شمعون کی آنکھوں میں آنسو جمع ہونے لگے ۔۔
اسے فکر صرف تیمور آفندی اور شہلا کی تھی ۔۔
وہ بے بسی کی تصویر بنا انتظار میں تھا کہ کب اس کا برسوں سے چھپایا راز افشاں ہو ۔۔
جب کمرے کی گیلری سے وہ تین سیاہ بلیاں اندر داخل ہوئیں ۔۔
پل بھر میں ان میں سے ایک بلا انسانی شکل میں ڈھل کر تیزی سے شمعون کی طرف بڑھا اور اسے اٹھا کر گیلری کے ذریعہ باہر نکل گیا ۔۔
دھاڑ سے دروازہ کھول کر تیمور آفندی اور ان کے ساتھ وہ بزرگ بھی اندر داخل ہوئے ۔۔
شہلا کمرے کے باہر ہی کھڑی خوفزدہ نظروں سے ہر طرف کا جائزہ لے رہی تھی ۔۔
جبکہ حویلی کے باقی مکین حیرت زدہ سے اشاروں کنایوں میں باتیں کر رہے تھے ۔۔
“شمعون ۔۔”
تیمور آفندی نے اسے پکارا لیکن وہ ہوتا تو کوئی جواب آتا ناں ۔۔
وہ بزرگ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے گیلری کی طرف بڑھے ۔۔
لیکن باہر ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی ۔۔
کسی ذی روح کی موجودگی کا دور تک نام و نشان نہیں تھا ۔۔
جبکہ تیمور آفندی مسلسل شمعون کو پکارتے ہوئے کمرے کا دیوانہ وار جائزہ لے رہے تھے ۔۔
اور شہلا دھڑکتے دل کے ساتھ آیات کریمہ کا ورد زیر لب شروع کر چکی تھی ۔۔
گہری سانس بھر کر وہ بزرگ گیلری سے پیچھے ہوئے ۔۔
پھر آنکھیں بند کیئے تھوڑی دیر تک وہی نافہم الفاظ دھیمی آواز میں دہراتے رہے ۔۔
“شمعون کون ہے ۔۔؟”
اچانک آنکھیں کھول کر انہوں نے سرد مہری سے تیمور آفندی سے پوچھا جو تشویش ناک نظروں سے کمرے میں نظریں دوڑا رہے تھے ۔۔
شمعون کا غائب ہونا معمولی بات نہیں تھی ۔۔
بقول شہلا کے وہ کچھ دیر پہلے تک یہیں موجود تھا ۔۔
اور اس کی حالت بھی ایسی نہیں تھی کہ اچانک خود سے کہیں آ جا سکتا ۔۔
اب ان بزرگ کے سوال سے زیادہ وہ لہجے پر چونکے تھے ۔۔
خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر انہوں نے پہلے شہلا کو دیکھا جس کا چہرہ ان ہی کی طرح سفید ہو رہا تھا ۔۔
“شمعون میرا چھوٹا بھائی ہے ۔۔
جس کا میں نے آپ کو بتایا تھا ۔۔
کہ بلیوں نے حملہ کر کے زخمی کر دیا تھا ۔۔”
تیمور آفندی گھٹی گھٹی آواز میں بولے ۔۔
ان کا ذہن انہیں کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا تھا ۔۔
لیکن دل اس بات کو ماننے سے انکاری تھا ۔۔
تیمور آفندی کے جواب پر وہ عجیب سا مسکرائے ۔۔
“کیا مجھے شمعون کی کوئی تصویر ملے گی ۔۔؟”
“معاف کیجیئے گا ۔۔
شمعون نے کبھی تصویریں نہیں کھنچوائیں ۔۔”
تیمور آفندی نے پیشانی سے پسینہ صاف کر کے جواب دیا ۔۔
“سہیل اور فرح کے نکاح میں ان کی ایک تصویر آپ نے زبردستی کھنچوائی تھی تیمور چاچو ۔۔”
کب سے خاموش کھڑے حمزہ نے اچانک طنزیہ کہا اور پھر خود ہی تصویر لانے کا کہہ کر ایک کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔
شہلا کا دل سکڑ کر سمٹا ۔۔
کیا ہونے والا ہے آخر ۔۔؟
دل اتنی اسپیڈ میں کیوں دھڑک رہا ہے ۔۔
دماغ خالی خالی کیوں ہے ۔۔
اچھی خاصی ٹھنڈک میں پسینے کیوں آ رہے ہیں ۔۔
بہت سے سوال اٹھ رہے تھے ۔۔
جن کا جواب فلحال کسی کے پاس نہیں تھا ۔۔
حمزہ شمعون کی تصویر لے کر بھاگتا ہوا آیا اور عجیب ولولے کی کیفیت میں وہ تصویر ان کی طرف بڑھا دی ۔۔
وہ بزرگ اپنے مئوکل کے ذریعہ شمعون کی تصویر کا سہارا لے کر کچھ جاننا چاہتے تھے ۔۔
لیکن اس کی انہیں ضرورت ہی نہیں پڑی ۔۔
تصویر میں نظر آتا شمعون کا سرد و سپاٹ چہرہ دیکھ کر وہ خود ہی ٹھٹھک گئے ۔۔
جنگل کی وہ مہینوں پہلے کی رات وہ ہرگز نہیں بھولے تھے جب ایک آدم خور غیر انسانی مخلوق انہیں انسانی شکل میں نظر آئی تھی ۔۔
انہوں نے پوری کوشش کی تھی عمل کے سہارے شمعون کو ختم کرنے کی ۔۔
لیکن بدقسمتی سے “کسی” نے وہ لکڑی کا ٹکڑا اس کے پنجے سے نکال کر ان کے عمل کو ناکام بنا دیا ۔۔
سارا معاملہ ان کے سمجھ آنے لگا ۔۔
تصویر حمزہ کو واپس لوٹاتے ہوئے انہوں نے ٹھنڈی سانس خارج کر کے تیمور آفندی کی طرف دیکھا ۔۔
تیمور آفندی بہت بار ان کے آستانے پر آ کر ان کی منت کر چکے تھے ۔۔
لیکن ہر بار وہ مصروف ہوتے اور حویلی آنے سے رہ جاتے ۔۔
آج بھی وہ ایک ضروری چلہ کاٹنے والے تھے لیکن تیمور آفندی آج ان کے آگے گڑگڑا اٹھے تھے ۔۔
شمعون کے لیئے ان کی فکرمندی اور محبت یہیں سے ظاہر تھی کہ شمعون پر ہوئے حملے نے ان کا برسوں کا صبر ختم کردیا تھا ۔۔
“تیمور تم اپنے بھائی سے بہت پیار کرتے ہو ۔۔
اس لیئے یقیناً میری بات سن کے سب سے زیادہ تکلیف تم ہی اٹھائوگے ۔۔
خود کو مضبوط کرو ۔۔”
ان کی تہمید نے تیمور آفندی کو ٹھٹھکا دیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں نہیں مانتا ۔۔
میرا بھائی کوئی بلا ولا نہیں ہے ۔۔
آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی ۔۔
ہو سکتا ہے جنگل میں وہ بلا شمعون کے بھیس میں ہو ۔۔”
تیمور آفندی مسلسل اس سچ کو ماننے سے انکاری ہو رہے تھے ۔۔
ان کے تو سر پر گویا پوری حویلی آگری تھی اس انکشاف پر ۔۔
“ہائے ۔۔
میرا سہاگ اجاڑ دیا اس بے غیرت بلا نے ۔۔
ارے اسے پالا پوسا ۔۔
کھلایا پلایا اور یہ صلہ ملا ہمیں ۔۔
خدا غارت کرے اس منحوس بلا کو ۔۔”
شمائلہ بیگم نے واویلا شروع کردیا اور آخر میں پھپھک کر رو پڑیں ۔۔
آخر کو ان کے شوہر کی جان لی تھی اس بلا نے ۔۔
“مم مجھے بھی یقین نہیں آ رہا ۔۔
شمعون چاچو ہمیشہ سے ہمارے ساتھ ہیں ۔۔
یہ ناممکن ہے ۔۔”
وجدان بے یقینی سے نفی میں سر ہلانے لگا ۔۔
“لیکن مجھے پورا یقین یے ۔۔
اگر ایمانداری سے ہم ہر چیز پر غور کریں تو یہ ممکن نظر آتا ہے ۔۔
