر اس کا سینہ پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔ اس کی ماں اس کے سرہانے بیٹھی گیلے کپڑے کی پٹیاں رکھ کر بخار کی حدت کو کم کرنے کی کوشش میں مصروف تھیں۔ بخار سے زیادہ انہیں کھانسی کی فکر کھائے جا رہی تھی، عجیب ٹھسکے دار کھانسی تھی اور سانس لیتے وقت سیٹی جیسی آواز برآمد ہو رہی تھی، انہیں ڈر تھا کہ یہ کھانسی دمہ یا ٹی بی کا مرض نہ ہو، یہی سوچ سوچ کر وہ کانپ رہی تھیں۔ اسی وقت قدموں کی چاپ سنائی دی اور کوئی آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ ظہیر نے آنکھیں کھول دیں۔ سامنے ہی اس کے والد صاحب کھڑے تھے۔
’’کیا حال ہے اس کا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’بخار سے جل رہا ہے اور کھانسی کا تو مت پوچھیں، آپ دوا لے آئے ہیں۔؟‘‘ ظہیر کی ماں نے دریافت کیا۔
’’ہاں، حکیم صاحب نے کہا ہے کہ یہ پڑیا دن میں تین بار اس شربت کے ساتھ کھلائیں، اور جلد ہی سرکاری ہسپتال سے ٹیسٹ کرائیں، کہیں بیماری بڑھ نہ جائے۔‘‘ اس کے والد ایک شاپر لہراتے ہوئے بولے۔
’’ٹھیک ہے، مجھے دے دیں۔‘‘ اس کی ماں نے دوا لے لی۔
’’اٹھو بیٹا، دوا کھا لو۔‘‘ وہ شفقت سے بولیں۔ وہ بھاری سر اور بخار سے جلتے وجود کے ساتھ اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔
٭…٭…٭
تالیوں کی گونج ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔ ڈرامہ ختم ہو چکا تھا اور اسٹیج پر پردہ گر چکا تھا مگر ناظرین ابھی تک پر جوش تھے، یقیناً انہیں یہ ڈرامہ بہت اچھا لگا تھا۔ منصفین حضرات بھی آپس میں سر جوڑے محو گفتگو تھے۔ جنید اور اس کی ٹیم کے دوست پردے کے پیچھے موجود تھے، مارے خوشی کے ان کے چہرے سرخ ہوئے جا رہے تھے۔ ناظرین کی داد سے ان کے حوصلے آسمان کو چھو رہے تھے۔ ظہیر کی لکھی ہوئی کہانی پہ بنایا گیا ڈرامہ اس وقت سب سے ٹاپ پر تھا اور پھر نتائج کے اعلان کا مرحلہ آن پہنچا۔ جنید اور اس کی ٹیم اس مقابلے میں فرسٹ پوزیشن حاصل کر چکی تھی، جس وقت انہیں انعامات سے نوازا جا رہا تھا، عین اسی وقت اس کہانی کا لیکھک اپنے گھر میں پڑا بخار کی شدت سے جل رہا تھا۔
٭…٭…٭
ندیم صاحب نے کرسی سنبھالی اور میز پر پڑے ہوئے ڈاک لفافوں کی چھانٹی کرنے لگے۔ انہیں ایک خاص لفافے کی تلاش تھی۔ اور پھر تھوڑی سی تگ و دو کے بعد انہیں وہ لفافہ مل ہی گیا۔ یہ ظہیر کا لفافہ تھا۔ انہوں نے لفافہ الٹ کر دیکھا تاکہ بھیجنے والے کا پتہ ڈھونڈ سکیں۔ جلد ہی پتہ ان کے سامنے تھا۔ وہاں پہ لکھا تھا: ’’ڈاک خانہ جہانگیر آباد، گاؤں عیسن والا، ضلع کوٹ ادو۔‘‘ اس کے آگے کچھ نہیں لکھا تھا۔ مگر ندیم صاحب کے لیے اتنا سراغ ہی کافی تھا۔ وہ ارادہ کر چکے تھے کہ وہ ظہیر کو ضرور تلاش کریں گے اور اسے اس کی صلاحیتوں کے بارے میں ضرور بتائیں گے۔ انہوں نے یہ ایڈریس اپنے ایک دوست کو بھیج دیا تاکہ وہ انہیں اس جگہ کی درست لوکیشن بتا سکیں۔ یہ کام مکمل کر کے وہ کرسی سے اٹھنے ہی والے تھے کہ انہیں موبائل پر میسج ملنے کا اشارہ موصول ہوا۔ انہوں نے دیکھا وہ پیغام ہمدانی صاحب کی طرف سے تھا۔ ہمدانی صاحب کی طرف سے آج دوپہر کو تمام سٹاف کے لیے کھانے کا دعوت نامہ تھا۔ اور یہ دعوت اس خوشی میں دی جا رہی تھی کہ رسالہ کی سرکولیشن بڑھ گئی تھی۔ ندیم صاحب ایک بار پھر سرد آہ بھر کر رہ گئے – وہ سوچ رہے تھے: ’’جس ادیب کی وجہ سے یہ سب کچھ ممکن ہوا، افسوس! اسے کسی نے کوئی انعام نہیں دیا، کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔‘‘ دوپہر کو تمام سٹاف خوش گپیوں کے ساتھ ساتھ کھانے میں مگن تھا۔ وہ سب خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ عین اسی وقت ظہیر اپنے گھر میں پڑا بخار کی شدت سے کراہ رہا تھا۔
٭٭٭