یہ امر محتاجِ دلیل نہیں کہ کسی زبان میں ’تنقید‘ اس وقت معرضِ وجود میں آتی ہے جب اس زبان میں ادب کا فروغ عمل میں آ چکا ہوتا ہے۔ ادب کی تخلیق کے لیے اس کے خالق یعنی مصنف (Author) کا ہونا بھی ضروری ہے۔ مصنف، تخلیق اور تنقید یہ تینوں مل کر ایک مثلث بناتے ہیں۔ مصنف اور تخلیق کے درمیان رشتہ پہلے استوار ہوتا ہے، اور تخلیق کا تنقید (یا نقاد) کے ساتھ رشتہ بعد میں قائم ہوتا ہے۔ تخلیق کلیۃً مصنف کے تابع ہوتی ہے، یعنی کہ جیسا اور جس خیال، نظریے یا طرزِ فکر کا مصنف ہو گا ویسی ہی اس کی تخلیق ہو گی۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ادب اپنے سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہ ایک قدیم تصور ہے، اور یہ بات اس لیے درست نہیں کہ سماج خواہ کیسا بھی ہو، ادب ویسا ہی ہو گا جیسا کہ اس کے مصنف کی منشا ہو گی۔ بہت سی باتیں جو سماج میں کہیں نظر نہیں آتیں ، لیکن ادب میں ان کا وجود ہوتا ہے۔ اسی طرح بہت سی باتیں جو سماج کا حصہ ہیں ، ادب میں ان کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے یا سماج کے تابع ہوتا ہے، درست نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مصنف بھی جو سماج کا ایک فرد ہوتا ہے، سماج کے تابع (یا پورے طور پر تابع) نہیں ہوتا۔ وہ کبھی کبھی سماج سے بغاوت بھی کر بیٹھتا ہے، اس کے بنائے ہوئے اصولوں اور قاعدوں کی نفی بھی کرتا ہے، اور اس کے بندھنوں اور پابندیوں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے، کیوں کہ اس کی اپنی آئیڈیا لوجی ہوتی ہے جواس کی رہبری کرتی ہے۔ سیاست، اور اخلاقیات (جس کا مذہب سے گہرا تعلق ہے)، دونوں سماجی ادارے ہیں اور ہر سماج کسی نہ کسی طور پر سیاسی/ مذہبی / اخلاقی بندھنوں میں جکڑا ہوتا ہے۔ مصنف کی آزادانہ روش یا اس کی باغیانہ فکر یا آئیڈیالوجی سماجی اداروں کے نظریات اور ان کے زریں اصولوں کو صد فی صد تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر پریم چند کے افسانوی مجموعے ’سوزِ وطن‘(۱) کی، اور اخلاقی وجوہ کی بنا پر ایک دوسرے افسانوی مجموعے ’انگارے‘(۲) کی ضبطی عمل میں آئی تھی۔
کسی مصنف کا اپنی تخلیق کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ اگر سچ پوچھا جائے تو ادب سماج کا نہیں ، بلکہ اس کے خالق یعنی مصنف کے ذہن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ اس کے خیال، فکر اور آئیڈیا لوجی کی عکاسی کرتا ہے۔ مصنف اپنی تخلیق سے جتنا زیادہ قریب ہوتا ہے، تنقید یا نقاد سے وہ اتنا ہی دور رہتا ہے۔ مصنف کا تنقید سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، لیکن تنقید (بہ لفظِ دیگر نقاد) کا رشتہ تخلیق سے بھی ہوتا ہے اور اس کے خالق (مصنف) سے بھی۔ مصنف، تخلیق اور تنقید (نقاد) کے مابین رشتہ ایک مثلث کی شکل اختیار کر لیتا ہے:
u
اس مثلث پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ مصنف کا براہِ راست تعلق تخلیق سے تو ہے، لیکن تنقید یا نقاد سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ؛ لیکن نقاد کا رشتہ تخلیق سے بھی ہے اور مصنف سے بھی۔ نقاد اور مصنف کے درمیان رشتے کی نوعیت یک طرفہ ہے، جب کہ تخلیق اور تنقید (نقاد) کے درمیان رشتہ دو طرفہ ہے۔ نقاد اور مصنف کے اس روایتی رشتے پرنہ صرف روسی ہیئت پسندوں نے کاری ضرب لگائی، بلکہ عملی تنقید، نئی تنقید، نئی امریکی تنقید، ساختیاتی وپس ساختیاتی تنقید اور اسلوبیاتی تنقید کے ماہرین نے بھی مصنف کے وجود کی نفی کرتے ہوئے صرف تخلیق یا فن پارے کو خود مکتفی مان کر اپنے تنقیدی فرائض انجام دیے۔ روایتی ادبی تنقید کی روسے تخلیق نقاد کو متاثر کرتی ہے اور نقاد اسی تاثر کو قاری تک پہنچاتا ہے۔ یہ تاثر کئی نقادوں کے درمیان مختلف بھی ہوسکتا ہے، جب کہ تخلیق وہی رہتی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ نقاد جس طرح چاہتا ہے تخلیق کی تشریح (Interpretation) کرتا ہے۔ اِس میں اس کی اپنی پسندیا ناپسند کو حد درجہ دخل ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تنقیدی عمل کے دوران اس کے اپنے نظریات، عقائد اور آئیڈیا لوجی حاوی رہتی ہے۔
