باب چہارم
ادبی۔ فکری تحریکیں اور اقبال کی شاعری
اب تک ان فکری روایات کا جائزہ لیا گیا ہے جن کے اثرات کسی نہ کسی صورت میں اقبال کی شاعری پر مرتب ہوئے۔اس کے تسلسل میں اب ہندوستان کی شعری روایت کا جائزہ لیا جائے گا اور اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے گی کہ اقبال نے اپنے عہد سے پہلے آنے والے کس کس شاعر سے فکری اور فنی سطح پر اکتسابِ فیض کیا ہے۔
اس کا مقصد اردو شاعری کے ارتقاء کے حوالے سے اقبال کے شعری قدو قامت اور اہمیت کا اندازہ لگانا ہے۔
دنیا کے تمام جانے پہچانے عظیم شعراء اپنے پیش رو شاعروں سے مختلف ہوتے ہوئے بھی ان سے فکری اور فنی سطحوں پر متاثر ہوتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اقبال بھی دوسروں سے مختلف نہیں۔ اپنے پیش رو شعراء کے اثرات قبول کرنے سے شاعری توانا اور معنی آفریں ہوتی ہے اور شاعر ایک بھر پور شعری روایت کے تسلسل میں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ ماضی کے عظیم شعراء کی فکری اور شعری دین پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں چند اور ادبی و فکری تحریکات کا ذکر بھی آئے گا جن سے اقبال متاثر ہوئے۔ یوں اقبال کی شاعری کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جائے گی۔
کلاسیکی شعراء اور اقبال
اقبال کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں خود کو صرف اردو شاعری کی روایت تک ہی محدود نہیں رکھنا پڑتا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر فارسی اور انگریزی ادب کو بھی مدِّ نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اس میں خصوصیت سے فارسی ادب دو وجوہات کی بنیاد پر ضروری ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اقبال نے فارسی شعر سے فکری اور فنی سطح پر اکتسابِ فیض کیا ہے اور اس کا اقرار اقبال نے متعدد مقامات پر کیا ہے۔ دوسرے خود اقبال کی شاعری کا ایک بڑا حصہ فارسی زبان میں ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ فارسی شعر و ادب کو کتنی اہمیت دیتے تھے اور نہ ہی اس کے جائزے کے بغیر اقبال کا مطالعہ مکمل کہا جا سکتا ہے۔
بات کو اگر فارسی شعرا سے شروع کریں تو سب سے پہلا اور اہم نام مولانا روم کا آتا ہے جسے خود اقبال پیرِ رومی کہتے ہیں اور ان کا شاگرد ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اقبال نے فکری سطح پر مولانا سے بہت فیض اٹھایا ہے۔ مولانا کی مثنوی صدیوں تک مسلم گھرانوں میں ایک معتبر کتاب رہی ہے اور بعض لوگوں نے تو اسے قرآن در زبانِ پہلوی بھی قرار دیا ہے۔ چونکہ اقبال کا مسئلہ بھی مسلم امّہ کو زوال سے نکال کر بلندی سے ہمکنار کرنا تھا ٗ اس لیے ان کا مولانا روم سے متاثر ہونا یقینی امر تھا۔ اپنی طویل نظم ’’جاوید نامہ‘‘ میں وہ اپنے مرشد کے ہمراہ جس سیر پر نکلتے ہیں ٗ اس کی بدولت ہی ہم ان پر مولانا کے اثرات کو سمجھ سکتے ہیں۔
حافظ دوسرا اہم شاعر ہے جس کا اقبال کے ساتھ موازنہ ضروری ہے۔ اقبال جب ہندوستان سے یورپ گئے تو حافظ کے بے شمار اشعار انھیں ازبر تھے ٗ اسی لیے ایک بار عطیہ فیضی نے انھیں حافظ کا حافظ قرار دیا۔ حافظ کے شعری کمالات سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ اقبال ان کی فکر سے بھی متاثر تھے جن میں تصوف کے وحدت الوجودی مکتبہء فکر کے تصوّرات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن یورپ سے واپسی کے بعد ان کے تصورات میں گہری تبدیلی واقع ہوئی۔ جب انہوں نے اسبابِ زوالِ امت پر غور کیا تو ایک وجہ انھیں مسلم معاشرے پر وحدت الوجودی فکر کی صورت میں نظر آئی۔ سو اقبال نے حافظ اور وحدت الوجود کے مکتبۂ فکر کو رد کیا۔ مثنوی اسرارِ خودی اور خاص طور پر اس مثنوی کے دیباچے پر (جسے بعد میں حذف کر دیا گیا) ہونے والی بحث ٗ جس میں اکبر الٰہـ آبادی اور خواجہ حسن نظامی جیسے افراد نے اقبال کے خلاف قلم اٹھایا۔ اقبال نے اس حوالے سے کھل کر اپنے تصورات کا اظہار کیا۔(1)
اسی طرح ہم سنائی ٗ عرفی ٗ فیضی اور بیدل کے ساتھ بھی بعض حوالوں سے اقبال کا موازنہ کر سکتے ہیں۔
اگر ہم اردو شاعری کے ابتدائی نقوش کی بازیافت کی کوشش کریں تو بات صدیوں پیچھے تک جا سکتی ہے اور خصوصی طور پرا میر خسرو کے ہاں ایسے کئی اشعار مل جاتے ہیں جنھیں ہم اردو کی ذیل میں رکھ سکتے ہیں مگر ولی ایک ایسا شاعر ہے جس کی ادبی حیثیت مسلم ہے اور جس سے اردو کی شعری روایت کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ ولی ہی نے ابتدائی اردو غزل کے ایسے سانچے فراہم کیے جو صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی ہمیں معاصر شاعری میں نظر آتے ہیں۔ ولی کے بعد میر تقی میر آتے ہیں کہ شاعروں اور نقّادوں نے انہیں خدائے سخن قرار دیا ہے۔ میر کا رنگِ شاعری اتنا پختہ اور ارفع ہے کہ موجودہ صدی میں فراق ٗ ناصر ٗ ابن انشاء اور بے شمار شاعر ان کے رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ حتی کہ غالب جیسا شاعر بھی ان کے اثرات سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکا۔ اس کی وجہ میر کا شعری اسلوب اور تخلیقی ترفع ہے جس کا جواب اردو میں پیدا نہیں ہو سکا۔ اقبال کے ہاں ہمیں میر کے اثرات نظر نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی ابتدائی زندگی میں اقبال نے داغ کی شاگردی اختیار کی۔ داغ کی شاعری میں زبان اور معاملاتِ حسن و عشق دو اہم عناصر ہیں۔ لیکن داغ کا عشق ٗ میر کے عشق سے مختلف کیفیت کا حامل ہے۔ بعد میں جب اقبال یورپ سے واپس آکر زوالِ امت پر غور کرنے لگا تو تب بھی میر ان کی طبع سے مناسبت نہ رکھنے کے باعث ان سے دور ہی رہا۔ اگر اقبال نے میر کے عہد کے کسی فرد سے اثرات قبول کیے ہیں تو اس کا نام سودا ہے۔ سودا کے ہاں دو کیفیات بہت نمایاں ہیں۔ ایک نشاطیہ رجائیت اور دوسرا بلند آہنگی۔ اقبال جس نوعیت کی مقصدی شاعری کا قائل تھا اس کے لیے یہ دونوں عناصر بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ میر اور سودا کے فرق کو مندرجہ ذیل دو اشعار سے واضح کر سکتے ہیں۔ جو ہر تذکرے میں مل جاتے ہیں ؎
سرھا نے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
o
سوداؔ کے جو بالیں پہ ہوا شورِ قیامت
خدّامِ ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے
سودا کے شعر سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کا مزاج اقبال سے بہت قریب تھا۔ اس لیے اقبال نے سودا کی شاعری کے دونوں رنگوں یعنی نشاطیہ رجائیت اور بلند آہنگی کو قبول کیا ہے۔ یہ امر بھی ثابت ہے کہ اقبال نے ابتداء ہی میں سودا کا بالا ستیعاب مطالعہ کیا اور کلیاتِ سودا ایک مدّت تک ان کے زیر مطالعہ رہی۔(2)
اقبال نے ایک جگہ یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ’’میں نے ہیگل‘ گوئٹے ٗ مرزا غالب ٗ عبدالقادر بیدل اور ورڈز ورتھ سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ بیدل اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمو لینے کے باوجود اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کی روح کیسے زندہ رکھوں اور ورڈز ورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچا لیا۔‘‘ (3)
بیدل ،غالب کا بھی محبوب شاعر رہا ہے اور اقبال کی اس سے دلچسپی کا اندازہ ان کے ایک مقالے بیدل ،برگساں کی روشنی میں، سے لگایا جا سکتا ہے۔ (4)
اردو شاعروں میں اقبال جس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ غالب ہے۔ غالب اردو میں اپنی نوعیت کا پہلا شاعر ہے جس نے گہرے فلسفیانہ مضامین کو شاعری کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس لیے جب اقبال نے شاعری میں فلسفیانہ مضامین سمونے کی کوشش کی تو اس کی نظر بلا ارادہ غالب پر پڑی۔ غالب کی عظمت اور اقبال کے نزدیک ان کی اہمیت کا اندازہ اس نظم سے بھی ہوتا ہے جو اس نے غالب کے بارے میں لکھی ہے اور بانگِ درا میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ جاوید نامہ میں اقبال نے مسلم تاریخ میں سے جن تین کرداروں کو چنا ہے ان میں سے ایک غالب بھی ہے۔
۱۵ فروری ۱۹۳۷ء کو انجمنِ اردو پنجاب کے تحت یومِ غالب کے موقع پر اقبال کا پیغام بھی اس سلسلے میں قابل ذکر ہے۔(5)
اقبال نے غالب کے حضور ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے ؎
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لبِ اعجاز پر
محوِ حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر
شاہدِ مضمون تصدّق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچۂ دلی گلِ شیراز پر
آہ تو اجڑی ہوئی دلّی میں آرا میدہ ہے
گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔(56
گلشنِ ویمر کے خوابیدہ سے اشارہ گوئٹے کی جانب ہے ٗ یعنی اقبال نے غالب کو اردو میں وہی درجہ دیا ہے جو جرمنی میں گوئٹے کا ہے۔ ایک سطح پر ہمیں اقبال میں غالب کی شعری روایت کا تسلسل نظر آتا ہے۔ غالب نے اپنے دور میں جس روش کی بنیاد ڈالی تھی اسے اقبال نے کمال تک پہنچایا۔ غالب کی انانیت جو در ِکعبہ کو بھی اپنے لیے وانہ دیکھ کر واپس پلٹنا چاہتی ہے ٗ اقبال کے خودی کے تصور میں ڈھل جاتی ہے۔ اس جانب سر عبدالقادر نے ’’بانگِ درا‘‘ کے دیباچے میں بہت واضح اشارہ کیا ہے۔(6)
اقبال پر غالب کے اثرا ت کی نشاندہی ڈاکٹر سیّد عبداللہ نے اپنے مضمون ’’غالب ۔ پیش رو ِاقبال‘‘ میں بھی کی ہے۔(7)
جب اقبال نے شعرو ادب کی طرف رجوع کیا، اس وقت ہندوستان میں داغ کا طوطی بول رہا تھا۔ اپنے ابتدائی دنوں میں اس نے داغ سے اصلاح بھی لی جس کے واضح اثرات ہمیں اس کی ابتدائی شاعری پر نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چلا مگر اقبال نے داغ سے لفظوں کے استعمال کا شعور اور اردو زبان کی باریکیوں کو سمجھا جس نے آگے چل کر اس کی شاعری کے لیے اچھی بنیادیں فراہم کیں۔ ایک اور بات جو داغ کی شاعری میں بہت نمایاں ہے وہ اس کا خلوصِ بیان ہے۔ اس نے وہی کچھ لکھا ہے جو ان پر بیتی۔ اقبال نے داغ کی وفات پر جو مرثیہ لکھا ٗ اس سے بہت اچھی طرح اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال استاد کی کن صفات سے متاثر ہوئے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
لکّھی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت
ہوں گی اے خواب جوانی! تیری تعبیریں بہت
ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون
اٹھ گیا ناوک فگن ٗ مارے گا دل پر تیر کون؟
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 117 ۔(116
’’شعرِ اقبال‘‘ میں سید عابد علی عابد نے داغ اور اقبال کے طویل موازنے کے بعد ان الفاظ میں اقبال پر داغ کے اثرات کی جانب اشارہ کیا ہے:
’’اقبال نے یورپ جانے سے پہلے نہ صرف داغ سے اردو کی شعری روایت کے سارے رموز سیکھ لیے بلکہ وہ اس بات سے بھی آگاہ ہو گئے کہ لفظ و معنی میں کتنا نازک رشتہ استوار ہے۔ مطابقتِ الفاظ و معانی کتنی بنیادی بات ہے۔ داغ تو صرف ذاتی و اردات کو بعینہٖ پڑھنے والوں تک منتقل کرتے تھے۔ اقبال نے اپنے مطالعے کی وسعت کی بدولت اور اپنی بصیرت کی بناء پر نہایت دقیق افکار اور لطیف تصورات کو جذبے میں سمو کر ایسی ہئیت بخشی جس کا آہنگ اور نغمہ بھی عین معانی کے مطابق تھا‘‘۔ (8)
اقبال اور مخزن
اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں اس دور کے ایک رسالے ’’مخزن‘‘ اور اس کے مدیر سر عبدالقادر نے نمایاں حصہ لیا۔ اس بات کا کچھ اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال نے اپنی پہلی کتاب کے دیباچہ نگار کے طور پر سر عبدالقادر کو ہی چنا۔ ’’مخزن‘‘ کی اشاعت موجودہ صدی کی ابتداء میں اس اعتبار سے بہت اہم واقعہ تھا کہ اس رسالے نے انگریزی ادب کے اثرات کو اردو میں پختہ کیا۔ حالی اور آزاد نے اردو میں انگریزی ادب سے متاثر ہو کر جس تحریک کا آغاز کیا تھا۔ ’’مخزن‘‘ اس سلسلے میں اگلی کڑی ثابت ہوا جس نے اپنے طور پر ادب میں مغربی اثرات کو گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ’’مخزن‘‘ کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس رسالے نے پہلے پہل اقبال کے کلام کو شائع کیا۔ سر عبدالقادر نے اقبال میں ایک بڑے شاعر کی خصوصیات کو ابتداء میں ہی بھانپ لیا تھا۔ اس لیے جب قیامِ یورپ کے دوران میں اقبال نے شاعری کو ترک کرنے کا ارادہ کیا تو انھوں نے اس بات کی شدید مخالفت کی اور اقبال کو شاعری جاری رکھنے پر آمادہ کیا۔ (9)
