“یہ کیا ہے؟”
شیما نے ایک کاغذ شامی کی طرف بڑھایا تھا اور خود ہاتھ باندھ کر ایک طرف کھڑی ہوگئی۔
“میں کنسیو کررہی ہوں۔”
اتنی دیر تک شامی رپورٹ پڑھ چکا تھا۔ اور تیر کی طرح کھڑا ہوا تھا۔
“واٹ؟ کیا مذاق ہے یہ؟
میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے اپنے اردگرد کوئی بچہ نہیں چاہیے۔ پھر کیا ہے یہ سب؟”
شامی نے شیما کا بازو بری طرح دبوچا اور غصے سے دھاڑا تھا۔
“یہ قدرت کا فیصلہ ہے۔ مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو؟”
شیما نے اس کی دھاڑ کا اثر لیے بغیر کہا۔
“قدرت کا فیصلہ۔۔۔مائی فٹ!
میں تمہیں ایک بار سمجھا چکا ہوں کہ مجھے بچہ نہیں چاہیے تو نہیں چاہیے۔ اب دفع ہو جاؤ اور ختم کرو یہ ڈرامہ۔”
شامی نے اسے بری طرح جھنجھوڑا۔
“میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی۔ تمہیں بچہ چاہیے ہو یا نہ ہو لیکن مجھے ہے۔ بھول جاؤ کہ میں ایسا کچھ کرنے والی ہوں۔”
اور بیگ اٹھا کر تن فن کرتی لاؤنج سے نکل گئی تھی۔ شامی نے سخت نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
“یہ تو میں ہونے نہیں دوں گا۔ مجھے ایک اور شامی نہیں چاہیے۔”
اور خطرناک تیوروں کے ساتھ بیڈروم میں شیما کے پیچھے داخل ہوا تھا۔
***************
ریتیلی ہوا نے سارے منظر گدلا سے دیے تھے۔ عشال کئی بار چیزوں سے دھول صاف کرچکی تھی۔ لیکن پھر بھی ریت نے پختہ لان میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔ وہ جھاڑن لیے فرش پر اسے گھسیٹ رہی تھی۔ جب بیرونی دروازے پر کسی نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔
“بعض اوقات ہم اپنے اندر کے چور سے نظر بچا جاتے ہیں۔ یہیں ہم غلطی کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے تمہیں بھی اپنے دل کو ایک بار ٹٹول لینا چاہیے۔ رشتے ہوں یا مادی ضروریات، سب ہی اللہ کی نعمات ہیں۔ اور ہر نعمت کا یہ حق ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ جانتے ہو شکر کیا ہے؟”
آغاجان اپنی اسٹڈی میں ضیغم سے مخاطب تھے۔ اور وہ خاموشی سے انھیں سن رہا تھا۔ تائید یا تردید کیے بغیر۔
“قدر!”
ضیغم نے مختصر سا جواب دیا۔
“مادی نعمت کا شکر یہ ہے کہ اسے اس کے مقام پر رکھا جائے۔ جبکہ رشتوں اور تعلقات کے معاملے میں عدل کی شرط بھی لاگو ہوجاتی ہے۔ ضیغم! کیا کبھی تم نے اپنے قلب کو ٹٹولا ہے؟”
“جی؟ کس سے ملنا ہے آپ کو؟”
عشال نے اپنے سامنے کھڑے سوٹیڈ بوٹیڈ گارڈ سے دریافت کیا۔ جس نے دروازے پر دستک دی تھی۔
“شیخ فاضل ہیں؟ انھی سے ملنا ہے؟”
اس نے عربی میں کہا تھا۔ اتنی عربی تو عشال نے سمجھ ہی لی تھی۔
“آپ کا تعارف؟”
عشال نے سر سے پیر تک اس شخص کو دیکھا تھا۔
“شیخ ولید ہادی!”
گارڈ کی پشت سے جواب آیا تھا۔ عشال نے بغور اس عرب کو دیکھا جس کا حلیہ یورپی ٹائیکونز جیسا تھا۔ وہ سفید رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا۔ اور اس کی کلاس کو ظاہر کررہا تھا۔
“مرحبا!”