ادب اور سماج کے تعلق سے یہ بات ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ ادب سماج کی رپورٹنگ نہیں۔ یہ کام یا تو صحافت کا ہے یا تاریخ کا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ادب کا مطالعہ ہر گز اس خیال سے نہ کرنا چاہیے کہ اس سے ہمیں معلومات حاصل ہوں گی یا ہمارے علم میں کسی قسم کا اضافہ ہو گا۔ ادب کا مقصد نہ تو رپورٹنگ ہے اور نہ اطلاع رسانی، اور نہ ہی کسی ادیب پر یہ ذمہ داری یا پابندی عائد ہوتی ہے کہ سماج میں اچھا یا برا جو کچھ بھی واقع ہو رہا ہے اس کی وہ رپورٹنگ کرے یا علم کا خزانہ ہمارے سامنے پیش کرے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ادب (یا ادبی متن) میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اسے ادب یا متن سے باہر Verify نہیں کیا جا سکتا، یعنی اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ ادبی متن میں جو کچھ کہا گیا یا بیان کیا گیا ہے وہ سچ ہے یا سچ نہیں ہے، کیوں کہ متن اور حقیقی دنیا (Text and reality) میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ صحافت اور تاریخ حقیقی دنیا یا Realityسے جتنے زیادہ قریب ہوتے ہیں ، ادب اس سے اتنا ہی دور ہوتا ہے، کیوں کہ ادب فسانہ ہے، حقیقت نہیں (Literature is fiction, not fact)۔ اسی لیے ادب میں ترسیلی وزن (Communicative load) بہت کم ہوتا ہے۔
جب ادب اور سماج کے درمیان رشتے کی نوعیت کا پتا چل گیا تو یہ جاننا زیادہ مشکل نہیں کہ تنقید کا منصب کیا ہے۔ تنقید کا منصب و مقصد ادب میں سماج کو ٹٹولنا نہیں ، بلکہ اس جمالیاتی حظ اور سرخوشی (Aesthetic pleasure) کو بیان کرنا ہے جو کسی ادبی فن پارے کو پڑھنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ کسی ادبی فن پارے یا کسی نظم کو پڑھنے کے بعد قاری ایک نوع کے جمالیاتی تجربے (Aesthetic experience) سے گزرتا ہے۔ اس تجربے کا بیان ہی ’تنقید‘ ہے۔ یہ بات محتاجِ دلیل نہیں کہ ادب جمالیات کی ایک شاخ ہے۔ بعض ثقہ نقاد یہ کہہ سکتے ہیں کہ تنقید کا مقصد کسی ادبی فن پارے کو اچھا یا برا بتانا یا اس کی خوبی و خامی کا پتا لگا نا ہے۔ لیکن یہ سائنٹفک یا معروضی نظریۂ تنقید نہیں ، کیوں کہ ایک نقاد جس فن پارے کو اچھا بتاتا ہے، دوسرا نقاد اسی فن پارے کو برا ثابت کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔ ایسی صورت میں قاری شش و پنج میں پڑ جاتا ہے اور اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وہ کس نقاد کی بات مانے -ایسی تنقید داخلی اور تاثراتی تنقید کے زمرے میں آتی ہے۔ ہم عصر ادبی تنقید اب بہت آگے نکل چکی ہے۔ یہ تنقید اب فن پارے کو حسن و قبح یا خوب و زشت کے پیمانے سے نہیں ناپتی، بلکہ اس کا مقصود کچھ اور ہے جس کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا۔
(۲)
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ادب کی حیثیت ایک فن پارے کی ہے جس کا ذریعۂ اظہار زبان ہے، لہٰذا کوئی بھی ادبی اسکالر یا نقاد شعرو ادب میں زبان کے تفاعل (Interaction)یا اس کے ادبی و شعری وظائف (Functions) سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ ادب بالخصوص شاعری میں زبان کا تخلیقی استعمال، جو زبان کے عام استعمال سے مختلف ہوتا ہے، اپنی منتہا کو پہنچ جاتا ہے اور جمالیات کی حدوں کو چھو لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری میں ترسیلی عمل کا جمالیاتی ترسیلی فنکشن (Aesthetic communicative function) سب سے غالب نظر آتا ہے۔ روایتی موضوعی ادبی تنقید مزاجاً داخلی (Subjective) اور تاثراتی (Impressionistic) تو تھی ہی، اس میں وجدان (Intuition) کی بھی عمل آرائی تھی۔ اس تنقید کی سب سے بڑی خامی (جسے بعض نقاد خوبی سمجھتے ہیں ) یہ تھی کہ یہ مصنف کی بیساکھی کے بغیر دو قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ ایسی تنقید کا دارو مدار مصنف کی شخصیت، اس کے احوال و کوائف (ولادت تا وفات )، نیز اس کے عہد اور اس عہد کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی حالات و واقعات اور انقلابات کے ذکر اور تاریخی تناظر پر ہوتا تھا۔ ایسی تنقید میں تخلیق یا فن پارے کو یا اس کے ذریعۂ اظہار کو بالکل پسِ پشت ڈال دیا جاتا تھا، کیوں کہ ادبی نقاد کی تمام تر توجہ خارجی عوامل اور مصنف کے سوانحی حالات ہی پر مرکوز ہو کر رہ جاتی تھی۔ ایسی تنقید کو مصنف اساس یا مصنف مرکز (Author centred) تنقید یا سوا سخی تنقید کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ بیسویں صدی کی آمد آمد تھی کہ مغرب میں ایسی تنقید کا دم خم جاتا رہا۔ جلد ہی مصنف کی موت (’’The death of the author‘‘) کا اعلان بھی ہو گیا۔ (۳)
