بیتی باتوں سے من کھٹا ضرور ہوا تھا۔ پھر بھی سڑک پر گشت لگانے والا پولیس حوالدار اور لال روشنی میں بھیگی وہ ویشیا من میں گہرے بیٹھ چکے تھے۔ وہ دونوں مجھ سے باتیں کرتے تھے۔ کئی بار تو میں اپنے ہی وچاروں میں اس طرح کھو جاتا کہ اور کسی بات کا ہوش حواس تک نہ رہتا۔ بھاسکرراؤ کے ساتھ میری کئی بیٹھکیں ہونے لگیں اور ‘آدمی’ روپ لینے لگی۔
آج تک کی سبھی فلموں کے ہیرو سے ‘آدمی’ کا ہیرو مکمل نرالا بنانا طے کیا۔ عام فلموں کا ہیرو ہمیشہ تمام خوبیوں کا پتلا، دِکھنے میں سُندر، بہت بہادر اور نہ جانے کیا کیا نہیں ہوتا تھا۔ ان سبھی پرانے خیالات کی لیک سے ہٹ کر ‘آدمی’ کا ہیرو عام آدمی جیسا ہو، اس کے اندر وہ سبھی خامیاں اور خوبیاں ہوں جو عام آدمی میں پائی جاتی ہیں، یعنی وہ ایک دم ‘اینٹی ہیرو’ ہو، اِس طرح اُس کی تخلیق کرنا میں چاہتا تھا۔
ہیروئین تھی ایک ویشیا، مجبوری کے کارن اس پیشے میں پڑی۔ جیون میں بہت سی تھپیڑیں کھا چکنے کے کارن پتھرائی سی، کچھ چالو، خود غرض، لیکن پھر بھی اتنی ہی بھولی بھالی اور دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنے والی، کسی خاندانی عورت کی طرح جیون بِتانے کے سپنوں میں کھونے والی اس طرح کے باہمی مخالف رنگوں میں رنگی ہوئی ہیروئین کو میں نے بیان کیا۔
بھاسکرراؤ امیمبل نے میرے اس بیانیہ پر مبنی دونوں اہم شخصیتوں کو تحریر کیا اور پورا سکرین پلے تیار کیا۔ کہانی بہت ہی چست، چھوٹی، پھر بھی چُھو جانے والی بن پڑی۔ ان دنوں اپنے ترقی پسند وچاروں کے لیے مشہور لیکھک اننت کانیکر نے مراٹھی ورژن کے مکالمے لکھے اور ہندی کے لیے وہ کام منشی عزیز نے کیا۔ سنگیت سنوارنے کا کام ماسٹرکرشن راؤ کو سونپ دیا گیا۔
میں چاہتا تھا کہ اس فلم کی ساری تکنیک ہی ایک دم نئی ہو۔ لیکن ٹھیک ٹھیک کیسی ہو، اس کی کوئی واضح سوچ بن نہیں پا رہی تھی۔ فلم کی ریہرسل شروع ہو گئی۔ عام طور پر میرا رواج یہی تھا کہ ریہرسل سے پہلے ہر سین کا تخیل، اسے کیسے کیسے آگے بڑھانا ہے، اس سے کیا اثر متوقع ہے، کیسے اس میں رنگ اور رس بھرنے ہیں، اس کا واضح خاکہ من میں تیار کر لوں۔ لیکن اس بار میں خود بہت ہی تذبذب میں تھا۔ آخر میں یہی سوچ کر کہ ریہرسل کرتے کراتے ہی فلم کے مختلف منظروں کا تانا بانا من میں برابر بن جائے گا، میں نے بڑی محنت سے ریہرسل کرانا شروع کر دی۔ کسی ایک ہی سین کو الگ الگ ڈھنگ سے بنانے کی کوشش کرنے لگا۔ اور مجھے نت نئے خیالات سوجھنے لگے۔ فتے لال بھی سیٹ کی تصویریں بنانے میں لگ گئے۔ جانداری اور حقیقت لانے کے لیے مَیں فتے لال جی کو ساتھ لیے چکلہ بستیوں کی ہر گلی چھاننے لگا۔ پولیس والوں کی ہر بستی میں ہم لوگ ہو آئے۔ اس کے بعد انہوں نے سیٹ لگوانا شروع کیا۔ بمبئی کی بھونڈی، بھدی بستیوں کی چال، پولیس کی بیرکیں یا داروغہ کا تھانہ، سب کو میں اتنا اصلی بنانا چاہتا تھا کہ ناظرین کو ایسا لگے کہ ہم لوگوں نے ان موقعوں پر وہاں جا جا کر ہی شوٹنگ کی ہے۔
