{عدم کا مُسافر}
عصر اور مغرب کا درمیانی وقت تھا۔پت جھڑ کا موسم تھا۔پلیٹ فارم پر لالٹین والا ایک کھمبانسب تھا۔وہیں قریب ایک بنچ بھی رکھا تھا۔ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔اگرچہ فضاپر خامشی طاری تھی،لیکن جب ہوا کے جھونکے درختوں کے سوکھے پتے گراتے ، وہ پتے پلیٹ فارم کے فرش پر رقص کرنے لگتے تو عجب سا ترنم پیدا ہوتا۔وقفے وقفے سے چڑیوں کے غول مشرق سے مغرب کی طرف جاتے ہوئے پلیٹ فارم کے اوپر سے گزرتے تو ان کے پروں کی یکسر آواز سے لطف بڑھ جاتا۔
ایک نوجوان، عمر تقریباً۲۶سال کے لگ بھگ، گوری رنگت، سیاہ بال،دراز قد،سیاہ پینٹ کوٹ اور ہاتھ میں ایک بیگ، لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوااس بنچ کے قریب آیا ایک بار اردگردکاجائزہ لے کراس نے بیگ بنچ پر رکھا، پھرخودبھی اسی بنچ پربیٹھ گیا۔وہ نوجوان ہوا کی سرگوشیوں اورپتوں کے ترنم سے محظو ظ ہونے لگا۔
اسے آئے ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا۔ ایک ضعیف آدمی خاکی شلوار قمیض،خاکی پرانا کوٹ پہنے ہوئے سرپر کروشیے سے بنی ہوئی سیاہ ٹوپی، سفید ریش، ہاتھ میں ایک چھڑی،اپنی ہستی سے بے خبر، آہستہ آہستہ چلتا ہوا اسی بنچ کے دوسرے سرے پربیٹھ گیا۔اس وقت اس نوجوان کی نگاہیںسورج کی سمت تھیں۔بوڑھا شخص بھی چھڑی کے دستے پر دونو ں ہاتھ دھرے سورج کی طرف دیکھ رہا تھا۔ نوجوان مخاطب ہوا۔۔۔
’ــ’سورج بھی اپنی منزل کی جانب رواںہے‘‘
بوڑھے نے برجستہ جواب دیا۔۔۔
’’ہاں۔۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ منزل تاحشرنہیں ملنی‘‘
نوجوان نے بوڑھے کی طرف دیکھا، اسکے چہرے سے افسردگی کے تاثرات نمایاں تھے۔ یوں لگتاتھاجیسے زندگی بھرکی مسافت نے اسے تھکا کر مایوسی سے آشناکر دیا ہو۔ نوجوان نے ایک بار پھر ارد گرد کا جائزہ لیا پھر کہا۔۔۔
’’یہ ُرت کتنی سہانی ہے ، مجھے بہت پسند ہے، بالخصوص یہ ہلکی ہلکی، میٹھی میٹھی ہوا۔۔اور یہ خشک پتوں کی آواز۔۔اِن پتوں پر چلنے سے کتنی خوبصورت آواز پیدا ہوتی ہے۔،،
بوڑھے شخص کی نگاہیںاب کی سورج کے بجائے درختوںکی طرف تھیں ۔ اْس نے آہ بھرکرکہا۔۔
’’ہاں یہ رْت کتنی سْہانی ہے۔ مگر۔۔کس قدر پْر درد۔۔ یہ موسم کتنا پْر کیف ہے،پھر بھی بے کیفی حاوی ہے۔ کبھی سوچاہے؟ جب اِن پتوںپر چلا جائے تو اِن پتوں سے کیسی دردناک ا ٓوازیں اْٹھتیں ہیں۔ وہ آوازیں اِنکی آہ و بکاکی ہوتی ہیں۔ہم بھی کیسے دیوانے ہیں؟اْن کی نوائے درد اور نوحہ گری کودل آویز نغمے سمجھ کر حظ اْٹھاتے ہیں۔،،
نوجوان نے بوڑھے کی باتیںتامل سے سْنیں، بوڑھے کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ اْس کے چہرے پر قدرے اطمنان تھا۔ہلکا سا مسکرا کر بولا۔۔
’’بابا!آپ کہاںکے مسافر ہیں؟،،
بوڑھے نے آہ بھرتے ہوئے مدھم آواز میں جواب دیا۔۔
’’عدم کا،،