جب کبھی حویلی والوں پر حملہ ہوا ہے ۔۔
وہ شخص حویلی سے غائب رہا ہے ۔۔
تیمور چاچو کی فیملی کو چھوڑ کر حویلی کی ہر فیملی نے اس بلا کا عتاب سہا ہے ۔۔”
حمزہ سب سے زیادہ بپھر رہا تھا ۔۔
ہانیہ کا معصوم چہرہ مسلسل نظروں کے آگے چکرا رہا تھا ۔۔
اس کے اٹھائے گئے پوائنٹ قابل غور تھے ۔۔
پھر سب سے بڑی بات ۔۔
اچانک شمعون کا غائب ہوجانا ۔۔
لائونج میں بحث جاری تھی ۔۔
کسی کو فوراً یقین آگیا تھا ۔۔
کوئی اب بھی بے یقین تھا ۔۔
کوئی دلائل دے رہا تھا ۔۔
کوئی اعتراض اٹھا رہا تھا ۔۔
اور گم صم سی سب کی تکرار سنتی شہلا چپ چاپ اٹھ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی ۔۔
اس کا رخ طوبی کے کمرے کی طرف تھا ۔۔
راستے میں پڑنے والے شمعون کے کمرے کے دروازے پر وہ کچھ لمحوں کے لیئے رک گئی تھی ۔۔
پھر جھلملائی نظریں لیئے سر جھٹک کر قدم آگے بڑھا دیئے ۔۔
شہلا کو طوبی کا اس دن کا رویہ یاد آ رہا تھا ۔۔
شمعون کے نزدیک آنے پر وہ جس طرح چیخنے لگی تھی ۔۔
اور بھی بہت سے مشکوک کر دینے والے مناظر بھی ذہن کے پردے پر چکرانے لگے ۔۔
دماغ کے بند دروازے کھلتے جا رہے تھے ۔۔
بہت کچھ واضع ہو رہا تھا ۔۔
گہری سانس بھر کر اس نے طوبی کے قریب جا کر پکارا ۔۔
لیکن جواب ندارد ۔۔
“طوبی ۔۔؟”
شہلا کو اس کے بے سدھ انداز نے ٹھٹھکا دیا ۔۔
اس کا دل بند ہونے لگا ۔۔
“طوبی پلیز اٹھیں ۔۔
بات کرنی ہے مجھے آپ سے کچھ ۔۔
مجھے بتائیں کیا شمعون ہے وہ بلا ۔۔؟
طوبی پلیز اٹھیں بتائیں ۔۔
طوبی پلیز آنکھیں کھولیں ۔۔
کیا ہوا ہے آپ کو ۔۔؟
طوبی ۔۔”
شہلا کی اگلی پکار حلق میں ہی گھٹ گئی ۔۔
بلیوں کے غرانے کی کریہہ آواز نے اسے ٹھٹھکا دیا ۔۔
تیزی سے وہ بیڈ سے دور ہوئی تھی کیونکہ طوبی جو لحاف سرتاپا اوڑھے لیٹی تھی ۔۔
آواز اسی لحاف میں سے آ رہی تھی ۔۔
اور اب اندر سے دو تین وجود ہلتے بھی دکھنے لگے ۔۔
وہ وجود کن کے تھے شہلا کو سمجھنے میں مشکل نہیں ہوئی ۔۔
وہ دبے پائوں الٹے قدموں پیچھے ہونے لگی جب تیز آوازوں کے ساتھ چار بلیاں چھلانگیں لگا کر لحاف سے نکلیں ۔۔
ان کی چھلانگوں کی وجہ سے طوبی کا لحاف اس پر سے ہٹ گیا ۔۔
اور طوبی کا چرا پھٹا وجود دیکھ کر شہلا کے حلق سے وہ چیخیں نکلیں کہ نیچے لائونج میں بیٹھے سب لوگ اوپر کی طرف دوڑ پڑے ۔۔
وہ بزرگ جو جانے کی تیاری میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے سب کے ساتھ ہی ہو لیئے ۔۔
شہلا کی چیخیں رک ہی نہیں رہی تھیں ۔۔
نہ نظریں طوبی کے وجود سے ہٹ رہی تھیں ۔۔
وہ چاروں بلیاں شہلا کو گھورتی ہوئی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر باہر کود گئیں ۔۔
اور شہلا یونہی چیختے چیختے ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...