جیسے جیسے ریہرسلز ہونے لگیں، سین کی شوٹنگ کے مختلف آئیڈیاز اور استعمال میں لانے لائق علامتوں کی جیسے جھڑی سی لگ گئی۔ ان میں سے کِسے لینا، کِسے چھوڑنا، اس کی کنفیوژن ہونے لگی۔ دل و دماغ پر بس ایک ہی دھن سوار ہو گئی کہ کیسے ‘آدمی’ کو انتہائی حقیقی بنایا جائے۔
شوٹنگ شروع ہوئی اور ہم سب پر فلم میکنگ کا نشہ سا سوار ہو گیا۔ اس میں کتنا لطف آتا تھا، لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہم لوگ کام میں اتنے مست ہو جاتے تھے کہ دن ڈوب بھی گیا تب بھی لگتا تھا کہ شوٹنگ کبھی رکے ہی نہیں، بس چلتی ہی رہے۔ فلم کا ہیرو گنپت اپنے سینئر ساتھیوں کے ساتھ جوۓ کے کسی اڈے پر چھاپہ مارتا ہے۔ وہاں وہ ایک ویشیا کو جس کا نام کیسر ہوتا ہے، پکڑ لیتا ہے۔
اس کے ساتھ وہ اسی حقارت سے باتیں کرتا ہے جیسی کسی مجرم کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ وہ اس کے سبھی سوالات کا لا پرواہی سے جواب دیتی تو ہے، لیکن اس کے جوابوں سے اس کے من میں مہذب سماج کے لیے جو کڑواہٹ کوٹ کوٹ کر بھری ہے، صاف ابھر آتی ہے۔ انجانے میں اُس کا درد اُس کٹھور پولیس سپاہی کے من کو چھو جاتا ہے۔ اس سین میں اس سخت پولیس جوان کے منہ میں کوئی مکالمے ڈالے جاتے تو ایک دم بے تکے سے لگتے۔ کیسر اور گنپت جب سڑک پر چلتے رہتے ہیں، تو ادھر سے کسی دوسرے پولیس سپاہی کی سیٹی سنائی دیتی ہے۔ قدموں کی آہٹ سے لگتا ہے کہ سیٹی بجانے والا وہ دوسرا پولیس والا ان دونوں کے پاس آتا جا رہا ہے۔ گنپت فوراً کیسر کو کسی اوٹ میں دھکیلتا ہے اور اپنا اوور کوٹ اس پر پھینکتا ہے، تاکہ کیسر اُس دوسرے پولیس والے کو دکھائی نہ دے۔ وہ پوری طرح سے کوٹ کے پیچھے چھپ جاتی ہے، بچ جاتی ہے۔ اِس چھوٹے سے عمل کے ذریعے گنپت ناظرین کو یہ محسوس کراتا ہے کہ اس کے من میں کیسر کے لیے ہمدردی جاگتی ہے۔ اس سین کا جو اثر اس واقعہ کے کارن ممکن کیا گیا، وہ ہزار لفظوں سے بھی کبھی نہ ہو پاتا۔
ایک بار فلم کی ہیروئین کیسر کے کوٹھے کے ایک سیٹ پر شوٹنگ جاری تھی۔ سین کافی نزاکت بھرا تھا۔ ہم لوگ اس میں رنگ گئے تھے۔ تبھی شانتا آپٹے کے بھائی بابوراؤ بڑی جلدی جلدی سیٹ پرآئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر منت بھری آواز میں کہنے لگے، “شانتارام بابو، پہلے میرے ساتھ آئیے! دیکھیے بھی ادھر امی کیا کیا کر رہی ہے! (بابوراؤ اپنی بہن کو امی کہا کرتے تھے) وہ کواڑ اندر سے بند کر بیٹھی ہے۔ میں نے اسے آواز دی تو پاس پڑا پیپرویٹ اس نے کھڑکی سے مجھ پر پھینکا۔ آپ پہلے چلیے!”
