مابعد جدیدیت اور عالمی صورتحال
ڈاکٹر وزیر آغا(لاہور)
آپ کا اداریہ خصوصی طور پر قابلِ تعریف ہے ۔اس میں آپ نے ایک ایسا نکتہ اٹھایا ہے جس کے حوالے سے مجھے اپنے مضامین میں بہت کچھ لکھنے کی سعادت حاصل رہی ہے۔بالخصوص میری کتاب ’’معنی اور تناظر‘‘کے مضامین میں۔۔۔اصل مسئلہ یہ تھا کہ ساختیات اور پس ساختیات نے ’’مرکز‘‘ یا Logo-Centrism کے تصور کی نفی کی تھی۔یہ کام فرانس کے مفکرین نے آج سے کم و بیش چالیس برس پہلے کیا۔امریکی مفکرین نے تو فقط فرانسیسی مفکرین کی خوشہ چینی کی ہے۔ساختیات نے مرکز کے بجائے رشتوں کے جال یعنی web of relations کی بات کی اور یہ بات اصلاَ جدید طبیعات سے مستعار تھی۔مگر ساخت میں ’مرکز‘کی نفی کرنے سے مرکز کی نفی نہ ہو سکی۔یہ نکتہ میں نے اپنے مضامین میں پیش کیا ہے۔کیونکہ ساختیات کی پیش کردہ ساخت میں ’مرکز‘ساری ساخت کے اندر ہر مقام پر موجود دکھائی دیتا ہے،جو وحدت الوجودی تصور ہے۔گویا ساختیات والوں نے پرچم تو الحاد کا تھاما مگر’مرکز‘ کی نفی کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔یوں خود ان کی تھیوری کے اندر’ مرکز‘ کی ہمہ گیری کے تصور کی توثیق ہو گئی۔
ساختیات والوں کے بعد ساخت شکن مفکرین یعنی Deconstructionistsنے ساختیات کے تصورِ ساخت کی بھی نفی کر دی اور کہا کہ یہ کائنات ایک گنجلک یعنی Labyrinthہے۔اس کے جواب میں، میں نے لکھا ہے کہ اس سے بھی خالق کی نفی نہیں ہوتی،جیسے کہ نیطشے نے کوشش کی تھی۔خود مشرقی دانش نے خالق کے انگنت اوصاف میں فہم سے ماورا ہونے کے وصف کی بھی نشاندہی کی ہے ۔حقیقتِ عظمیٰ کے تصور کو جو پردہ در پردہ اور حجاب اندر حجاب ہے انسان کا ذہن کیسے گرفت میں لے سکتا ہے!
میں نے اپنے مضامین میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ تخلیق کاری میں’’ مصنف،متن اور قاری‘‘تینوں شریک ہوتے ہیں،گویا مصنف یا خالق کی حیثیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔بات کو سمیٹتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں ساختیات اور پس ساختیات کے مفکرین نے جو نظریات پیش کئے ہیں خود ان نظریات کے اندر اک صورت خرابی کی موجود ہے۔یعنی انہوں نے اپنے تصورات کو خود ہی Deconstructکر دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر عباس نیر(جھنگ)
آپ نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ ’تھیوری کی دنیامیں رہنے کے ساتھ اس کے عملی مظاہر کے تناظر میں بھی اس کا جائزہ لیا جائے۔‘ آپ کی اس تجویز کا محرک آپ کا یہ خیال ہے کہ تھیوری (ساختیات اور ما بعد ساختیات ) نہ صرف عالمی سیاسی مقاصد رکھتی ہے بلکہ افغانستان اور عراق پر امریکہ کی فوجی کارروائی کے ذریعے تھیوری کے یہ مقاصد حاصل بھی ہو چکے ہیں۔ گویا ان دو اسلامی ممالک میں جس بہیمیت کا امریکہ نے مظاہرہ کیا ہے اس کی ذمہ داری تھیوری پر ڈالی جا سکتی ہے اس ضمن میں آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’ متن اور مصنف کا یکسر انکار کر کے قاری کی اہمیت کواجاگر کرنا دراصل امریکی حلقوں کی طرف سے بعض مذہبی حلقوں کے خلاف اقدام کرنا ہے ۔ کیونکہ اس بنیادپر تمام آسمانی کتب کے متن اور خالق کی نفی ہو جاتی ہے ۔‘‘ معذرت کی ساتھ آپ کے ان خیالات میں اسی قسم کی سنسنی خیزی ہے جو صحافت (زرد صحافت) میں عام ہے اور آپ کے زاویہ نظر پر ترقی پسندوں کے روائتی فارمولے کا سایہ بھی محسوس ہو رہا ہے جو ہر ادبی تھیوری کے ڈانڈے سیاست سے جوڑتے ہیں ۔ ادارئیے میں آپ نے تھیوری کی صورت حال کو ترقی پسند تحریک کے مماثل ٹھہرایابھی ہے۔ یہاں بعض وضاحتیں ضروری ہیں۔
میرے لیے یہ بات عظیم انکشاف *کا درجہ رکھتی ہے کہ تھیوری کے بل بوتے پر بڑی بڑی جنگیں لڑی جا سکتی ہیں۔ کاش ادبی نظریات اس قدر طاقت ور ہوتے کہ وہ عالمی سیاسی معاملات کا رخ موڑ سکتے اور متعین کر سکتے ۔ یہ بات تو مانی جاسکتی ہے کہ جنگ اور بربریت کو جائز ثابت کرنے کے لیے نظریات وضع کیے جا سکتے ہیں مگر تھیوری میں کسی بھی نظریے یا ڈسکورس یا متن کوDeconstructکرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہے یعنی تھیوری نظریے یا متن میں مضمرہر قسم کی حکمت عملیوں کو منکشف کر سکتی ہے ۔ فوکو کی ڈسکورس کی تھیوری ہو یا نئی تاریخیت یا نسائی تنقید یا پھر نو مارکسیت اس طرح تھیوری اپنی اصل کی روح سے مقتدر طبقوں کے ساتھ نہیں پامال اور نظر انداز کردہ طبقوں کے ساتھ ہے۔ تھیوری کمزور طبقات کی اس حمایت کے باوجود اگر ان کی حالت زار میں انقلابی تبدیلی نہیں لا سکی تو اس کا باعث فقط یہ ہے کہ تھیوری میں بم کی طرح طاقت نہیں ہوتی کہ فی الفور اور پوری شدت سے ظاہر ہو تھیوری کا تعلق فکری تبدیلی سے ہے جو رفتہ رفتہ رونما ہو رہی ہے ۔اور جہاں تک متن اور مصنف کے انکار کا سوال ہے تو اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ مصنف کا انکار توکیا کیا گیا ہے متن کا ہرگز نہیں۔ مصنف کا انکار کر کے دراصل متن اور اس کی قرات کو مرکزی رول دیا گیا ہے اور مصنف کے انکار میں بھی کوئی سیاسی ہتھکنڈا مضمر نہیں مصنف کا انکار ایک خاص علمی اور فکری پس منظر میں کیا گیاہے ۔یہاں تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں فقط اتنا عرض ہے کہ مصنف کی موجودگی پر سوالیہ نشان ساختیات نے لگایا ۔ ساختیات جس مطالعاتی نہج کی داعی ہے وہ کلیت پسندانہ ہے ۔ یہ اس سسٹم کی جستجو کرتی ہے جس کی وجہ سے اور جس کے تحت کوئی مظہر معنی کا حامل ہوتا ہے لہٰذا اصل اہمیت مظہر کے معنی کو نہیں۔ اس کو پیدا کرنے والے نظام کو حاصل ہے۔ معنی تو پراڈکٹ ہے۔ اس زاویے سے فرد بھی ایک پراڈکٹ اور سوشل کنسٹرکشن ہے۔ سوسائٹی کا معنیاتی نظام (Signifying system)افراد اور متون کے ذریعے اپنا اظہار کرتا ہے ۔ مصنف بھی لہٰذا خالق کے بجائے اس نظام کے اظہار کا وسیلہ ہے۔ گویا مصنف ادبی روایت یاشعریات کو خلق نہیں کرتا یہ شعریات مصنف کو وسیلہ بنا کر اپنا اظہار کرتی ہے ،یہ باتیں ہمارے لیے اصطلاحات کی حد تک نئی ہیں مگر اپنے مطالب کے اعتبار سے اجنبی نہیں ہیں ۔ مثلا ہم سب روایت کو بے حد اہمیت دیتے ہیں اور کسی فن پارے کی قدر کے تعین کے لیے روایت سے استناد کرتے ہیں اسی طرح کسی فن پارے کے معنی کے کھوج میں ہم منشائے مصنف کو بالائے طاق رکھنے کے عادی ہیں ۔ غالب کے اشعار کو غالب کے منشا سے ہٹ کر پڑھا جا تا رہا ہے ۔ اور اسی وجہ سے غالب کو بڑا شاعر بھی قراردیا جاتا رہا ہے کہ اس کے اشعار میں معنی کی کثرت ہے ۔ اگر مصنف یا اس کے منشاء کو ملحوظ رکھیں تو فن پارے کی معنی خیزی کا عمل نہایت محدود اور یک رخا ہو جائے گا ۔ اس اعتبار سے قرات کے وقت مصنف سے صرف نظر کرنا ہی مناسب ہے ۔ مصنف کی نفی قرات کو آزاد اور معنی خیز بنانے کی خاطر کی گئی ہے۔بایں ہمہ مصنف کی انفرادیت کی نفی ممکن نہیں (تفصیل کا یہ محل نہیں راقم کے اس موضوع پر مقالات ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں ) آپ نے مصنف کے انکار کو امریکی حلقوں سے منسوب کیا ہے ۔ اس پر حیرت ہوئی ہے ۔ مصنف کی موت کاسنسنی خیز اعلان تو فرانسیسی نقاد رولاں بارت نے کیا تھا ۔ ساختیات وپس ساختیات کی جنم بھومی بھی فرانس ہے ۔ اور فرانس نے عراق پر امریکی حملے کی مخالفت کی تھی ۔ اور حق تو یہ ہے کہ غالباً فرانس ایسا ملک ہے جہاں تھیوری کو فروغ مل سکتا ہے (اور ملا ہے ) وگرنہ دوسرے ممالک میں اس پر شبہات کا ہی اظہار کیا گیا ہے ۔ امریکہ کے فریڈرک جمی سن بھی تھیوری کے نقادوں میں شمار ہوتے ہیں ۔باقی آئندہ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی
(ناصر عباس نیر کے جواب میں)
برادرم ناصر عباس نیر اداریے پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے تھوڑے سے جذباتی ہو گئے ہیں۔۔میں نے ترقی پسند تحریک کے ابتدائی دنوں میں اس کے مخالفین کی جانب سے کی جانے والی الزام تراشی کی نشان دہی بھی کی ہے اور ساتھ ہی مابعد جدیدیت مباحث کے آغاز کے وقت کی جانے والی الزام تراشی کی ہلکی سی نشاندہی کی ہے۔بلکہ میں نے بہت سے سخت الفاظ کو دہرانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔مثلاََ ڈاکٹر جمیل جالبی جیسے ثقہ نقاد اور دانشور نے تو اسے یہودیوں کی سازش قرار دیا تھا۔ان مباحث کی ایک سطح یقیناََ ادب کی حد تک ہے اور اسے وہیں رکھنا مناسب ہے لیکن جب پیش آمدہ صورتحال کو ان الزامات کی روشنی میں دیکھا جائے توپھر ایسے ادبی مباحث کے بارے میں شکوک کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔یہ الزام نائن الیون کے سانحہ سے بہت پہلے کا ہے کہ مصنف کی نفی اور متن کے من چاہے معانی اخذ کرنے سے اُن امریکی دانشوروں کوسہولت ہو گی جو پہلے ہی سے بعض مذہبی عناصر کی بنیاد پرستی کے خلاف ہیں۔بہت سیدھی سی بات ہے اس تصور کی بنیاد پر آسمانی کتب کے خالق کی نفی ہوتی ہے یوں یہ بات نیطشے کے اعلان کی ہی بازگشت بن جاتی ہے۔ میں نیطشے کے اعلان کا صرف اشارا دے رہا ہوں ۔کھول کر نہیں لکھ رہا۔ سو جب بہت پہلے سے مابعد جدیدیت اور امریکی عزائم کے تعلق سے چند امور کے بارے میں کھل کر شکوک کا اظہار کیا جا رہا تھا اور بعد میں وقت ان کو سچ ہوتا بھی دکھاتا ہے تو کیا ان ہولناکیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے امریکی دانش سے جوڑکر دیکھنے کی کاوش کرنا کوئی جرم ہے؟اگر آپ کے نزدیک یہ زرد صحافت ہے تو میں سوائے شرمندگی کے اظہار کے اور کیا کر سکتا ہوں!
