عدن کیپ ٹاؤن کے ساحل پر اکیلے ہی چہل قدمی کر رہا تھا… غصے میں جی تو اس کا چاہا کہ قریب و جوار میں نامناسب لباس پہنے’ چہل قدمی کرتی’ شوخ و شنگ کسی ایک آدھ لڑکی کی کمر میں اپنے بازو حائل کر دے اور نہیں تو انہیں آنکھ ہی مار دے اور اس اشارے پر جب کوئی اس کے قریب آ جائے تو وہ اسے لنچ کے لیے لے جائے… رات میں ڈنر کے لیے اور پھر ڈسکو کے لیے اور پھر…..
لیکن ماریہ سے بدلہ لینے کی شدید خواہش کے باوجود اس کا جی نہ مانا کہ وہ اپنے روپہلے ہنی مون پر یہ سب کرے… شادی سے پہلے کی اور بات تھی… اُس وقت جب کبھی وہ دوسرے ملک تفریح کے لیے گیا’ ایسے بہت سے کام کیے… وہسے ہی کام جو مذہب کے دائرے سے پرے تو ہیں ہی… ساتھ ساتھ معاشرتی مزاج پر بھی بہت بھاری پڑتے ہیں…
ذرا سے فاصلے پر بنے کپل ہٹس (HUTS) میں سے ایک میں ماریہ سو رہی تھی… ماریہ…….. زمینی حور…….. ازبکستان کی پیدائشی… اپنی مام کی طرح گہری سبز آنکھوں والی اس کی بیوی’ الٹی پلٹی سی…… عدن نے بہت سے الٹے مزاج کے لوگ دیکھے تھے… ایک وہ خود بھی تھا… لیکن ماریہ جیسی الٹی شخصیت اسے اب تک ہی ملی “ماریہ خود”…
جب وہ آ رہا تھا تو اس نے کہا کہ اسے سونا ہے… اب جب وہ واپس جائے گا تو وہ کوئی فلم دیکھ رہی ہو گی یا گھنٹوں سے واش روم میں ہی ہو گی… اسے واپس آئے چند منٹ ہی گزریں گے تو وہ خود چہل قدمی کے لیے باہر جائے گی… اگر اسے جانا ہی تھا تو اس کے ساتھ کیوں نہیں؟ اب اگر وہ یہ بات پوچھے گا تو ہنی مون تباہ کرے گا… ڈھیٹ بن کر وہ اتنا ضرور کہے گا…
“میں بھی آؤں ساتھ؟”
وہ پلٹ کر دیکھے گی بھی نہیں اور چلی جائے گی… عدن کو جواب دیے بنا صرف وہی ایسے جا سکتی ہے… جا کر وہ واپس آنا بھول جائے گی… فون کشن کے نیچے’ باتھ ٹپ کے پاس یا کسی ڈرا میں رکھا ہو گا… وہ اپنے ساتھ صرف امریکن کریڈٹ کارڈ لے کر نکلتی ہے… ناچار وہ اکیلا ہی ڈنر کرے گا… ایک بار وہ اسے ڈھونڈتا کلب جا پہنچا… وہ بےخود ایک کونے میں پڑی تھی… اگر وہ نہ جاتا تو وہ ساری رات وہیں پڑی رہتی… لیکن ایسا فی الحال ایک ہی بار ہوا تھا… مگر دوبارہ ہو بھی سکتا تھا کیونکہ وہ اسے ساتھ کم ہی رکھتی تھی… دل چاہا تو ساتھ… ورنہ دور دور…
وہ اچھے سے اچھے ہوٹل’ ریسٹورنٹ’مون لٹ ایریاز’ ٹریولرز ہنٹ انواع و اقسام کے کلبوں کے بارے میں معلومات کرتا ہوٹلوں میں سیٹیں’ سمندر میں جہاز بک کرواتا… مگر وہ جا کر نہ دیتی… اگر چلی بھی جاتی تو منہ ایسے بنایا ہوتا… جیسے کسی ناگوار’ بدبودار جگہ آ بیٹھی ہو… یہ ان کا ہنی مون تھا… جس پر ماریہ کے ڈیڈ نے بے تحاشا پیسہ خرچ کیا تھا…
“تم کتنا بور ہوتی ہو…” دراصل وہ کہنا چاہتا تھا کہ تم کتنا بور کرتی ہو…
ماریہ نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا اور کھانا کھاتی رہی… خاموشی کا یہ وقفہ عدن کی بےعزتی کیے جا رہا تھا…
“میرے تجزیہ نگار نہ بنو…” کچھ وقت کے بعد اس نے جواب دیا… لیکن کیا خوب دیا… اس رات کا ڈنر بھی تباہ ہو گیا…
وہ کسی بات’ کسی چیز سے خوش ہوتی ہی نہ تھی… چیزیں تو خیر اس نے بہت برتی ہوں گی… مگر شوہر تو وہ پہلا تھا… کبھی وہ خوش کر دیتی… کبھی خوشی چھین لیتی… کبھی کندھے پر خود ہی سر رکھ دیتی اور کبھی اپنے کندھے پر سر رکھنے بھی نہ دیتی…