ہوا یوں کہ بیسویں صدی کے آغاز سے یورپ میں فرڈی نینڈ ڈی سسیور(م ۱۹۱۳ء) کے تازہ لسانی افکار منظرِ عام پر آنا شروع ہو گئے جن سے جدید لسانیات یا دوسرے لفظوں میں ساختیاتی لسانیات (Structural Linguistics) کی داغ بیل پڑی اور اس کی شہرۂ آفاق کتاب Course in General Linguistics کی ۱۹۱۶ء میں اشاعت سے اگر ایک طرف، زبانوں کے تاریخی مطالعے کے علی الرغم، ان کے توضیحی مطالعے اور تجزیے کی راہیں ہموار ہوئیں تو دوسری جانب ساختیات (Structuralism) کے بنیادی تصورات مرتب ہوئے۔ ساختیاتی ادبی تھیوری (Structuralist Literary Theory) کا ماخذ اور نقطۂ آغاز بھی یہی کتاب ہے۔ زبان کے بارے میں سسیور کے تصورات یا اس کے فلسفۂ لسان کے ادب پر اطلاق سے ادبی تنقید کے لسانی مضمرات کا پتا بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ادب جس کی حیثیت ایک متن (Text) یا کلامیہ (Discourse) کی ہے زبان کے ہی سانچے یا ڈھانچے میں متشکل ہوتا ہے۔ برایں بنا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب فی الحقیقت ’زبان ‘ہے جس کے مضمرات ادبی تنقید کے ہر نئے ماڈل میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
(۳)
فرڈی نینڈ ڈی سسیور(لسانیاتِ جدید کا ابوار لآبا) زبان کو ’نشانات کا نظام‘ (System of signs) قرار دیتا ہے اور لفظ کو ’نشان ‘ (Sign) کہتا ہے جو اس کے نزدیک دو رخا ہوتا ہے۔ اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ ہر نشان کی دو ’طرفیں ‘ (Sides) ہوتی ہیں ؛ اس کی ایک ’طرف ‘ (Side) کو ’تصور‘ (Concept) اور دوسری طرف کو ’صوت امیج‘ (Sound-image) کہتے ہیں۔ نشان میں پائے جانے والے اس دوہرے رشتے یعنی ’تصور‘ اور ’صوت امیج‘ کو وہ علی الترتیب signifiedاور signifierبتاتا ہے۔ اردو میں ان کے لیے ’معنی‘ اور ’معنی نما‘ کی اصطلاحیں مستعمل رہی ہیں۔ انھی دونوں سے مل کر ’نشان ‘ بنتا ہے اور اس کے درمیان رشتہ، ’ساختیاتی رشتہ ‘ کہلاتا ہے:
نشان
(Sign)
تصور صوت امیج
((Concept/signified (Sound-image/signifier)
=معنی =معنی نما
سسیور کے تصورِ نشان ہی سے مربوط اس کے ’langue‘ اور ’parole‘ کے تصورات ہیں۔ اس نے ان دونوں میں فرق بتایا ہے۔ اول الذکر اصطلاح ’لانگ‘ اس نے بہ حیثیتِ مجموعی ’زبان‘ کے لیے استعمال کی ہے جو ایک جامع نظام ہے اور جس کی حیثیت تجریدی (Abstract) ہے جس کے اپنے ضابطے اور قاعدے (Rules)ہیں اور اپنی روایات (Conventions) ہیں ، اور جو سماجی اور اجتماعی سروکار رکھتی ہے۔ یہ زبان کے شخصی یا انفرادی اظہار سے ماورا ہے۔ سسیور کی دوسری اصطلاح ’پرول ‘ سے مراد، بہ وقتِ تکلم، کسی فردِ واحد کے ذریعے زبان کا فی الحقیقت استعمال ہے۔ ’پرول‘ درحقیقت ’لانگ‘ ہی سے برآمد ہوتا ہے۔ اگر لانگ پہلے سے موجود نہ ہو تو پرول معرضِ وجود میں نہیں آسکتا۔ اس کی حیثیت انفرادی ہے۔ اسے زبان کا شخصی اظہار بھی کہہ سکتے ہیں۔
لانگ اور پرول کے درمیان اس فرق کے مضمرات کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم ’معنی‘ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ سسیور کے خیال کے مطابق کسی نشان (یا دور لفظ) کے معنی کا انحصار رشتوں کے نظام (System of relations) پر ہوتا ہے اور الفاظ رشتوں کے نظام کا حصہ ہوتے ہیں ، لہٰذا معنی کے تعین کے لیے رشتوں کے نظام کا ادراک ضروری ہے۔ اس کے بغیر معنی کا تعین ممکن نہیں۔ سسیور کا یہ بھی خیال ہے کہ نشان بہ ذاتِ خود با معنی نہیں ہوتا، بلکہ نظام میں موجود دوسرے نشانات کی نسبت سے اس میں معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ نسبت تضادو تفریق (Opposition and Contrast) کی ہے، چنانچہ رشتوں کے نظام میں پائے جانے والے تضادات ہی اخذِ معنی میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک نشان کا دوسرے نشان کے ساتھ یا ایک لفظ کا دوسرے لفظ کے ساتھ جو تفریقی رشتہ ہوتا ہے وہی تعینِ معنی میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔
معنی سے قطع نظر سسیور نے زبان کے تاریخی (Diachronic) اور توضیحی یا یک زمانی (Synchronic) مطالعے کے فرق کو بھی واضح کیا ہے، نیز الفاظ کے عمودی (Paradigmatic) اور افقی (Syntagmatic) رشتوں کے درمیان پائے جانے والے امتیازات کی بھی وضاحت کی ہے۔ (۴)
زبان سے متعلق فرڈی نینڈڈی سسیور کے انھی فلسفیانہ تصورات سے ’ساختیات‘ کی بنیاد پڑی اور ساختیاتی تنقید کو فروغ حاصل ہوا۔ بعدازاں ’پس ساختیات‘ (Post-structuralism)، ’ردِ تشکیل‘ (Deconstruction) اور ’متن و متونیت‘ (Text and Textuality) جیسے تصورات عام ہوئے۔ پس ساختیاتی نظریے کے فروغ کے ساتھ ہی ’قاری اساس تھیوری ‘ (Reader-response Theory) کا وجود عمل میں آیا۔ ان تمام نظریات نے، جن کا تعلق سسیور کے فلسفۂ لسان سے ہے، ادبی تنقید کی کایا ہی پلٹ دی۔
(۴)
جس زمانے میں یورپ میں فرڈی نینڈ ڈی سسیور کے لسانی تصورات عام ہونا شروع ہوئے، تقریباً اسی زمانے میں سوویت یونین میں ماسکو لسانیاتی حلقہ (Moscow Linguistic Circle) کا قیام عمل میں آیا جس کے تحت روسی ہیئت پسندی (Russian Fornalism) پندرہ سال تک (۱۹۱۵تا ۱۹۳۰ء) پھلتی پھولتی اور فروغ پاتی رہی۔ اس لسانیاتی حلقے کے ارکان اپنی تمام ترتوجہ ’ادب کی زبان‘ کے مسائل پر مرکوز کیے ہوئے تھے اور ’ادب کی سائنس‘ کی تشکیل میں مصروف تھے۔ ’ادبیت ‘ کے مسئلے پر بھی انھوں نے غور و خوض سے کام لیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ادب میں ادبیت زبان کے مخصوص استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔ روسی ہیئت پسند فن پارے کو خود کفیل و خود مختار مان کر اس کے معروضی، تجزیاتی اور سائنسی مطالعے کے حق میں تھے۔ اس کے لیے انھوں نے متن کی سائنسی تفتیش و تجزیے کا ایسا طریقہ اختیار کیا تھا جو شعری زبان کے انوکھے پن کو پوری طرح اجاگر کر دے۔ (۵)
سوویت یونین میں سیاسی پالیسی کی تبدیلیوں کے نتیجے میں ماسکو لنگوِ سٹک سرکل کے بعض ارکان پراگ (چیکوسلو واکیہ) منتقل ہو گئے تھے اور وہاں لسانیات کے ایک دوسرے دبستان پراگ لنگوِ سٹک سرکل (Prague Linguistic Circle) کی بنیاد ڈالی تھی۔ رومن جیکب سن جو ایک مشہور روسی ہیئت پسند تھا دبستانِ پراگ (Prague School) کا ایک ممتاز ماہرِ لسانیات تسلیم کیا گیا ہے۔ پراگ اسکول میں اگرچہ زبان کے کئی نئے نظریات کو فروغ حاصل ہوا، لیکن جیکب سن کی فنکشنل اسٹائل کی تھیوری (The theory of functional style) اس اسکول کا غالباً سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ جیکب سن نے ترسیلی عمل (Act of Communicaton) کے چھے اساسی فنکشنز (Basic Functions) بتائے ہیں :
۱- اطلاعی (Informative)،
۲- جذباتی/محسوساتی (Emotive)،
۳- شعری (Poetic)،
۴- ہدایتی (Directive)،
۵- لسانی (Metalingual)، اور
۶- ارتباطی (Phatic)،
جیکب سن کا خیال ہے کہ ترسیلی عمل کے دوران کئی فنکشنز باہم دگر برسرِ کار رہتے ہیں ؛ ان میں سے کوئی ایک فنکشن غالب رول ادا کرتا ہے جس سے مقصد برآری کا پورے طور پر کام لیا جاتا ہے۔ ادب جو ایک فنی و تخلیقی اظہار ہے؛ اس کی حیثیت جمالیاتی ترسیل (Aesthetic Communication) کی ہے جو ادبی ترسیل ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس ترسیلی عمل کے دوران جذباتی (محسو ساتی )اور شعری فنکشنز غالب رہتے ہیں جہاں زبان کا جمالیاتی و تخلیقی استعمال آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے۔
ادبی یا جمالیاتی اظہار میں زبان کے تفاعل پر رومن جیکب سن کے خیالات نے آگے چل کر اسلوبیات کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جیکب سن کو اہلِ فکر و نظرنہ صرف اس کی ہیئت پسندی اور اسلوبیاتی بصیرت کی وجہ سے یاد رکھیں گے، بلکہ ساختیاتی شعریات کے بنیاد گزار کی حیثیت سے بھی اس کا نام لیا جاتا رہے گا۔