وہ مجھے لگ بھگ کھینچ کر ہی وہاں سے لے گئے۔
زینہ چڑھ کر میں شانتا آپٹے کے کمرے کی طرف گیا۔ بابوراؤ مجھے کھینچ کر کھڑکی کے پاس لے گئے۔ میں نے اندر جھانک کر دیکھا، تو وہاں ایک عجیب حال تھا؛ شانتا آپٹے ایک کرسی پر لاش جیسی جڑوت بیٹھی تھیں۔ بابوراؤ نے بتایا کہ فتے لال جی نے اسے ڈانٹا اور غصے میں آ کر اسے پیٹنے کے لیے اپنی چھتری بھی اٹھائی۔ ان کی باتیں سننے کے لیے میں وہاں رُک ہی نہ پایا۔ دندناتا ہوا زینہ اتر کر فتے لال جی کے کمرے کی طرف چل پڑا۔
‘دنیا نہ مانے’ فلم کے بعد شانتا آپٹے کافی مشہور ہو چکی تھیں۔ کافی دنوں کے لیے وہ جنوب میں سیر کرنے گئی تھیں۔ ادھر کے جذباتی لوگوں نے اس کا کافی پیارو محبت سے استقبال کیا تھا۔ عوام کے اس پیار، استقبال اور مہمان نوازی کی وجہ اسے اور بابوراؤ کو بے حد خوشی ہوئی تھی، جیسے آسمان ہاتھ آ گیا ہو۔ شانتا آپٹے جنوب کا دورہ کر واپس لوٹی تو اس کی ساری Paid leaves کے دن ختم ہو چکے تھے اور اوپر کچھ زیادہ ہی دن بیت چکے تھے۔ اُن دنوں دستور یہ تھا کہ ہماری کمپنی کے بڑے سے بڑے کلاکار کو یا تکنیکی ماہر کو بھی کام پر آتے ہی برابر attendance sheetپر دستخط کرنے پڑتے۔ paid چھٹی سے زیادہ دن غیر حاضر رہنے پر ان اضافی دنوں کی تنخواہ کاٹ لی جاتی تھی۔ لہذا اصول کے مطابق شانتا کی تنخواہ بھی کاٹی گئی اور باقی رقم اسے دی گئی۔ اس نے پیسے لینے اور attendance sheet پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ سب واقعہ ہوا تب میں تو ‘آدمی’ کی شوٹنگ میں مصروف تھا۔ لہذا اکاؤنٹنٹ نے معاملہ فتے لال جی کو سنایا۔ وہ شانتا کے کمرے میں جا کر اسے سمجھانے لگے تو وہ ایک دم جھنجھلا اٹھی اور سب کو کمرے سے باہر کر اس نے کواڑ اندر سے بند کر دیے۔
شانتا آپٹے کے اس طرح ادھم مچانے پر مجھے غصہ آیا۔ میں پھر تمتماتا ہوا سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا اور کھڑکی کے پاس جا کر اسے ڈانٹ کر بولا، “شانتا بائی، اٹھو!” میری آواز سنتے ہی وہ تڑاخ سے کھڑی ہو گئی۔ میں نے پھر حکم دیا، “دروازے کی کنڈی کھولو!” کسی کٹھ پتلی کی طرح اٹھ کر اس نے دروازہ کھولا۔
میں کمرے میں پہنچا۔ وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے پتہ نہیں کہاں کسی خلا میں دیکھ رہی تھیں۔ میں نے پہلے جیسے ہی ڈانٹ بھری آواز میں کہا، “کرسی پر بیٹھو!” وہ میری نظر سے نظر ملانے سے ڈر رہی تھیں۔ میں نے بابوراؤ کی طرف مڑ کر انہیں سے کہا، “نیچے جائیے اور ایک کپ کافی لے آئیے۔” بابوراؤ گئے اور کافی لے کر آ گئے۔ میں نے شانتا بائی سے کہا، “یہ کافی پی لو!” اس نے وہ گرم کافی پانی جیسے ایک ہی سانس میں پی ڈالی۔ تب میں نے کہا، “اب آپ بابوراؤ کے ساتھ گھر جائیے!” وہ کسی مشین کے طرح چل کر کمرے کے باہر جانے لگی۔ بابوراؤ بھی اس کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔
شانتا بائی کو سنائی دے اتنی آواز چڑھا کر میں نے بابوراؤ سے کہا، “کل صبح شانتا بائی کو لے کر کمپنی میں آئیے۔ صاحب ماما سے بات کر ساری غلط فہمی دور کر لیں گے۔ ”
دھت۔۔۔ ماں کی! شوٹنگ کتنی رنگ پر آئی تھی اور یہ بےکار کی جھنجھٹ نہ جانے کہاں سے آ کھڑی ہوئی۔ اس کے کارن میں کافی پریشان رہا۔ قدم اپنے آپ اپنے آفس کی طرف مڑے۔ وہاں تھوڑی دیر میں اکیلا ہی بیٹھا رہا۔ شوٹنگ رکی پڑی تھی۔ نہیں، ایسا کرنے سے کام کیسے چل سکتا ہے؟ جو بھی ہو، آج کی شوٹنگ تو پوری کرنی ہی پڑے گی۔ شانتا آپٹے کے اس واقعہ سے من ہٹا کر میں پھر سے آج کی شوٹنگ پر مرکوز کرنے لگا۔ ناخوشگوار وچار آہستہ آہستہ چھنٹتے گئے۔ میں پھر شانت من سے شوٹنگ کرنے کے لیے سٹوڈیو کی طرف مڑا۔