“یہ تمہارا پلان کیا ہوا ہنی مون ہے؟” ایک دن وہ بری طرح سے چڑ گیا…
“میرا نہیں’ ڈیڈ کے سیکریٹری کا…”
“اس نے تمہاری پسند سے ہی کیا ہو گا…”
“ہاں! تو مجھے یہ سب پسند ہے…”
“لگتا تو نہیں ہے…” سچی بات بھی اس کے سامنے ڈر ڈر کے کرنا پڑتی تھی…
“کیسے لگے گا؟” وہ صاف برا مان گئی…
عدن کو کوئی جواب نہ سوجھا… اور نہ ہی کوئی نیا
سوال… جواب بھی بہت تھے اور سوال بھی… لیکن اس الٹے مزاج والی کے لیے اب کچھ اور کہنا نہیں چاہتا تھا…
“ایم اوکے…… کول…… پرفیکٹ… اس طرح منہ پھاڑ کر مجھ پر تبصرہ نہ کیا کرو…”
عدن چپ ہو گیا تھا لیکن وہ نہیں رکی اس کے منہ پھاڑ انداز پر وہ تلملا کر رہ گیا… زیرلب گالیاں دیں… اپنے ہنی مون پر صرف چالیس دن پرانی بیوی’ سویٹ ہارٹ کو گالی دی…
شاید یہ گالی دینے کی نوبت اتنی جلدی نہ آ جاتی… اگر دبئی پام سٹی میں اس نے ماریہ کے ساتھ اس کے ذاتی ولا میں قیام نہ کیا ہوتا…
ان دونوں کی شادی پاکستان میں ہوئی تھی ولیمہ دبئی پام سٹی میں دیا گیا ولا میں ہی دونوں نے دو ہفتے قیام کیا… دونوں کہ فیملیز واپس جا چکی تھیں… شروع کے دن کافی پربہار اور ہنگامہ خیز تھے… دونوں گھنٹوں سوئمنگ کرتے’ نت نئے ہوٹلز جاتے’ ماریہ کے دوستوں کی طرف سے دی گئی چند پارٹیز اٹینڈ کیں… کلب اور سینما کے چکر لگائے…
ماریہ کے ایک شیخ دوست طاہرالبشر نے انہیں ڈنر پر بلایا… بقول شیخ “رہائش گاہ” اور بقول عدن “چھوٹے سے محل” میں انہیں دعوت طعام دی گئی واپسی پر انہیں دبئی کے ایک پوش علاقے میں واقع ایک اپارٹمنٹ گفٹ کیا گیا… لیکن یہ سب بھی اتنا قابلِ توجہ نہیں تھا… نہ شیخ کا محل… نہ ہی سونے چاندی کے برتن… بس وہ خوش آمدیدی اور الوداعی انداز… دائیں بائیں گال پر بوسے’ جو شیخ اور ماریہ دونوں کی طرف سے تھے…
ان روایتی ملاقاتی اندازوں کو عدن خوب جانتا تھا… لیکن صرف یہ روایتی انداز ہی نہیں تھا… ماریہ نے بغیر آستین کا سنہرا گاؤن پہنا تھا اور شیخ کو ماریہ کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں رہا تھا… عدن نے کمال بے غیرتی سے نظریں ادھر ادھر کیں… لیکن اس کے اندر سوال جواب شروع ہو گئے… نیا نیا تھا نا… ابھی عادی نہیں تھا… شیخ صاحب کمال مہربانی سے اپنی ساری توجہ ماریہ پر نچھاور کرتے رہے… کمال کے انسان تھے… شوہر نام کی چیز پر صرف ایک نظر ہی ڈالی…
اور اتفاقاً اس کی نظر بھی اس نام پر پڑ گئی’ جو ماریہ کو اس کے گھر سے فیکس کی گئی رپورٹس پر لکھا تھا… وہ نام بھی “شیخ طاہرالبشر” تھا…
وہ اپنے لیپ ٹاپ پر چند ای میلز چیک کر رہا تھا… جب لائبریری میں ذرا قریب رکھی فیکس مشین میں فیکس
آیا…
“تمہارا فیکس آیا ہے ماریہ…”
وہ ماریہ کو جانتا تھا کہ وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں ہے’ جو شادی کے بعد شوہروں اور شادی سے پہلے بوائے فرینڈز کو اپنے پاس ورڈز دیتی ہیں… وہ یکجائی کی نہیں’ الگ الگ کی قائل تھی… وہ تو اس کے موبائل کو بھی ہاتھ تک نہیں لگا سکتا تھا… اگر وہ لیپ ٹاپ پر کام کرتی’ کہیں اٹھ کر چلی بھی جاتی تو وہ اچک کر یہ بھی نہیں دیکھ سکتا تھا کہ وہ اتمی دیر سے لیپ ٹاپ پر کیا کرتی رہی ہے… میڈ کو اس نے کہہ دیا تھا کہ اس کا ایک ضروری فیکس آنے والا