(۵)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ادب کا ذریعۂ اظہار زبان ہے، لیکن یہ روز مرہ کی یاعام بول چال کی زبان نہیں۔ ادب میں زبان کا مخصوص استعمال ہوتا ہے جس سے ادب کی زبان عام بول چال کی زبان سے مختلف ہو جاتی ہے۔ یہی ادبی زبان کہلاتی ہے۔ تخلیقی زبان، ادبی زبان ہی کا دوسرا نام ہے۔ جو خصوصیات تخلیقی زبان میں پائی جاتی ہیں وہ ادبی زبان کا بھی حصہ ہیں۔ زبان کو ادبی یا تخلیقی طور پر برتنے کے لیے یا اسے خصوصی زبان (Language plus) بنانے کے لیے ادبی فن کار مختلف ذرائعِ اظہار (Expressive devices) اختیار کرتا ہے۔ وہ زبان میں تصرف سے کام لیتا ہے، نئے نئے لسانی سانچے تشکیل دیتا ہے اور لسانی ’نارم‘ (Norm) یعنی معمول سے انحراف بھی کرتا ہے۔ یہ تمام باتیں عام زبان کو ایک نئی اور انوکھی شکل دے دیتی ہیں جس سے یہ زبان ادبی یا تخلیقی اظہار کے لیے موزوں ترین زبان بن جاتی ہے۔
روسی ہیئت پسندوں اور پراگ اسکول کے ماہرینِ لسانیات نے زبان کے خصوصی استعمال پر کافی غور و فکر سے کام لیا ہے اور اسے ادب کی ’ادبیت‘ کی شرط قرار دیا ہے۔ مکارووسکی نے، جو پراگ اسکول کا ایک ممتاز ماہرِ لسانیات اور نقاد تھا، زبان کے مخصوص استعمال سے متعلق ’فورگراؤ نڈنگ‘(Foregrounding) کا نظر یہ پیش کیا۔
یہ نظریہ اس خیال پر مبنی ہے کہ عام زبان اپنے معمول کے مطابق کام کرتی ہے اور بنی بنائی ڈگر پر گام زن رہتی ہے۔ یہ لاشعوری یا خود کارانہ طور پر (Automatically) برتی اور بروئے عمل لائی جاتی ہے، لیکن جب ایک ادبی فن کار اسے اپنے ادبی و تخلیقی اظہار کے لیے استعمال کرتا ہے تو وہ بالارادہ اور شعوری کوششوں کے ذریعے اس میں جدت پیدا کرتا ہے، تازگی لاتا ہے اور طرح طرح کے تصرفات سے کام لیتا ہے جس سے زبان کا Automatization ختم ہو جاتا ہے اور یہ زبان اپنی ڈگر سے ہٹ جاتی ہے اور اس میں ندرت اور انوکھا پن پیدا ہو جاتا ہے جو قاری کی توجہ اپنی جانب کھینچتا ہے۔ ادبی زبان بالخصوص شعری زبان کی اسی خصوصیت کو مکارووسکی نے Automatization کے علی الرغم Deautomatizationسے تعبیر کیا ہے۔ وہ پر زور الفاظ میں کہتا ہے:
“The language of poetry must be deautomatized”.
مکارووسکی نے زبان کے اسی Deautomatizationکے لیے ’فور گراؤنڈنگ‘ (Foregrounding) کی اصطلاح استعمال کی ہے، کیوں کہ یہ زبان اپنے پس منظر (Background) سے پیش منظر (Foreground) کی جانب سفر گرنی ہے، اور سامنے یا پیش پیش ہونے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔ شعری زبان میں فورگراؤ نڈنگ اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے جہاں معمول کے مطابق کام کرنے والی یا بنی بنائی ڈگر پر چلنے والی زبان پس منظر میں چلی جاتی ہے اور اس کے برعکس ندرت، جدت اور انوکھا پن رکھنے والی، نیز اپنے معمول یا ’نارم‘ (Norm) سے ہٹی ہوئی زبان سامنے یا پیش منظر میں آ جاتی ہے جو Foregroundedزبان کہلاتی ہے۔ (۶) یہ زبان غیر معمولی اظہاری عمل (Uncommon act of expression) کا نتیجہ ہوتی ہے اور ترسیل کو پیچھے یعنی بیک گراؤنڈ میں دھکیل کر خود سامنے آ جاتی ہے اور لوگوں کی کشش اور توجہ کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فورگراؤنڈنگ زبان کے مخصوص و منفرد اور انوکھے استعمال اور اظہار کے نت نئے طریقوں اور پیرایوں ، نیز زبان میں ندرت، جدت اور تازہ کاری کے عمل سے ہی معرضِ وجود میں آتی ہے، مثلاً کوئی عورت اگر یہ کہتی ہے کہ ’ Ten years ago I was very beautiful‘(=دس سال قبل میں بیحد خوب صورت تھی) تو یہ زبان کا عام اور خود کارانہ استعمال ہو گا، لیکن وہی عورت اگر یہ کہے کہ ’Two husbands ago I was very beautiful‘(=دو شوہروں ]سے شادی[سے قبل میں بیحد حسین تھی ) یا وہ یہ کہتی ہے کہ’Three children ago I was very young’ (=تین بچوں ]کی پیدائش [سے قبل میں نہایت جوان تھی) تو یہ زبان کا شعوری اور غیر خود کارانہ استعمال ہو گا۔ زبان کے اسی نوع کے استعمال کے لیے مکارودسکی نے ’فورگراؤنڈنگ‘ کی اصطلاح وضع ہے، کیوں کہ زبان کا یہی مخصوص استعمال لوگوں کی کشش اور توجہ کا باعث بنتا ہے۔ مذکورہ جملوں میں ’Two husbands ago‘ اور ’Three children ago‘ انوکھے اظہاری پیرایے (Uncommon expressions) ہیں۔ ممتاز انگریزی شاعر ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ (T. S. Eliot) اپنی شعری تخلیق ’’The Waste Land‘‘ میں کہتا ہے:
“The nymphs are departed
Departed, have left no addresses” .
