دشت سے ایک اور مجنوں گھر گیا
دکھ ہوا سن کر کہ تو بھی مر گیا
آدمی کیا آدمی کی بات کیا
پھونک کیا اور پھونک کی اوقات کیا
یہ امیرِ سلطنت اور وہ غریب
یہ مریضِ لادوا اور وہ طبیب
کل کا وہ لڑکا وہ مردِ پختہ کار
وہ زنِ مشفق وہ طفلِ شیر خوار
ایک ابو جہل ایک محبوبِ خدا
ایک مردود ایک تجسیمِ صفا
کوئی عاقل تھا کوئی مجذوب تھا
کوئی عاشق تھا کوئی محبوب تھا
الغرض وہ چھاؤں تھی یا دھوپ تھی
آدمیت سب ترا بہروپ تھی
تو کبھی سائل کبھی بندہ نواز
تو یہاں گریاں وہاں نغمہ طراز
تو کہ دشمن تھا مرا تو یار تھا
تو وفادار اور تو غدار تھا
تھا تو لیکن آخرِ کار آدمی
پھونک اڑی تو خاک بھی اڑنے لگی
نام باقی بھی رہا تو بھی گیا
ہوتے ہوتے سب فنا ہو ہی گیا
کل مرے گا آج زندہ جو رہا
ہو رہے گا پھر جو پہلے ہو رہا
کس غلط فہمی میں جیتا رہ گیا
زخم کھا کر جیب سیتا رہ گیا
رہ گیا دنیا میں جنت ڈھونڈتا
سر منڈاتا سر سے اولے مونڈتا
گھر میں کھو کر ڈھونڈنے باہر چلا
ایک چابی ڈھونڈنے میں مر چلا
موت کے آگے جو کچھ شے ہی نہیں
زندگی یہ زندگی ہے ہی نہیں
ایک جھلکی جاودانی کی ہے بس
قلزموں سے بوند پانی کی ہے بس
ایک تمثیلِ وجودِ لامکاں
ایک تشبیہِ حیاتِ جاوداں
دل میں جو ہے اس سے کمتر ہے حیات
بت نہیں رستے کا پتھر ہے حیات
اور ہے کچھ ذائقہ چکھا ہوا
اور ہے کچھ سامنے رکھا ہوا
غم بشر کے اس کی خوشیاں اس کی ذات
بے ثبات و بے ثبات و بے ثبات
جو بھی پایا جاوداں رہتا نہیں
پانے والا خود یہاں رہتا نہیں
آدمی تھا تو میاں میری طرح
مجھ کو بھی مرنا ہے کل تیری طرح
میں ترا غم تو منانے سے رہا
کل کا جاتا آج جانے سے رہا
جینے دے مجھ کو جہاں تک جی سکوں
غم کی نسبت اس سے آگے کیا کہوں
ہر نفس ہے زندگی کا مرثیہ
آدمی ہے آدمی کا مرثیہ
۱۷ اگست، ۲۰۱۸ء
لاج
تو بےنیاز دو عالم سے میں غریب فقیر
گناہگار کو محشر میں بخش ہی دیجو
مگر حساب اگر ناگزیر ہو جائے
نبیﷺ کی آنکھ ذرا پھر بچا کے لے لیجو
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفیﷺ پنہاں بگیر
علامہ محمد اقبالؔ