ہے… وہ ضروری فیکس عدن کے ہاتھ میں تھا… اس کی نظر نے صرف شیخ طاہرالبشر ہی پڑھا…
وہ سوانا باتھ لے رہی تھی… چلّائی…… “ٹیبل پر رکھ دو…” اسے یہ ڈر نہیں تھا کہ اس کا فیکس پڑھ لیا جائے گا… ڈریں غریب غربا… ماریہ کیوں ڈرے؟ آغا کی بیٹی کیوں ڈرے…
تیار ہو کر وہ گاڑی لے کر نکل گئی… دو دن ایسے ہی صبح و شام جاتی رہی…
“آج تو کہیں نہیں جانا؟” تیسرے دن اس نے ایسے ہی پوچھ لیا… اپنی موسٹ وانٹڈ بیوی سے… اس کے گال پر چٹکی بھر کر… لاڈ کرتے ہوئے… رومانس کے انداز میں…
اس نے چٹکی بھرتے ہاتھ کو جھٹکا… “کیا مطلب؟”
“ایسے ہی….” ہاتھ جھٹکے جانے پر اسے پہلی بار پہلا صدمہ ملا…
“چلی بھی جاؤں…. آج بھی… اور جب کبھی…… تمہیں کیا؟” الفاظ سے زیادہ انداز برا تھا…
“ہاں جی! ٹھیک… عدن کو کیا….” وہ منہ پھلا کر پہلی بار ناراض ہو کر باہر نکل گیا… اس کا خیال تھا کہ وہ ضرور محسوس کر کے اس کے پیچھے آئے گی… لیکن ڈیڑھ گھنٹے بعد جب وہ واپس گیا تو وہ جا چکی تھی… ملائیشین میڈ سے پوچھا… اس نے رٹی ہوئی انگریزی طرز پر کہا…
“آئی ڈونٹ نو سر….”
عدن کو کچھ سبکی سی محسوس ہوئی… اس جیسا لڑکا’ جو چھوٹی چھوٹی پر طیش میں آ کر موبائل فرش پر’ دیوار پر دے مارتا تھا… اب صرف غصے میں ٹہلنے لگا… کس کے سامنے موبائل دیوار پر دے مارے… ٹی وی کے چینل بدلنے لگا… شام گزر گئی… ماریہ آئی… جوتوں سمیت بیڈ پر لیٹ گئی… بیگ بیڈروم کے دروازے کے پاس گرا پڑا تھا… موبائل’ کی چین’ سن گلاسز کو صوفے پر اچھالا گیا تھا… سن گلاسز صوفے کے کنارے سے گرنے کے قریب تھے…
“ماریہ!” وہ اس کے اوپر جھکا… غصے کو ایک طرف کیا… اس کے بالوں کی ایک لٹ کو چھونا چاہا… اس نے جواب میں ایک مختصر سی اوں……ں…… کی… اس انداز پر غصہ دوبارہ آ گیا… دراصل ماریہ ایک چیز تھی تو وہ بھی بہت زعم میں تھا… ماریہ پہاڑ کی چوٹی ہی کیوں نہ ہو… لیکن خود کو وہ’ وہ جھنڈا سمجھ رہا تھا’ جو فاتح لگاتا ہے… اس کے خیال میں ماریہ کو اس کے پیروں تلے ہو جانا چاہیے… بےشک خود گردن اکڑا کر چوٹی بنی کھڑی رہے…
غصے سے وہ باہر آنے لگا تو دروازے کے پاس پڑا بیگ اٹھا لیا… باہر لے آیا… کھولا… اندر تین کاغذ تہہ کیے رکھے تھے…
وہ بہت پڑا لکھا تھا… امیر تھا… بہت سے مینرز جانتا تھا… لیکن اب غصے میں آ کر وہ کاغذات پڑھنے لگا…
مسز ماریہ شیخ طاہرالبشر…
اس نے آنکھیں سکیڑیں…. لمحے بھر کو ذرا سا کانپا… باری باری تینوں کاغذات پڑھے…… ایک فیکس تھا’ جو امریکہ سے اسے کیا گیا تھا…. دو رپورٹس تھیں’ جن کی تاریخ ایک دن پہلے کی تھی… تینوں کاغذات پڑھتے ہی اس کا دماغ ابلنے لگا… سوئی ہوئی ماریہ کو جھنجھوڑا…
“یہ کیا بکواس ہے؟”
“واٹ؟” نیند سے اٹھائے جانے پر وہ غصے سے بولی…
“یہ کیا ہے؟” اس نے کاغذات اس کے سامنے لہرائے…
