ٹرین قریب آ چکی تھی۔ پتہ نہیں وہ بچہ پٹری پر کس طرح گر گیا تھا۔ دونوں طرف کھڑے ہوئے مسافروں نے چیخنا شروع کر دیا تھا۔ بچہ پٹری پر ہاتھ ٹیکے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر شاید اس کے کہیں گہری چوٹ لگی تھی۔ اس لیے اس سے اٹھا نہیں جا رہا تھا۔ لوگ ٹرین ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے بری طرح سے چیخ رہے تھے۔ غالباً ڈرائیور نے بھی بچے کو پٹری پر گرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ بوکھلا گیا تھا اور بریک لگاتے ہوئے وسل پر وسل دئیے جا رہا تھا مگر چلتی ہوئی ٹرین کا ایک جھٹکے سے رکنا آسان نہیں تھا۔ لوگوں کی چیخوں اور ٹرین کی سیٹی نے مل کر ایک عجیب دہشتناک شور پیدا کر دیا تھا۔ جو لوگ اس طرف متوجہ نہیں تھے اب وہ بھی متوجہ ہو گئے تھے اور سب مل کر بے تحاشا گلا پھاڑے جا رہے تھے۔
ٹرین اب صرف چند قدم کے فاصلے پر تھی اور اس کی رفتار اب بھی خاصی تھی۔ بچے تک پہنچتے پہنچتے ٹرین کے رک جانے کا کوئی امکان نہیں تھا اور بچہ ابھی تک پٹری پر ہاتھ ٹیکے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بچے کی موت یقینی تھی۔ لوگوں کے چہروں پر خوف و دہشت اور کرب کی لکیریں گہری ہو گئی تھیں۔ بچے کی ماں پلیٹ فارم پر کھڑی سینہ پیٹ رہی تھی اور لوگوں کو دہائی دے رہی تھی کہ وہ کسی طرح اس کے بچے کو پٹری سے اوپر گھسیٹ لیں مگر ٹرین بالکل قریب آ چکی تھی اور کسی بھی شخص کے لیے ایسا کرنا قریب قریب نا ممکن تھا۔ بچہ ایک ہاتھ اپنی ماں کی طرف اٹھائے پٹری سے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا، عورت اپنے بچے کی یہ حالت دیکھ بار بار پٹری کی طرف لپک رہی تھی اور لوگ اسے بار بار روک رہے تھے۔
اسی لمحہ ایک معجزہ ہوا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان بجلی کی تیزی کے ساتھ پلیٹ فارم سے پٹری پر کودا اور بچے کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹے ہوئے پٹری کی دوسری طرف لڑھک گیا۔ ٹرین کا اگلا حصہ اپنے بریک چرچراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ نوجوان کو کودتے دیکھ کر لوگوں نے بے اختیار چیخنا شروع کر دیا۔ مگر ان چیخوں میں نوجوان کی چیخ سب سے زیادہ تیز تھی۔ ٹرین چند میٹر آگے بڑھ کر پلیٹ فارم پر رک گئی اور لوگ پٹری پر کود کر نوجوان کے قریب پہنچے۔ بچہ بالکل صحیح سلامت تھا مگر نوجوان کے بائیں پاؤں کی تین انگلیاں ٹرین کے پہیوں کے نیچے کچل گئی تھیں۔ اور وہ درد سے بری طرح کراہ رہا تھا۔ لوگوں نے نوجوان کو سہارا دے کر اٹھایا۔ بچہ پہلے ہی کھڑا ہو چکا تھا۔ دونوں کو پلیٹ فارم پر لایا گیا۔ بچے کی ماں نے پہلے تو لپک کر اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لیا اور اسے بے اختیار چومتے ہوئے رونے لگی۔ پھر اچانک اس کی نظر نوجوان پر پڑی جو پلیٹ فارم کی ایک بینچ پر لیٹا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا اس کی کچلی ہوئی انگلیوں سے خون ٹپک رہا تھا اور کچھ لوگ اسے گھیرے کھڑے تھے۔ عورت تیزی سے آگے بڑھی۔ اس نے اپنی ساڑی کا آنچل پھاڑا اور اسے پانی میں بھگو کر نوجوان کے زخم پر باندھنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں اب بھی آنسو تھے۔ مگر وہ اس نوجوان کے لیے ممنونیت کے آنسو تھے۔ جذبات کی شدت سے اس کے ہونٹ پھڑ پھڑا رہے تھے۔ مگر آواز نہیں نکل رہی تھی۔ نوجوان نے آنکھیں کھولیں۔ عورت کی طرف دیکھا پھر اس لڑکے کی طرف دیکھا جو سہما سمٹا سا اس کے پاس ہی کھڑا تھا۔ نوجوان کے ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ لوگ اس کی بہادری اور جاں بازی کی تعریف کر رہے تھے۔ اتنے میں دو ریلوے مزدور اسٹریچر اٹھائے دوڑتے ہوئے آئے اور لوگوں نے مل کر اس نوجوان کو اسٹریچر پر ڈال دیا۔ عورت اب بھی کانپتے ہاتھوں سے اس کے پیروں کو تھامے کھڑی تھی۔ مزدوروں نے اسٹریچر اٹھایا اور اسٹیشن سے باہر نکلے۔ نوجوان کا ایک ساتھی ان کے ساتھ تھا۔ عورت اور بچہ بھی اس اسٹریچر کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ نوجوان نے پلٹ کر عورت کی طرف دیکھا اور درد کو دباتے ہوئے انتہائی نرم لہجے میں بولا۔ ’’بہن جی! اب آپ کشٹ نہ کریں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ بچے کو لے کر گھر جائیے۔‘‘
عورت نے احسان مندی کے جذبے سے سرشار ہو کر اس کی طرف دیکھا اور اس کے بازو کو دھیرے سے چھو کر اپنے بیٹے کی انگلی پکڑے ایک طرف ہٹ گئی اور مزدور اسٹریچر کو لیے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
اس کی زخم کی ڈریسنگ ہو گئی تھی۔ زخم زیادہ گہرا نہیں تھا۔ دو انگلیوں کے ناخن اکھڑ گئے تھے۔ ڈریسنگ کے بعد ڈاکٹر نے اسے گھر جانے کی اجازت دے دی۔ اس کا دوست اسے سہارا دے کر ہسپتال کی عمارت سے باہر لایا۔ ٹیکسی رکوائی۔ دونوں ٹیکسی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
دوست نے اس کے مرجھائے ہوئے چہرے کی طرف پر تشویش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’تکلیف بہت زیادہ ہے کیا؟‘‘
’’نہیں کوئی خاص تکلیف نہیں۔‘‘ نوجوان کے ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’تمہیں اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لینا چاہئے تھا۔‘‘
’’کمال کرتے ہو! ایک معصوم بچہ نظروں کے سامنے موت کے منہ میں جا رہا تھا۔ بھلا کیسے خاموش رہا جا سکتا تھا۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر۔۔۔‘‘
’’مگر کیا۔۔۔؟‘‘
’’شاید تم نے غور نہیں کیا۔ وہ عورت اور اس کا بچہ دوسرے فرقے کے تھے۔ میرا مطلب ہے وہ لوگ ہمارے مذہب سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ دوسروں کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا عقل مندی کی بات نہیں۔‘‘
’’اونہہ، ہٹاؤ یار۔ اس بچے کی پھٹی پھٹی خوفزدہ آنکھوں میں کچھ ایسی بات تھی کہ میں اپنے آپ کو روک نہیں سکا۔ بچہ بچہ ہوتا ہے خواہ کسی بھی مذہب کا ہو۔‘‘
’’اچھا بابا! اب زیادہ مت بولو۔ سیٹ کی پشت سے ٹک کر آرام سے بیٹھو۔‘‘
اچانک شہر میں فسادات پھوٹ پڑے۔ لوگ درندوں کی طرح ایک دوسرے کو بھنبھوڑنے لگے۔ فساد کا تیسرا دن تھا اور پورا شہر فساد کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔ امن پسند لوگ بری طرح خوف زدہ تھے۔ لوگوں کا اپنے بیس تیس سال کے پڑوسیوں پر بھروسہ نہیں رہا تھا۔ بچپن کے ساتھ کھیلے کھائے ہوئے دوست لاٹھیاں، بلّم لے کر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہو گئے۔ انسانیت، مروّت، دوستی، بھائی چارہ۔۔۔ سارے نازک جذبے نیزے کی نوک اور تلوار کی دھار پر تولے جا رہے تھے۔ عبادت گاہیں، سازشوں کے اڈے بن گئے تھے، جہاں روزانہ دشمن کو ختم کرنے کے منصوبے بنائے جاتے تھے۔