دوسرے دن سویرے پونے نو بجے میں سٹوڈیو میں آ گیا۔ پہرے دار نے مجھے دیکھ کر ہمیشہ کی طرح سلام کیا۔ میں نے بھی عادت کے مطابق اپنا ہاتھ اونچا اٹھا کر سلام قبول کیا۔ چپڑاسی سے آنکھیں چار ہوتے ہی اس نے head attendance کے برآمدے کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے بھی اُدھر دیکھا۔ ایک بینچ پر شانتا آپٹے سوئی پڑی تھی۔ بابوراؤ بھی وہاں کھڑے کھڑے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے ان کے پاس جا کر حیرانی سے پوچھا، “آخر یہ سب ماجرا کیا ہے؟”
انہوں نے کہا، “کل کمپنی میں جو واقعہ ہوا، اس کے کارن امی اپنے آپ کو بہت ہی بےعزت محسوس کر رہی ہے اور اسی لیے اس نے یہاں بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔” شانتا بائی کے پاس جا کر میں نے اسے آواز دی، سنتے ہی اس نے آنکھوں پر کس کر رکھا ہاتھ کچھ ہٹایا اور مجھے دیکھا اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ پھر فوراً ہی اس نے اپنی آنکھوں کو کس کر ڈھانپ لیا۔
“شانتا بائی، یہ کیا پاگل پن لگا رکھا ہے! میں نہیں سوچتا صاحب ماما جان بوجھ کر تمہیں بےعزت کریں گے۔ لیکن مان لو بھولے میں انہوں نے ویسا کیا بھی، تو میں تمہیں پھر بتاتا ہوں، ہم لوگ آپس میں بیٹھ کر ساری غلط فہمیاں دور کر لیں گے۔”
شانتا بائی اپنا رونا روک کر لیکن منہ پر سے ہاتھ نہ ہٹاتے ہوئے بولی، “اب اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا! آپ تو انہیں کی باتوں کو سچ مانیں گے۔ پھر اب آپ کو میری ضرورت بھی تو نہیں رہی۔ ‘آدمی’ کی ہیروئین کا کردار میں نے کتنی بار آپ سے مانگا، پھر بھی آپ نے وہ مجھے نہیں دیا!”
یہ سچ ہے کہ اس نے وہ کردار لینے کی ضد کی تھی، لیکن میں نے تب بھی اسے سجھا بجھا کر کہا تھا، “یہ کردار تو عمر میں کچھ بڑی، ادھیڑ عمر کی طرف بڑھتی عورت کو ہی پھبے گا۔ تم اس کام کے لائق نہیں ہو۔ پھر اس طرح کا رول کرنا تمہارے لیے مشکل بھی ہو گا۔ اگر اس کردار کو اچھی طرح نہیں نبھایا، تو ‘دنیا نہ مانے’ کے کارن تمہاری جو شہرت پھیلی ہے، دھندلی ہو جائی گی۔”
لیکن عورت ہٹ ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے سامنے دنیا کی ساری دلیل بیکار ہو جاتی ہے۔ کم سے کم اس سمے تو اسے شانت کرنے کے لیے میں نے کہا، “میں آپ کو آئندہ فلم میں بہت اچھا کام دوں گا، جس سے تمہارا نام اور پھیلے گا۔” میرا اندازہ تھا، یہ سن کر وہ کچھ خوش ہو جائے گی اور بھوک ہڑتال کا یہ تماشا بند کر دے گی۔ لیکن وہ ہونے سے رہا۔ وہ بولی، “مجھے اب ‘پربھات’ کے فلم میں کام نہیں کرنا ہے۔ آپ مجھے کانٹریکٹ سے آزاد کر دیجیے!”
کانٹریکٹ سے آزاد کرنے کی بات اس کے منہ سے سنتے ہی میں آپے سے باہر ہو گیا۔ میں نے بھی آواز چڑھا کر کہا، “کانٹریکٹ سے آزاد ہونے کے لیے ہی تم نے یہ بھوک ہڑتال کی ہو تو کان کھول کر سن لو، ‘پربھات’ کے ساتھ کیے گئے کانٹریکٹ سے تمہں ہرگز آزاد نہیں کیا جا سکتا۔ ‘پربھات’ نے تمہیں اتنا نام دیا، شہرت دلائی، اسی کی عزت ایسے ناٹک رچ کر تم کم کرنے جا رہی ہو۔ اس طرح کا طرز عمل کرنے والے کسی شخص کے بھی لیے میرے من میں کوئی عزت نہیں ہے— چاہے وہ شخص کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ تمہیں آخری بار وارننگ دیتا ہوں: بھوک ہڑتال کا یہ بےکار کا جھنجھٹ چھوڑ دو، سٹوڈیو میں چلو۔ بیکار کا تماشا کھڑا نہ کرو!”