مولانا غلام رسول مہر کے مطابق ابتداء میں ’’علامہ اقبال کے ذریعے دعوت یعنی شاعری کو ہر دلعزیز بنانے کے لیے دو وسیلے بہت کارگر ہوئے۔ اول انجمن کے سالانہ اجلاس ۔ دوم رسالہ ٗ ’’مخزن‘‘۔ دونوں نے علامہ اقبال سے فائدہ اٹھایا اور دونوں نے علامہ اقبال کی خدمت انجام دی۔ دونوں کی وجہ سے علامہ کی شاعری کو فروغ حاصل ہوا اور دونوں کے لیے علامہ کا گراں مایہ کلام زیب و زینت کا باعث بنا‘‘۔ (10)
رومانیت کی تحریک اپنے علمبرداروں روسو اوروالٹیئر کے افکار کے نتیجے میں ادب میں داخل ہوئی ٗ لیکن یہ انیسویں صدی کے اوائل کی تحریک ہے اور اسے اقبال کی معاصر ادبی تحریک نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کا واضح مفہوم 1810 ء میں مادام ڈی سٹیل کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔ اس تحریک نے ادب میں کالرج ٗ ورڈز ورتھ اور بعض دوسرے شاعروں کے حوالے سے رواج پایا ٗ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے اثرات اقبال کے زمانے تک پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ اقبال کی رومانیت کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے مغربی شاعری کی اقدار کو اپنے اندر سمویا ضرور لیکن مشرقی اندازِ اظہار کو بھی برقرار رکھا۔ (11)
یہاں یہ کہنا بھی خالی ازعلّت نہیں ہوگا کہ علی گڑھ تحریک نے فلسفے اور سائنس کے امتزاج پر مبنی جس حقیقت پسندانہ مقصدیت کو جنم دیا ٗ اس کے ردّ ِعمل میں رومانویت نے ادب میں راہ پائی۔ محمد حسین آزاد ٗ عبدالحلیم شرر اور ناصر علی دہلوی نے فرد کے باطن کی طرف توجہ کی اور ا س کے داخل کو گھٹن سے نکالا۔ اس تحریک کا آغاز تو انھوں نے ہی سرسید کے خیالات پر کسی تعرض کے بغیر کیا تھا ٗ تاہم اس رجحان کو نشوونما اس عہد کے اس اہم مجلہ ’’مخزن‘‘ اور اقبال کے افکار سے ہوئی۔
اقبال کی اس زمانے کی رومانی شاعری کا پہلا عنصر مشرقی اندازِ اظہار کو برقرار رکھتے ہوئے مظاہرِ فطرت کی ان کے خارجی حسن کے حوالے سے نہیں بلکہ حسنِ ازلی کی رمزیت کے ساتھ تصویر کشی ہے۔ دوسری طرف انھوں نے ماضی کی عظمتوں سے جوہرِ حیات کشید کرنے کی سعی کی اور اس سلسلے میں منفرد ٗ ترو تازہ اور جلال و جمال آمیز استعارات، تشبیہات اور تمثالیں وضع کیں۔ تیسری جانب انہوں نے ایسے رومانی کردار تخلیق کیے جو معاشرے کی جامد قدروں اور پائمال رواجوں کو بدل دینے کا عزم لے کر ابھرتے ہیں۔ اقبال کی اس نوعیت کی شاعری پہلے پہل ’’مخزن‘‘ کے ذریعے قارئین تک پہنچی۔
اقبال اور علی گڑھ تحریک
اپنی ابتدائی زندگی میں اقبال جن دو افراد سے بہت زیادہ متاثر ہوا وہ میر حسن اور پروفیسر آرنلڈ تھے۔ یہ دونوں حضرات سرسیّد سے قریبی تعلقات رکھتے تھے اور ان کی تحریک کو ہندوستان کے لوگوں کے لیے مفید جانتے تھے۔ جاوید اقبال کے مطابق سرسید سے اقبال کا پہلا رابطہ میر حسن کے ذریعے ہوا (12) ابتداء میں وہ سرسیّد کے مداح تھے اور ان کی تحریک کے زبردست حامی بھی۔ اقبال کے دور میں علی گڑھ واحد جگہ تھی جس کی جانب پڑھے لکھے لوگ پُر امید نظروں سے دیکھتے تھے کہ مستقبل میں یہ ادارہ مسلمانوں کی زندگی میں بڑا کام کرے گا۔ علی گڑھ تحریک کے بہت زیادہ اثرات لاہور کے مسلمانوں پر مرتّب ہوئے اور انھوں نے انجمن حمایتِ اسلام قائم کی جو اپنے مقاصد کے اعتبار سے علی گڑھ تحریک سے کم و بیش مشابہ تھی۔
پنجاب کے علاقے میں سرسید کی تحریک کے اثرات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سرسید کے خلاف محاذ آرائی اور فتوے بازی میں یہاں کے علماء نے حصہ نہیں لیا۔ اس لیے یہ علاقہ سرسید کے افکار کی ترویج کے لیے بہت زرخیز ثابت ہوا۔ نہ صرف پنجاب کے لوگوں نے اپنے علاقے میں سرسید کی تقلید میں تعلیمی ادارے قائم کیے جہاں مسلمان بچوں کو جدید علوم سے روشناس کروایا جاتا تھا ٗ بلکہ علی گڑھ کی مالی اور اخلاقی مدد کی بھی حتی المقدور کوشش کی۔ ’’یکم فروری 1884 ء کو لاہور میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اصرار پر سرسید نے جو معرکتہ الآراء تقریر ’’اسلام‘‘ کے موضوع پر کی ٗ اس نے نیچریت و دہریت کے الزام کی قلعی کھول دی اور بقول ’’پنجابی اخبار‘‘ (لاہور) ہر فرقے کے محقّق گروہ پر ثابت کر دیا کہ وہ بلا شبہ پکے مسلمان اور اسلام کے سچے خیر خواہ ہیں۔ (13) اس سلسلے میں حالی نے پنجاب کے لوگوں کے سرسیّد کے بارے میں رویے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’انھوں نے ہندوستان کے دیگر اور حصوں کی طرح سرسید کو مسلمانوں کی صرف دنیوی ترقی کا خواستگار مگر دین کا مخرب نہیں ٹھہرایا بلکہ ان کو دنیا اور دین دونوں کا سچا خیر خواہ اور خیر اندیش سمجھا‘‘۔ (14)
علی تحریک گڑھ تحریک صرف تعلیمی ادارے بنانے کی تحریک نہیں تھی بلکہ اس نے سیاسی ٗ سماجی ٗ تہذیبی ٗ مذہبی غرض ہر سطح پر مسلمانوں کی زندگی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں سرسید کے مذہبی افکار زیادہ متنازعہ بنے اور ان کی وجہ سے انھیں مسلمان علماء کی ایک بڑی تعداد کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اقبال نے اپنی ابتدائی زندگی میں سرسید کے افکار کا مطالعہ کیا اور ان سے متاثر بھی ہوئے۔ ایک سطح پر دیکھیں تو اقبال کے خطبات Reconstruction of Religious Thought in Islam ہمیں سرسید کی اجتہادی فکر کی اگلی کڑی نظر آتے ہیں جن کے ذریعے انھوں نے مذہبِ اسلام کو عقلی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ جنت و دوزخ اور عرش و کرسی کے بارے میں سرسیّد کے خیالات خاص طور پر اقبال کے ہاں نظر آتے ہیں۔
سرسید اور اقبال کے ہاں بعض سطح پر ارتقائے فکر میں اشتراک بھی نظر آتا ہے سرسید ابتداء میں ہندوستان کے لوگوں کو ایک قوم تصور کرتے تھے اور ان کی اجتماعی بہتری کے لیے کوشاں تھے ٗ لیکن جنگِ آزادی کے بعد کے حالات اور خاص طور پر اردو ، ہندی تنازعے نے ان کے تصورات میں گہری تبدیلی پیدا کی اور انھوں نے مسلم قومیت کی بات شروع کر دی۔ یوں وہ ہندو مسلم اتحاد سے مسلمانوں کے جماعتی مفاد کی طرف آئے۔ اسی نوعیت کا ارتقاء ہمیں اقبال کے ہاں نظر آتا ہے کہ وہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ سے شروع کرتے ہیں اور ’’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک ِکاشغر‘‘ تک کا سفر کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ہندوستان کے اندر ایک الگ ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں اور مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح کو الگ وطن کے حصول کی راہ پر ڈالنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انجمن حمایتِ اسلام اور اقبال
سرسید کے علمی افکار کی پیروی میں اور علی گڑھ تحریک کے تتبع میں اس کے آغاز کے بعد سات سال کے اندر اندر اہالیانِ پنجاب نے انجمن حمایتِ اسلام کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن نے خاص طور پر لاہور میں بہت سے علمی ادارے قائم کیے۔ اس تحریک کا ایک اہم مقصد اسلامی لٹریچر کی اشاعت بھی تھی۔(15)
انجمن ایک فلاحی ادارہ تھی اور اس کے لیے مالی معاونت کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس مقصد کے لیے یہ ادارہ کئی طرح کے پروگرام منعقد کرواتا رہتا تھا۔ اسی طرح کے ایک پروگرام منعقدہ 1900 ء میں اقبال نے اپنی نظم ’’نالۂ یتیم‘‘ پہلی بار انجمن کے اس جلسے میں پڑھی جس کی صدارت شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد نے کی تھی۔ اس طرح انجمن حمایتِ اسلام سے اقبال کا جو تعلق استوار ہوا وہ تادمِ مرگ جاری رہا۔
انجمن کے سالانہ جلسوں میں اقبال نے مندرجہ ذیل نظمیں سنائیں۔ (16)
۱۔ 1900ء ٗ نالہء یتیم
۲۔ 1901ء ٗیتیم کا خطاب ہلالِ عید سے یا درد ِدل
۳۔ 1902ء ٗاسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں کو خیر مقدم اور دین و دنیا یا
زبانِ حال۔
۴۔ 1903ء ٗ فریادِ امت جس کا پہلا عنوان ابر گہر بار تھا۔
۵۔ 1904ء ٗ تصویر درد
۶۔ 1911ء ٗشکوہ
۷۔ 1912ء ٗ شمع و شاعر
۸۔ 1913ء ،ایک نامکمل فارسی نظم
۹۔ 1916ء ٗ بلال ؓ
۱۰۔ 1920 ء ٗارتقاء ٗ مردِ آزاد
۱۱۔ 1922ء ٗ خضر راہ
۱۲۔ 1923ء ٗ طلوعِ اسلام
۱۳۔ 1932ء ٗنغمہء سرمدی
ان نظموں کے علاوہ اقبال نے انجمن کے سالانہ جلسوں کے موقع پر علمی موضوعات پر خطبات بھی دیے اور تقریریں بھی کی تھیں۔
انجمن حمایتِ اسلام لاہور کس طرح علی گڑھ تحریک کی توسیع تھی اس کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ علی گڑھ تحریک سے وابستہ یا اس سے متاثر ہونے والے اس زمانے کے صاحبانِ علم و دانش لوگوں میں سے بیشتر اس تنظیم کے سالانہ جلسوں میں خاص طور پر شرکت کرتے رہے۔ ان میں سے مولانا الطاف حسین حالی ٗ مولانا شبلی نعمانی اور ڈپٹی نذیر احمد قابل ذکر ہیں (17) ۔ اقبال کی اس تنظیم سے گہری اور تا عمر وابستگی اور اس تحریک کے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی اہم ترین نظموں کو اس انجمن کے جلسوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کا عمل بھی اقبال کی علی گڑھ تحریک کے مقاصد کی ادب کے ذریعے سے حصول میں سرگرمی کو ظاہر کرتی ہے۔
اقبال سے پہلے ڈپٹی نذیر احمد کا جوشِ خطابت انجمن کے جلسوں کی جان ہوتا تھا۔1900 ء کے جلسے کے بعد اقبال کی آواز ان میں گونجنے لگی۔ ابتداء میں اقبال اپنا کلام تحت الّفظ سناتا تھا، بعد میں لوگوں کی فرمائش پر ترنم سے اپنی نظمیں سنانے لگا۔ انجمن کے جلسوں میں دس دس ہزار کے مجمعے میں لوگ اقبال کا کلام سنتے اور سر دھنتے۔ انجمن کے جلسوں اور اقبال کی اس میں شرکت کے باب میں افتخار احمد صدیقی نے لکھا ہے:
’’انجمن کے جلسوں میں قومی شاعری کی روایت برسوں سے چلی آ رہی تھی اور اس کا تسلسل دور ِحاضر تک قائم رہا۔ اس صدی کے ابتدائی عشروں میں قومی شاعری کا اتنا زور بڑھا کہ ہزاروں کے مجمعے میں مرکزِ نگاہ بننے اور داد و تحسین حاصل کرنے کی خواہش ٗ ہر موزوں طبع نوجوان کو قومی شاعر بننے پر اکساتی تھی ٗ لیکن اقبال کی قومی شاعری ایک پیغمبرانہ جذبے کا نتیجہ تھی۔(18)
صدیقی صاحب کی بات سے انکار ممکن نہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انجمن سے اقبال کا تعلق صرف شاعری تک ہی محدود نہ رہا بلکہ بعد میں وہ اس کے سیکریٹری اور صدر بھی منتخب ہوئے اور اس کے قانونی مشیر بھی رہے۔ یوں اقبال نے لاہور میں فروغِ تعلیم کے لیے جدوجہد میں عملی حصہ لیا۔ انجمن کے بارے میں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ ادارہ فلاحی اور تعلیمی مقاصد کے لیے بنایا گیا تھاٗ اس کے جلسوں میں مذہبی رنگ غالب رہتا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ انجمن کا تعلق عام لوگوں سے تھا اور عام لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے پر جوش مذہبی تقریروں اور نظموں کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ اقبال جب ان جلسوں میں اپنی نظمیں سناتا تو لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل ہوتا تھا۔ یوں انجمن اور اقبال کے درمیان ایک ایسا تعلق استوار ہوا جس نے انجمن کے ساتھ ساتھ اقبال کی شاعری کی نشوونما میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔
انجمن پنجاب کی تحریکِ نظم گوئی اور اقبال
انجمنِ پنجاب، لاہور 12 جنوری 1865 ء کو قائم کی گئی تھی۔ اس کا ایک اہم مقصد ’’علمی و ادبی و معاشرتی اور سیاسی مسائل پر بحث و نظر ‘‘ تھا۔ ایک علمی اور تعلیمی تنظیم ہونے کے ناطے اس کی کوششوں کے طفیل 8 دسمبر1879 ء کو پنجاب اور ینٹل کالج اور14 اکتوبر1882 ء کو پنجاب یونیورسٹی کا قیام ممکن ہوا۔ (19)
صرف انھی دو اہم ترین اداروں کے قیام میں انجمن کے کردار سے اس انجمن کے دور رس اثرات اور خدمات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ امرِ واقع ہے کہ دکن سے دلی ٗ دلی سے لکھنئو اور لکھنئو سے لاہور کے تہذیبی مرکز بننے میں اہلِ علم و دانش کی کثیر تعداد میں ایک شہر سے دوسرے شہر تاریخی عوامل کے تحت ہجرت کا بہت دخل ہے۔ لکھنئو اور دہلی سے لاہور ہجرت کرنے والے شعراء میں محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی نمایاں تھے۔ ان دونوں کے علاوہ دہلی اور لکھنئو سے لاہور کی ادبی مجلسوں اور مشاعروں میں شرکت کے لیے اس عہد کے نامور شعراء اور ادباء اکثر تشریف لایا کرتے تھے۔ ان مشہور ہستیوں میں ڈپٹی نذیر احمد ٗ مولانا شبلی نعمانی ٗ مولانا ابو الکلام آزاد ٗ اکبر الٰہ آبادی ٗ خوشی محمد ناظر ٗ مولانا ظفر علی خان اور کئی دوسرے شامل تھے۔