چڑیوںکا ایک اور غول پلیٹ فارم کے عین اْوپرسے گزرا۔ سورج کی سمت بڑھتاہْوا یہ غول دیکھتے ہی دیکھتے شفق کی سرخی میںضم ہو گیا۔ لیکن نوجوان کی چمکتی آنکھیں جو اس وقت سورج کی سنہری کرنوں کے سبب سنہری لگ رہی تھیں، ابھی بھی مغرب میں سرخی مائل آسمان کی طرف تھیں۔اس ضعیف شخص کی طر ف دیکھا پھر گویا ہوا۔۔
’’مجھے یہ مناظر بہت پسند ہیں۔ــ ٗ
’’ مغرب کے وقت تو پرندے بھی اپنے آشیانے میں پلٹ جاتے ہیں۔نہ جانے میری مسافت کب ختم ہو گی،،
بوڑھے کی بات سن کر نوجوان نے پھر سوال کیا۔۔
’’بابا آپ کا گھر کہاںہے؟‘‘
’’گھر؟کیسا گھر؟۔۔۔میرا نہ کوئی ٹھکانہ کاشانہ۔۔۔میں تو مسافر ہوں۔۔۔ بھٹکاہوا ہوں۔۔۔ منزل معلوم ہے،پر راستے کھو گئے ہیں۔۔۔‘‘
نوجوان کے دل میں تجسس پیدا ہونے لگا۔آخریہ بابا اس قسم کی باتیں کیوں کر رہا ہے؟ لڑکے کی کیفیت اضطرابی ہونے لگی
’’بابا۔۔آپ اس قدر مایوس کیوں ہیں؟ اور ایسی غیر متوقع گفتگو؟‘‘
بوڑے نے سرد آہ بھری۔پلکیں نم ہونے لگیں۔ چہرے پر افسردگی بدستور۔۔۔ دو قطرے پلکوں سے پھسل کر بوڑھے رخساروں کی جھریوں کو چیرتے ہوئے ریش میں ضم ہو گئے۔نوجوان کو محسوس ہوا جیسے اس کے سوالات بوڑھے کے لیے تکلیف کا باعث بن گئے۔چند پرندے قریب والے درخت پر آ کر بیٹھ گئے۔ ان کے پروں کے پھڑپھڑانے اور بے ہنگم آوازیں نکالنے سے فضا کا سکوت ٹوٹ گیا۔ بوڑھا وہیں جامدوساکت بیٹھا رہا۔نوجوان نے درخت کی طرف دیکھا ایک بار پھر بوڑھے کو مخاطب کیا۔۔
’’میں لاہور کی طرف جا رہا ہوں ، آپ کس ٹرین کے انتظار میںہیں؟‘‘
پرندے شور مچاتے ایک ساتھ اڑ گئے۔ ان کے اڑنے سے درخت کی شاخوں نے لچک کھائی، زرد پتے زمین پر گرنے لگے۔ بوڑھے نے پلکیں اٹھائیں۔۔
’’انتظار۔۔ انتظار ہی تو ہے۔۔ اس کے لوٹنے کا انتظار ۔۔‘‘
اس نے نمناک آنکھوں سے نوجوان کی طرف دیکھا۔
’’میں اب تھک گیا ہوں۔ نہ جانے یہ مسافت کب ختم ہوگی۔ میرا بوڑھا وجود اب میرا ساتھ نہیں دیتا ۔ سوچتا ہوں مرنے سے پہلے ایک بار اسے ضرور دیکھ لوں۔ مجھے یقین ہے مرنے سے پہلے وہ مجھے ایک بار ضرور ملے گا۔ برسوں پہلے جب اسکے ماں باپ چل بسے وہ میرے ساتھ اسی رُت میں،اسی پلیٹ فارم پر بیٹھا تھا۔ ہم شہر جا رہے تھے۔ میں اسے بڑے سکول میں داخل کرواناچاہتا تھا۔وہ بہت چھوٹا تھا۔ہم ریل گاڑی کے انتظار میں تھے۔ ہمارے ساتھ اور مسافر بھی تھے۔ لیکن وہ سب انتظار گاہ میں بیٹھے تھے۔ اسے یہ جگہ بہت اچھی لگی۔ اس نے ضد کی مجھے یہیں بیٹھنا ہے۔‘‘
بات کرتے کرتے بوڑھے کی ہچکی بندھ گئی۔نوجوان نے اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی کھسک کر بوڑھے کے قریب ہو گیا۔ جب اس نے پانی پلانا چاہا بوڑھے کی پانی کو دیکھ کر تکلیف بڑھ گئی۔۔۔