وہ ایک قدم آگے ہوکر عشال سے مخاطب ہوا۔
“آپ نے ان سے وقت لیا تھا؟”
عشال نے اسے اندر داخل ہونے کا راستہ نہیں دیا۔
“شیخ مجھے نہیں جانتے۔ یہ ہماری پہلی ملاقات ہوگی۔ لیکن آپ ان سے میرا نام لیں امید کرتا ہوں وہ ملاقات کا شرف بخشیں گے۔”
اس نے تہذیب کا لبادہ اوڑھتے ہوئے انگریزی زبان کا سہارا لیا۔ غالبا عشال کی مشکل کو وہ بھانپ چکا تھا۔
عشال متذبذب سی پلٹ گئی۔
“قلب کبھی کبھی ہمیں فریب دے جاتا ہے۔ یا پھر ایسا ہوتا ہے کہ جذبات کی دھند میں صحیح نتیجے تک پہنچنے میں ہم سے تاخیر ہوجاتی ہے اور ہم غلطی بھی کر بیٹھتے ہیں۔ اسی لیے میں چاہتا ہوں غنائم کے معاملے میں تم پہلے اپنے قلب کو اچھی طرح ٹٹول لو۔ کیونکہ بہرحال زندگی سے جانے والا تعلق بھی اللہ کی ہی عطا ہوتا ہے۔ اگر تمہارے پاس ذرا سی بھی گنجائش ہے تو ناشکری مت کرنا۔”
“آغا جان!”
ضیغم نے ابھی سوچ میں گم ہی تھا کہ عشال کی مداخلت نے سارا ماحول بدل دیا۔ وہ چونک کر مڑا تھا۔ اور اپنے الفاظ دل میں ہی روک لیے تھے۔
“آؤ عشال! کیا بات ہے؟”
آغا جان نے اپنی بات روک کر پوچھا۔
“کوئی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی وقت لیے بناء۔ موصوف کا خیال ہے آپ ان سے ضرور ملنا چاہیں گے۔”
عشال کے لہجے میں مہمان کے لیے ناپسندیدگی تھی۔
“بلا لو۔ دہلیز سے کسی کو لوٹانا مناسب نہیں لگتا۔”
آغاجان نے عشال سے کہا اور خود ضیغم کے سہارے اٹھنے کی کوشش کی۔
“شیخ ولید ہادی!”
نووارد نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اور ضیغم اس شخص کو اپنے سامنے پاکر الجھا تھا۔ آخر اب یہ شخص اس سے کیا چاہتا تھا؟
“حیران نہ ہوں۔ طلب انسان کو مطلوب تک لے ہی آتی ہے۔ میں بھی اس وقت طالب ہوں۔ میرا سوال مجھے یہاں تک لے آیا ہے۔ شیخ فاضل!”
شیخ ہادی نے ضیغم کی موجودگی کو نظرانداز کرتے ہوئے آغاجان کو مخاطب کیا۔
“کہیے حضرت میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟”
آغاجان نے شیخ کو بیٹھنے کی دعوت دی اور ضیغم کو بھی متحمل رہتے ہوئے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
ضیغم اگرچہ یونیفارم میں تھا۔ لیکن مجبورا اسے بھی نشست سنبھالنی پڑی۔
“شکریہ شیخ! آپ نے مجھے کہنے کا موقع فراہم کیا۔ جیسا کہ آپ کو اندازہ ہونا چاہیے۔ معاشرے میں میرا ایک نام ہے۔ لوگ میری عزت کرتے ہیں۔ مگر آپ کے اس بیٹے نے معاشرے میں میری گردن جھکا دی ہے۔ اور مشکل یہ ہے کہ میں اس معاملے میں شکایت بھی نہیں کرسکتا۔ میڈیا ہر وقت ہم جیسے لوگوں کی خبروں کی تلاش میں رہتا ہے۔ میری نیندیں مجھ پر حرام ہوچکی ہیں۔ آپ کے اس بیٹے کی فضول سی ضد کی وجہ سے۔”
ضیغم نے پہلو بدلا۔ لیکن آغاجان کی وجہ سے خاموش رہا۔ جنھوں نے اشارے سے اسے روک دیا تھا۔
“ہم سمجھ نہیں پارہے آپ کو ہم سے کیا شکایت لاحق ہوگئی؟ جبکہ ہمارے لڑکوں کی تربیت ذرا مختلف خطوط پر کی جاتی ہے۔ ہمارا کوئی بچہ کبھی کسی کی عزت کے لیے مشکل نہیں بن سکتا۔”
آغاجان نے سنبھلے ہوئے لہجے میں شیخ ہادی کو تسلی دینا چاہی۔
“کاش! آپ کی خوش گمانی برقرار رہتی۔ لیکن مسئلہ ایسا ہے کہ میرے پاس کچھ کاغذ ہیں آپ ایک نظر ذرا انھیں بھی دیکھ لیجیے۔”
اتنا کہہ کر شیخ نے اپنے پی اے کی طرف دیکھا اور اس نے کسی مشینی روبوٹ کی طرح آگے بڑھ کر فائل سامنے ٹیبل پر رکھ دی۔ ضیغم نے فائل دیکھے بغیر آغاجان کو تھمادی۔ وہ پہلا صفحہ پلٹتے ہی جامد ہوگئے۔
“یہ ہوٹلوں کے بل اور ریزرویشنز کا ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ اس میں اس ہوٹل کی تفصیل بھی موجود ہے۔ جہاں آپ کا بیٹا دو مہینے بڑے آرام سے گزار چکا ہے۔ اور یہ بتانے کی ضرورت تو ہرگز نہیں کہ یہ وہاں اکیلا نہیں تھا۔”
“یہ سچ نہیں ہے!”