آزاد ٗ حالی اور لاہور کی ادبی شخصیتوں نے مل کر جس انجمن کی داغ بیل ڈالی، اسے تیسری ہجرت کے حاصل اور اردو شاعری کے ارتقاء کے ایک اہم دور کے آغاز کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اسی انجمن کے تحت1874 ء میں مولانا محمد حسین آزاد کے توسط سے اقبال کا ظہور اور اس سے کچھ پہلے جدید شاعری کی تحریک کا آغاز ہوا۔ انھوں نے مئی 1874 ء میں نئی شاعری پر ایک پر مغز لیکچر دیا اور جدید شاعری کا نظریہ پیش کیا۔ انھوں نے پرانی شاعری کی کمزوریاں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی نظم ’’شام کی آمد اور رات کی کیفیت ‘‘ سنائی۔ یہ مشاعرہ طرحی مشاعروں کی روایت سے روگردانی کرتے ہوئے موضوعی مشاعروں کا نقطۂ آغاز تھا۔ ان مشاعروں کی غرض و غایت یہ تھی کہ اردو شاعری کو تقلید کے دائرے سے نکال کر کھلی فضا میں لایا جائے اور مواد اور ہیئت کے اعتبار سے وسعت دی جائے، شاعری میں علمیت اور افادیت کا رنگ پیدا کیا جائے مبالغہ ٗ انفعالیت اور قنوطیت کی جگہ حقیقت ٗ رجائیت اور فعالیت سے ہم کنار کیا جائے۔ ان مقاصد کے علاوہ ایک اور مقصد بھی تھا۔ وہ یہ کہ نئے اردو نصاب کے لیے نئے انداز کی نظموں کو فراہم کیا جائے۔ (20)
مشاعروں کے اس سلسلے میں نو مشاعرے برکھارُت ٗ زمستان ٗ امید ٗحبِّ وطن ٗ انصاف ٗ مروّت ٗ قناعت ٗ تہذیب اور اخلاق کے موضوعات پر ہوئے۔ یہ مشاعرے 1874 ء اور1875 ء میں ہوئے۔ ان میں سے نئی شاعری کے پہلے مشاعرے کی تاریخ اور مولانا محمد حسین آزاد کے تاریخی خطبے کی تاریخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔(21)
یہاں یہ کہنا بھی برمحل ہوگا کہ اس پہلے مشاعرے کے صدر کرنل ہالرائیڈ نے مظاہرِ فطرت کے حوالے سے خدا کی عظمت کا احساس دلانے کے لیے اردو شاعری کو وسیلہ بنانے کی تاکید کی۔ وہ بطور ناظمِ تعلیمات اس انجمن کے سرپرست تھے اور اس انجمن کی حیثیت سرکاری ادارے کی تھی۔
1875ء سے1890 ء تک انجمنِ پنجاب کی جانب سے خاموشی رہی مگر اس کے تسلسل میں1890 ء میں ایک ’’انجمنِ اتحاد‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس کے بانی حکیم شجاع الدین محمد تھے۔ اس انجمن کے تحت مشاعرے 1905 ء تک جاری رہے۔ اسی انجمن کے تحت ایک مشاعرے میں اقبال نے وہ غزل پڑھی جس کے اس شعر پر مرزا ارشد گورگانی پھڑک اٹھے تھے (22) ؎
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے گرے تھے جو عرقِ انفعال کے(23)
انجمنِ پنجاب کی ایک خاص دین اردو میں منظوم ترجموں کا رواج تھا۔ ان جدید نظموں نے اردو نظم کے لہجے ٗ اسلوب ٗ مواد اور ہیئت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آزاد ٗ حالی ٗ اسماعیل میرٹھی ٗ غلام مولا قلق میرٹھی ٗ پنڈت برج موہن د تاتریہ کیفی اور نظم طباطبائی انگریزی شاعری کے اولیں مترجمین میں سے تھے۔ اقبال نے بھی انھی کے تتبّع میں مغربی شعراء کے تراجم کیے یا ان سے ماخوذ نظمیں تخلیق کیں۔ ایک مکڑا اور مکھی ٗ ایک پہاڑ اور گلہری ٗبچے کی دعا ٗ ہمدردی ٗ ماں کا خواب ٗ آفتاب ٗ پیامِ صبح ٗ عشق اور موت ٗ رخصت اے بزمِ جہاں ٗ مشمولہ بانگِ درا اقبال کی شروع کی شاعری پر جدید شاعری کی تحریک کے انھی اثرات کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اقبال نے ’’سید کی لوح تربیت‘‘ اور ’’شبلی و حالی‘‘ کے عنوانات سے بھی نظمیں لکھیں۔ حالی کے بارے میں انجمن حمایتِ اسلام کے جلسے میں ان کی صدارت ہی میں ایک فی البدیہ رباعی بھی بہت مشہور ہے ؎
مشہور زمانے میں ہے نامِ حالی
معمور مئے حق سے ہے جامِ حالی
میں کشورِ شعر کا نبی ہوں گویا
نازل ہے مرے لب پہ کلامِ حالی
اس رباعی کے بعد انھوں نے حالی کا کلام اپنی زبانی سنایا۔(24)
اقبال کی نظموں کے موضوعات بھی آزاد اور حالی کی ان نظموں سے مناسبت رکھتے ہیں جو اس نے اس تحریک کے فروغ کے لیے بطور خاص لکھیں۔ مثال کے طور پر گل ِرنگیں ٗ ہمدردی ٗ پرندے کی فریاد ٗ ماہِ نو ٗ چاند اور تارے ٗ شبنم اور ستارے جو مسّدس مدّو جذر اسلام از الطاف حسین حالی کے زیرِ اثر بعدازاں شکوہ ٗ جوابِ شکوہ ٗ خضرِ راہ ٗ طلوعِ اسلام ٗ بلادِ اسلامیہ ٗ مسلمان اور تعلیمِ دید ٗ شب ِمعراج ٗ صدیق ؓ ، بلال ؓ اور مسجدِ قرطبہ جیسی معنی آفریں اور فکر سے روشن نظموں کی صورت میں ظہور پذیر ہوئیں اور جنھوں نے اقبال کی اپنی منفرد اور عہد ساز تحریک کی بنیاد مضبوط کی۔
آزاد اور حالی نے تسلسلِ خیال کی جس روایت کو جاری رکھا اس میں وضاحت زیادہ تھی اور رمزیت کم سے کم۔ انھوں نے دبستانِ لکھنئو کے ردّ ِعمل میں اپنے عہد کی سماجی ضرورتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی شاعری میں معروضیت کا عنصر داخل کیا اور موضوعی عنصر کی نفی کرتے ہوئے اپنی شاعری کو سادہ اور سپاٹ بنا دیا۔ فکری ابعاد اور صنعت گری کو جدا کر دینے سے ان کے ہاں فنی تضادات نمایاں ہو گئے ٗ کیونکہ تشبیہ ٗ استعارہ ٗ علامت ٗ تمثیل یا پیکر تراشی کے زبان کے ساتھ اتصال اور انجذاب سے ارفع شاعری جنم لیتی ہے اور انھوں نے اس سے انحراف کیا ٗ اس لیے ان کا شعری تجربہ مکمل نہ ہو سکا اور ان کی شاعری بے روح ہو گئی۔ اقبال نے اس شعری تجربے کو مکمل کیا اور فکری جہتوں کو زبان و بیان کی تمام رفعتوں کے ساتھ شامل کرکے ایک ترو تازہ لفظیات مرتب کی جو اپنے جلال و جمال اور تخلیقی ترفع کے ساتھ اقبال کے ہمہ گیر موضوعات سے لگّا کھاتی تھی۔ انھوں نے اپنے کمالِ فن سے ہر لفظ میں علامت کی روح پیدا کی۔ لیکن اس کے باوجود اقبال کے شعری مقام میں جدید شاعری کی اس تحریک کے حصے کو منفی نہیں کیا جا سکتا کہ اردو شاعری کے دریائے سخن میں دوسری زبانوں کے ادب کے مختلف نمکیات اور تراکیب کے حامل پانیوں میں پھر سے ہلچل پیدا کرنے سے ہی اقبال جیسے شاعر کا ظہور اردو شاعری کے ارتقاء کے اس مرحلے پر ممکن ہوا۔
تصورِ و طنیت و قومیت اور اقبال
اقبال نے جس عہد میں آنکھ کھولی وہ ہندوستان میں سیاسی بیداری کا دور تھا۔ جنگِ آزادی کے اثرات معدوم ہو چکے تھے۔ انگریزوں اور مقامی آبادی کے درمیان افہام و تفہیم کے نئے دور کا آغاز ہو چکا تھا۔ جدید مغربی علوم کی ترویج سے ہندوستان کے باشندوں پر ایک نئے جہان کے در وا ہو رہے تھے۔ اقبال نے پہلے مرے کالج سیالکوٹ اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ دونوں ادارے ابتداء ہی سے مغربی علوم کی اشاعت اور قومی ہم آہنگی کے فروغ میں پیش پیش رہے ہیں۔ اقبال نے بھی اس فضا سے اثرات قبول کیے۔ ان اثرات میں بہت اہم تصور ِو طنیت تھا۔ یہ تصور جغرافیائی حدود کے اندر قیام پذیر لوگوں کو ایک قوم قرار دیتا تھا۔ اقبال نے اس تصور کو اپنی ابتدائی نظموں میں واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ بانگ ِدرا کی پہلی نظم ’’ہمالہ‘‘ہی ان کی ہندوستان سے محبت اور عقیدت کی ترجمان ہے ؎
اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستان!
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ سے کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں
ایک جلوہ تھا کلیمِ طورِ سینا کے لیے
تو تجلی ہے سراپا، چشمِ بینا کے لیے
(کلّیاتِ اقبال،ص ۔5 )
اس کی نظم ترانۂ ہندی کی بھی مثال دی جا سکتی ہے جہاں اقبال ہندوستان کی عظمت کے گن گاتا نظر آتا ہے ؎
سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا ،آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے، ہندوستاں ہمارا
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی ،نام و نشاں ہمارا
اقبالؔ! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو، دردِ نہاں ہمارا
(کلّیاتِ اقبال، ص ۔110, 109 )
جن نظموں میں اقبال نے ہندوستان کی مٹی اور یہاں کی چیزوں سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ ان میں ہمالہ ٗ ابرِ کوہسار ٗ ایک آرزو ،رخصت اے بزم جہاں! ٗ نیا شوالہ ٗ نانک اور چشتی، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، سوامی رام تیر تھ وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص اس نے اپنی نظموں ترانۂ ہندی اورہندوستانی بچوں کا قومی گیت میں بھی اپنی حبّ الوطنی کا اظہار کیا ہے۔ اس نغمے کا لہجہ اور الفاظ کی گونج ٗ اس جوش و جذبے کو قاری تک منتقل کرتے ہیں جس کے تحت یہ تخلیق کیا گیا ہے۔
ہندوستان کی عظمت کے گیت گانے اور ہندو مسلم اتحاد کی بات کرنے والوں میں اقبال تنہا مسلم نہیں ہے بلکہ مسلم اکابرین کی ایک پوری جماعت ہمیں اس صف میں کھڑی نظر آتی ہے۔ ان میں سرسید ٗ حالی ٗ قائداعظم ٗ مولانا محمدعلی جوہر ٗ مولانا شوکت علی ٗ نواب محسن الملک ٗ حسرت موہانی ٗ ابو الکلام آزاد اور کئی دوسرے نام خاص طور پر اہم ہیں۔ لیکن یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے ان لوگوں پر انڈین نیشنل کانگریس کی ہندو نواز پالیسیاں واضح ہوتی گئیں، یہ لوگ متحدہ قومیت کے نعرے سے دست بردار ہوتے چلے گئے اور ان اہم رہنمائوں میں سے سوائے ابو الکلام آزاد کے باقی کے تقریباً سب مسلم رہنمائوں نے مسلم حقوق کی بات شروع کر دی۔ اقبال کی زندگی میں بھی وہ وقت جلد آگیا جب اس نے اس بات کا اندازہ کر لیا کہ ہندو کسی قیمت پر مسلمانوں کو مساوی حقوق دینے پر آمادہ نہیں۔ اس بات نے اقبال کے ذہن میں انتشار کو جنم دیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس نے ملکی حالات سے مایوس ہو کر اس سر زمین کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن آگے چل کر اس کے ہاںملّی شعور پختہ ہونے لگا اور وہ ہندوستان کی عظمت کے گیت گانے کی بجائے مسلم قومیت کی بات کرنے لگا۔ یہ اقبال کی زندگی کا انتہائی اہم موڑ تھا۔
اقبال نے اپنے ہم وطنوں کی بے مہری اور بے مروتی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے ؎
اپنی اصلیت سے ناواقف ہیں کیا انسان ہیں یہ
غیر اپنوں کو سمجھتے ہیں عجب نادان ہیں یہ
امتیازِ قوم و ملّت پر مٹے جاتے ہیں یہ
اور اس الجھی ہوئی گتھی کو الجھاتے ہیں یہ
(کلّیاتِ اقبال، ص ۔64 )
اس نظم تک آتے آتے اگرچہ اقبال اپنے ہم وطنوں سے دل برداشتہ ہو چکا ہے لیکن ابھی وہ قوم اور ملت کے اختلافات کو اہمیت دینے کو تیار نہیں بلکہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ اب تک اقبال کے ہاں مسلم قومیت کا نظریہ سیاسی یا قومی نصب العین کے طور پر سامنے نہیں آتا بلکہ کسی حد تک اقبال وحدت الوجود کے نظریے کو مانتے ہوئے اتحاد اور متحدہ قومیت پر قائم ہے۔
قیام یورپ سے واپسی پر جب اقبال کے ہاں ردِّ وحدت الوجودکا عمل شروع ہوا تو اسی کے ساتھ اس نے رفتہ رفتہ متحدہ قومیت کے نصب العین کو بھی خیر باد کہنا شروع کر دیا۔ اب وہ مولانا روم کی پیروی میں اپنی ذات کی تعمیر ٗ خودی کی نشوونما اور شخصیت کی تکمیل کو سب سے اہم جاننے لگا یعنی اگر انسان اس دنیا میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے نفیٔ خودی کی بجائے اثباتِ خودی کی طرف آنا چاہئے۔ یہ نقطہ ان کے ہاں مغربی تصورِ و طنیت کے ردّ اور ملی شعور کی نشوونما کے لیے بنیاد ثابت ہوا۔ اقبال نے جان لیا کہ جغرافیائی وطن کا تصور انسان کو ایسے گروہوں میں تقسیم کرتا ہے جو باہم ایک دوسرے سے برسرِپیکار رہتے ہیں۔ کچھ عرصے کے لیے اس کے ہاں ایسا نظر آتا ہے جیسے وہ اشتراکیت کے نئے فلسفے کی طرف مائل ہو رہا ہے لیکن یہ مختصر مدت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی نگاہیں اس بات کا ادراک حاصل کر لیتی ہیں کہ معاشی مفاد کے جس فلسفے پر نئی سلطنت کی بنیاد رکھی جا رہی ہے اور جس فلسفے میں مذہب اور خدا کے لیے کوئی جگہ نہیں وہ جلد ہی اپنی افادیت کھو دے گا۔ اس طرح اگر ایک طرف وہ متحدہ قومیت سے مسلم قومیت کی طرف آتا ہے تو دوسری طرف لینن کو خدا کے حضور کھڑا کر دیتا ہے۔ اس کا یہ شعر مسلم قومیت کی جانب اس کے سفر کا سنگِ میل ہے ؎
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم ٗ وطن ہے سارا جہاں ہمارا
(کلّیاتِ اقبال، ص ۔186 )
اب وہ خود کو جغرافیائی حدود سے ماوراء کر لیتا ہے اور خود کو پوری مسلم امت کے ساتھ منسلک کرکے دیکھنے لگتا ہے ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
(کلّیاتِ اقبال، ص ۔295 )
مسلم قومیت کی جانب اقبال کے سفر کے بیان کے لیے افتخار احمد صدیقی کا ایک طویل اقتباس درج کیا جا رہا ہے جس سے اقبال کی سمتِ سفر کا اندازہ لگانے کا موقع ملے گا:
’’محبت کے پرستار اقبال کے لیے وحدت الوجودی تصوف میں سب سے بڑی کشش یہ تھی کہ یہ نظریہ مذہب کے ظاہری اختلافات کو مٹا کر انسانی وحدت اور عالمگیر اخوت و محبت کا نصب العین پیش کرتا ہے۔ لیکن وجودی تصوف محض مذہبی طور پر ہی منکر نہیں بلکہ نیکی اور بدی ٗ خیر و شر اور حق و باطل کے امتیازات بھی ختم کر دیتا ہے۔ لہٰذا اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ’’عالمگیر اخوت و محبت‘‘ کے یہ بلند آہنگ دعوے خواب و خیال سے زیادہ اور کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ظاہر ہے کہ لفظ ’’محبت‘‘ میں کوئی طلسمی قوت نہیں ٗ جس کے اثر سے دنیا میں انسانوں پر انسانوں کا ظلم و ستم اور شرکی قوتوں کا فتنہ و فساد مٹ جائے۔ محبت کا نصب العین (یعنی عالمگیر امن و اخوت ٗ مساوات و حریت) سعی و عمل ‘ جہدو پیکار اور ایثار و خدمت کے ایک لامتناہی سلسلے سے وابستہ ہے۔ جب تک منظم طور پر کوشش نہ کی جائے ٗ دنیا میں کوئی ایسا معاشرتی نظام قائم نہیں ہو سکتا جہاں عدل و مساوات اور اخوت و محبت کی قدریں ٗ انسانی خود غرضی اور ہوس پرستی کی یلغار سے پامال نہ ہونے پائیں۔ انسانی وحدت کا تصور اور عالمگیر اخوت و محبت کا نصب العین اسلام بھی پیش کرتا ہے ٗ لیکن اسلام اس نصب العین کے حصول کے لیے ایک دستور العمل اور ایک اجتماعی نظام تشکیل دیتا ہے۔ صوفیہ کے نزدیک اس اجتماعی نظام (ملت اسلامیہ) اور اس دستور العمل (شریعت) کی کوئی اہمیت نہیں۔ تصوف کے وحدت الوجودی نظریے سے متاثر ہو کر صوفی شعراء جن منفی اقدار کی تبلیغ کرتے رہے ٗ ان کا خلاصہ یہ ہے ۔ ’’دنیا ہیچ است و کارِ دنیا ہمہ ہیچ‘‘ دنیا کے مادی حقائق اور زندگی کے سنگین مسائل کو پائے استحقار سے ٹھکرانے کے بعد کوئی مسئلہ ہی نہیں رہ جاتا جس کے لیے جہدو عمل کے کسی منظم سلسلے ٗ کسی دستور العمل یا کسی اجتماعی نظام کی ضرورت باقی رہے۔ اپنے فکری ارتقاء کے اس مرحلے میں اقبال اپنے ذوقِ علم و معرفت اور مطالعے کی وسعت کے باوجود حق آگاہی کی منزل سے دور تھے۔ ’’وحدتِ ادیان‘‘ اور ’’وحدتِ انسان‘‘ کے حسین نعروں کا کھوکھلا پن انھیں چند سالوں بعد اس وقت محسوس ہوا جب عجمی تصوف کے دل فریب پردوں کو محقق کی دور رس نگاہوں نے چاک کر دیا اور انھیں اسلام کے اجتماعی نظام کے مطالعے کا موقع ملا‘‘۔ (25)
ڈاکٹر صاحب نے علامہ اقبال کے فکری ارتقاء کی جانب بجا اشارہ کیا ہے لیکن تصوف اور صوفیہ کے باب میں وہ انتہا پسندانہ سوچ کا شکار ہو گیا تھا۔ شریعت یا مذہبِ اسلام کو نظر انداز کرنے کی روش اگر ہمیں چند صوفیہ کے ہاں نظر آتی ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ تمام صوفیہ شریعت کو اہمیت نہیں دیتے تھے، کور نظری ہے۔ اس بات کا اظہار کہ صوفیہ کو دنیاوی مسائل سے غرض نہیں، حقائق کو نظر انداز کرنا ہے اور خاص طور پر ہندوستان جیسے ملک میں جہاں کے مسلمانوں کی اکثریت نے ان صوفیہ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا یہ بات کہنا کہ صوفی بے عمل ٗ مذہب اسلام سے دور لوگ تھے ٗ انتہا پسندی کی انتہا قرار دی جا سکتی ہے۔ اقبال کے بارے میں یہ لکھنا کہ وہ چند سال بعد تصوف سے دور ہو کر اسلام کے سیدھے راستے پر آ گیا، سادہ لوحی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اقبال اسلام کے راستے سے کبھی ہٹا ہی نہیں ۔ دوسرا مذہب کی صرف من پسند تعبیر کو کل مذہب قرار دینا گمراہی ہے۔ تیسرا اگرچہ اقبال نے وحدت الوجود کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کیا ٗ لیکن وہ رومی ٗ مجدد الف ثانی اور کئی دیگر صوفیہ کے نہ صرف دل سے قائل تھا بلکہ اس نے اس بات کا اظہار اپنے آخری دور کے اشعار میں بھی کیا ہے۔ خاص طور پر جاوید نامہ میں منصور حلاج ٗ قرۃ العین طاہرہ اور غالب جیسے کرداروں کا انتظار اس جانب واضح اشارہ ہے کہ اقبال نے اپنی سوچ کے دروازے کسی پر بند نہیں کیے تھے۔ افتخار احمد صدیقی کے بیان سے وہابیت جھلکتی ہے اور اعتدال کا دامن کسی حد تک ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ہے۔
بانگِ درا کے آخری حصے سے ہی اقبال کی فکر میں واضح تبدیلی کے آثار نمایاں تھے ٗ لیکن بالِ جبریل تک آتے آتے یہ تبدیلی ٹھوس صورت اختیار کر چکی تھی۔ اقبال نے مغربی تصوّرِ وطنیت کو پوری طرح ردّ کرکے اُمتِ اسلامیہ کے تصور کو اپنا لیا تھا۔ اس سلسلے میں عابد علی عابد لکھتے ہیں:
’’اقبال کے اس خیال کی شعری صورت بالِ جبریل میں سب سے دل فریب روپ دھارتی ہے کہ وطنیت کا مغربی تصور انسان کی گرم رفتاری میں حائل ہوتا ہے اور ارتقاء کی فطری قوتوں کو روکتا ہے۔ اس تصور کے ذریعے اربابِ اقتدار ٗ نسل اور قوم اور وطن کو بتوں کی صورت دے کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور انھیں اس چیز پر قربان کر دیتے ہیں جو دراصل ان کی ہوسِ اقتدار ہے لیکن جسے وہ فریب کاری کے طریقے پر ناموسِ وطن کہتے ہیں ٗ بالِ جبریل میں اقبال نے عالمِ انسانیت کی اس بے احترامی اور باا قتدار طبقے کی فریب کاری کے خلاف نہایت موثر احتجاج کیا ہے اور نہایت ہی خوب صورت پیرائے میں انسانوں کی طبقہ بندی کی مذمّت کی ہے۔ اس سلسلے میں کبھی اپنی علامتیں تغزل سے مستعار لی ہیں ٗ کبھی تصوف سے ٗ کبھی وضاحت سے بات کی ہے ٗ کبھی نہایت نزاکت سے اشارے کیے ہیں لیکن بہرحال جذبے کی آنچ ہر شعر میں سلگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے‘‘۔(26)
عابد صاحب نے بڑی خوبصورتی سے اقبال کی فکر کے ارتقاء کو پیش کیا ہے آگے چل کر انھوں نے اقبال کے اشعار نقل کیے ہیں جو یہاں درج کیے جاتے ہیں ؎
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلّت ہے کارِ آشیاں بندی
(کلّیاتِ اقبال ،ص ۔352 ۔353)
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
درویشِ خدامست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلّی ٗ نہ صفاہاں ٗ نہ سمر قند
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 357 )
نہ تو زمیں کے لیے ہے ٗ نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے ٗ تو نہیں جہاں کے لیے
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بے کراں کے لیے
(کلّیاتِ اقبال، ص۔389 )
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
جو کھویا گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 389 ۔390 )
اس طرح کی بے شمار مثالیں ہم اقبال کے اردو کلام سے پیش کرسکتے ہیں جہاں وہ مسلمانوں کو اپنے اندر ملی جذبہ پیدا کرنے کا پیغام دے رہا ہے لیکن اب ہم تصور و طنیت کی بحث کواسی مقام پر ختم کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ اقبال کے قیامِ یورپ نے اس پر کیا اثرات مرتب کیے۔
اقبال پر قیام یورپ کے اثرات
’’1905 ء سے 1908 ء تک اقبال کی شاعری کا دوسرا دور شروع ہوا۔ یہ وہ زمانہ ہے جو انھوں نے یورپ میں بسر کیا گو وہاں انھیں شاعری کے لیے نسبتاً کم وقت ملا اور ان نظموں کی تعداد جو وہاں کے قیام میں لکھی گئیں ٗ تھوڑی ہے، مگر ان میں ایک خاص رنگ وہاں کے مشاہدات کا نظر آتا ہے۔ اس زمانے میں دو بڑے تغیر ان کے خیالات میں آئے۔ ان تین سالوں میں سے دو سال ایسے تھے جن میں میرا بھی وہیں قیام تھا اور اکثر ملاقات کے مواقع ملتے رہتے تھے۔ ایک دن شیخ محمد اقبال نے مجھ سے کہا کہ ان کا ارادہ مصمم ہو گیا ہے کہ وہ شاعری ترک دیں اور قسم کھا لیں کہ شعر نہیں کہیں گے اور جو وقت شاعری میں صرف ہوتا ہے اسے کسی اور مفید کام میں صرف کریں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کی شاعری ایسی شاعری نہیں ہے جسے ترک کرنا چاہیے بلکہ ان کے کلام میں وہ تاثیر ہے جس سے ممکن ہے کہ ہماری درماندہ قوم اور ہمارے کم نصیب ملک کے امراض کا علاج ہو سکے۔ اس لیے ایسی مفید خدا داد طاقت کو بیکارکرنا درست نہ ہوگا۔ شیخ صاحب کچھ قائل ہوئے کچھ نہ ہوئے اور یہ قرار پایا کہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر آخری فیصلہ چھوڑا جائے۔ اگر وہ مجھ سے اتفاق کریں تو شیخ صاحب اپنے ارادۂ ترکِ شعر کو بدل دیں اور اگر وہ شیخ صاحب سے اتفاق کریں تو ترکِ شعر اختیار کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ علمی دنیا کی خوش قسمتی ہے کہ آرنلڈ صاحب نے مجھ سے اتفاق رائے کیا اور فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لیے شاعری چھوڑنا جائز نہیں اور جو وقت وہ اس شغل کی نذر کرتے ہیں، وہ ان کے لیے بھی مفید ہے اور ن کے ملک و قوم کے لیے بھی مفید ہے۔ ایک تغیر جو ہمارے شاعر کی طبیعت میں آیا تھا اس کا تو یوں خاتمہ ہوا۔ مگر دوسرا تغیر ایک چھوٹے سے آغاز سے ایک بڑے انجام تک پہنچا یعنی اقبال کی شاعری نے فارسی زبان کو اردو زبان کی جگہ اپنا ذریعۂ اظہار خیال بنا لیا‘‘۔(27)
مندرجہ بالا اقتباس میں سر عبدالقادر نے اقبال کے قیامِ یورپ کے ان واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جن سے آنے والے دنوں میں نہ صرف اردو کی شعری روایت میں اضافہ ہوا بلکہ برصغیر کی سیاست پر بھی دور رس نتائج مرتب ہوئے۔ ایک اور بات جس کی جانب اشارہ کیا گیاہے وہ اس کی نظموں کا مخصوص رنگ ہے جو قیام یورپ کی دین ہے۔ یہ نظمیں بانگِ درا میں حصہ دوم کے تحت آئی ہیں۔
قیامِ یورپ کے دوران اقبا ل کو مغربی تہذیب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اس نے اس کے مشاہدے اور مطالعے سے دور رس نتائج اخذ کیے اور پھر وہ مغربی تہذیب کے ایک مضبوط نقاد کے طور پر سامنے آیا۔ اس تین سالہ قیام کے دوران میںاس کے مطالعے میں وسعت پیدا ہوئی ٗ اور اسے ایک وسیع تناظر میں غور و فکر کا موقع ملا۔ انگلستان اور جرمنی میں قیام کے دوران ایسا لگتا ہے کہ وہ جرمن قوم اور جرمن فلسفے سے زیادہ متاثر ہوا۔ انگلستان میں قیام کے دوران اسے میک ٹیگارٹ، پروفیسر برائون ٗ نکلسن ‘ جیمز وارڈ وغیرہ جیسے اہم مفکرین سے ملاقات کا موقع ملا لیکن اقبال نے سب سے زیادہ اثر جرمنی کے شاعر نطشے سے قبول کیا۔ اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ اقبال سے رومی کا پہلا تعارف بھی نطشے کے حوالے سے ہوا۔ اقبال نے اپنے ’’انسان ِکامل‘‘ کے تصور کی تشکیل میں بہت سے اجزائے ترکیبی نطشے کے سپر مین سے اخذ کیے۔ مشرق کی عظمتِ رفتہ کے دوبارہ احیا اور مشرق کی قدامت کو مغربی جدت سے ہم آہنگ کرنے کے تصورات نے بھی جنم لیا۔ اس کی شاعری میں حرکت و عمل کا پیغام بھی اسی جگہ سے شروع ہوا۔ اقبال نے اپنا فلسفۂ زندگی مرتّب کیا۔ ان اشعار کو ہم اقبال کے یورپی اثرات سے آزاد ہونے اور مشرقی روح کو دوبارہ تازہ کرنے کے مشن کا آغاز کہہ سکتے ہیں ؎
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 167 )
اقبال جب ۱۹۰۵ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا مقصد لے کر یورپ روانہ ہوا تو اس سے قبل ایک ابھرتے ہوئے قومی شاعر کی حیثیت سے معروف ہو چکا تھا۔ اس وقت تک اس کی ذہنی ٗ فکری اور تخلیقی کاوشوں کا محور مندرجہ ذیل موضوعات تھے:
1۔ مناظرِ فطرت کے مشاہدات کا تاثر
2۔ حبِّ وطن اور ارباب وطن سے عقیدت
3۔ عقل اور عشق ٗ دل اور دماغ کی باہمی آویزش
4۔ تصوف اور نظریۂ وحدت الوجود
5۔ اسرارِ حیات کا تجسس
قیامِ یورپ کے زمانے میں اقبال نے بہت کم شاعری کی۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ اپنے تعلیمی مشاغل میں ہمہ تن مصروف تھا اور دوسری وجہ یہ کہ وہ روایتی شاعری کو بے کارِ محض خیال کرنے لگا تھا۔ بعد میں جب شیخ عبدالقادر اور پروفیسر آرنلڈ کے مشورے سے اس نے شاعری ترک کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا تو اس نے ایسے شعر کہنے کا عزم کیا جن کا کوئی مقصد ہو اور جن سے قوم خوابِ غفلت سے بیدار ہو جائے۔