تیسری رات کو محلے والوں نے پڑوس کے دشمن محلے پر حملہ کرنے کا پلان بنا لیا۔ لاٹھیاں، بلم، سوڈا واٹر کی بوتلیں اور گھریلو دستی بموں کا کافی ذخیرہ جمع کر لیا گیا۔ رات کو بارہ کے بعد، حملہ کرنا طے پایا۔ وہ اس کارِ خیر میں پیش پیش تھا۔ مقر رہ وقت پر سب لوگ کیل کانٹے سے لیس ہو کر دشمن محلے کی طرف بڑھے۔ چند منٹ بعد ہی سارا محلہ درد ناک چیخوں اور فلک شگاف نعروں سے تھرّا اٹھا۔
’’مارو۔۔۔ کاٹو۔۔۔ جانے نہ پائے۔‘‘ کے شور سے آسمان کانپنے لگا۔ مکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ لوگوں کو گھروں سے گھسیٹ کر قتل کیا جانے لگا۔ مرنے والے جتنی کربناک چیخیں مارتے، مارنے والے اس سے زیادہ وحشیانہ قہقہے بلند کرتے تھے۔
وہ اپنے دو تین ساتھیوں کے ساتھ چن چن کر دشمنوں کا صفایا کر رہا تھا۔ اتنے میں سامنے کے جلتے ہوئے مکان سے ایک گھبرائی ہوئی عورت نکلی۔ اس کا سات آٹھ سال کا بچہ اس کی انگلی تھامے ہوئے تھا۔ عورت کے جسم پر لپٹی ہوئی ساڑی آدھی سے زیادہ جھلس چکی تھی۔ وہ وحشت زدہ سی اپنے بچے کی انگلی تھامے ایک طرف کو بھاگی۔ اچانک اس کی اور اس کے ساتھیوں کی نظر دونوں پر پڑ گئی۔
’’دیکھو، شکار جا رہا ہے۔ بچ کر نہ جانے پائے۔‘‘ وہ تینوں بھوکے بھیڑیوں کی طرح عورت پر ٹوٹ پڑے۔ پلک جھپکتے میں عورت کے جسم پر کپڑے کا ایک تار بھی نہ رہا۔ عورت اور بچے کی چیخیں انتہائی کربناک تھیں۔ عورت کو نیچے گرا کر اس کی چھاتیوں کو نیزوں سے چھید دیا گیا۔ جب عورت کی چیخیں بند ہو گئیں تو وہ لوگ پلٹے۔ مگر وہ ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا۔ عورت کی خون میں لتھڑی ہوئی لاش سے اس کا آٹھ سالہ بچہ لپٹا بری طرح رو رہا تھا۔ نوجوان ایک لمحے تک اسے دیکھتا رہا۔ اچانک اس کا نیزہ بلند ہوا اور ایک ننھی طویل چیخ فضا میں بہت دور تک لہراتی چلی گئی۔ اس کے ساتھی چند لمحوں تک سکتے کی سی حالت میں کھڑے خاک و خون میں تڑپتی اس ننھی سی لاش کو دیکھتے رہ گئے۔ اتنے میں پولس کے سائرن کی آواز آئی اور سب بھاگو، بھاگو، چلاتے ہوئے اپنے اڈے کی طرف لوٹ گئے۔
’’تم نے کتنے شکار کئے؟‘‘
’’تین‘‘
’’اور تم نے؟‘‘
’’ساڑھے تین‘‘
’’ہا ہاہا۔۔۔ ساڑھے تین کا کیا مطلب؟‘‘
’’دو مرد، ایک بچہ اور ایک عورت۔‘‘
اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ بچہ وہی نا۔۔۔ جسے پیپل کے نیچے تم نے نیزے سے چھید دیا تھا؟‘‘
’’ہاں وہی۔‘‘
’’اس وقت میں بھی تو موجود تھا مگر یار بچے کی آخری چیخ نے مجھے اندر تک دہلا دیا تھا۔‘‘
’’تم کم بخت ہو ہی کمزور دل کے!‘‘
’’نہیں یار! آخر بچے کا مذہبی جھگڑوں، ٹنٹوں سے کیا واسطہ؟‘‘
’’تم سمجھتے نہیں۔ سانپ کے ساتھ سنپولے کا سر بھی کچل دینا چاہیے۔‘‘
نہیں، آپ جیسا سوچ رہے ہیں، ویسا نہیں تھا۔ وہ بچہ وہ نہیں تھا جو ریل کی پٹری پر گرا تھا۔ وہ عورت بھی وہ نہیں تھی۔ وہ شخص بھی وہ نہیں تھا جس نے ریل کی پٹری پر بچے کی جان بچائی تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر وہ سب لوگ وہ نہیں بھی تھے تو انسان کی بربریت پر کیا فرق پڑتا ہے!
٭٭٭