گوپی چند نارنگ مصنف یا مترجم؟
عمران شاہد بھنڈر کا گوپی چند نارنگ کی کتاب ’’ ساختیات، پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ کے اصل مآخذات کے انکشاف کے حوالے سے یہاں دوسرا (جوابی)مضمون دیا جا رہا ہے۔ پہلا مضمون ’جدید ادب‘ شمارہ نمبر ۹میں شائع ہوچکا ہے۔ جدید ادب کے گزشتہ شمارہ میں عمران شاہد بھنڈر کا مضمون شائع کرتے ہوئے میں نے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ اس مضمون کا جواب گوپی چند نارنگ صاحب کو خود دینا چاہئے۔کیونکہ عمران شاہد بھنڈر کے ساتھ طے ہوا تھا کہ دوسرے شاعروں،ادیبوں اور قارئین کا ردِ عمل تو شائع کیا جائے گا لیکن مضمون کا اصل جواب صرف ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی طرف سے آنے پر ہی شائع کیا جائے گا۔ نارنگ صاحب نے تا حال جواب دینے کی زحمت نہیں فرمائی۔عام معترضین کے جواب میں خاموشی شانِ استغناء ہو سکتی ہے لیکن علمی سطح پر سرقہ کا مدلل الزام سر پر پڑا ہو تو ایسی صورت میں خاموشی معنی خیزہی نہیں بلکہ مجرمانہ ہو جاتی ہے۔
اس دوران برادرِ عزیز جاوید حیدر جوئیہ صاحب نے میری طرف سے رائے پوچھنے پر پورا مضمون عنایت کر دیا۔اصولاَ مجھے صرف نارنگ صاحب کا جواب چھاپنا تھا[اب بھی ان کے ہی جواب کو چھاپنا چاہتا ہوں ،جس میں وہ بطور خاص مغربی کتابوں سے بغیر حوالے کے ترجمہ(سرقہ) کرنے کے اپنے فعل کے بارے میں وضاحت فرمائیں] ۔ اب جاوید حیدر جوئیہ صاحب کا جواب چھاپنا میرے لئے ذاتی طور پر واجب ہو گیا تو عمران شاہد بھنڈر صاحب سے اس کا جواب مانگنا بھی لازم ہوا۔سو دونوں ردِ عمل قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
عمران شاہد کے مضمون پر قارئین ادب کا جو مختصر ردِ عمل سامنے آیا ہے اسے خطوط کے صفحات میں شامل کیا ہے۔یہاں ان پانچ مکتوب نگاروں سے معذرت کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے مختصر ردِ عمل میں کچھ غیر متعلق باتیں چھیڑ کر نارنگ صاحب کی ذات کو ہدف بنا لیا۔میں نے وہ پانچ خطوط شائع نہیں کئے۔ایسے ایک مکتوب میں’’حالی کے بعد والے کی علمی بد حالی‘‘کے الفاظ نرم ترین الفاظ کہے جا سکتے ہیں۔اصلاَ عمران شاہد نے نارنگ صاحب کو بلا حوالہ ترجمہ کے شائستہ الفاظ سے ملزم کیا تھا لیکن ان کے غیر ضروری دفاع کے نتیجہ میں اب براہ راست سرقہ کی بات ہونے لگی ہے۔گوپی چند نارنگ کے دفاع سے انکار کرتے ہوئے ان کا دفاع کرنے والے جاوید حیدرجوئیہ صاحب کے مضمون کا مجموعی تاثر میرے نزدیک یہ بنا کہ نارنگ صاحب کی غلطی کا ہلکا سا اقرار کرکے پھر اسے جلدی میں حوالہ نہ دے سکنے اور صفحات کی نمبرنگ نہ دے پانے سے جوڑ کر بے ضرر غلطی بنادیا۔اس کے بعد مضمون کی روح اور اصل کو چھوڑ کر فروعات میں بحث کو الجھا دیا،تاکہ نارنگ صاحب کے بلا حوالہ تراجم سرقہ سے توجہ ہٹ جائے۔جہاں تک دوسرے اشوز کا تعلق ہے ذاتی طور پر میں عمران شاہد کے مقابلہ میں جاوید حیدر جوئیہ سے زیادہ قریب ہوں۔لیکن یہاں ان پر ساری توجہ مرکوز کرنا نفسِ مضمون’’ بلا حوالہ ترجمہ سرقہ‘‘ کی طرف سے توجہ ہٹا کردر حقیقت دوسرے مباحث میں الجھا دینا ہے ۔اگر جوئیہ صاحب ایسا کچھ لکھتے کہ’’ نارنگ صاحب کے جو اقتباسات دئیے گئے ہیں وہ حیران کن ہیں اور بے شک انہیں ان کے بارے میں وضاحت کرنی چاہئے کہ ایسا کیسے ہو گیا ہے۔اس سلسلہ میں انہیں کی وضاحت سے ہی اصل معاملہ واضح ہو گا۔