یورپ میں قیام کے زمانہ میں ایک طرف اقبال کو مغرب کے سیاسی افکار کے مطالعے کا موقع ملا اور دوسری طرف اسلامی ممالک کی تباہی اور زوال کا مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آیا۔ چنانچہ اس کے افکار و نظریات میں بڑی دور رس تبدیلی واقع ہوئی۔ اسے پتا چل گیا کہ زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے جبکہ مسلمان اجتماعی طور پر خوار و زبوں حال تھے اور غلامانہ ذہنیت کا شکار ہو رہے تھے۔ اقبال نے ان حالات کا کھوج لگانے کی کوشش بھی کی جو مشرقی اور خاص طور پر اسلامی ممالک کے زوال اور پسماندگی کا باعث بنے۔ اس کاوش نے اس پر مغربی اقوام کے ان حربوں کو واشگاف کیا جو انھوں نے مشرقی اقوام کو غلام اور محکوم بنائے رکھنے کے لیے وضع کیے تھے۔ ان حربوں میں سب سے مہلک اور خطرناک حربہ وطنیت اور قومیت کا مغربی نظریہ تھا۔ اس نظریے نے مسلمانوں کو آپس میں تعصب میں مبتلا کر دیا تھا اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا تھا ٗ چنانچہ اقبال جغرافیائی حد بندیوں پر مبنی وطنیت کے نظریے سے متنفر ہو گیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ قومیت کی تشکیل جغرافیائی حدود ٗ نسلی امتیاز اور زبان کے اشتراک پر نہیں ہوتی بلکہ عقیدے ٗ نظریے اور مذہب کی بنیاد پر ہوتی ہے اور قومیت کا یہ نظریہ صرف اسلام میں موجود ہے۔ اقبال نے بلادِ اسلامیہ ،حضورِ رسالت مآب میں، لکھ کر یورپی اقوام کی مسلمان دشمنی کا پردہ چاک کیا۔ خطاب بہ جوانانِ اسلام ٗ شعاعِ آفتاب ٗ نویدِ صبح اور فاطمہ بنت عبداللہ جیسی نظموں میں اقبال نے یاس میں کھوئی قوم کو امیدِ فردا یاددلائی ہے اور ان کے عزم کو مہمیز کیا ہے۔ شمع و شاعر اور خضرِ راہ میں اس دور کے حالات کا تجزیہ اور تصویر کشی کی ہے اور1923 ء کے لگ بھگ طلوعِ اسلام لکھ کر ملتِ اسلامیہ کی نشاۃ ِثانیہ کی نشاندہی کی ہے ؎
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
کتابِ ملّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 298 )
اس دور میں اقبال کی فکر کا محور اسلام بن چکا ہے۔ صدیق ؓ ٗ بلال ؓ اور جنگِ یرموک کا ایک واقعہ، سے اسلام اور اس کی تعلیمات سے اقبال کی شیفتگی مترشح ہے۔ شفا خانۂ حجاز میں وہ سر زمین ِحجاز میں مرنے کی تمنا کرتا ہے اور ،میں اور تو ،میں حضور اکرم ﷺ سے لطف و کرم کی التجا کرتا ہے۔
اقبال نے قیام یورپ کے اثرات کے تحت قوم کو اپنا نظریۂ زندگی تبدیل کرنے کی تلقین کی۔ جن مظاہرِ فطرت کو اس سے قبل وہ اسرارِ حیات سے آگاہی حاصل کرنے کا ذریعہ بتاتا تھا اب اس کے پیغام کے ابلاغ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان مظاہر کی معنویت ان کے ذہنی ارتقاء کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی چنانچہ چاند تارے میں وہ مظاہرِ فطرت کے حوالے سے جہد مسلسل کے نظریے کی وضاحت کرتا ہے ؎
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسمِ قدیم ہے یہاں کی
اس رہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 145 )
اسی طرح ان کی نظم کوششِ ناتمام بھی اسی پیغام کی حامل ہے۔ اقبال کو ان کے مخالف فرقہ پرست بھی کہتے ہیں لیکن ان کا رجحان اسلامی تعلیمات کی طرف ان کے ذہنی ارتقاء کا نتیجہ تھا جہاں وہ بہت غور و فکر کے بعد پہنچا تھا۔ اس کے نزدیک اسلام مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا بن سکتا ہے چنانچہ اس نے یورپ کے قیام کے دوران اپنی شاعری کو ایک پیغام کی صورت دینے کا ارادہ کیا تاکہ بنی نوع انسان اسلام کے طفیل اپنے مصائب سے نجات پا سکے۔
یورپ میں تین سالہ قیام کے دوران اقبال کی زندگی میں جذباتی پہلو کے اعتبار سے بھی تغیرات آئے۔ انگلستان میں اس کی ملاقات عطیہ فیضی سے ہوئی جو وہاں ان دنوں مقیم تھیں۔ اس کے بعد جرمن میں وہ اپنی جرمن زبان کی استاد مس ایما ویگے ناست سے متاثر ہوئے جن کا احوال خود اقبال نے متعدد جگہ بیان کیا ہے اس کے علاوہ اقبال کے حوالے سے لکھی جانے والی کئی کتابوں میں اس سلسلے میں مفصل بحث موجود ہے ٗجن میں اقبال از عطیہ فیضی، اقبال یورپ میں از سعید اختر درانی، عروجِ اقبال از افتخار احمد صدیقی اور کئی دوسری کتب قابل ذکر ہیں۔ چنانچہ ہم اقبال کے قیام یورپ پر بحث سمیٹتے ہوئے اقبال پر ایک اور حوالے سے بحث کرتے ہیں۔ یہ پہلو پین اسلام ازم کا ہے جس میں ان کے پیش روجمال الدین افغانی ہیں۔
اقبال، جمال الدین افغانی اور اتحادِ عالم اسلامی کی تحریک
عالم اسلام کی انیسویں صدی کی ممتاز ترین شخصیت سیّد محمد بن صفدر المعروف جمال الدین افغانی (1838 ئ۔1839 ئ۔ مارچ 1897 ئ) عظیم مفکر ٗ صاحب حکمت و دانش اور کشش انگیز رہنما تھے۔ ان کے نزدیک ملتِ اسلامیہ کی نشاۃِ ثانیہ کا راز دو نکتوں میں پوشیدہ ہے۔ ایک نکتہ اغیار کی غلامی سے نجات ہے اور دوسرا اتحاد ِعالمِ اسلامی۔ انہوں نے اپنی جادو اثر تقریر وں ٗ جاذب نظر شخصیت ٗ حسنِ خلق ٗ منطق اور زور ِبیان سے ان گنت لوگوں کو اپنا حامی بنایا۔ مشہور فرانسیسی مصنف ارنسٹ رینان انہیں ابنِ سینا اور ابنِ رشد جیسی عظیم المرتبت مسلمان ہستیوں کے ہم پلہ قرار دیتا ہے۔
’’وہ نہ صرف مفکر و حکیم تھے بلکہ اہلِ نظر بھی تھے اور ان کی بصیرت نے اس عہد میں حالات کا مثلاً اسلامی ممالک کے زوال و انحطاط اور جمود و بے حسی ٗ ان کی اقتصادی اور سیاسی زندگی پر یورپی ممالک کے روز افزوں تسلط و اختیار اور مشرق میں دہریت کی نشر و اشاعت جس کا منبع ڈارو نیت تھی ٗ صحیح اندازہ لگایا۔‘‘ (28)
اپنی کتاب ’’رک بہ دھریہ‘‘ میں انہوں نے ڈارون کے نظریات کی تردید کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’فقط مذہب ہی معاشرت کے استحکام و سلامتی اور قوموں کی قوت کی ضمانت دے سکتا ہے جبکہ لادینی مادیت انحطاط و زوال کا سبب ہے۔ ان کے نزدیک یہ دینِ اسلام اور اس کا عقیدہ توحید ہی ہے جو اجتماعی لحاظ سے اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور بہترین امتِّ مسلمہ ہے اور انفرادی اعتبار سے اس سے انسان میں تقویٰ ٗ صداقت اور حسنِ اخلاق پیدا ہوتا ہے۔ انھوں نے بعض مملکتوں کی سیاسی سیادت و تفوق کے زوال کو مادیت (مثلاً یونان میں ابیقوریت(Epicureanism) اور فرانس میں والٹیئر اور روسو کے نظریات)سے منسوب کیا ہے۔ (29)
یہی نہیں بلکہ انھوں نے عہد حاضر میں اسلامی نظریات پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے مدلّل اور مسکت جوابات بھی دیے ہیں۔ وہ اس امر کے شدت سے قائل تھے کہ اسلام اور سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور دنیا کے ابتدائی نامور سائنسدان مسلمان ہی تھے۔ عقیدئہ جبر و قدر کے سلسلے میں بھی انہوں نے عقیدئہ قدر یعنی آزادیٔ عمل کا پرچار کیا۔ جمال الدین افغانی کی تحریک اتحادِ عالمِ اسلامی کو مغربی مفکرین منفی طور پر پین اسلام ازم کا نام دیتے ہیں ٗ جیسا کہ آج کل انہوں نے بنیاد پرستی کی اصطلاح خود ہی وضع کرکے اسے قابل مذمت قرار دے رکھا ہے۔ افغانی کی اس تحریک کا مقصد اس وقت کی اسلامی ریاستوں کے درمیان اتحاد اور تنظیم قائم کرکے انھیں ایک لڑی میں پرونا تھا جس کے لیے انھوںنے بے شمار مصائب ٗ آلام اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور طویل سفر کیے۔ اسی سلسلے میں وہ ایک سے زائد بار ہندوستان بھی آئے۔
جمال الدین افغانی اپنی اس تشویش میں حق بجانب دکھائی دیتے ہیں کہ مغربی سامراجی قومیں اپنی محکوم قوموں کی تہذیب و ثقافت کی نشوونما کو روکنے کے لیے اور ان کے جذبۂ حریت کو دبانے کی خاطر ان قوموں پر حقیقی تعلیم کے دروازے بند رکھتی ہیں اور انھیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ ان کے اندر کسی قسم کی کوئی اہلیت یا خوبی نہیں ہے(رڈیارڈ کپلنگ کی مشہور نظم ’’سفید آدمی کا بوجھ ‘‘ اس کی بدترین مثال ہے جس میں رنگ دار قوموں کو گالیاں تک دی گئی ہیں اور انسان تک تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا ہے)۔ اپنی زبان کی کم مائیگی کا احساس پیدا کرکے درحقیقت وہ استبدادی اور سامراجی عزائل کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں۔ جمال الدین افغانی نے مشرقی اقوام کو اپنی زبان ٗ اپنے ادب اور اپنی ثقافت کے حوالے سے اپنا قومی شعور پیدا کرنے کا پیغام دیا۔ ان کے خیال میں اپنی گراں مایہ تاریخ کے بغیر دنیا میں کوئی قوم باعزت اور باوقار نہیں ہو سکتی۔
اسلامی دنیا میں انھی خیالات اور مقصد کے حصول کے لیے خلوصِ نیت کے سبب جمال الدین افغانی کا نام آج بھی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے، وہ مشرقِ جدید کی تاریخ میں پہلے مجاہد تھے جن کی بصیرت نے ایک اسلامی بلاک کی ضرورت محسوس کی اور اسے امنِ عالم کی ضروری شرط ٹھہرایا۔ (30)
علامہ اقبال کے مطابق ’’زمانۂ حال میں اگر کوئی شخص مجدد کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف جمال الدین افغانی ہے۔ مصر و ایران و ترکی و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اسے سب سے پہلے عبدالوہاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہوگا۔ مؤخر الذکر ہی اصل میں موسس ہے ٗ زمانۂ حال کے مسلمانوں کی نشاۃ ِثانیہ کا‘‘۔(31)
اقبال کے اس نقطۂ نظر پر یہ اضافہ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کے ضمن میں جمال الدین افغانی سے اگلا نام خود اقبال کا ہے اور اس کے بعد ترکی کے ضیاء گوک الپ اور مصر کے سعد زاغلولو کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں۔ اقبال کی شاعری کے ایک سرسری مطالعہ ہی سے یہ اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں رہتا کہ ان کا کلام سر تاسر جمال الدین افغانی کے خیالات ہی کا تخلیقی پر تو ہے۔
انھوں نے جمال الدین افغانی کی اس شکایت کو رفع کرنے کی کامیاب کوشش کی جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ ہر چند کہ ان کے خطبات بھی جمال الدین افغانی ہی کے افکار کی توسیع ہیں تاہم انہوں نے جاوید نامہ میں بھی ان کا جا بجا ذکر کیا ہے اور انہیں مشرق اور دنیائے اسلام کا عظیم مفکّر قرار دیا ہے۔
اقبال پین اسلام ازم کی اصطلاح کے پسِ پردہ مغربی استبداد کے پروردہ اور پرچارک مفکرین کے مذموم عزائم جانتے تھے ٗ اسی لیے اقبال نے پین اسلام ازم کے بارے میں ایک بیان کے ذریعے یہ تشریح ضروری سمجھی ’’۔۔۔۔۔ پین اسلام ازم کا لفظ فرانسیسی صحافت کی ایجاد ہے اور یہ لفظ ایسی مفروضہ سازش کے لیے استعمال کیا گیا تھا جو اس کے وضع کرنے والوں کے خیال کے مطابق اسلامی ممالک غیر اسلامی اقوام خاص کر یورپ کے خلاف کر رہے تھے۔ بعد میں پروفیسر برائون آنجہانی اور دیگر اشخاص نے یورپی تحقیقات سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کہانی بالکل غلط تھی۔ پین اسلام ازم کا ہوّا پیدا کرنے والوں کا منشا صرف یہ تھا کہ اس کی آڑ میں یورپ کی چیرہ دستیاں جو اسلامی ممالک میں جاری تھیں وہ جائز قرار دی جائیں۔۔۔۔۔’’پین اسلام ازم‘‘ سے اسلام کی عالمگیر سلطنت بہت مختلف ہے۔ اسلام ایک عالمگیر سلطنت کا یقیناً منتظر ہے جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہوگی اور جس میں مطلق العنان بادشاہوں اور سرمایہ داروں کی گنجائش نہ ہوگی۔ ‘‘(32)
اس کے ساتھ ساتھ اقبال نے ہندوستانی سیاسی پس منظر میں ہندوئوں کی پھیلائی ہوئی گرد کو بھی صاف کرنے کے لیے پین اسلام ازم کی وضاحت کی اور مسلمانوں کو ہندوستان میں ایک علیحدہ معاشرتی جماعت ٗ علیحدہ اقلیت اور علیحدہ قوم قرار دیا۔
محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں سجاد حیدر یلدرم کی تحریک پر مولانا شبلی نے علامہ اقبال کا خیر مقدم کیا تو جواباً اقبال نے جو کلمات ادا فرمائے ان سے پین اسلام ازم کے بارے میں اقبال کے مثبت خیالات کی ترجمانی ان کے اپنے الفاظ میں یوں ہوتی ہے:
’’میری نظموں کے متعلق بعض ناخدا ترس لوگوں نے غلط باتیں مشہور کر رکھی ہیں اور مجھ کو پین اسلام ازم کی تحریک پھیلانے والا بتایا جاتا ہے۔ مجھ کو پین اسلامسٹ ہونے کا اقرار ہے اور میرا یہ اعتقاد ہے کہ ہماری قوم ایک شاندار مستقبل رکھتی ہے اور جو مشن اسلام کا اور ہماری قوم کا ہے وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ شرک اور باطل پرستی دنیا سے ضرور مٹ کر رہے گی اور اسلامی روح آخر ِکار غالب آئے گی۔ اس مشن کے متعلق جو جوش اور خیال میرے دل میں ہے ٗ اپنی نظموں کے ذریعہ قوم تک پہنچانا چاہتا ہوں اور اس اسپرٹ کے پیدا کرنے کا خواہشمند ہوں جو ہمارے اسلاف میں تھی کہ دولت و امارت کو وہ اس دارِ فانی کی کوئی حقیقت نہ سمجھتے تھے۔ میں جب کبھی دہلی آتا ہوں تو میرا یہ دستور رہا ہے کہ ہمیشہ حضرت نظام الدین محبوب الہی ؒکے مزار پر جایا کرتا ہوں اور وہاں کے دیگر مزارات وغیرہ پر بھی ہمیشہ حاضر ہوا کرتا ہوں میں نے ابھی ایک شاہی قبرستان میں ایک قبر پر الملک اللہ کا کتبہ دیکھا، اس سے اس اسلامی جوش کا اظہار ہوتا ہے کہ دولت اور حکومت کے زمانہ میں مسلمانوں میں تھا۔ جس قوم اور جس مذہب کا یہ اصول ہو ٗ اس کے مستقبل سے نا امیدی نہیں ہو سکتی اور یہی وہ پین اسلام ازم ہے جس کاشائع کرنا ہمارا فرض ہے اور اس قسم کے خیالات کو میں اپنی نظموں میں ظاہر کرتا رہتا ہوں‘‘۔ (33)