میں نے اتنا سمجھایا، پھر بھی شانتا بائی نے کہا “میں آپ کے سٹوڈیو میں اب قدم بھی رکھنا نہیں چاہتی۔ جب تک آپ کانٹریکٹ سے آزاد نہیں کرتے، میں یہاں سے ہٹوں گی نہیں!” اب میری قوت برداشت کا باندھ ٹوٹ گیا۔ میں نے اس سے صاف کہہ دیا، “اس کے بعد میں تمہیں سمجھانے کے لیے بھی نہیں آؤں گا۔ اس بھوک ہڑتال کے کارن تمہیں کچھ ہو گیا، تب بھی ادھر جھانکوں گا نہیں۔”
شانتا آپٹے کے اندر جو کلاگن ( فنی خوبیاں) تھے، گائیکی میں جو ہنر تھا اور اپنی اداکاری سدھارنے کے لیے اس نے جو کڑی محنت کی تھی، اس کے کارن اُس کے لیے میرے من میں کاروباری ستائش کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ ایک بار تو اس نے ایسی ہمت دکھائی تھی کہ اس کے کارن میرے من کے کسی کونے میں اپنے لیے تھوڑی سی جگہ بھی بنا لی تھی۔ بمبئی کے فلم انڈیا ماہنامہ میگزین کے ایڈیٹر نے شرارت سے اس کے بارے میں کچھ بدنامی کرنے والا مواد چھاپا تھا۔ تب شانتا بائی بینت کی چھڑی لے کر اس میگزین کے ایڈیٹر بابوراؤ پٹیل کے آفس میں گئی تھیں اور اس کی ایسی پٹائی کی تھی کہ پوچھیے نہیں۔ اس کے بعد وہ فوراً پونا آئیں اور سارا قصہ مجھے بتا دیا۔ اس کے اس کارنامے پر ناراض نہ ہو جاؤں اس لیے وہ زنانہ رویے کے کارن خود ہی رونے لگی تھیں۔ میں نے اس کو تسلی دی تھی۔ میرا خیال ہے کہ کسی نٹ کھٹ ایڈیٹر کو بینتیں جما کر سبق سکھانے والی شاید شانتا آپٹے پہلی سینما ایکٹر تھی۔
آج بھی اس معاملے کے خلاف جسے وہ اپنے ساتھ کی گئی ناانصافی مانتی ہے، بھوک ہڑتال کرنےکی ہمت اس نے دکھائی تھی۔ یہ بھی ایک لحاظ سے میرے من میں ستائش کا ہی موضوع تھا۔ لیکن، جس ‘پربھات’ نے اس کے اندر کے کلاگنوں کو آسمان پر لا کر اسے شہرت کی چوٹی پر پہنچایا تھا، اسی ‘پربھات’ کے نام پر اس طرح بھوک ہڑتال کے ذریعے کیچڑ اچھالنے کی اس کی یہ کوشش مجھے قطعی پسند نہیں تھی۔ میں نے من ہی من فیصلہ کیا کہ پہریدار کے جس کمرے میں وہ مزاحمت کرنے بیٹھی ہے، اس راستے اس کے وہاں بیٹھی رہنے تک آنا جانا بند رکھوں گا۔ وہاں سے میں سیدھے سٹوڈیو گیا۔ بڑھئی کو بلوایا اور اسے ہدایت دی کہ کمپنی کے احاطے کی دوسری طرف جو باڑ لگی ہے اسے ہٹوا کر وہ وہاں سے آنے جانے کا راستہ فوراً تیار کرے۔ تبھی داملے جی، فتے لال جی بھی کمپنی میں آ گئے۔ میں نے انہیں شانتا بائی اور میرے بیچ ہوئی ساری باتیں بتا دیں۔ تبھی کسی نے ہڑبڑاہٹ میں آ کر بتایا کہ “گیٹ پر بابوراؤ ہاتھ میں بندوق لیے شانتا بائی پر پہرہ دے رہے ہیں!”