ضیغم بلبلا اٹھا۔ لیکن آغاجان نے اسے درمیان میں روک دیا۔
“تمہیں موقع دیا جائے گا۔ ضیغم! ابھی ہم شیخ صاحب کو سننا چاہتے ہیں۔ وہ ہمارے دروازے تک چل کر آئے ہیں۔”
“جی شیخ صاحب! آپ اور کچھ کہنا چاہتے ہیں؟”
آغاجان نے بمشکل خود پر ضبط کرکے کہا تھا۔
“غنائم میری واحد اولاد ہے۔ میری دنیا اس سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوتی ہے۔ جبکہ آپ کا یہ بیٹا مسلسل اسے اذیت دے رہا ہے۔ ضیغم نے اسے بیچ راستے میں چھوڑ دیا ہے۔”
شیخ ہادی نے اپنی بات مکمل کی اور تؤقف کیا۔
“آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟”
آغاجان نے اسی لہجے میں پوچھا۔
“ازالہ! میں چاہتا ہوں۔ ضیغم اپنی غلطی کا ازالہ کرے۔ ایک بے کار سی ضد چھوڑ کر غنائم سے سمجھوتہ کر لے۔ بہرحال ساتھ رہنے کا فیصلہ صرف غنائم کا نہیں تھا۔”
آغاجان نے ضیغم کی طرف دیکھا۔
“آپ نے دیانتداری سے کام نہیں لیا۔ شیخ صاحب! درست نتیجے پر پہنچنے کے لیے مکمل سچ سامنے ہونا چاہیے۔ جو آپ نے بیان نہیں کیا۔”
ضیغم نے براہ راست شیخ کو مخاطب کیا۔
“میرے پاس داستان گوئی کا وقت نہیں ہے۔ لڑکے! میں اپنی بات کہہ چکا ہوں۔ میں چاہوں تو اپنا مقصد دوسری طرح بھی حاصل کرسکتا ہوں۔ لیکن میں معاملات کو سلجھانا چاہتا ہوں۔ میرے یہاں آنے کا مقصد صرف یہی ہے۔ بہتر ہے سمجھ جاؤ۔! میں تمہیں ایک اور موقع دیتا ہوں۔”
اتنا کہہ کر شیخ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
“آپ سے مل کر اچھا لگا شیخ فاضل۔ امید کرتا ہوں آپ سہل راہ نکال لیں گے۔”
اتنا کہہ کر وہ ٹھہرا نہیں۔ ضیغم فورا آغا جان کی طرف مڑا۔
“دادو! یقین کیجیے میرا کردار اتنا ہلکا نہیں ہے کہ کاغذ کے ان ٹکڑوں میں سمٹ جائے۔ کیا آپ مجھے سن رہے ہیں؟”
ضیغم نے دھیرے سے ان کے زانو پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
“ضیغم! وہ شخص سوال لے کر ہماری دہلیز تک آیا ہے۔ ہم اسے مایوس نہیں کرسکتے۔ لیکن اتنا ضرور کہیں گے۔ محبت اگر روح کے پندار سے نکل کر جسم کی شاہراہوں پر بھٹک جائے تو واپسی کا راستہ نہیں ہوتا۔ یہ ادھورے کاغذ تمہارا پورا سچ کہہ رہے ہیں۔”
“دادو!کیا آپ مجھ پر شک کررہے ہیں؟”
ضیغم نے دکھ سے پوچھا۔
“نہیں! تمہیں سننے سے پہلے ہم کوئی فیصلہ صادر نہیں کریں گے۔ لیکن ہاں تم سے یہ امید نہیں تھی۔ تم اپنے محور سے کب نکل گئے ضیغم؟”
ضیغم نے لب کاٹ کر سر جھکا لیا تھا۔
عشال ڈرائنگ روم کی دہلیز سے چپکی سارا تماشہ دیکھ رہی تھی۔ تجسس نے اس کے قدم جکڑ لیے تھے۔
دور تک ساحل کے کنارے مصنوعی روشنیوں سے جگمگارہے تھے۔ ہوٹل کی سجی سجائی میزوں کے کنارے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہے تھے۔ بغیر آستین کی لمبی جامنی میکسی کے ساتھ اس کے کانوں میں ہیرے جگمگا رہے تھے۔ اپنے لیئر کٹ بلانڈ بالوں کی لٹ جھٹکتے ہوئے وہ بولی۔