یہاں یہ ذکر بے محل نہیں ہوگا کہ اقبال کے مندرجہ بالا بیانات میں بھی جمال الدین افغانی کی روح بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
اقبال کی نظموں خطاب بہ نوجوانان اسلام ،حضور رسالت مآبﷺ میں ٗ شفاخانۂ حجاز ٗ شکوہ ٗ جوابِ شکوہ ٗ تعلیم اور اس کے نتائج ٗ فاطمہ بنت عبداللہ ٗ تہذیبِ حاضر ٗ کفر و اسلام ٗ بلالؓ ٗ مسلمان اور جدید تعلیم ٗ صدیق ٗ مذہب ٗ جنگِ یرموک کا ایک واقعہ ٗ دریوزۂ خلافت ٗ خضرِراہ ،طلوعِ اسلام (مشمولہ بانگ ِدرا) مسجدِقَرطبہ، ہسپانیہ، طارق کی دعا، فرشتوں کی دعا، فلسفہ و مذہب(مشمولہ بال جبریل) لا الہ الا اللہ ٗ مسلمان کا زوال ٗ جہاد ٗ قوت اور دین ٗ اسلام، افرنگ زدہ ،اے ر وح محمدؐ ،مکہ اور جنیوا ٗ اقوامِ مشرق ٗ مغربی تہذیب ٗ آزادیء فکر ٗ عصر ِحاضر ٗ سیاسیاتِ افرنگ وغیرہ (مشمولہ ضرب ِکلیم) جمال الدین افغانی کے افکار کی ترویج و توسیع اور فروغ کا ہنگام سمجھی جا سکتی ہیں۔ درحقیقت اقبال نے اپنے کلام سے ان کی تحریک کو ایک ادبی تحریک بنا دیاہے۔ اقبال کا اپنا یہ کہنا ہے کہ ’’میرا مقصد کچھ شاعری نہیں بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں میں وہ احساسِ ملیہ پیدا ہو جو قرونِ اولی کے مسلمانوں کا خاصہ تھا۔ ‘‘(34)
ایک اور مقام پر اقبال نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’ہمارے ملی اتحاد کا انحصار اس بات پر ہے کہ مذہبی اصول پر ہماری گرفت مضبوط ہو۔ میں آزاد تعلیم کا قائل نہیں۔ تعلیم بھی دیگر امور کی طرح قومی ضروریات کے تابع ہوتی ہے۔ ‘‘(35)
اسلام نے عالمِ انسانیت میں ایک انقلابِ عظیم بپا کرکے انسان کو رنگ و نسل،نام و نسب اور ملک و قوم کے ظاہری اور مصنوعی امتیازات کے محدود دائروں سے نکال کر ایک وسیع تر ہیئت اجتماعیہ اسلامیہ کی شکل دی۔ افغانی کی طرح اقبال کے نزدیک یہ ہیئت اجتماعیہ اسلامیہ قائم کرنا ہی اسلام کا نصب العین ہے۔ اسلام نے اخوت اور بھائی چارے کا یہ وسیع نظام قائم کرنے کا کارنامہ انجام دے کر دکھا دیا تھا مگر بدقسمتی سے یہ وحدت قائم نہ رہ سکی اور مسلمان مختلف فرقوں ٗ گروہوں اور جماعتوں میں بٹتے چلے گئے۔ اقبال مسلمانوں کو پھر اسی اخوتِ اسلامی کی طرف لوٹنے کی تلقین کرتا ہے اور ایک ملت میں گم ہونے کا سبق سکھاتا ہے۔ وہ ایک ایسی عالمگیر ملت کے قیام کا طلب گار ہے جس کا خدا ٗ رسول ٗ کتاب، کعبہ، دین اور ایمان ایک ہو ؎
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ٗ دین بھی ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 320 )
اسی جذبے سے اقبال نے مسلمانوں کو اخوت کا پیغام دیا۔ اسلامی تعلیمات عالمگیریت سے مملو ہیں اور اسلام تمام نوعِ انسانی کو اخوت کی لڑی میں پرو کر ہیئت اجتماعیہ اسلامیہ کے قیام کی دعوت دیتا ہے تاکہ انسان کی ہوس کا علاج ہو سکے۔ لیکن اقبال کے نزدیک اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ممالک ایک لڑی میں پروئے جائیں۔ اقبال نے جمعیتِ اقوام پر اس طرح طنز کیا ہے ؎
مکہ نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم
(کلّیاتِ اقبال، ص۔571 )
بعد ازاں اقبال نے اپنے خطبات میں مسلمان قوموں کی ایک علیحدہ تنظیم کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے جو انسانوں کے درمیان اخوت کا جذبہ پیدا کرے۔ رموزِ بیخودی میں اقبال نے اس مضمون کی اہمیت کے پیش نظر علیحدہ عنوان قائم کرکے اپنے مفکرانہ نکات بیان کیے ہیں۔ اخوت اسودو احمر کی تقسیم مٹا دیتی ہے جس سے بلال حبشی ؓ ،حضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت ابو ذر غفاری ؓ کے ہمسر ٹھہرتے ہیں۔ یہی اخوت، ملت کے قیام کی بنیاد ہے۔ اسی سے خیر و شر اور نیکی، بدی کے معیار میں یکسانیت پیدا ہوتی ہے، ورنہ ہر شخص اپنے معیار خود طے کرے اور معاشرے کا شیرازہ بکھر جائے۔ یہ مساوات اور اخوت اقبال کے اشعار کے مطابق رسالتِ محمدیﷺ کی دین ہیں۔ حریت، مساوات اور اخوت کی تاسیس و تشکیل رسالتِ محمدی ﷺ کا مقصد تھا۔ اسلام نے انسان کو انسان کی عبادت سے روکا۔ لاقیصر و لا کسری کا اعلان اسلام نے کیا۔ کاہن ٗ پادری ٗ برہمن ٗ سلطان ٗ امیر سب مذہب کے ٗ سیاست کے اور معاشرت کے اجارہ دار تھے اور عام لوگوں کا استحصال کرتے تھے، ان کی توہم پرستی اور کمزوری سے مفادات حاصل کرتے تھے ٗ لیکن رسولوں نے آکر حق داروں کو ان کا حق دلانے کا کام شروع کیا۔ حضور اکرم ﷺ کے نزول سے سیرت کی فضیلت قائم ہوئی۔ انھوں نے محنت کرکے روزی کمانے والے کو خدا کا حبیب گردانا۔ ان تعلیمات سے صرف اسلامی معاشرہ ہی نہیں پوری انسانیت فیض یاب ہوئی ؎
تازہ جان اندر تنِ آدم رمید ۔۔ بندہ را باز از خدا ونداں خرید(کلّیاتِ اقبال فارسی، ص۔ 116 )
اخوت و مساوات نے فرد کو ایک ملت میں ضم کرکے اس سے پوری ملت کو قوت فراہم کی۔ اس نے فرد کے دل سے خوف اور یاس کو دور کیا اور ان کے اندر ایسی قوت اور اعتماد پیدا کیا کہ حوادث کے تیر ان پر بے اثر ہونے لگے۔ ملّت کا احساس دلوں کی یک رنگی اور ہم آہنگی سے پیدا ہوا۔ ایرانیوں کے خلاف جہاد کے دوران ایک معمولی سپاہی کی طرف سے انجانے میں ایرانی فوج کے سپہ سالار جابان کی جان بخشی کی اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓکی طرف سے توثیق اس امر کی مظہر تھی کہ سب مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ایک کا وعدہ سب کا وعدہ ہے۔ اگر امان کسی عام سپاہی نے بھی دی ہے تو وہ اسی ملت کا ایک حصہ ہے اور اس وعدے کی پاسداری سب بھائیوں کا فرض ہے۔ انھوں نے ملت کی یک آہنگی کو اتنے بڑے جابر اور ظالم قاتل کے قتل کے مقابلے میں زیادہ اہم قرار دیا۔ اسی طرح سلطان مراد کی ایک معمار کے ہاتھ کاٹنے پر عدالت میں پیشی اور قصاص کی سزا کے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کرنا بھی اخوت اور مساوات کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔
اخوت ٗ حریت اور مساوات ایک دوسرے سے باہم متصل اور پیوست تصورات ہیں۔ ایک کے بغیر دوسری اصطلاح ٗ کیفیت ٗ روایت یا اصول بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ اقبال نے حریت کو اسلامی معاشرے کی اہم ترین قدر کے طور پر پیش کیا ہے۔ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں حریت کی ایسی روشن مثالیں قائم ہوئیں کہ ہم آج بھی ان سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس دور میں عام سے عام آدمی مسجد میں ٗ عدالت میں اور برسرِ عام امیر المومنین سے اس کے کسی فعل پر باز پرس کر سکتا تھا اور کسی دنیاوی جاہ و جلال ٗ سلطنت سے مرعوب نہیں ہوتا تھا بشرطیکہ وہ دل اور ذہن سے خود کو حق پر سمجھتا ہو۔ دوسری طرف خلیفۂ وقت خوشدلی سے باز پرس کا جواب دیا کرتا تھا۔ مساوات اور حریت کی ایسی مثالیں اور نمونے دنیا کا کوئی اور معاشرہ اور ریاست آج تک پیش نہیں کر سکی۔ سیرت کی فضیلت کے اصول اور بنیادی اسلامی قدر پر کاری ضرب امیر معاویہ نے لگائی جب انہوں نے اپنے فرزند یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کیا جس کے کردار سے ملت کے افراد اور اکابرین مطمئن نہیں تھے اور اسے عاقل ٗ عادل اور متقی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسی واقعے نے امت ِمسلمہ کی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ اس سے نظامِ حریت کی شکست و ریخت کا آغاز ہوا اور خلافت ٗ سلطنت اور خلیفہ ٗ بادشاہ میں بدل گیا۔ ایسے میں حضرت حسین ؓ نے حریت کا علم بلند کیا اور مطلق العنان سلطانی جو آئندہ چل کر استبداد کا سرچشمہ اور پھر سے قیصریت کی طرح بننے والی تھی ٗ کے خلاف تلوار اٹھائی اور حریت عوام الناس کے حقِ خود ارادیت کے تحفظ اور روحانی جمہوریت کے قیام کے لیے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جانوں کی قربانی دی۔ اقبال نے حریت کے اس فلسفے کو اپنی مشہور علامت شاہین کی خصوصیات کے ذریعے بھی واضح کیا ہے کیونکہ شاہین ہمیشہ آزاد فضائوں میں محو پرواز ہوتا ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت عزیز احمد نے اس طرح سے کی ہے۔’’اس وسعتِ پرواز کے باعث ٗ حیات کی ایک اور بڑی قدر شاہین میں نمایاں ہوتی ہے۔ یہ آزادی ہے۔ شاہین کی وسعتِ پرواز یا اس کی نشوونما محض آزادی کے حالات میں ممکن ہے ورنہ غلامی میں شاہین تدرو سے بھی زیادہ بزدل بن جائے گا ؎
تنش از سایۂ بالِ تدروے لرزہ می گیرد
جو شاہیں زادۂ اندر قفس بادانہ می سازد
(کلّیاتِ اقبال، فارسی، ص۔299 )
غلامی شاہین کی آنکھوں کو اندھا کر دیتی ہے ؎
فیضِ فطرت نے تجھے دیدۂ شاہین بخشا
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہ خفّاش
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 596 )
چنانچہ’’ اقبال کا شاہینِ کا فوری ٗ میرو سلطان کا پالا ہوا باز ہر گز نہیں ہو سکتا جو اپنی رفعتِ پرواز چھوڑ کر پھر سے اپنے مالک کے پاس آب و دانہ کے لیے آ بیٹھتا ہے، جو محض میر اور سلطان کے اشارے پر طیور کا شکار کرتا ہے۔‘‘(36) اور اس کے جو رواستبداد میں شریک اور آلۂ کار بن جاتا ہے ؎
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 255 )
دنیائے اسلام اس وقت جمال الدین افغانی اور اقبال کے نزدیک و طنیت اور قومیت کے مغربی نظریات سے متاثر ہے۔ اس کی وجہ ان کی مغرب کے ہاتھوں صدیوں کی غلامی اور محکومی ہے۔
علم الکلام اور اقبال
اقبال کا شمار اردو اور فارسی کے عظیم شعراء میں ہوتا ہے۔ اقبال کی شاعری جہانِ ادب کا گراں بہا سرمایہ ہے۔ جہاں تک اقبال کے فکر و نظر کا تعلق ہے تو اسے فلسفی کے ساتھ ساتھ متکلم بھی کہا جاتا رہا ہے کیونکہ اس نے اپنے پیشرو متکلمین اشعری ٗ غزالی اور رازی کی طرح مذہبی علم کا تطابق اپنے عہد کے علمی انکشافات سے کرنے کی کوشش کی ہے۔
علمی دنیا میں فلسفے اور علم الکلام کو ایک دوسرے سے مختلف اور بعض صورتوں میں متضاد تصور کیا جاتا رہا ہے برٹرینڈرسل کی ’’آئوٹ لائن آف فلاسفی‘‘ میں ولیم جیمز کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ فلسفہ واضح طور پر غور و فکر کرنے کی مستقل کوشش کا نام ہے۔ تفکر کی صلاحیت ہی انسان کو حیوانات سے ممتاز کرتی ہے۔ انسان غورو فکر کی بدولت اپنے مشاہدات و تجربات میں نہ صرف ربط و تعلق پیدا کرتا ہے بلکہ انھیں ایک معنی خیز ہیئت بھی بخشتا ہے جسے ہم فلسفۂ حیات کہتے ہیں جدلیاتی مادیت پسندوں کا عقیدہ یہ ہے کہ فلسفیوں کا کام محض حقائق کی ترجمانی کرنا نہیں ہے بلکہ معاشرۂ انسانی میں انقلاب برپا کرنا بھی ہے۔فلسفہ ایک مستقل ٗ آزاد اور مسلسل ذہنی کاوش کا نام ہے جسے کسی مخصوص عقیدے کی حدود میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ جب عقلی استدلال اور فلسفیانہ تدبر کو چند مخصوص مذہبی عقائد کی تصدیق و توثیق کے لیے وقف کر دیا جائے تو وہ فلسفہ نہیں رہتا ٗ علم الکلام کہلاتا ہے۔ شہرستانی نے ’’ملل و نحل‘‘ میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ کلام اور منطق مترادف الفاظ ہیں۔ کلام فلسفے کے مقابلے میں ایجاد ہوا تھا اس لیے اسے فلسفے کی ایک شاخ منطق کا نام بھی دیا گیا۔ شبلی نعمانی کے خیال میں علم الکلام فقہ اکبر کو بھی کہتے ہیں۔ کلیسائے روم نے ایک زمانے میں فلسفے کو مذہب کی کنیز قرار دیا لیکن جدید دور کے فلسفی ایسے فلسفے کو علم الکلام کہنے پر مصر ہیں ۔علم الکلام از منۂ وسطی کے ایک عیسائی متکلم السلم کے خیال میں پہلے عقیدہ رکھنے اور اس کے بعد اس پر غورو فکر کرنے کو کہتے ہیں۔ غور و فکر کے بعد عقیدہ اختیار کرنے کو نہیں (37) ۔ اس تعریف کی روشنی میں اقبال کے یہ الفاظ قابل غور ہیں:’’میں نے اسلام کی روایاتِ فکر علیٰ ہذا ان ترقیات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو علم انسانی کے مختلف شعبوں میں حال ہی میں رونما ہوئیں ٗ الہٰیات اسلامیہ کی تشکیلِ جدید سے ایک حد تک پورا کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔۔۔۔ قدیم طبیعیات نے خود ہی اپنی بنیادوں پر تنقید کرنا شروع کر دی ہے لہٰذا جس قسم کی مادیت ابتداء ً اس کے لیے ناگزیر تھی ٗ بڑی تیزی سے ناپید ہو رہی ہے اور وہ دن دور نہیں کہ مذہب اور سائنس میں ایسی ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہو جو سرِدست ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔‘‘ (38)