یہ سوچ کر کہ ان بہن بھائی کے عجیب و غریب طرز عمل پر کوئی دھیان نہ دیا جائے، میں سیٹ پر چلا گیا۔ من کو یکسو کرتے ہوئے کام کرنا شروع کیا۔ دھیرے دھیرے کام نے ہمیشہ کی طرح رفتار پکڑی۔ تبھی پہلے والی خبر دینے والے اسی آدمی کو پھر سیٹ پر آتے میں نے دیکھا۔ اسے پاس بلا کر پوچھا تو اس نے بتایا کہ، “انّا، بابوراؤ کی پلاننگ پر کچھ رپورٹر آئے ہیں اور وہ شانتا بائی سے انٹرویو کر رہے ہیں۔”
میرے غصے کا ٹھکانا نہ رہا۔ میں نے اس آدمی کو بتا دیا، “انہیں جو جی میں آئے، کرنے دو، مجھے تو اپنا کام کرنا ہے!” کیمرا مین کی طرف مڑ کر میں نے پوچھا، “اودھوت، تم تیار ہو نا؟”
“جی ہاں، انّا۔”
“ٹھیک ہے، چلیے سب لوگ تیار۔ شاٹ لینا ہے۔ ٹیک۔”
‘ٹیک’ کہتے ہی پربھات کے پورے خاندان میں ‘خاموش’ رہنے کا اعلان دینے والے بھومپو بج اٹھے۔ اس دن میں ایک کے بعد ایک لگاتار شاٹس لیتا گیا۔ میں بھی ضد پر اتر آیا تھا اس لیے یا میرے غصے سے ڈر کر سبھی لوگ پورا دھیان لگا اپنا اپنا کام کیے جا رہے تھے۔ اس لیے میری شوٹنگ کا کام زیادہ تیزی سے ہونے لگا تھا۔ ہر شاٹ کے شروع کے سمے پربھات احاطہ بھونپوؤں کی آواز سے لگاتار دندنا جاتا تھا۔ وجہ یہی تھی کہ شانتا بائی اچھی طرح سمجھ لے کہ اس کی بھوک ہڑتال کے کارن میں ذرا بھی متاثر نہیں ہوا ہوں۔
شام ہو گئی۔ بڑھئی نےجو نئی راہ بنائی تھی، اسی سے میں سٹوڈیو کے باہر گیا۔ یہ سوچ کر کہ دن بھر بھوکے پیاسے رہنے کے کارن ممکنہ طور بھائی بہن کی عقل ٹھکانے آ گئی ہو گی، وِمل کو میں نے ان دونوں کے لیے بھوجن کا ڈبہ اور دو تھالیاں نوکر کے ہاتھ بھجوا دینے کے لیے کہا۔ ساتھ میں ان کے لیے پیغام بھی بھجوا دیا، “کھانا کھا لو۔ بھوکے مت رہو۔” لیکن وہ ڈبہ جیسا کا تیسا لوٹا دیا گیا۔ دوسرے دن اخباروں میں شانتا بائی کی بھوک ہڑتال کی خبر بڑی موٹی سرخیوں کے ساتھ چھپی۔ وہ زمانہ مہاتما گاندھی کی ستیاگرہ تحریک کا تھا۔ نتیجتاً ایک مقبول اداکارہ کی بھوک ہڑتال کی خبر ‘ٹائمز آف انڈیا’ جیسے وزن دار اخبار میں بھی ‘کرنٹ ٹاپکس’ میں بڑے چاؤ سے چھپ گئی۔ چھپے الزامات کی تردید کرنےکی ضرورت میں نے محسوس نہیں کی۔ لیکن ایک ڈر سا ضرور لگ رہا تھا کہ اس ہٹ دھرمی کے کارن کہیں شانتا بائی کو کچھ ہو نہ جائے!
اپنا ڈر میں نے داملے جی کو بھی سنا دیا۔ تو وہ ایک دم ٹھنڈی آواز میں کہنے لگے، “وہ کبھی مرنے والی نہیں ہے! شانتا بائی جہاں ستیاگرہ کر رہی ہیں، اس کے پیچھے ہی ہماری کنٹین کا ایک دروازہ ہے۔ اس کی دراڑوں میں سے ٹوہ لیتے رہنے کے لیے میں نے ایک آدمی کو تعینات کیا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس کے پاس پانی کا جو لوٹا رکھا ہے اس میں پانی نہیں، دودھ ہے اور بابوراؤ تھوڑے تھوڑے سمے بعد اسے وہ دیتے رہتے ہیں۔”
اور ایک دن ایسے میں ہی بیت گیا۔ بیچ میں بابوراؤ جا کر کسی ڈاکٹر کو لے آئے۔ اس ڈاکٹر نے دونوں کو گمبھیر وارننگ دی کہ بھوک ہڑتال اور ایک دن جاری رکھی تو اس کا شانتا بائی کی آواز پر برا اثر ہو جائے گا۔ ممکن ہے ان کے گلے کے vocal cords ہمیشہ کے لیے بے کار ہو جائیں۔
دوسرے دن ہمیشہ کی طرح شوٹنگ شروع کی۔ کام کرتے کرتے بیچ ہی میں شانتا بائی کی بھوک ہڑتال کا خیال من میں آتا اور من بے چین ہو اٹھتا۔ لیکن میں اپنے آپ کو سمجھاتا تھا کہ کچھ بھی ہو، اپنے کام میں کسی بھی طرح کی ڈھیل نہیں آنے دینی ہے۔ یہی سوچ کر میں نے اس دن کی شوٹنگ پوری کر لی۔