وہ لپک کر اٹھی اور اس کے ہاتھ سے کاغذات جھپٹ لیے….. “تمہاری اتنی جرأت….” وہ انگلش میں دھاڑی… وہ انگلش میں ہی بات کرتی تھی… اردو بہت کم بول اور سمجھ سکتی تھی… عدن اس کی جرأت پر حیران رہ گیا… الٹا وہ اسے یہ جتا رہی تھی کہ اس نے اس کے کاغذات کو بیگ میں سے نکالنے کی ہمت ہی کیسے کی…. کمال کی بات ہے نا؟
“تم شیخ کی بیوی تھیں؟” اس کی آواز اور غصہ اور بلند ہو گیا…
اس نے جیسے سنا ہی نہیں… کاغذات کو ہاتھ میں لیے الماری تک گئی… پٹ کھولا اور اندر رکھ کر مقفل کر دیا…
“ماریہ!” عدن چلّایا… مشرقی خوب صورت مرد اور خاص کر مشرقی شوہر کی بات کا جواب نہ دیا جائے… اسے پیٹھ دکھا دی جائے… اس سے اچھا ہے کہ اس کے منہ پر چانٹا مار دیا جائے…
“کیوں چلّا رہے ہو؟” وہ پلٹی اور سنگل صوفے پر آ کر بیٹھ گئی… ٹانگ پر ٹانگ رکھی… ذرا سا جھک کر ایک ہاتھ سے پمپ شوز اتارے اور اسی ہاتھ کی سمت میں شوز اچھال دیا دوسرا شوز اتارا اور ویسے ہی اچھالا……. اور ایک پاؤں کو جھلانے لگی… یوں جیسے اسے کسی بات کی پروا نہ ہو…
“میں ڈاکٹر ہوں…” وہ تنا ہوا کھڑا تھا… مرنے مارنے کے لیے تیار… غیرت مند پاکستانی شوہر…
“تو…….؟” انداز میں حیرت تھی’ نہ سوال…
“تمہاری رپورٹس پڑھ لی ہیں…”
“گڈ…..” پاؤں ہل رہا تھا…
اس انداز پر عدن کا جی چاہا کہ اسے اٹھا کر باہر پھینک دے…
“کچھ اور……..؟” سوال تھا یا مذاق…
“کتنے ابارشن کرا چکی ہو؟” عدن نے اپنی طرف سے اسے تھپڑ مارا کہ وہ بلک اٹھے گی…
“صرف دو تک ہی نوبت آئی تھی…” الٹا وہ بدکا… الٹا تھپڑ اسے ہی لگا…. وہ تو مزے سے کہہ گئی…
اگلے ڈیڑھ دو گھنٹے ان میں لڑائی ہوتی رہی… لڑائی بھی کیا… عدن ہی بھڑک بھڑک جا رہا تھا… وہ آزاد خیال بھی ہے اور آزادی بھی رکھتی ہے… وہ جانتا تھا… لڑ جھگڑ کر وہ قریبی ہوٹل آ گیا… پاپا کو فون کیا…
“وہ اس کی بیوی نہیں گرل فرینڈ تھی… اس نے ماریہ کی کہی ایک ایک بات پاپا کو بتا دی’ تو انہوں نے کمال الفاظ سے اسے تسلی دی… “ایکس گرل فرینڈ…”
ماریہ کو کچھ پیچیدگیوں کا سامنا تھا… اسی لیے اس نے دوبارہ دبئی کے اسی کلینک سے اپنا چیک اپ کروایا تھا… جس کے لیے اس نے امریکا سے اپنی رپورٹ منگوائی… اس کی تازہ ترین رپورٹ میں بھی بہت سے مسائل ہی تھے… اس کی طرف سے اب وہ مرے یا جیے….. یا شیخ کے پہلو میں جا بیٹھے…
“اتنا بوکھلا کیوں رہے ہو یار…… تم بھی گرل فرینڈ ہی سمجھ لو…. بیوی کسی اور کو بنا لینا…… چند سال گزار
لو…. ابھی وہ تمہارے ساتھ ہے… تم اس کے شوہر ہو… وہ اپنے ڈیڈ کو پیاری ہے… اس کے ڈیڈ تمہیں پیار کریں گے… ناسمجھ مت بنو عدن….. اتنے بڑے ہو گئے ہو…. ایسے کیسے غصہ کرنے لگے ہو…. وہ امریکہ میں رہی ہے… پاکستان میں رہنے والیاں کم نہیں ہیں…. لڑ آئے ہو اس سے…. وہ اپنے ڈیڈ کو بتائے گی… نہیں بھی بتائے گی تو لڑ کر تم کر بھی کیا لو گے… میں بھی اسے جانتا ہوں…. اس کے استاد صاحب نہ بنو….. اس غلطی پر ٹوکا……. اس پر ڈانٹا…..یار! عقل کہاں ہے تمہاری؟”
“پھر بھی……. آپ کی بہو ہے وہ…”
“یار! میں ان چکروں میں نہیں الجھتا….. اتنا میں نہیں سوچتا… وہ بھی ایسے معاملات میں…… چار دن نہیں ہوئے تمہاری شادی کو اور یہ سب….. سیدھے رہو… ورنہ آنکھ کان بند کر لو……. جب سنو گے نہیں’ دیکھو گے نہیں تو بولو گے کیا….”