بزبانِ خود اپنے خطبات میں اقبال نے جدید علمی رجحانات و انکشافات کی روشنی میں الہٰیات اسلامیہ کو از سرِ نو مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس اعتبار سے وہ غزالی اور رازی کی طرح ایک متکلم کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے اور ایک اور مقام پر وہ کہتا ہے کہ اس نے ’’مذہبی علوم کو سائنٹفک صورت دینے‘‘(39) کا مطالبہ پورا کیا ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین انور لکھتے ہیں کہ ’’اسلام میں مذہب اور فلسفے کو ہم آہنگ کرنے کی سب سے مربوط کوشش بیسویں صدی میں غالباً صرف اقبال نے کی ہے۔ ان کے کام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کی مذہبی فکر یعنی الہٰیات کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی سعی کی اور ویسا ہی کارنامہ سر انجام دیا جیسا صدیوں پہلے ہمارے عظیم متکلمین مثلاً نظام اور اشعری نے یونانی سائنس اور فلسفے کے مقابلے میں انجام دینے کی کوشش کی تھی۔‘‘(40) اس اقتباس کے مطابق عشرت حسین انور ہمارے بہت سے دانشور متکلمین کا اولین فرض افکارِ جدیدہ کا مشرف بہ اسلام کرنا قرار دیتے رہے ہیں۔ اقبال کا مقصد بھی یہی تھا۔ خوا جہ غلام السیدین کو ایک خط میں اقبال نے لکھا تھا ’’علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دارو مدار حواس پر ہے۔ عام طور پر میں نے علم کا لفظ انھی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے جس کو دین کے ماتحت رکھنا چاہیے۔ اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے۔ یہ علم ٗ علمِ حق کی ابتداء ہے جیسا کہ میں نے جاوید نامے میں لکھا ؎
علمِ حق اول حواس آخر حضور
آخرِ او می نگنجد در شعور
(کلّیاتِ اقبال،فارسی، ص۔670 )
علم از تحقیقِ لذّت می برد
عشق از تخلیقِ لذت می برد
(کلّیاتِ اقبال فارسی، ص۔ 543 )
وہ علم جو شعور میں نہیں سما سکتا اور علم حق کی آخری منزل ہے، اس کا نام عشق ہے۔‘‘(41) علم و عشق کے تعلق سے جاوید نامے میں کئی اشعار ہیں ؎
علمِ بے عشق است از طاغوتیاں
علمِ با عشق است از لاہوتیاں
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 548 )
’’مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ علم یعنی اس علم کو جس کا مدار حواس پر ہے اور جس سے بے پناہ قوت پیدا ہوتی ہے ٗ مسلمان کریں‘‘۔ (42)
1912ء میں شبلی نعمانی نے ایک مجلسِ علم الکلام کی بنیاد ڈالی تھی جس کی رکنیت اقبال نے منظور کر لی تھی۔ (43)
اقبال کا کمال یہ ہے کہ وہ دقیق نظریات اور مختلف الجہات تحریکوں سے منسلک افکار کو شاعری میں بڑی کامیابی سے اپنے زاویے سے برتتے چلے جاتے ہیں ٗ چنانچہ اقبال اشعار میں بھی فلسفے کی مخالفت کرتے دکھائے دیتے ہیں ؎
انجامِ خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہ، زندگی سے دوری
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 530 )
بلند بال تھا لیکن نہ تھا جسور و غیور
حکیم سّرِ محبت سے بے نصیب رہا
(کلّیاتِ اقبال، ص۔494 )
خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 547)
فلسفے اور علم الکلام کے بارے میں انتشارِ فکر کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں فلسفہ اور کلام کو مترادف خیال کیا جاتا رہا ہے۔ اسی انتشارِ فکر کے باعث اقبال کو متکلم کی بجائے فلسفی کہا جاتا رہا ہے۔ دوسری طرف اقبال نے خود بھی اپنے بارے میں اس بحث کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ وہ ایک طرف علم ِکلام کی تعمیر کیے جاتا ہے اور دوسری طرف علمِ کلام کی مخالفت بھی کرتا ہے۔ ایک خط میں اقبال نے لکھا کہ ’’آج ضرورت ہے کہ دماغی اور ذہنی کاوش کی ایک نئی وادی کی طرف مہمیز کیا جائے اور ایک نئی دینیات اور علمِ کلام کی تعمیر و تشکیل میں اسے برسرِ کار لایا جائے۔‘‘(44) ۔ اب علمِ کلام کی ضرر رسانی اور بے ثمری کا ذکر اقبال ہی کی زبانی سنیئے ؎
طبع ِمشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کمتر نہیں علمِ کلام
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 703 )
ابلیس اپنے مشیروں سے یوں ہم کلام ہے ؎
ہے یہی بہتر الہٰیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
(کلّیاتِ اقبال، ص۔711 )
علاجِ ضعفِ یقین ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 370)
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الہٰیات کے ترشے ہوئے لات و منات
(کلّیاتِ اقبال، ص۔711 )
انھی خیالات کی وجہ سے اقبال کے شارحین انہیں متکلم کی بجائے فلسفی کہتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اقبال نے غزالی کی طرح فلسفہ پڑھا تھا اور اسے غزالی کی طرح اس نے اپنے موروثی دینی عقائد اور اسلامی تعلیمات کی توثیق کے لیے استعمال کیا اور جدید فلسفے کو مسلمان بنانے کی سعی کی اس لیے انھیں متکلم کہنا بھی درست ہے۔
اقبال ٗ تحریکوں کا امتزاج
انیسویں صدی کے وسط ہی سے انگریزی ادب نے برصغیر کے علم و ادب پر اپنے اثرات ثبت کرنے شروع کر دیئے تھے۔ اس وقت انگلستان کے ادب میں نمایاں رجحان رومانوی تحریک تھا۔ رومانیت میں عقل کی نسبت جذبے پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ کلاسیکی اقدار اور رویوں کو توڑ کر نئی قدریں بنانے کی کوشش اور جدیدمغربی صنعتی معاشرے کو رد کرنے کے رجحان کو رومانیت کے اہم اصولوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
فکری سطح پر رومانیت کے بڑے علمبردار کے طور پر ہم روسو کا نام لے سکتے ہیں جس نے سب سے پہلے مغربی معاشرے کے اصولوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ روسو نے کہا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن ہر جگہ زنجیر میں جکڑا ہوا ہے ۔ انسان کو دوبارہ اس کا مقام دلانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے معاشرے کے بندھنوں سے آزاد کر دیا جائے۔ شاعروں میں بائرنٗ شیلے ٗ کیٹس نے نمایاں طور پر رومانوی تحریک کے رجحان کو پھیلانے میں حصہ لیا۔
سرسید نے ہندوستان کے مسلم طبقے میں سب سے پہلے حقیقت پسندی ،عقلیت اور مقصدیت کی بات کی یوں اردو ادب میں ایک واضح مقصد کو سامنے رکھ کر ادب تخلیق کرنے کی تحریک کا آغاز ہوا۔ کچھ عرصے بعد عقلیت پسندی اور مقصدیت کے خلاف آوازیں بھی اٹھنی شروع ہوئیں اور ادب میں جمالیاتی اور رومانی رجحانات تیزی سے ابھرنے لگے۔ ہمارے ہاں رومانی رجحان کے جڑ پکڑنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں مشرقی ذہن اور مزاج کے لیے بہت دلکشی اور دلچسپی موجود تھی۔
اردو ادب میں ’’مخزن‘‘ کی اشاعت نئے رجحانات کی افزائش کے لیے بہت کار آمد ثابت ہوئی ۔ ابتداء میں غلام بھیک نیرنگ ٗ خوشی محمد ناظر ٗ ظفر علی خان اور علامہ اقبال کے نام نمایاں ہیں ٗ جنھوں نے نئے رجحانات کو ادب میں فروغ دینے میں حصہ لیا۔
اقبال نے جب اپنی شاعری کا آغاز کیا تو وہ ایک فطرت پسند شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ اقبال نے مناظرِ فطرت سے متاثر ہو کر نظمیں لکھیں۔ علامہ کی ان نظموں میں تخیل کی پرواز اور آرزو پرستی نمایاں نظر آتی ہیں۔ انھوںنے اپنے خیالات کے لیے خوبصورت الفاظ اور تشبیہیں استعمال کی ہیں مثلاً ان کی نظمیںہمالہ ٗ گلِ رنگین ٗ ابرِ کوہسار ٗ عقل و دل ٗ صبح کا ستارہ ٗ حقیقتِ حسن ٗ کو ہم اس ذیل میں رکھ سکتے ہیں جہاں اقبال پر رومانوی تصورات کی چھاپ خاصی گہری ہے۔ ان نظموں سے چند بند درج کیے جاتے ہیں ؎
ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے
تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کہسار نے
اے ہمالہ! کوئی بازی گاہ ہے تو بھی جسے
دستِ قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے
ہائے کیا فرطِ طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر
فیلِ بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر
(کلّیاتِ اقبال، ص۔52 )
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
ابرِ کہسار ہوں گل پاش ہے دامن میرا
کبھی صحرا کبھی گلزار ہے مسکن میرا
شہر و ویرانہ مرا ٗ بحر مرا ٗ بن میرا
کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو
سبزۂ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو
(کلّیاتِ اقبال، ص۔ 57)
اقبال کی ابتدائی شاعری میں رومانوی رجحانات نمایاں نظر آتے ہیں۔ لیکن جوں جوں اقبال شعری سفر میں آگے بڑھتا ہے یہ رجحانات کم ہوتے جاتے ہیں اور اس کی جگہ حقیقت پسندی اور مقصدیت لینے لگتی ہے ٗ لیکن عقل کے مقابلے میں جذبے یا عشق کو زیادہ اہم جاننے کا رجحان ہمیں ان کے ہاں آخر تک نظر آتا ہے۔
’’اقبال اس اعتبار سے کلاسیکی ہیں کہ انھوں نے اس زبان میں لکھا جو ان کی تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے۔ اقبال نے لسانی قواعد ٗ اصناف کی ہیئیتوں، صنائع بدائع اور بحور و اوزان میںاتنے تجربات اور اجتہاد سے کام نہیں لیا لیکن وہ اس اعتبار سے جدید ہیں کہ ا نھوں نے مرکّب اسلامی تہذیب و تمدن میں سے جس کا لباس ’’ترک و تار ٗ خونسار ٗ اور اصفہان نے تیار کیا ہے ‘‘اور ’’نشانِ جلالت ٗ رعب اور دبدبہ جس کی خصوصیتیں ہیں‘‘ اور جس کا ذخیرہ ٔالفاظ ’’عرب سے اور پھر سمر قند و بخارا سے ماخوذ ہے۔ ‘‘(45) اقبال نے اس زبان میں شاعری کرتے ہوئے بحور و اوزان ٗ صنائع بدایع ٗ رمزو کنایہ ٗ تشبیہ و استعارہ ٗ تمثال نگاری ٗ پیکر تراشی ٗ علامتوں ٗ تراکیب اور لفظیات کا ایک اپنا منفرد ٗ پرشکوہ ،معنی آفریں اور اثر پذیر نظام ترتیب دیا ہے جو ان کے بلند آہنگ موضوعات ٗ لہجے کے طنطنے اور فلسفیانہ طرزِ اظہار سے مطابقت رکھتا ہے اور ان کے خیالات و افکار کی ترسیل میں حد درجہ کامیاب ہے۔
اشتراکیت ایک معاشی و سماجی نظریہ ہے جو معاشی مساوات اور انسانوں کے تمام طبقوں کے لیے مساوی حقوق کی بات کرتا ہے۔ ابتداء میں یہ صرف ایک معاشی نظریہ تھا لیکن کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے اس میں تاریخ اور حیات و کائنات کے بارے میں نظریات شامل کرکے ٗ اشتراکیت کو نظریاتی طور پر وسیع بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ ان لوگوں کی تعلیمات کے اثر سے اشتراکیت نے ایک ایسے عقیدے کی صورت اختیار کر لی جو دنیا کے قدیم مذاہب کے مقابل آ گیا اور جس نے انسان اور کائنات کو خالصتاً مساوی بنیادوں پر سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی۔
جب مغرب میں اشتراکیت کو فروغ ملا اس وقت یورپ میں جدید علمی اور سائنسی دریافتوں کی بدولت مذہبی تعلیمات کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی تھی۔ اور لوگوں کی زندگی پر مادی اقدار کا رنگ گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ یہ فضا اشتراکیت کی نشوونما و ترویج کے لیے مثالی ثابت ہوئی اور بہت جلد اس فلسفۂ حیات کو مقبولیت حاصل ہونا شروع ہو گئی۔ علماء اور ادباء کی ایک بڑی تعداد نے اس مسلک میں انسانیت کی فلاح دیکھی اور اپنی منزل جان کر اس کے حصول کے لیے سرگرم ہو گئے۔
اقبال جن دنوں یورپ میں مقیم تھا تب اشتراکی سارے یورپ کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھے اور اقتدار پر قابض طبقے کے ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہے تھے۔ انھیں پہلی کامیابی پہلی جنگ عظیم کے بعد روس میں ہوئی۔ جنگ کے نتیجے میں روس کا اندرونی سیاسی اور معاشی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ ایسے میں لینن کی قیادت میں اشتراکیوں نے روس میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہاں پہلی بار اس نظریے کی علمی افادیت کو جانچنے کی کوشش کی گئی۔ ساری دنیا میں تفکر کرنے والے لوگ اس تجربے کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے میں مصروف تھے۔ اقبال نے بھی اشتراکیت کے مطالعے اور روس میں اس کے علمی تجربے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کئی جگہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں خلیفہ عبدالحکیم کا یہ بیان اہمیت کا حامل ہے:
’’اقبال نے جب مذہب و تہذیب کے تمام مسائل کو اپنا موضوع ِسخن بنایا تو یہ لازم تھا کہ اشتراکیت کے نظری اور عملی پہلوئوں پر غور کرکے اپنے نتائجِ فکری سے ملّت کو آگاہ کرے۔ سب سے پہلے اقبال نے پیامِ مشرق میں اس کے متعلق رائے زنی شروع کی۔۔۔۔۔۔۔ اقبال طبعاً انقلاب پسند تھا اس لیے یہ ضروری تھا کہ اس انقلابِ عظیم کو اچھی طرح پرکھے اور اس کے تعمیری اور تخریبی پہلو اور اس کی ایجابی و سلبی حیثیتوں کا موازنہ اور مقابلہ کرے۔ ‘‘(46)