جہاں تک متن کی نفی نہ کرنے کی آپ کی وضاحت کا تعلق ہے ،اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ مابعد جدیدیت نے قاری کو جو اہمیت دی ہے اس کے بعد فیض احمد فیض کی ایک نظم اور دھوبی کے بل یا منڈیوں کے بھاؤ میں سے کوئی فی ذاتہ عظیم یا کمتر نہیں رہتا۔ جب صورتحال ایسے مقام تک آجائے تو پھر متن کی کیا اہمیت رہ گئی؟
ناصر عباس نیر نے ایک جگہ لکھا ہے: کاش ادبی نظریات اس قدر طاقت ور ہوتے کہ وہ عالمی سیاسی معاملات کا رخ موڑ سکتے اور متعین کر سکتے ۔میرا خیال ہے کہ بھائی ناصر عباس نیر وقتی غصہ کی روانی میں ایسا لکھ گئے ہیں وگرنہ مغرب والوں کے سارے بڑے انقلابات اور تبدیلیوں کے عقب میں نظریات کی ہی کارفرمائی غالب رہی ہے۔طولِ کلام سے بچنے کے لئے اپنے اور ناصر عباس نیر صاحب کے مشترکہ ادبی بزرگ ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک مختصر سا حوالہ پیش کئے دیتا ہوں۔
’’مغرب میں بقائے بہترین کے تصور (نیطشے۔ناقل) نے نہ صرف افراد بلکہ قوموں کو بھی ’’سپر‘‘بن جانے کی ترغیب دی جس کے نتیجے میں بیسویں صدی کے سپر مین یعنی ہٹلر اور مسولینی اور سٹالن پیدا ہوئے عالمی جنگیں لڑی گئیں جن میں سپر مین کے ساتھ سپر نسل(Super Race)اور سپر قوم(Super nation) کے تصورات کو بھی مہمیز لگی۔پھر سپر بلاک کا تصور بھی بیدار ہو گیا جیسے امریکی بلاک اور روسی بلاک‘‘ (دستک اس دروازے پرص۷۱)
کیا اس تجزیہ سے ظاہر نہیں ہوتا کہ مغرب میں ادبی نظریات اور وہاں کی سیاسی و سماجی تبدیلیوں کا آپس میں کتنا گہرا تعلق ہے؟
اب دیکھئے جنرل تھیوری کا جو تصورپیش کیا گیا ہے بظاہر بڑا خوشنما ہے۔ساری دنیا کے انسانوں کے لئے ایک ہی تھیوری(حالانکہ مختلف ثقافتی تضادات خود ایسی عالمگیریت کی نفی کرتے ہیں)لیکن اس عالمگیریت کا اقتصادی اور سیاسی شاخسانہ کیا نکلا ہے ؟ اس کے لئے ڈبلیو ٹی او کی صورت میں امیر ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے عزائم کو دیکھ لیجئے اور اس کے خلاف خود مغربی ممالک کے عوام کا شدید رد عمل بھی دیکھ لیجئے۔جنرل تھیوری کی عالمگیریت اور ڈبلیو ٹی او کی عالمگیریت میں کوئی اندرونی ربط ہے یا نہیں؟ اس پر غور کر لینے میں تو کوئی حرج نہیں۔
فرانس سے ساختیاتی تصورات کی ابتدا بے شک ہوئی لیکن یہ سلسلہ امریکی دانشوروں کو ہی راس آیا۔فرانس میں اس کو قطعاََ کوئی اہمیت نہیں ملی۔یہ ویسے ہی ہے جیسے تاریخ کی موت کا اعلان فرانس سے ہوا لیکن یہ بھی امریکی دانشوروں کو راس آیاکہ ان کی اپنی نجات تاریخ سے فرار اختیار کرنے میں تھی۔ امریکہ کی ذہانت کی داد دینی چاہئے کہ وہاں سیاسی(لمبی منصوبہ بندی)،سماجی(الیکٹرانک میڈیا) اور ادبی(یونیورسٹی لیول پر نظریات کا پرچار) ہر سطح پر پہلے سے ہوم ورک کرنا شروع کردیا جاتا ہے۔