وہ پہلو ہی بدلتا رہا…
“سوچ کیا رہے ہو؟ جواب دو……. ارے یار!”
“کیا جواب دوں؟”
“اچھا!چلو نہ دو….. جاؤ! ماریہ کے پاس واپس…”
ماریہ سے متعلق اس کے پاپا کے ہمیشہ سے ہی خیالات نادر رہے تھے… ماریہ ان کے لیے ایک عجوبے کی طرح تھی… جس کے سامنے کھڑے کو کر وہ “کھل جا سم سم…” منتر پڑھ کر خزانے تک جا سکتے تھے…
پاپا نے اسے اچھی طرح سے ٹھنڈا کر دیا… چند ہی گھنٹوں بعد وہ واپس چلا گیا… ماریہ کو ساتھ لیا… ڈنر کیا اور سب کچھ اوکے ہو گیا… پھر وہ ساؤتھ افریقہ آگئے…
ماریہ کے ساتھ اپنی پہلی لڑائی اور پاپا کے ساتھ پہلے مکالمے کے بعد اس نے خود پر بےغیرتی کے سب ہی دروازے کھول لیے… دراصل وہیں سے بہت سے دروازے بند ہو گئے… لیکن بند ہونے والے دروازوں کی پروا کرتا کون ہے… اب وہ اسے اپنی گرل فرینڈ سمجھ رہا تھا… جبکہ وہ اس کی بیوی تھی اور یہی بیوی نما گرل فرینڈ “کھل جا سم سم” تھی…
ساؤتھ افریقہ میں ماریہ کے مزاج کے مطابق دن گزار کر وہ امریکہ’ ہوسٹن آ گئے… دو منزلہ چھوٹا سا اسپتال تیار کیا تھا… تزئین و آرائش اس نے اپنی مرضی سے کروائی… جراحی آلات’ دیگر سازوسامان اپنی نگرانی میں منگوایا…
پہلی قسط اسپتال تیار تھا…
پاکستان سے اس کے پاپا’ ماما اور بہن آئی… سفید ربن کو اس کے سسر نے کاٹا… بلن بانگ قہقہہ اس کے پاپا نے لگایا… اس نے تالیاں بجائیں اور سب اسپتال میں داخل ہو گئے…
پاپا نے اسے ایک آنکھ ماری جیسے…
“اب کہو…… کیا خیال ہے…”
اس نے بھی جواباً یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو “جی…. کمال کا خیال ہے…”
اس افتتاح میں ماریہ شامل نہیں تھی… اس کی پروا کسے تھی… چند دن بعد وہ اسپتال آئی… ادھر ادھر گھوم پھر کر دیکھا… اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی… نہ جانے کیا ہوا… اس کی مسکراہٹ کے انداز پر عدن کا منہ بن گیا… لیکن ڈھیت ہی بنا رہا…
“جتنے مرضی طنز کر لے گدھی…” اسے ساتھ لے کر وہ لنچ کے لیے آ گیا…
ماریہ آج کل گھر سیٹ کر رہی تھی… حیرت کی بات تھی کہ اپنی ازدواجی زندگی کی بنیاد گھر کو وہ بہت دل جمعی سے سیٹ کر رہی تھی اور اس بنیاد کی بھی بنیاد “تعلق” پر اس کی نظر نہیں تھی… کبھی کبھار وہ اس سے بھی مشورہ لے لیتی….. اس کی پسند کا پوچھ لیتی… پورے گھر میں ڈرائنگ روم کی ایک سائیڈ ٹیبل عدن کی پسند کی آئی تھی… وہ بھی نہ آتی تو عدن کو فرق پڑنے والا نہیں تھا… یہی کافی تھی کہ ان کی بول چال میں تبدیلی آ گئی تھی… ہلکی پھلکی دوستی بھی ہو گئی تھی… ایک ساتھ پُرامن ڈنر کر لیتے… کبھی کبھار باہر چلے جاتے… سب ہی سُر نہ سہی’ ایک آدھ سُر ان کے رشتے کا ٹھیک بج ہی جاتا تھا… وہ اس کے لیے کریم کافی بناتی اور اس کی گردن پر ایک چٹکی بھرتی…
کبھی کبھی وہ خوامخواہ ہنسنے لگتی… جب وہ کار کا دروازہ کھولتا… کھانے کی میز کی کرسی کھسکا کر کھڑا رہتا…