“تو تم مجھ سے سوال کرنا چاہتے ہو؟”
ضیغم نے سر اثبات میں ہلایا اور داہنا ہاتھ اس کی طرف پھیلادیا۔ وہ اپنا سفید چمکتا ہوا ہاتھ ضیغم کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولی۔
“یہ تھا وہ سوال؟”
اس کی آنکھوں میں سارا عالم فتح کرلینے جیسی چمک ہلکورے لے رہی تھی۔
“غنائم ہادی بنت شیخ ولید ہادی کیا تمہیں ضیغم مصطفی ابن مصطفی رضا انصاری کی زوجیت قبول ہے؟”
غنائم نے مسکراہٹ چھپانے کی غرض سے سر کو ہلکا سا جھکایا اور ہاتھ چھڑائے بغیر بولی۔ اور میرا حق مہر؟”
ضیغم نے اس کے چہرے پر نگاہ جما کر کہا۔
“جو تم چاہو!”
غنائم نے ایک لمحہ سوچا اور بولی۔
“اگر بات میری مرضی پر ہے تو مجھے حق مہر میں تمہارا پورا وجود چاہیے۔”
ضیغم نے کورنش بجا لا کر سر تسلیم خم کیا۔ وہ مسکرا کر بولی۔
“تو پھر آج سے ضیغم مصطفی پر صرف میرا حق ہے۔ تمہیں قبول ہے ضیغم مصطفی؟”
ضیغم نے کہا۔
“قبول ہے۔
قبول ہے۔
قبول ہے۔۔۔ قیامت تک قبول ہے!”
اور غنائم کی انگلی میں ایک عام سی گولڈ رنگ چڑھا دی۔ غنائم سے اپنی ہنسی مزید روکنا محال ہوگیا۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھ کلھکلا کر ہنس دی اور سینے پر ہاتھ باندھ کر بولی۔
“اپنے لفظوں سے تم اب پھر نہیں سکتے۔ تم پر اب سب سے زیادہ میرا حق ہے۔”
ضیغم نے مسکرا کر کہا مجھے کب انکار ہے۔”
“تو پھر اگر میں تمہیں آج رات اپنے لیے روک لوں تو تم انکار نہیں کرسکتے۔ کیوں میں ٹھیک ہوں ناں؟”
غنائم نے ضیغم کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
ضیغم نے غنائم کو دیکھا اور بولا۔
“تم تو سنجیدہ ہی ہوگئیں۔”
غنائم نے کہا۔
“بالکل میں سنجیدہ ہی ہوں۔ اور آج کے بعد تم مجھے سیریس ہی لوگے۔اوکے؟”
ضیغم نے کندھے اچکائے اور بولا۔
“میں نے ہمیشہ سے تمہارے ساتھ سنجیدہ تھا۔ غنائم۔”
اور اس کا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑا ہوا۔
انکا رخ غائم کے سویٹ کی طرف تھا۔
غنائم سے ضیغم کی پہلی ملاقات اسکواش کلب میں ہوئی تھی۔ ضیغم کا معمول تھا۔ وہ وقت نکال کر اسکواش کلب ضرور جاتا تھا۔ اس روز ضیغم بہت سنجیدگیسے کھیل رہا تھا۔ کھیل کے تیسرے راؤنڈ تک غنائم یونہی اسے دیکھ رہی تھی۔ لیکن کھیل جب اپنی پیک پر پہنچا تو و آخر تک اٹھ نہیں سکی۔ ضیغم کھیل ختم کرکے باہر نکل رہا تھا۔ جب وہ ضیغم کے پاس آئی تھی۔ اور اس کے کھیل کی تعریف کی تھی۔ ضیغم کلب کے لان میں سجی ٹیبلز کی طعف بڑھ رہا تھا اور غنائم اس کے ساتھ چلتی ہوئی آئی تھی۔ بات تعارف سے بڑھ کر دوستی تک پہنچ گئی تھی۔ غنائم کی اکثر شامیں ضیغم کے ساتھ گزرنے لگیں۔ ضیغم کے لیے یہ تعلق ایک عام دوستی سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ لیکن ایک شام غنائم نے اسے بہت عجلت میں ملنے کے لیے کلب بلایا۔ ضیغم اپنا پولیس یونیفام چینج کیے بنا ہی وہاں پہنچ گیا۔ غنائم پہلے سے موجود تھی۔ اور اسے دیکھتے ہی کھڑی ہوگئی تھی۔