ہمیشہ کی طرح رات میں مَیں دوسرے دن کی شوٹنگ کا سنیریو لکھنے بیٹھا تھا۔ ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ تبھی دروازے پر کسی نے گھنٹی بجائی۔ نوکر نے دروازہ کھولا۔ تھوڑی ہی دیر میں سنیریو لکھنے کی میری کاپی پر سامنے کی طرف سے دو پرچھائیاں پڑیں۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا: ‘دینک گیان پرکاش’ کے ایڈیٹر کاکا صاحب لِمیے اور ان کے ساتھ پ۔کے۔اترے سامنے کھڑے تھے۔ میں نے لپک کر ان کا استقبال کیا اور تشریف رکھنے کے لیے درخواست کی۔ لیکن انہوں نے کھڑے کھڑے ہی کہا، “شانتا آپٹے بھوک ہڑتال توڑ کر گھر جانے کے لیے تیار ہیں، بشرطےکہ آپ خود جا کر اسے ویسا کہیں۔ پھر وہ کمپنی کے دروازے پر دیا گیا دھرنا اٹھا کر چلی جائےگی۔” میں بھی اپنی ضد پر اڑا تھا۔ میں نے ان دونوں سجنوں کو بتایا، “اجی، یہی بات میں نے پہلے ہی دن اس سے زیادہ اچھی طرح سے سمجھائی تھی۔ لیکن شانتا نے میری ایک نہ سنی۔ الٹے، رپورٹرز کو انٹرویوز دے دے کر اس نے میری ‘پربھات’ کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ میں ہرگز نہیں آؤں گا اب اسے منانے کے لیے!”
میری بات سن کر لِمیے جی مجھے سمجھانے لگے، “شانتارام بابو، آپ اپنا غصہ اب تو چھوڑیے، مالک مزدور، یا ڈائریکٹر کلاکار کے طور آپ نہ سوچیے۔ صرف انسانیت کی نظر سے دیکھیے۔ ہماری راۓ میں آپ ایک بار خود جا کر اسے گھر چلی جانے کے لیے صرف کہہ دیں۔ صرف انسانیت کے احساس کے نقطہ نظر سے سوچیے۔”
حالانکہ میں چاہتا تو نہیں تھا، لیکن اپنی خواہش کے خلاف ان دونوں کے ساتھ میں سٹوڈیو گیا۔ شانتا بائی attendance headکے بیٹھنے کی جگہ پر نیچے فرش پر سوئی تھیں۔ اس کے پاس جا کر میں نے بہت ہی بے رخی سے کہا، “شانتا بائی اٹھو، اور اپنے گھر چلی جاؤ۔”
میری آواز سنتے ہی اس نے آنکھیں کھولیں اور روہانسی آواز میں بولی، “میری تنخواہ تو گھر بھجوا دیں گے نا؟” سوچا، کہاں تو یہ اپنےعزت نفس کو ٹھیس لگنے کے کارن ایک اصول کے لیے ستیاگرہ کرنے بیٹھی تھیں، اور کہاں اب صرف تنخواہ کے لیے اپنا ستیاگرہ واپس لینے کو تیار ہو گئی ہیں! اور اس کے لیے میرے من میں رہی سہی ہمدردی بھی جاتی رہی۔
میں نے نہایت روکھے پن سے جواب دیا، “ہاں!”
وہ فوراً جانے کے لیے اٹھ کر کھڑی ہونے لگی۔ لیکن اپنا توازن کھونے کی ادا سے ایک دم مجھ پر گری۔ پل بھر میں نے سوچا، کہیں اس کا بھائی دنیا بھر میں یہ نہ کہتا پھرے کہ میں نے ہی اسے دھکا دیا۔ لہذا میں نے لپک کر اسے سہارا دیا اور یہ سوچ کر کہ ایک بار یہ بلا یہاں سے ٹلے، میں نے اسے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور سامنے ہی کھڑی اس کی گاڑی میں لے جا کر دھر دیا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں یہ پھر سے یہیں ٹھیا جما کر بیٹھ نہ جائے۔ لیکن جیسے ہی میں نے اسے اس کی کار میں رکھا، اس نے فوراً اپنی بانہیں میرے گلے میں ڈالیں اور کس کر مجھ سے لپٹ کر رونے لگی۔ میں پس وپیش میں پڑ گیا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں؟ ڈر یہ بھی تھا کہ پاس ہی کھڑے لِمیے، اترے، گیٹ پر تعینات پہریدار اور دیگر لوگ اس کا کچھ اور ہی مطلب نکالیں گے۔ لہذا میں نے اپنے ہاتھ ہٹا لیے۔ پریشان تو میں اتنا تھا کہ میرے ہاتھ چیچھڑوں کی طرح لٹکنے لگے۔ دبی آواز میں مَیں اس سے منتیں کرنے لگا، ”شانتا بائی، چھوڑو مجھے۔” لیکن وہ ماننے سے رہیں۔ اس کے آنسو میرے گالوں پر جھر رہے تھے۔ وہ اپنے گال میرے گالوں پر اور ہونٹ میرے ہونٹوں کے ساتھ مسلسل بار بار گھمانے لگی۔ اس کے اس پاگل پن کے کارن مجھے بہت ہی شرم محسوس ہونے لگی۔ غنیمت تھی کہ دیگر سب کی طرف میری پیٹھ تھی اور ادھر جاری لَو سین کسی کو دکھائی نہیں پڑ رہا تھا! سارا معاملہ ایک دم ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ کاش! چِلّا پاتا! اُف! کیسی گھٹن پیدا کرنے والی مجبوری تھی! میں نے بہت ہی دبی آواز میں اسے مجھے چھوڑ دینے کے لیے کہا۔ تب جا کر کہیں اس نے اپنا شکنجہ ڈھیلا کیا!