“ڈیڈ ٹھیک کہتے ہیں…… ٹھیک….” انگلی لہراتی کہتی جاتی…
اور وہ ہر بار یہ پوچھنے کی غلطی نہیں کرتا تھا کہ ڈیڈ کیا کہتے تھے… ایک بار یہ عظیم غلطی کی تھی…
“ہوں……” اس نے صرف دو انگلیوں کو موڑ کر ٹھوڑی کے نیچے رکھا… ہونٹوں کو نیم وا کیا… بولی کچھ نہیں… آنکھیں ذرا سی ترچھی اس کی طرف نکالیں… عدن کو مارلن منرو کی مشہور زمانہ تصویر یاد آ گئی’ جو کالج کے دنوں میں اس کے باتھ روم کے دروازے پر چسپاں تھی… بعد ازاں اس نے اس کی جگہ کیٹی پیری کو چسپاں کر دیا تھا…
“انہوں نے کہا… وہ غلام علی غلام کا بیٹا ہے…. جیسے چاہے سدھا لو…”
عدن مسام ور مسام بھیگ گیا… پاکستان کے ٹاپر’ اپنے شعبے میں قابل اور باکمال ڈاکٹر عدن اپنا دم خم کھو بیٹھا…
“اور سنو….. انہوں نے کہا…. جو لوگ کاری ضرب دیتے ہیں… ان سے بچ کر رہنا… عدن سے تمہیں بچاؤ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی… اس میں اتنا دم خم نہیں ہے…”
بات کہہ کر نزاکت سے اٹھ کر وہ چلی گئی… جیسے فٹ بال میچ کے آخری لمحات میں فیصلہ کن گول کیا ہو اور اس کی ٹیم جیت گئی اور اتنی دیر سے جو وہ محتاط کھیل رہا
تھا…… وہ پوچھ لینے کی ایک بڑی غلطی کا مرتکب ہوا
تھا… بتا کر ماریہ نے اسے اور بڑا دشمن بنا لیا تھا…
کس بات کا دم خم؟ آنے والے وقت میں شاید وہ اسے بتا ہی دے گا… جتا بھی دے گا… اس کے ڈیڈ کے پاس صرف چند ہزار ملین ہی زیادہ تھے اس کے پاپا سے…… پیسے کا بس اتنا سا ہی فرق… ان کے پاس رقم روپوں میں تھی اور ان کے پاس ڈالروں میں… طاقت اور عقل تو مرد کے پاس ہی ہوتی ہے نا… تو اس طرف دو مرد تھے… عدن اور اس کے پاپا غلام علی غلام اور اس طرف صرف آغا عباس حیدر….. اور پھر عدن شوپر تھا… کتنے پوائنٹس تو ایسے ہی اپنے آپ مل جاتے ہیں… صرف شوپر ہی ہونے سے….. وہ لائق فائق ڈاکٹر تھا… دنوں میں ہی کہاں کا کہاں پہنچ جائے گا اور ماریہ…… حسن کی دیوی… اس حسن کے بل بوتے پر بھی ماڈلنگ کی فیلڈ میں کوئی نام نہیں بنا سکی… چند کمرشلز ہی کر سکی… باپ کا پیسہ بھی کام نہ دلوا سکا…. ہالی ووڈ کی فلمیں تو بہت ہی دور کی بات تھی… عدن کو خود کو مطمئن رکھنے کے لیے بہت سے فلسفے مل جاتے تھے… بہت سی خامیاں… اسے ہر جگہ اپنی ہی کامیابی نظر آئی
تھی…… کاری ضرب تو وہ واقعی شاید نہ ہی دے سکے… لیکن چھوٹی چھوٹی ضربیں وہ تیار کر سکتا تھا… جو کاری بن جائیں گی اکٹھی ہو کر….
وہ ماریہ سے فاصلے پر’ لیکن دوست بن کر رہنے لگا… وہ کیا کر رہی ہے…. کہاں آ جا رہی ہے… کس کس سے مل رہی ہے اور ایسی ہی دوسری باتیں امریکہ میں رہتے تو وہ پوچھ ہی نہیں سکتا تھا… اب اس نے توجہ دینی بھی چھوڑ دی… جب کبھی وہ اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی’ وہ چلا جاتا… وہی ماریہ کے ٹائپ کی پارٹیز…… وہاں وہ ناچتی……….