یہاں بھی فورگراؤ نڈنگ کا عنصر غالب ہے، کیوں کہ nymphsاور addressesغیر عقلی انسلا کات ہیں۔
جدید اردو شاعروں نے فورگراؤ نڈنگ کو ایک موثر اظہاری پیرایے کے طور پر برتا ہے جس سے نہ صرف ان کی تخلیقی قوت اور جدتِ طبع کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ اظہار کے نادر اور انوکھے طریقوں کی تلاش اور کرتا ہے تو وہ بالارا نت نئے لسانی سانچوں کی تشکیل، نیز زبان کی تازہ کاری کے عمل سے ان کی غیر معمولی دل چسپی کا بھی پتا چلتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
چلو آنکھوں میں پھر سے نیند بوئیں
کہ مدت سے اسے دیکھا نہیں ہے
(شہر یار)
نہ جانے کیوں درو دیوار ہنس پڑے اے شاذؔ
خیال آیا تھا اک روز گھر سجانے کا
(شاذ تمکنت)
آنکھ بھی برسی بہت بادل کے ساتھ
اب کے ساون کی جھڑی اچھی لگی
(احمد فراز )
اِن اشعار میں علی الترتیب ’آنکھوں میں نیند بونا‘، ’در و دیوار کا ہنس پڑنا‘، اور ’آنکھ کا برسنا‘ فورگراؤنڈنگ کی عمدہ مثالیں ہیں۔
(۶)
روسی ہیئت پسندوں اور پراگ اسکول کے ماہرینِ لسانیات نے ادب کے معروضی مطالعے کی بنیاد ڈالی تھی جس کے تحت ادبی متن کو خود مکتفی مان کر اس کا تجزیہ معروضی انداز سے کیا جاتا تھا۔ اس تجزیے کے دوران مصنف اور اس کے عہد، نیز دیگر خارجی عوامل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف متن پر توجہ مرکوز کی جاتی تھی۔ اس ضمن میں رومن جیکب سن، وکٹر شکلوو سکی اور مکا رووسکی کی خدمات لائقِ ستایش ہیں۔ مطالعۂ ادب کے معروضی نظریے ہی سے تحریک پا کر عملی تنقید (Practical Criticism)، نئی تنقید (New Criticism) اور براہِ راست لسانیات سے تعلق رکھنے والی شاخ اسلوبیات (Stylistics) کا ارتقا عمل میں آیا۔ ادب کی تنقید کے یہ تینوں نئے نظریات لسانی مضمرات سے مبرا نہیں۔ (۷)
نئی تنقید روسی ہیئت پسندی ہی کی طرح معروضی تھی اور ادبی متن کو خود مختار و خود کفیل اکائی تسلیم کرتی تھی، اور مصنف کے سوانحی کوائف اور تاریخی حوالوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اپنی ساری توجہ صرف اس کی قرأت اور تجزیے پر صرف کرتی تھی۔ نئی تنقید کی تحریک انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے روایتی رویوں کے ردِ عمل کے نتیجے میں پہلی جنگِ عظیم (۱۹۱۴ تا ۱۹۱۸ء) کے خاتمے کے بعد ابھری تھی۔ اُس عہد کے اینگلو امریکی شاعروں اور ناقدوں نے اس تحریک کو جلا بخشی جن میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ (T. S. Eliot)، آئی۔ اے۔ رچرڈز(I. A. Richards)، ایف۔ آر۔ لیوس (F. R. Levis)، ولیم امپسن (William Empson)، اور جان کرو رینسم (John Crowe Ransom) کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ (۸)
ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کے نزدیک کسی نظم یا ادبی متن کی حیثیت ایک لسانی/ لفظی فن پارے (Verbal artifact) کی تھی جسے وہ خود کفیل مانتا تھا، اور اس کے مصنف کی شخصیت اور تاریخی تناظر سے اسے الگ کر کے معروضی انداز سے جانچنے کے حق میں تھا، تبھی نظم کے معنی کا ادراک ممکن ہے۔ آئی۔ اے۔ رچرڈز نئی تنقیدی تحریک کا ایک دوسرا اہم نقاد گزرا ہے جس نے نئی تنقید کو ایک نئی جہت دی اور نظم کے معروضی تجزیاتی مطالعے سے اپنے شاگردوں کو عملی تنقید کی راہ دکھائی۔ (۹) رچرڈز نے عملی تنقیدی عمل کے دوران نظم کو خود کفیل و با اختیار اکائی مان کر اس کے مصنف کے سوانحی و تاریخی حوالوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کی (ادبی متن کی) زبان پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ اس نے شعری ترسیل کے لیے زبان کے محسوساتی (Emotive) پہلو پر زور دیا جس کا سائنسی زبان میں فقدان پایا جاتا ہے۔ رچرڈز نے اپنی عملی تنقید کی تکنیک میں معنی کی ترسیل کے سلسلے میں چار چیزوں کی اہمیت پر زور دیا ہے: ۱- مفہوم (Sense)، ۲-احساس (Feeling)، ۳-لہجہ (Tone)، اور ۴-مقصد(Intent)۔