تاہم میں اس مضمون سے قطع نظر کرتے ہوئے عمران شاہد کے دوسرے مندرجات پر توجہ دینا چاہتا ہوں‘‘ ،تو ایسے جواب کے لئے عمران شاہد سے جواب حاصل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔عمران شاہد کے جوابی مضمون کے سلسلہ میں بھی یہ عرض کر دوں کہ میرے نزدیک جاوید حیدر جوئیہ خود پڑھے لکھے آدمی ہیں اور ان کا مشیروں کا کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جیسا عمران شاہد نے لکھا ہے۔چونکہ دونوں طرف تھوڑا بہت غصہ ظاہر ہوا ہے تو غبار نکالنے کے لئے دونوں تحریریں پیش خدمت ہیں۔اس یقین کے ساتھ کہ دونوں طرف سے تلخی تدریجاََ کم ہو گی اورنارنگ صاحب کے بلا حوالہ تراجم سرقہ کے بارے میں غیر ضروری الزام تراشی اور غیر ضروری دفاع دونوں سے گریز کرکے حقیقت کو کھل کر سامنے آنے دیا جائے گا۔ بہر حال یہ بحث اب جس رنگ میں بھی چل نکلی جدید ادب کے صفحات حاضر ہیں ۔
عمران شاہد کے بارے میں یہاں بتاتا چلوں کہ انہوں نے ۲۰۰۴ء میں یونیورسٹی آف سینٹرل انگلینڈ ، برمنگھم سے ’’انٹرنیشنل براڈکاسٹ جرنلزم‘‘ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد ۲۰۰۶ء میں انہوں نے اسی یونیورسٹی سے ’’انگلش لٹریری سٹڈیز‘‘ میں ایم اے کی دوسری ڈگری حاصل کی۔ عمران بھنڈر نے اپنا مختصر مقالہ جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ کے فلسفہ جمالیات پر تحریر کیا اور فائنل مقالہ بیسویں صدی کی روسی تنقید پر لکھا جس میں انہوں نے لیون ٹراٹسکی کے نظریہ ادب کا ہیئت پسندوں کے نظریات سے تقابلی جائزہ لیا۔اس وقت وہ پی ایچ ڈی کے مقالے پر کام کررہے ہیں۔ جدید ادب کے شمارہ نمبر ۹میں شائع شدہ ان کا مضمون عکاس اسلام آباد شمارہ ۶میں مزید اقتباسات کے اضافوں کے ساتھ چھپا ہے۔یہ سارے اضافے مغربی مصنفین کے مزید بلا حوالہ تراجم یا سرقہ (اصل میں دونوں ایک ہیں)کی نشاندہی کرتے ہیں۔اس شمارہ میں جو اقتباسات شامل ہیں وہ جدید ادب ۹اور عکاس ۶والے اقتباسات کے علاوہ ہیں اور ابھی ایسے اقتباسات کی دریافت کا سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
عمران شاہد نے اس بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ گوپی چند نارنگ نے ٹیرنس ہاکس کی ساری کتاب کو صرف چند ایک پیراگرافس کی ترتیب بدل کر لفظ بہ لفظ اپنے نام سے اردو میں شائع کرایا ہے۔یہ محض الزام تراشی نہیں ہے،بلکہ اردو ادب کی اعلیٰ ترین علمی سطح کی افسوسناک صورتحال ہے۔ڈاکٹر گوپی چند کی شانِ استغنا ء پر مبنی خاموشی بر حق، لیکن اتنا کچھ سامنے آنے کے بعد ترجمہ یا سرقہ کے حوالے سے اپنے کئے کرائے کی انہیں خود ہی وضاحت کرنا ہو گی۔تمام سابقہ اور موجودہ سرقوں کے ساتھ ٹیرنس ہاکس کی کتاب کے حوالے سے نارنگ صاحب کو اب توجہ فرمانی چاہئے ۔ اگر ٹیرنس ہاکس کی کتاب میں سے دو تین پیرا گراف ایسے ہوں جنہیں نارنگ صاحب نے اپنی کتاب میں ترجمہ نہ کیا ہو تو وہ یا ان کا کوئی بہی خواہ ان پیراگرافس کی نشاندہی کرے،میں ان پیراگرافس کو شامل نہ کرنے پر ان سے معذرت کروں گا۔ خدا نہ کرے کہ انگلینڈ کے متعلقہ پبلشر کے علم میں یہ ساری داستان آجائے اور وہ ڈاکٹر نارنگ صاحب کو کاپی رائٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا نوٹس بھیج دے۔ (مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ:۱۰۔جنوری تا جون ۲۰۰۸ء)