Huntingtonنے ۱۹۹۷ء میں ’’تہذیبوں کا ٹکراؤ‘‘لکھ دی تھی۔ اس پر عملدرآمد آج ہو رہا ہے۔ صرف عمل درآمد ہی نہیں ہورہا بلکہHuntington بہ نفیس نفیس امریکی میڈیا پر آکر اپنے موقف کو مزید واضح کر رہا ہے۔ چنانچہ حالیہ دنوں میں اس نے بڑے واضح الفاظ میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ میرے نزدیک بنیاد پرست مسلمان اور لبرل مسلمان میں کوئی تفریق نہیں ہے۔سارے مسلمان ہی ایک جیسے ہیں اور ان کا قلع قمع ہونا چاہئے۔یہ ان کا ریڈیائی انٹرویو تھا جو امریکی حملوں کے دوران دیا گیا۔اس لئے آپ امریکی دانشوروں کے ایسے بیانات اور ایسی ترغیبات کو اتنی سادگی سے نہ لیں۔ان کے اندر تک جانے کی کوشش کریں۔
مابعد جدیدیت کے مثبت ادبی ثمرات کو ضرور سامنے لانا چاہئے،ویسے ہی جیسے ترقی پسند تحریک کے مثبت ثمرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا،تاہم جیسے اُس تحریک کے پس پشت سیاسی قوتوں کو مطعون کیا گیا تھا ویسے ہی اس ڈسپلن کے پس پشت مخصوص مقاصد کے تحت کام کرنے والے امریکی ذرائع کے وجودیا عدم وجود پر بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر واقعی ایسا کچھ ہے تو اسے سامنے آنا چاہئے ،اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو غلط فہمی دور ہونی چاہئے۔اس لئے اس موضوع پر کھل کر گفتگو ہو جانی چاہئے۔اس پر ناراض نہیں ہونا چاہئے۔
میں امید کرتا ہوں کہ اس موضوع کو کسی کی ذاتی انا یا عناد کا باعث نہیں بنایا جائے گا۔ اوریجنل اہلِ علم کسی کیمپ میں ہوں قابلِ قدر ہوتے ہیں۔سکہ بند سرکاری دانشوروں سے ہٹ کرناصر عباس نیر حقیقتاَ ہمارے ایک اہم دانشور ہیں۔ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پیش آمدہ صورتحال اور زیر بحث مسئلہ کو ایک بار زاویہ تبدیل کرکے دیکھنے کی کوشش ضرور کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی، شمارہ نمبر ۲۔جنوری ۲۰۰۴ء)
* خوشی کی بات ہے کہ ناصر عباس نیر کی ایک حالیہ تحریر سے اندازہ ہوا کہ انہوں نے اپنے خیالات پر نظر ثانی کی ہے۔کسی ذاتی رنجش کو درمیان میں لائے بغیر اپنے افکار و خیالات پر نظر ثانی کر لینا یقیناَ ایک صحت مند رویہ ہے جو پارٹی تبدیل کرنے کے منفی رویہ کے بر عکس فکری ارتقا میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ناصرعباس نیر کی تحریر کا مختصر سااقتباس پیش ہے۔
’’کرۂ ارض کی واحدعالمی طاقت نے اکیسویں صدی میں کمزور ملکوں پر ڈسکورس ہی کی بنیاد پر جنگیں مسلط کی ہیں:پہلے اُ ن ملکوں سے متعلق ڈسکورس تشکیل دیے،اُنہیں میڈیا کے ذریعے پھیلایااور باور کرایا،اور پھر ہر کھڑی عمارت اور ثابت و سالم شے کو اکھاڑ پچھاڑ دیا۔اس ڈسکورس میں کہیں نہ کہیں ،مذہبی عُنصُر ضرور شامل رہا‘‘(سلیم آغا کی کتاب ایک آوازکا پیش لفظ:ص ۱۱)