نچاتی….. لڑکھڑاتی اور واپس آجاتی… جی تو اس کا چاہتا کہ اسے کسی سڑک پر دھکا دے کر گرا دے اور کوئی کار اس کا سر کچل دے…. لیکن وہ اسے سہارا دے کر بیڈ تک لاتا… وہ جوتوں سمیت بیڈ پر اوندھی گر جاتی… عدن بڑبڑاتا اور دوسرے کمرے میں جا کر سو جاتا… پھر وہ اس کے ساتھ جانے سے ہی کترانے لگا… وہ بھی شوق میں اسے لے نہیں جاتی تھی… صرف وہیں جہاں کپل گیدرنگ ہوتی… وہ نہ جاتا تو ماریہ کے ڈیڈ اس پر چلّانے لگتے…
“تم سے شادی کس لیے کی ہے اس کی؟” سب نئے نئے فرعون بنے تھے شاید…باپ’ بیٹی ایک ہی انداز میں بات کرتے تھے… لفظوں کو چباتے ہوئے آواز کو دباتے ہوئے’ پھر بھی دل دہلاتے ہوئے…
عدن کو کیا معلوم کہ اس سے کیوں کی ہے… اسے تو صرف اپنی طرف کا ہی معلوم تھا…. وہی “کھل جا سم سم…”
“اس کے ساتھ جایا کرو… اس کا خیال رکھا کرو…”
مارے بندھے اسے جانا ہی پڑتا… پارٹیز میں وہ انجوائے تو بہت کرتا… لیکن ماریہ کا برتاؤ اس کے خون کا دباؤ بڑھا دیتا… وہ ہر کسی کی بانہوں میں جھول جاتی… گلے ملتی… گال سے گال رگڑتی اور….. اور…… اُف…..
ایسے وقت اسے مشکل لگتا… صرف اسے گرل فرینڈ
سمجھنا… غیرت اُمڈ اُمڈ آتی اس میں…
“تم روز روز ایسی پارٹیز میں آکر تھکتی نہیں…”
وہ دیر تک چھوٹے بچوں کی طرح نہ…… نہ…… میں گردن ہلاتی رہی… عدن اسے دیکھ کر رہ گیا… جس نے اپنے باپ کی نہیں سنی’ وہ اس کی کیا سنے گی…
“میں تمہارے ساتھ وقت گزارنے کے لیے ترس گیا ہوں…”
گولڈن ہائی ہیل اتار کر اس نے اپنی گود میں رکھی ہوئی تھیں… عدن کے اس طرح کہنے پر ایک ایک کر کے سینڈل اٹھائی اور لاپروائی سے اس کی طرف اچھال دی… ایک منہ اور ٹھوڑی سے رگڑ کھا کر کھڑکی کی طرف ٹک گئی اور ایک کندھے اور سینے کو چھو کر اس کی گود میں گری… اس انداز پر وہ جیسے چپ رہا’ وہی جانتا تھا…
“سچ؟” اس کی آنکھیں چمکنے لگیں…
اس بار عدن صرف مسکرایا…
“تم ایک قابل شوہر ہو…” اگلی بات نے اس کی مسکراہٹ کا گلا گھونٹ دیا اور وہ گلا پھاڑ کر ہنسی… ایک آنکھ دبا کر آنکھ ماری… اب اس کا جی چاہا کہ اسی کی ہائی ہیل سے اس کی یہی آنکھ پھوڑ ڈالے… لیکن کیسے پھوڑ ڈالتا’ اسپتال ابھی نیا نیا تھا… وہ بھی وہاں نیا تھا…
آنے والے دنوں میں وہ بھی تھوڑی قابل بیوی بننے لگی… میڈ کو دیکھ لیتی… گروسری کے لیے جاتی… اس کے لیے بھی شاپنگ کرتی… کبھی کبھار اسپتال آ کر اس کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا لیتی اور کبھی کبھار ہی اس کے چھوٹے بڑے کام بھی کر دیتی تھی… اب اسے ڈر لگتا تھا کہ یہ اچھی بیوی ہی نہ بن جائے… کیونکہ وہ اس سے محبت کرنے کے موڈ میں اب نہیں تھا… “اس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے…” اس کی فہرست میں نہیں تھا… “اس کے ساتھ وقت گزارنا ہے…” یہ ضرور فہرست میں درج تھا…
ویک اینڈ پر وہ ڈیڈ کی طرف چلے جاتے… اس کے ڈیڈ چپکے چپکے ماریہ کی طرف دیکھتے اور پھر اپنی بیوی کی
طرف… دونوں میاں’ بیوی نظروں ہی نظروں میں بہت کچھ کہہ سن لیتے… جیسے کہتے ہوں…
“دیکھو! دیسی ٹوٹکا کام کر گیا نا… بہل گئی نا ماریہ… ٹھیک ہو جائے گی… اور ٹھیک ہو جائے گی… دیسی گھی’ دیسی مرغی’ دیسی لوگ بہت کام کے ہوتے ہیں… دنیا گھوم پھر لو… اپنا دیس کام ضرور آتا ہے…”