“شکر ہے۔ تم آگئے۔ میں نے تمہارا بہت انتظار کیا۔”
ضیغم کے قریب پہنچتے ہی وہ بول پڑی۔
“لیکن میں نے تو تمہیں انتظار کے لیے نہیں کہا تھا۔”
ضیغم نے معمول کے انداز میں ہلکا پھلکا سا مذاق کیا۔
“ضیغم! ابی نے مجھ سے پوچھا ہے میں آئندہ کیا کرنا چاہتی ہوں؟ میرے پلانز کیا ہیں؟”
اس کی بات نے ضیغم کو ششدر کردیا۔
“ٹھیک ہے۔ پھر میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں اس سلسلے میں؟”
ضیغم کا خیال تھا۔ غنائم اس سے مشورہ کرنا چاہتی ہے۔ لیکن وہ کچھ اور ہی کہہ رہی تھی۔
“تم؟ تم ہی تو ہو میرا ہر پلان ضیغم!”
ضیغم چونکا۔مگر غنائم نے اسے موقع نہیں دیا۔
“میں اپنی زندگی تمہارے ساتھ جینا چاہتی ہوں ضیغم۔۔۔۔ مجھے تم سے محبت ہے۔”
ضیغم دم بخود اس کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔
__________________________________
“محبت؟”
ضیغم نے حیران نظروں سے استفسار کیا۔
“تم جانتی ہو محبت کیا ہے؟ محبت وجدان ہے۔ ا
“وہ دل بہت خاص ہوتے ہیں جن پر محبت اترتی ہے۔ کیونکہ ان میں خدا رہتا ہے۔ اور جہاں خدا رہتاہو وہاں دوئی نہیں ہوتی۔ دوئی شرک ہے اور جہاں خدا جاگزیں ہوجائے وہاں شرک کے لیے گنجائش نہیں رہتی۔سو دعوی کرنے سے پہلے ایک بار سوچ لو۔”
ضیغم نے اپنی بات کہہ کر تؤقف کیا۔
“لیکن میرا نظریہ ہے کہ وہ شخص بہت خاص ہوتا ہے جس کے لیے دل دھڑکنا شروع کرتا ہے۔ کچھ تو خاص ہوتا ہے اس میں۔اور میرے دل نے دھڑکنے سے پہلے مجھ سے اجازت نہیں لی۔ مجھے صرف اتنا بتادو تم میرے ساتھ ہو یا نہیں؟”
غنائم کے لفظوں سے ضد چھلک رہی تھی۔
ضیغم نے ایک تھکان بھری سانس خارج کی۔ اور بولا۔
“تم جانتی ہو ناں؟ میں ایک عام آدمی ہوں۔ تمہارے قصر کی چھت میری دسترس میں نہیں۔”
غنائم نے بیزاری سے پشت کرسی سے ٹیکی اور بولی۔
“ضیغم! تمہاری مشکل فلاسفی سے مجھے کوئی غرض نہیں۔ میں صرف تمہارے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ اس کے علاوہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ تم بتاؤ تم میرے ساتھ ہو یا نہیں؟”
ضیغم نے کہا۔
“چاہے وہ زندگی تمہارے معیار کی نہ ہو؟”
ضیغم مصطفی! میرا معیار تم ہو۔ اب بتاؤ میرے ساتھ چل رہے ہو یا نہیں؟”
غنائم کی ایک ہی رٹ تھی۔
“مجھے کوئی اعتراض نہیں غنائم۔ لیکن میری زندگی تمہارے لائف اسٹائل سے بہت مختلف ہے۔ہوسکتا ہے میں تمہاری توقعات پر پورا نہ اتر سکوں۔ اس صورت میں تم کیا کرو گی؟”
“ہم ابھی ابی سے ملیں گے۔ اور تم میرے ساتھ چل رہے ہو۔”
غنائم نے ضیغم کے دلائل پر تف بھیجتے ہوئے اس کا بازو تھام لیا تھا۔