اس سلسلے میں آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’جس قسم کا انقلاب روس میں ہوا ٗ اس سے ملتا جلتا انقلاب اقبال ملّت ِاسلامیہ میں بھی دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس کا محرِک اسلام ہونا چاہیے نہ کہ الحاد تاکہ لا کے بعد آسانی سے اِلاّکی طرف قدم اٹھ سکے۔ بلکہ توحید ہی اس تمام انقلاب کی محرِک ہو۔ اشتراکیت ابھی تک خوف اور جبر سے فلاحی حاصل نہیں کر سکی۔ خالص روحانیت جو خلوص اور محبت ِانسانی پیدا کرتی ہے ٗ وہ اس انقلابی معاشرت میں ابھی نظر نہیں آتی۔ اکابر ہوں یا عوام ،ایک دوسرے سے خائف رہتے ہیں۔ افکار کی آزادی ناپید ہے۔ ایک نئے جبر و ظلم نے قدیم جبروں کی جگہ لے لی ہے۔ اشتراکیت کے بڑے بڑے امام چشمِ زدن میں غدار بن جاتے ہیں یا غدار شمار ہوتے ہیں۔ قبلِ انقلاب کی تہذیب اگر یک طرفہ تھی تو یہ نئی انقلابی تہذیب بھی ایک طرف سے ترقی اور دوسری طرف سے تنزل کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ اقبال نے مغربی تہذیب کی کہیں کم ہی تعریف کی ہے اگرچہ اس میں بھی خیر و شر دونوں طرح کے پہلو موجود ہیں لیکن اشتراکیت کے ذکر میں تعریف کا پہلو مذمت پر کسی قدر بھاری ہی معلوم ہوتا ہے ٗ جو معاشرت و معیشت کے متعلق اقبال کے اپنے عقائد کی غمازی کرتا ہے۔ عام مغربی تہذیب کے ساتھ اس کو اسلام کا اتصال مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن زاویہ ء نگاہ کی ذرا سی تبدیلی سے اشتراکیت اسلام بن سکتی ہے یا اسلام اشتراکی ہو سکتا ہے۔‘‘ (47)
اقبال نے اشتراکیت پر جو تنقید اس کے روحانیت سے پہلو تہی کے حوالے سے کی تھی اور لینن کو خدا کے حضور لاکھڑا کیا تھا آگے چل کر ثابت ہوا کہ کوئی نظام بھی روحانی اقدار کی نفی کرکے زیادہ دیر نہیں چل سکتا اور روس میں مذہب کو نہ صرف سرکاری طور پر قبول کیا گیاہے اور اسے گلاسنو سٹ قرار دیا گیا ہے بلکہ اب تو یہ نظریہ دم توڑ چکا ہے اور روس کی بہت سی ریاستیں یکے بعد دیگرے آزاد ہو چکی ہیں۔ اس سے اقبال کی فکری گہرائی اور دور اندیشی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ اقبال کو اشتراکیت سے دلچسپی تھی اور یہ دلچسپی مساوات ٗ برابری اور مظلوم طبقوں سے ہمدردی جیسے تصورات کی بدولت تھی ٗ خود اسلام میں بھی یہ سب تصورات ابتداء سے موجود ہیں اور اس اضافے کے ساتھ کہ وہاں مرکزی نقطہ اللہ کی ذات ہے جس سے روحانی اقدار ٗ مادی تعداد کے ساتھ ڈھل کر بہتر متوازن طور متشکل ہوتی ہیں ٗ خلیفہ صاحب کا اشارہ اسی جانب ہے۔
اقبال نے اشتراکیت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا اور اس نظام نے مغرب کے استحصالی نظم پر جو ضرب لگائی اس کا وہ قائل بھی تھا لیکن اسے اقبال نے اپنے نصب العین کے طور پر کبھی قبول نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس اسلامی تعلیمات پر عمل میں راہ ِنجات دیکھی۔
جدید علوم اور اشتراکیت کے فلسفے سے متاثر ہو کر ادباء کے ایک گروہ نے ترقی پسند فکر کی بنیاد رکھی۔ اس نظریے کے پیش نظر قدیم اور فرسودہ نظریات اور اقدار کا ابطال اور جدید علوم کی ترویج اور وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کی لگن تھی۔ ہمارے ہاں اس تحریک نے کچھ عرصے بعد اشتراکیت کے آلۂ کار کی صورت اختیار کر لی اور ترقی پسندی اور اشتراکیت تقریباًہم معنی الفاظ ہوگئے۔ اقبال کے ہاں ترقی پسندی اس حوالے سے تو موجود ہے کہ وہ آئینِ نو کی طرف آنے اور طرز ِکہن کو چھوڑنے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ سب کچھ بغیر کسی اصول یا معیار کے نہیں بلکہ اقبال اس بات کے قائل ہیں کہ سب کچھ معیار کی کسوٹی پر پرکھ کر قبول یا رد کرنا چاہیے۔ یوں ان کی ترقی پسندی انتہا کی طرف مائل نہیں بلکہ اس میں اعتدال اور میانہ روی موجود ہے۔ اس طرح وہ اپنے بعد آنے والے ترقی پسندوں سے یکسو ہوجاتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ترقی پسندی اپنی بہترین صورت میں اقبال کے ہاں موجود ہے اور ان کے بعد آنے والے لوگوں نے اقبال سے بہت اثرات قبول کیے ہیں۔
جہاں تک حقیقت نگاری کا تعلق ہے اقبال کے کلام کا بیشتر حصہ اس ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ حقیقت نگاری سے ادب میں مراد وہ تحریک ہے جو براہِ راست اظہار، اشیاء کے ہو بہو بیان اور رومانیت کے متضاد خصوصیت کی حامل ہے۔ اس حوالے سے اقبال ہمیں بہت بڑے حقیقت نگار نظر آتے ہیں کہ ان کے ہاں اشیاء کو دیکھنے اور پرکھنے پر ان کے براہ ِراست اظہار کا رجحان بہت نمایاں ہے۔ حقیقت نگاری کے میدان میں بہت کم لوگ ہمیں اردو میں اقبال کے پائے کے نظر آتے ہیں اگرچہ اردو میں اس تحریک کا آغاز سرسید اور حالی کے ساتھ ہو چکا تھا لیکن اقبال سے پیشتر حقیقت نگاری میں جمالیاتی اصولوں کو عموماً نظر انداز کیا جاتا تھا جس سے ادب پارہ پروپیگنڈہ کی سطح پر اتر آتا تھا اور اپنا ادبی معیار کھو دیتا تھا۔ اس کے برعکس اقبال نے جمالیاتی اقدار کو خوبصورتی سے حقیقت نگاری سے اس طرح ملا کر بہترین فن پارے تخلیق کیے کہ اقبال کے بعد بھی چند ایک کے سوا کوئی ان کی ہمسری کا مقام حاصل نہیں کر سکا۔
اگر ہم حتمی طور پر بات کرنا چاہیں تو یہ مشکل ہے کہ اقبال پر کوئی ایک لیبل لگا دیں کہ وہ رومانی تھا، اشتراکی تھا، فطرت پسند تھا، وجودی تھا، علامت نگار تھا، حقیقت نگار تھا یا ترقی پسند ۔ اصل میں اقبال مجموعی طور پر ایک جدید اور عظیم شاعر تھا۔ اس کے ہاں ان سب رجحانات کے بہترین عناصر نے ایک دوسرے سے مل کر ایک نیا روپ اور آہنگ حاصل کر لیا تھا۔ ان رجحانات کے ساتھ ساتھ اقبال کی مذہب پسندی نے اسلامی تعلیمات کی آمیزش سے ایک نئے رجحان کو چیزِدیگر بنا دیا تھا اور اگر ہم اسے کوئی نام دے سکتے ہیں تو وہ اقبالیات ہے، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کے بعد بعض حلقوں کی طرف سے اگرچہ اقبال کے مرتبے اور مقام کو کم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن مسلم دنیا میں بالخصوص اور ساری دنیا میں بالعموم اقبال کی شہرت اور عزت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ آج دنیا کے کئی ممالک میں ’’اقبالیات‘‘ ایک باقاعدہ شعبے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جہاں پر ہمہ وقت ماہرین اس مخصوص طرزِ اظہار کے خدّو خال نکھارنے میں مصروف ہیں۔
حواشی و حوالہ جات
1۔ تفصیلات کے لیے دیکھیے : اقبال بنام شاد، مرتبہ : محمد عبداللہ قریشی، بزمِ اقبال،
لاہور، 1986 ئ۔
2۔ خالد نظیر صوفی : اقبال درونِ خانہ ٗ بزمِ اقبال ٗ لاہور ٗ 1983 ء ‘ ص۔107 ۔
3۔ ( علامہ) محمد اقبال : شذراتِ فکرِ اقبال ٗ مرتّبہ: ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال،
مترجمہ: ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی؛ مجلس ترقیٔ ادب ٗ لاہور ٗ 1983 ئ، ص۔ 105 ۔
4۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے : (علامہ) محمد اقبال : مطالعۂ بیدل برگساں کی روشنی میں،
مرتّبہ و مترجمہ: ڈاکٹر تحسین فراقی ٗ یونیورسل بکس، لاہور، 1988 ء (اس مقالے کا اولین ترجمہ ڈاکٹر محمد ریاض نے کیا تھا۔ یہ ترجمہ سہ ماہی ٗ ادبیات ٗ اسلام آباد کے شمارہ نمبر ۴ جلد ۔ بابت اپریل ۔ 1988ء میں شائع ہو چکا ہے ۔ یہ ترجمہ ان کی مرتّبہ کتاب افکارِ اقبال میں بھی شامل ہے)۔
5۔ (علامہ) محمد اقبال : گفتار ِاقبال؛ مرتبہ محمد رفیق افضل ٗ ادارہ تحقیقاتِ پاکستان ٗ لاہور،
1986ء ،ص ۔207۔
6۔ (شیخ) عبدالقادر : دیباچہ ٗ بانگِ درا ٗ مشمولہ کلیاتِ اقبال، ص۔ 9
7۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے : ڈاکٹر سید عبداللہ : مقاماتِ اقبال ٗ لاہور اکیڈمی ،لاہور،
1964ئ، ص۔ 163 تا186 ۔
8۔ (سید) عابد علی عابد : شعرِ اقبال ؛اقبال کے شعورِ تخلیق کا جائزہ، بزمِ اقبال، لاہور،
1977ء ،ص۔ 91 ۔
9۔ ( شیخ) عبدالقادر : دیباچہ بانگ درا مذکور ٗ ص۔ 15۔
10۔ محمد حنیف شاہد : اقبال اور انجمن حمایت ِاسلام ٗ کتب خانہ انجمن حمایتِ اسلام ٗ لاہور ٗ
1976ئ، ص۔ 30 ۔31 ۔ بحوالہ حمایت اسلام (انجمن ایڈیشن) 10 اپریل 1970 ء ۔
11۔ تفصیلات کیلیے دیکھیے : انور سدید : اقبال کے کلاسیکی نقوش ٗ اقبال اکادمی پاکستان ٗ
لاہور ٗ 1988 ء ،ص۔ 74 تا 110 ۔
12۔ (ڈاکٹر جسٹس) جاوید اقبال :دیباچہ شذراتِ فکرِ اقبال مذکور ٗ ص۔ 47۔
13۔ (پروفیسر ڈاکٹر ) افتخار احمد صدیقی: عروجِ اقبال ٗ بزمِ اقبال ،لاہور، 1987 ء ،
ص۔129 ۔
14۔ (مولانا) الطاف حسین حالی :حیاتِ جاوید ٗ اکادمی ایڈیشن ٗ لاہور، 1957 ئ،
ص۔ 567 بحوالہ پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کتاب مذکور ٗ ص۔ 129 ۔
15۔ محمد حنیف شاہد: کتاب مذکور ٗ ص۔ 25 ۔
16۔ منسوخ نظموں کے متون اور ان کے تقابلی مطالعے کے لیے دیکھیے (1) محمد حنیف شاہد :
کتاب مذکور ٗ ص۔ 147 ٗ (2) علامہ محمد اقبال: باقیاتِ اقبال،مرتبہ سید عبدالواحد معینی،
ترمیم و اضافہ محمد عبداللہ قریشی، آئینہ ادب، لاہور ٗ 1975 ء ،ص ۔43 تا51 ٗص۔52 تا 71 ،ص ۔ 97 تا 102 ٗ ص۔ 113 تا 130 ٗ ص۔ 139 تا 162
ص۔ 290 تا 330 ۔ (3 ) علامہ محمد اقبال : ابتدائی کلامِ اقبال مرتبہ ڈاکٹر گیان چند ، شائستہ پبلشنگ ہائوس، کراچی،1988 ئ، ص ۔61 تا 69 ، ص۔ 95 تا 104 ٗ
ص۔ 148 تا 140 ٗ ص۔191 تا 200 ٗ ص۔ 239 تا 246 ۔
17۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : محمد حنیف شاہد :کتاب مذکور۔
18۔ (پروفیسر ڈاکٹر) افتخار احمد صدیقی : کتاب مذکور، ص۔114 ۔
19۔ محمد حنیف شاہد :کتاب مذکورٗ ص۔ 22 ۔
20۔ (ڈاکٹر) عنوان چشتی : اردو شاعری میں جدیدیت کی روایت ٗ تخلیق مرکز ٗ لاہور،
س ۔ن، ص۔151 ٗ 152 ۔
21۔ (ڈاکٹر) گوہر نوشاہی:لاہور میں اردو شاعری کی روایت ٗ مکتبۂ عالیہ ٗ لاہور ٗ 1991 ء ٗ
ص۔64 ۔
22۔ محمد عبداللہ قریشی :حیاتِ اقبال کی گم شدہ کڑیاں ٗ بزمِ اقبال ،لاہور ٗ 1982 ء ٗ
ص ۔57 ۔
23۔ محمد حنیف شاہد: کتاب مذکور ٗ ص۔ 81 ۔ا س شعر کے دوسرے مصرعے کی تصحیح فقیر سید وحید الدین کی
کتاب روزگار ِفقیر جلد دوم میں کی گئی ہے۔
24۔ (علامہ) محمد اقبال : باقیات ِاقبال مرتبہ سید عبدالواحد معینی مذکور ،ص ۔295 ۔
25۔ (پروفیسر ڈاکٹر) افتخار احمد صدیقی ٗ کتاب مذکور ٗ ص۔ 178 ۔
26۔ (سید )عابد علی عابد : کتاب مذکور ٗ ص۔ 201 ۔
27۔ شیخ عبدالقادر ٗ دیباچہ بانگ ِدرا مذکور ٗ ص ۔ 15 ۔
28۔ اردو دائرہ ء معارفِ اسلامیہ، جلد نمبر 1 ٗ دانشگاہِ پنجاب ٗ لاہور ٗ 1973 ء ٗ ص۔372 ۔
29۔ ایضاً :ص۔374 ۔ 375 ۔
30۔ ایضاً :ص۔380
31۔ (علامہ) محمد اقبال : اقبال نامہ ٗ حصہ دوم مرتبہّ شیخ عطاء اللہ ،شیخ محمد اشرف ٗ لاہور ٗ
س۔ن ٗ ص ۔231 ۔232۔
32۔ (علامہ) محمد اقبال : گفتارِ اقبال ٗ مرتبہ محمد رفیق افضل مذکور ٗ ص۔ 177 ۔178
33۔ (علامہ) محمد اقبال : مقالاتِ اقبال ٗ مرتبہ سید عبدالواحد معینی ٗ آئینۂ ادب ٗ لاہور ٗ
1988ئ، ص ۔132 ۔
34۔ (علامہ) محمد اقبال : مکاتیب ِاقبال بنام گرامی ٗ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی : اقبال اکادمی ٗ
لاہور ،1981 ء ، ص۔ 132
35۔ ( علامہ) محمد اقبال : شذراتِ فکرِ اقبال ٗ مترجمہ (ڈاکٹر) افتخار احمد صدیقی مذکور ٗ
ص ۔58
36۔ عزیز احمد : اقبال ٗ نئی تشکیل ٗ گلوب پبلشرز ٗ لاہور، 1968 ء ٗ ص ۔362 ٗ 363 ۔
37۔ ( سید) علی عباس جلالپوری : اقبال کا علمِ کلام، مکتبہ فنون ،لاہور ٗ 1972 ء ٗ
ص۔14 ۔15 ۔
38۔ علامہ محمد اقبال : دیباچہ ٗ تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ ٗ مترجمہ سید نذیر نیازی ،
بزمِ اقبال ٗ لاہور ٗ 1986 ء ،ص ۔15 ۔
39۔ ایضاً :ص۔20 ۔
40۔ (ڈاکٹر) عشرت حسین انور: اقبال کی مابعد الطبیعات ٗ مترجمہ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی،
اقبال کادمی پاکستان ٗ لاہور ٗ 1980 ء ص ۔ 15 ۔
41۔ ایضاً :ص۔24 ۔
42۔ اردو متن کے لئے دیکھیں اقبال کے تعلیمی نظریات از ڈاکٹر محمد ریاض ٗ گلوب پبلشرز ٗ
لاہور ٗ س۔ن، ص ۔ 88 ٗ 89 ۔
43۔ (سید) علی عباس جلالپوری :کتاب مذکور ٗ ص۔18 ۔
44۔ (علامہ) محمد اقبال :خط بنام صاحبزاد آفتاب احمد خان ٗ بحوالہ سید علی عباس جلال پوری ،
کتاب مذکور ۔ ص ۔20 ۔
45۔ ( علامہ) محمد اقبال : اقبال نامہ حصہ اول مرتبہ شیخ عطاء اللہ مذکور ٗ ص ۔65 ۔
46۔ (ڈاکٹر) خلیفہ عبدالحکیم: فکر اقبال ٗ بزمِ اقبال ٗ لاہور ٗ 1988 ء ،ص ۔ 247 ۔
47۔ ایضاً: ص۔261 ۔262۔