اور ازبک بیوی جواب دیتی ہو… “ہاں! مان لیا…”
عدن ایسی نظروں کو پکڑ لیتا تو اور اکڑ جاتا… اس کے پاپا غلام علی غلام نے کہا تھا…
“عدن! کوئی تو وجہ ہے کہ اس کا جھکاؤ ہماری طرف زیادہ ہے…” اور وجہ یہی تھی کہ عدن جیسا قابل انسان ہی قابل شوہر بن سکتا تھا… ڈرنک اور سگریٹ تو ماریہ کے ناشتے کھانے تھے…
ازبک ماں نے کہا کہ وہ کسی طریقے سے ماریہ کو ان سے دور کرے… ان دونوں کا خیال تھا کہ ان دونوں میں کچھ تو محبت پیدا ہو ہی چکی ہے اور اس محبت کے نام پر ماریہ بہت کچھ کر لے گی…
عدن نے سب اٹھا کر پھینک دیا… ماریہ ہنسی…
“کسی نے آج تک اتنی جرأت نہیں کی…”
“میں جرأت بھی کروں گا اور اصرار بھی…” اس بار واقعی عدن نے ہمت سے ہی کام لیا تھا…
“آ…… آ…… آئی سی…” اس نے ابرو اچکا لی… پھر مسکرا دی…
عدن واقعی ایک قابل انسان تھا… ماریہ ذرا سا اور بدلی تو عدن کی یادداشت بھی کمزور ہونے لگی… وہ شیخ طاہرالبشر کو بھولنے لگا… ماریہ کے دوستوں’ بے تکلفی’ لاپروائی’ طنز’ لڑائی اور ادھر ادھر کے دوسرے چھوٹے بڑے واقعات کو بھی بھولنے لگا… ویسے بھی وہ مرد مومن تو تھا نہیں کہ حرف آخر رکھتا… نہ مرد آہن کہ ڈٹ جاتا… وہ ماریہ پر جان نثار کرنے لگا… نیا نیا عاشق سا لگنے لگا… دونوں ایک ساتھ گھومتے پھرتے’ مزے کرتے’ اکثر ماریہ کی فیملی بھی ساتھ ہوتی…
“ڈاکٹر صاحب! تم بہت شرارتی ہو…” اس کے گلے سے وہ جھول جاتی… جب کبھی وہ ساحل سمندر پر بیٹھ کر اسے خالص پاکستانی انداز میں کوئی دیسی لطیفہ سناتا……. اور وہ ریت پر لوٹ پوٹ ہو جاتی…
“مسز عدن!تم بہت خوب صورت ہو…”
“تم پکے فلرٹ ہو…”
“تم پکی کشمیر کی کلی ہو…”
“پاکستان تک نہ لے جاؤ مجھے’ میں اگر کچھ ہوں تو ازبک ہوں…”
“پاکستان تک تو آ گئی ہو…” اس نے دونوں بازوؤں کا گھیرا اس کے گرد بنایا…
“پھنسا لیا تم نے…”
“پھانس لیا تم نے…”
اس کی آنکھوں میں پھونک مار کر وہ بھاگی… آنکھوں کو جھپکتا وہ بھی اسی کے پیچھے بھاگا…
چند ہفتوں کے لیے وہ پاکستان سے بھی ہو آئے… غلام علی غلام نے زور’ زور سے اس کے کندھے پر تھپکیاں دیں… “ماسٹر نکلے تم تو بھئی…”
وہ مسکرانے لگا… جیسے نوبل انعام ملا ہو… شکریہ کی تقریر اسے ابھی کرنی تھی…
“گدھے کی بچی کو الو بنا لیا…” جناتی قہقہہ بلند ہوا… “کمال کر دیا’ بھئی واہ’ مزا آ گیا’ مزا آیا…” پھر رک کر اس کے کان میں سرگوشی کی… “دل لگی کر رہے ہو کیا؟”
وہ سٹپٹا گیا… ماریہ اسے اب پھر سے اچھی لگ رہی تھی… وہ اس کی محبت میں تیسری بار نئے سرے سے مبتلا ہو رہا تھا…
“جو بھی ہے’جاری رکھو….. گدھے کی گردن میں کتے کا پٹا ڈال دو’ بس پھر ٹھیک ہے؟”
“جی! ٹھیک ہے…” اس کا باپ کتے کا پٹا اسے ڈالنے کے لیے کہہ رہا تھا… وہاں وہ خود اس کے کتے جیسا تھا… اس کا باپ چاہتا تھا کہ وہ رنگ ماسٹر بن جائے… شیر سے بھیڑیے تک سب کو سدھا لے… وہ ایسا کر ضرور لیتا… اگر اپنے باپ کی طرح ہوتا… ابھی وہ نیا نیا تھا… کچھ کتابوں میں پڑھے اخلاق اس کے اندر تھے… کچھ ان سب کا ابھی وہ عادی نہیں ہوا تھا اور کچھ وہ کبھی کبھی کوفت کا شکار ہو جاتا تھا… ورنہ سب ٹھیک چل رہا تھا…
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...