نئی تنقید کے بنیاد گزاروں میں ایک اور اہم نام ایف۔ آر۔ لیوِ س کا ہے جس نے اپنے سہ ماہی رسالے Scrutiny کی وجہ سے ادبی دنیا میں غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ یہ رسالہ نہ صرف انگلستان، بلکہ امریکہ میں بھی بیحد مقبول ہوا۔ لیوس نے ادبی متن کے مطالعے اور تجزیے کے لیے ایک انوکھا طریقہ ایجاد کیا جو ’کلوز ریڈنگ‘ (close reading) کہلایا۔ اس کی تحریک اسے رچرڈز کی عملی تنقید کی تکنیک سے ملی۔ اس طریقِ کار میں نظم کے صرف عمیق مطالعے سے سروکار رکھا گیا اور ماورائے نظم کسی بھی نکتے، پہلو F.R. Leaھ کا برسنا‘ فورگر یا امر کو خارج از مطالعہ قرار دیا گیا۔ لفظی تجزیاتی مطالعے کا ایک اور انداز ایک دوسرے نقاد ولیم امپسن کے یہاں پایا جاتا ہے جو رچرڈز کا شاگرد تھا اور شاعر بھی تھا۔ اس نے رچرڈز کے شعری ترسیل سے متعلق محسوساتی زبان کے نظریے سے تحریک پا کر اپنا ایک منفرد نظریۂ ابہام (Theory of Ambiguity) تشکیل دیا۔ اس کا موقف تھا کہ شاعری کی زبان (جو عام بول چال یا سائنس کی زبان سے مختلف ہوتی ہے) محسوساتی ہونے کے ساتھ ساتھ مبہم (Ambiguous) بھی ہوتی ہے۔ امپسن نے اس نکتے کو آگے بڑھاتے ہوئے ابہام کی سات قسمیں بیان کیں اور اس کی پیچیدہ مثالیں پیش کیں جن کی وجہ سے شاعری مبہم اور کثیرا لمعنی (Polysemous) بن جاتی ہے۔ (۱۰)
اسلوبیات ادب کے لسانیاتی مطالعے کا نام ہے۔ ادبی اسکالرز اسے ’اسلوبیاتی تنقید‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ، لیکن ماہرینِ لسانیات اسے ’اسلوبیات‘ یا ’لسانیاتی اسلوبیات‘ ہی کہنا پسند کرتے ہیں۔ اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید کا ارتقا اطلاقی لسانیات (Applied Linguistics) کی ایک شاخ کے طور ۱۹۶۰ء کے آس پاس عمل میں آیا۔ اس میں لسانیات کی نظری بنیادوں (Theoretical Foundations) اور اصطلاحوں سے کام لیا جاتا ہے، نیز لسانیاتی طریقِ کار (Methodology)کو بروئے عمل لاتے ہوئے لسانیات کی تمام سطحوں (صوتی، صرفی، نحوی، معنیاتی، قواعدی) پر متن کے اسلوبیاتی تجزیے کا کام سر انجام دیا جاتا ہے۔ (۱۱)
اسلوبیاتی تنقید میں ادبی متن کے اسلوبی خصائص (Style-features) کی شناخت و دریافت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ متن کے لسانیاتی تجزیے کے بعد اسلوبیاتی نقاد اس کے اسلوبی خصائص کا پتا لگاتا ہے۔ مختلف فن پاروں میں مختلف نوع کے اسلوبی خصائص پائے جاتے ہیں ، مثلاً صوتی خصائص، صرفی خصائص، نحوی خصائص، وغیرہ- اقبالؔ کی نظم ’’ایک شام‘‘ اسلوبیاتی سطح پر صوتی خصائص کی بہترین مثال پیش کرتی ہے جس میں صفیری آوازوں (Fricative sounds)، مثلاً س، ش، خ، ف، غ کی تکرار وتکرر (Frequency) اور ان کی بُنت نظم کے مجموعی تاثر کو بہ خوبی اجاگر کرتی ہے۔ ادبی فن پارے کے اسلوبی خصائص کی شناخت و دریافت ہی اسلوبیاتی تنقید کا ماحصل ہے جس کی بنیاد پر ہم ایک فن پارے کو دوسرے فن پارے سے یا ایک مصنف کو دوسرے مصنف سے ممیز کرسکتے ہیں۔ (۱۲)
اسلوبیاتی تنقید نظری و عملی اعتبار سے ادبی تنقید سے بیحد مختلف ہے۔ ادبی تنقید داخلی اور تاثراتی ہوتی ہے۔ اس میں وجدان سے کام لیا جاتا ہے اور اقداری فیصلے کیے جاتے ہیں۔ یہ تنقید مصنف اور اس کے عہد کے اردگرد گھومتی ہے اور خارجی عوامل کا سہارا لیتی ہے۔ علاوہ ازیں اس کا انداز تشریحی ہوتا ہے۔ اس کے علی الرغم اسلوبیاتی تنقید معروضی ہوتی ہے۔ اس میں مشاہدے (Observation) سے کام لیا جاتا ہے، نہ کہ وجدان سے۔ اس میں فن پارے کے تجزیے کی بنیاد پر نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔ اسلوبیاتی تنقید کسی فن پارے کو اچھا یا برا نہیں کہتی، بلکہ اس کے خصائص بیان کر دیتی ہے جنھیں ہم اسلوبی خصائص (Style-features) کہتے ہیں۔ اس نظریۂ تنقید میں نہ تو مصنف کی ذات اہم ہوتی ہے اور نہ اس کا عہدیا دیگر خارجی عوامل۔ ان تمام باتوں سے اسلوبیاتی تنقید کوئی سروکار نہیں رکھتی۔ اس کے نزدیک صرف ادبی فن پارے یا متن کی اہمیت ہوتی جسے خود مکتفی مان کر اسلوبیاتی نقاد اس کا مطالعہ و تجزیہ کرتا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید کا طریقِ کار توضیحی (Descriptive) ہوتا ہے، نہ کہ تشریحی جس میں تشریحی عمل کے دوران اکثر متن سے باہر کی چیزوں سے سروکار رکھا جاتا ہے۔
حواشی
۱- ’سوزِ وطن‘ منشی پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ تھا جو نواب رائے کے نام سے ۱۹۰۸ء میں زمانہ پریس، کانپور سے شائع ہوا تھا، لیکن دو سال بعد ہی اسے سرکاری طور پر ممنوع قرار دے دیا گیا تھا اور اس کے تمام دستیاب شدہ نسخے ’’بحقِ سرکار‘‘ ضبط کر لیے گئے تھے۔
۲- ’انگارے‘ سجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاں اور محمود الظفر کی لکھی ہوئی دس کہانیوں کا مجموعہ تھا جو ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا تھا، لیکن شدید ردِ عمل کی وجہ سے اسے ضبط کر لیا گیا تھا۔ بقولِ خلیل الرحمن اعظمی ان مصنفین کے یہاں ’’قدیم معاشرے اور اخلاق و قوانین کے خلاف ایک وحشیانہ بغاوت ہے۔ ‘‘ دیکھیے خلیل الرحمن اعظمی، ’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘ (علی گڑھ: انجمن ترقی اردو ]ہند[، ۱۹۷۲ء)، ص ۲۰۸۔
۳- ملاحظہ ہو رولاں بارت (Ronald Barthes) کا مقالہ”The Death of the Author” مشمولہ Image, Music, Text(از رولاں بارت)، ترجمہ: اسٹیفن ہیتھ (لندن: فونٹا نا پیپر بیکس، ۱۹۷۷ء)۔
۴- فرڈی نینڈ ڈی سسیور (Ferdinand de Saussure) کے فلسفۂ لسان سے متعلق مباحث کے لیے ملاحظہ ہو اس کی کتاب Course in General Linguistics (لندن: فونٹانا، ۱۹۷۴ء)۔
۵- روسی ہیئت پسندی اور نئی تنقید سے متعلق مباحث کے لیے دیکھیے ای۔ ایم۔ ٹامسن (E. M. Thompson)کی کتاب Russian Formalism and Anglo-American New Criticism (1971).
۶- فور گراؤنڈنگ کی تھیوری کے لیے دیکھیے جان مکارووسکی (Jan Mukarovsky) کا مقالہ Standard Language and Poetic Language” مشمولہ Linguistics and Literary Style، مرتبہ ڈونلڈ سی۔ فریمن (نیویارک: ہالٹ، رائن ہارٹ اینڈ ونسٹن، ۱۹۷۰ء)۔
۷- اِن تنقیدی مباحث کے لیے دیکھیے ڈبلیو۔ کے۔ ومسیٹ (جونیر)، اور کلینتھ بروکس (W. K. Wimsatt, Jr. , and Cleanth Brooks) کی تصنیف Literary Criticism: A Short History (ینویارک، ۱۹۵۷ء)
۸- مزید بحث کے لیے دیکھیے جان کرو رینسم (John Crowe Ransom) کی تصنیف The New Criticism (1941).
۹- مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے آئی۔ اے۔ رچرڈز کی تصنیف Practical Criticism (لندن، ۱۹۲۹ء)
۱۰- مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے ولیم امپسن (William Empson)کی تصنیف Seven Types of Ambiguity(لندن، ۱۹۳۰ء)۔
۱۱- اُردو میں اسلوبیات / اسلوبیاتی تنقید کے موضوع پر سب سے پہلے مسعود حسین خاں نے خامہ فرسائی کی۔ اسی لیے انھیں اسلوبیاتی تنقید کا بنیاد گزار کہا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو راقم السطور کامضمون ’’مسعود حسین خاں اور اسلوبیات ‘‘، مشمولہ’ تنقید اور اسلوبیاتی تنقید‘ از مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ۲۰۰۵ء)۔
۱۲- اسلوبیاتی تنقید کی نظری بنیادوں اور اسلوبیاتی تجزیوں کے لیے دیکھیے راقم السطور کی کتاب ’زبان، اسلوب اور اسلوبیات‘، دوسرا ایڈیشن (دہلی : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۱۱ء)۔