’’پانی۔۔۔پانی لینے گیا تھا میں۔ریل کی سیٹی سن کر میں ٹکٹیں لینے بھاگا پر اسے پیاس لگی تھی۔ ریل گاڑی قریب آگئی تھی۔ میں اس کے لیے پانی لینے چلا گیا۔ بھلا میں اپنے لختِ جگر کو اپنے اکلوتے بیٹے کی اکلوتی نشانی کو ، اپنے جگر گوشے کوپیاسا کیسے رہنے دیتا۔ لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ میری دنیا اجڑنے والی ہے۔ جب میں پانی لے کر واپس آیا یہاں نہ میرا بچہ تھا اور نہ ریل۔۔۔ میں اِدھر اُدھر بھاگا۔ ریل گاڑی کے پیچھے بھاگا۔ اُس دن سے آج تک اُسی کو ڈھونڈ رہا ہوں، ہر جگہ ڈُھونڈا، شہر بھی گیا۔ تمام عمر اس کی تلاش میںاُس کے انتظار میں گُزاری مگر وہ آج تک نہیں آیا۔۔۔‘‘
وہ دونو ںہاتھ چھڑی پر رکھ کر جھُک گیا۔۔
’’آہ۔۔۔ سبحان۔۔۔ کہاں ہو تم؟ ۔۔ میرا بچہ۔۔ ‘‘
بوڑھے کو یوں گڑگڑا کر روتے دیکھ کر نوجوان کا دل بھر آیا۔
’’بابا۔۔آپ مت روئیے۔آپ تھک گئے تو کیا۔۔۔ میں ہوں نا۔۔ میں آپ کے پوتے کو ڈھونڈوں گا۔آپ کے پاس اُس کی تصویر ہے؟‘‘
بوڑھے نے کہا۔۔
’’ہاں۔۔۔ہاں میرے پاس ہے‘‘
سیٹی کی آواز آئی۔اُن دونوں نے پٹڑی کی جانب دیکھا۔ نوجوان نے پلیٹ فارم کی دوسری جانب دیکھا ۔ بوڑھا اپنے کوٹ کی جیب سے تصویر نکالنے لگا۔ گاڑی قریب آ چکی تھی۔ نوجوان نے اپنا بیگ اُٹھایا ، بوڑھے نے تصویر جیب سے نکال لی تھی۔ وہ ایک خاکی لفافے میں لپٹی تھی۔ جب وہ نوجوان کو پکڑانے لگا ہوا کا ایک جھونکا آیا اور اُس ضعیف شخص کا آخری تنکا لے اُڑا۔ تصویر کا لفافہ ریل کی پٹڑی پہ جا گرا۔ بوڑھا اس کے پیچھے بھاگا نوجوان کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔۔ ’’بابا۔۔۔‘‘
مسافت ختم ہو چکی۔ لوگوں کا ہجوم ریل کی پٹڑی پہ تھا۔ نوجوان ہجوم کو چیرتا ہوا وہاں پہنچا۔ خون میں لت پت اُس شخص کو دیکھ کر وہ خوف زدہ ہو گیا۔ پیچھے سے آواز آئی۔۔۔
’’مجتبیٰ۔۔۔ چلیے گاڑی چھوٹ جائے گی۔‘‘
نوجوان نے اس نعش کے ہاتھ سے تصویر والا لفافہ لیا، ہجوم سے نکل آیا۔ اُس کا دما غ سُن ہو چُکا تھا۔قریباً ۲۰ سالہ ایک لڑکی بنچ کے ساتھ کھڑی تھی ایک تین سالہ بچہ اُس کے پاس کھڑا تھا۔
ہوا نے ایک بار پھر پیچ کھایا ، چند خشک پتے ہم آہنگ آواز میں نوحہ گری کرتے ہوئے زمین پر گرے۔ مُسافروں نے گاڑی پر سوار ہونا شروع کر دیا ۔ پیروں تلے دبتے پتوں کی نازک آواز کسی کے کانوں تک نہ پہنچ سکی۔ مگر مجتبیٰ کو وہ چینخ و پُکار ، وہ آہ و بکا صاف سُنائی دے رہی تھی پھر بھی وہ خاموش تماشائی بنا سُنتا اور دیکھتا رہا۔ اُس نے یخ بستہ ہاتھوں سے بیگ اُٹھایا۔
ریل کی پٹڑی پر لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ اپنی بیوی اور بیٹے کو گاڑی پہ سوارکر کے وہ خود بھی سوار ہو گیا۔ گاڑی چل رہی تھی ۔ چھک چھک۔۔ چھک چھک کی آواز میں بوڑھے کی آخری چینخ کہیں دب گئی تھی مگر مجتبیٰ کو صاف سنائی دے رہی تھی۔ اچانک اُسے کچھ خیال آیا۔ اُس نے اپنی بیوی کو مخاطب کیا۔۔
’’اگر میں اُسے تصویر دکھانے کے لیے نہ کہتا تو یہ حادثہ نہ ہوتا‘‘
لفافے سے تصویر نکالتے ہوئے بولا۔۔
’’یہ تصویر اُس کے پوتے کی ہے، میں اُسے ضرور ڈھونڈوں گا۔‘‘
نوجوان نے جب تصویر دیکھی تو اُسے ایسا دھچکا لگا کہ وہ دم بخود رہ گیا۔
٭٭٭