شیخ ولید ہادی ایک گھاگ انسان تھا۔ ضیغم کو دیکھتے ہی بھانپ گیا کہ غنائم اس کے ساتھ زیادہ دور تک نہیں چل سکے گی۔ چنانچہ مزاحمت نہیں کی۔ اور غنائم کو نکاح کی اجازت دے دی۔ لیکن ساتھ ہی ایک شرط رکھ دی۔ نکاح کو سادگی سے کرنے کی شرط۔ اس وقت ضیغم کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ اور ضیغم نکاح کرکے غنائم کے ساتھ اس کے سویٹ میں چلا آیا۔
_________________________________
“یہ کیا بدتمیزی ہے؟”
شامی دھاڑ سے دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا تھا۔ شیما اس وقت بیڈ پر بیٹھی سینڈل کی اسٹرپ کھول رہی تھی۔ شامی کے اس طرح اندر داخل ہونے کو اس نے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ شامی آنکھوں میں قہر لیے اس پر جھپٹا اور گردن سے دبوچ کر بیڈ پر گرادیا۔ شیما کی چیخ حلق میں ہی پھنس کر رہ گئی۔ جبکہ تکلیف کے مارے آنکھوں سے پانی بہہ بہہ کر چادر میں جذب ہونے لگا۔ شامی کا گھٹنا شیما کے پہلو میں تھا۔ اور شامی پے در پے اس کے پیٹ میں ضربیں لگا رہا تھا۔ شیما نے خود کو چھڑوانے کے لیے شامی کے ہاتھ ناخنوں سے نوچنے کی بہت کوشش کی لیکن تکلیف اور مسلسل کم ہوتی قوت کے باعث وہ زیادہ دیر تک دفاع نہ کرسکی۔ اس کے ہاتھ بے دم ہوکر گر گئے اور آنکھوں میں تاریکی پھیل گئی۔
شیما اپنی سب سے بڑی خواہش کھو چکی تھی۔
__________________________________
“ایمرجنسی؟”
اوکے میں ابھی پہنچ رہا ہوں۔”
یہ غنائم سے ضیغم کے نکاح کی اگلی صبح تھی۔ جب غنائم نے اسے بیک پیک تیار کرتے ہوئے دیکھا اور حیرت سے پوچھ بیٹھی۔
“تم اس وقت کہاں جارہے ہو؟”
“جاب پر”
ضیغم کا جواب مختصر لیکن مکمل تھا۔
“کیا مطلب ہے جاب پر؟ یہ ہمارا ہنی مون پیریڈ ہے اور تمہیں اس وقت اچانک جاب یاد آگئی؟”
غنائم کے لہجے میں ضیغم کے لیے خفگی تھی۔
“غنائم! ایمرجنسی کال ہے۔ میرا پہنچنا ضروری ہے۔”
ضیغم نے نرمی سے اسے سمجھانا چاہا۔
“لیکن تم تو چھٹی پر تھے۔ پھر اس کال کا کیا مطلب ہے؟”
غنائم کا موڈ خراب ہوچکا تھا۔
“ہاں۔ لیکن ایمرجنسی میں چھٹی منسوخ بھی کی جاسکتی ہے۔ اور اس وقت میرا فوری پہنچنا ضروری ہے۔”
ضیغم نے حتی الامکان اپنا لہجہ محتاط ہی رکھا ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا۔ غنائم صورتحال کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کرے گی۔
“یعنی تم پہلے ہی دن مجھے تنہا چھوڑ کر جارہے ہو؟”
غنائم کا لہجہ اور انداز سپاٹ ہوگیا۔
“غنائم تم نے ایک نوکری پیشہ آدمی سے شادی کی ہے۔ تمہیں میں نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ تمہیں ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے تھا۔”
ضیغم کے لہجے میں بھی سنجیدگی عود کرآئی۔
“ہاں ٹھیک ہے۔ لیکن شادی کے پہلے ہی دن تم مجھ سے قربانی کی توقع کیسے کر سکتے ہو؟ نہیں ضیغم! میں تمہیں جانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔”