میں چھٹتے ہی پیچھے ہٹا اور کار کا دروازہ دھڑام سےبند کر دیا۔ راحت کی سانس لی ہی تھی کہ اس کے بھائی نے مجھے کار کے پیچھے لے جا کر کس کر بھینچ لیا۔ اپنی بانہوں میں وہ بڑبڑانے لگا، “امی کی جان آپ نے ہی بچائی ہے۔ شانتا کو آپ نے۔۔۔” چھوڑنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ لو، پھر آ گئی آفت! کہیں اس نے بھی اپنی بہن جیسا ہی سلسلہ شروع کر دیا، میں بے طرح گھبرا گیا۔ بابوراؤ کے چنگل سے رہائی پانے کے خیال سے میں نے اُن سے کہا، “اب آپ فوراً اپنے گھر جائیے۔ شانتا بائی کو پہلے کچھ کھانے کو دیجیے، ورنہ ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔”
“جی ہاں، جی ہاں،” کہتے ہوئے بابوراؤ نے اپنی بھینچ سے مجھے رہا کر دیا اور وہ لپک کر کار میں جا بیٹھے۔ کار کا انجن تو کبھی کا سٹارٹ تھا۔ میں نے سڑک کے ٹریفک کنڑول کرنے والے پولیس سپاہی کی ادا سے ڈرائیور کو تیزی سے ہاتھ ہلا کر اشارہ کیا۔ شانتا بائی کو لے کر وہ کار تیزی سے کمپنی کے احاطے سے باہر نکل گئی۔
گھر لوٹا تو داملے جی فتے لال جی میری راہ دیکھ رہے تھے۔ شانتا آپٹے آخر گھر لوٹ گئیں، یہ سننے کے بعد انہوں نے بھی راحت کی سانس لی۔ سچ کہا جائے تو اس جھمیلے کے کارن وہ دونوں کافی سٹپٹا گئے تھے۔ وِمل کو بھی اس کے چلے جانے کی بات سن کر کافی اچھا لگا۔
کچھ سمے پہلے سکرین پلے اور سنیریو کی کھلی پڑی کاپی بڑی بے چینی سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں فوراً سنیریو لکھنے بیٹھ گیا اور وہ کام پورا کر کے ہی میں نے چین کی سانس لی۔ صبح صادق ہو چکی تھی۔ کچھ آرام کر لینے کے وچار سے میں بستر پر لیٹ گیا۔ نیند آنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ من میں وچاروں کا طوفان اٹھا تھا۔
شانتا آپٹے نے اس طرح کا سلوک کیوں کیا؟ پیچھے بھی دو ایک بار اُس نے مجھے پیار میں پھنسانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن میں نے تو اپنی طرف سے اُسے کسی بھی طرح سے کوئی بڑھاوا نہیں دیا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایک ڈائریکٹر کے طور پر میں نے اچھی اداکاری یا اچھی گائیکی کے لیے اس کی تعریف کی تھی، اسے شاباشی بھی دی تھی۔ لیکن میں اس پر فریفتہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ پھر وہ کیوں اس طرح میرے گلے پڑی؟ موہ (پیار) کے ایسے لمحے میرے جیون میں بار بار کیوں آتے ہیں؟ میں رہا ایک معمولی سیدھا سادہ آدمی! میں عمر بھر برہم چاریہ کا پالن کرنے کا عہد کر بیٹھا کوئی رِشی مُنی تو نہ تھا۔ پھر کیوں بھگوان اس طرح بار بار میرا امتحان لیتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ مجھے اس کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں کہ میں اپنی کلا کے لیے ہمیشہ وقف رہ پاؤں گا یا نہیں؟
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...