غنائم نے ہٹیلے لہجے میں کہا۔
“ضد مت کرو غنائم! میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور مجھے سرکاری آرڈرز کو فولو کرنا ہی ہے۔”
ضیغم نے اسے آرام سے سمجھانا چاہا۔اس کے لیے غنائم کا یہ بچگانہ رویہ حیران کن تھا۔
“ورنہ؟ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ تمہیں اس جاب سے نکال دیا جائے گا۔ ہے ناں؟ سو واٹ! اس تھرڈ کلاس جاب کی تمہیں ویسے بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنا بزنس جوائن کرلیں گے۔”
غنائم نے بات کرتے ہوئے ضیغم کے گلے میںبانہیں ڈال دیں۔
“غنائم! میرے پاس تمہارے اس بچگانہ سوال کا جواب نہیں ہے۔ نہ ہی میں اس وقت کسی بحث میں پڑ سکتا ہوں۔ بہتر یہی ہے تم اس بات کو بھول جاؤ۔”
اور نرمیسے اس کے بازو چھو کر بولا۔
“میں جلد واپس آنے کی کوشش کروں گا۔ اللہ حافظ!”
اور اس کا گال تھپتھپا کر باہر نکل گیا۔
غنائم پیر پٹخ کر رہ گئی۔
بات یہ نہیں تھی کہ ضیغم اسے تنہا چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ بات یہ تھی کہ ضیغم نے دوٹکے کی جاب کو غنائم پر فوقیت دی تھی۔
یہیں سے انکے رشتے میں پہلی لکیر پیدا ہوئی۔
ضیغم اگلے پورے ہفتے تک واپسی کی راہ نہیں دیکھ سکا۔ اور اس عرصے میں غنائم کا غصہ کم ہونے کے بجائے بتدریج بڑھتا چلا گیا۔
اس روز ضیغم کمرے میں پہنچا تو غنائم وہاں موجود نہیں تھی۔ وہ اسے تلاش کرتا ہوا۔ اسپورٹس کورٹ میں چلا آیا۔ اسے اندازہ تھا کہ غنائم کمرے کے علاوہ اسے وہیں ملے گی۔ غنائم تو وہیں تھی لیکن اس کا دماغ اور ہی آسمانوں کی سیر کررہا تھا۔
ضیغم اسے شاٹس پر شاٹس لگاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ وہ تنہا ہی کھیل رہی تھی۔ ماتھا پسینے سے جگمگا رہا تھا۔
“السلام علیکم!”
وہ پانی پینے کے لیے رکی تو ضیغم نے اسے مخاطب کیا۔مگر غنائم نے کوئی جواب نہیں دیا۔
“کیسی ہو؟”
ضیغم نے ایک اور کوشش کی۔ جو رائیگاں نہیں گئی۔ وہ بال کو دیوار پر پٹخ کر ضیغم کی طرف چلی آئی۔
“تمہیں اس کی پرواہ ہے؟”
غنائم کی سرخ وسفید رنگت اس وقت دہک رہی تھی۔
“پرواہ نہ ہوتی تو یہاں نہ ہوتا۔”
ضیغم نے مسکرا کر اس کے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھا۔
“پھر آج ایک بات طے کر لو۔ تمہاری pirorties میں میرا نمبر کب آتا ہے؟ تمہاری زندگی میں میں کہاں ہوں؟ ضیغم!
“ضیغم نے ایک سانس خارج کی۔ اور مضبوط لہجے میں بولا۔
“غنائم تم میری پہلی ترجیح ہو۔ میری زندگی میں تمہارا مقام ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔”
“تو پھر جاب چھوڑ دو۔ میں تمہارے اور اپنے درمیان کچھ برداشت نہیں کرسکتی۔”
غنائم نے دوٹوک کہا۔
“پھر وہی ضد؟ تم میری جاب کے بارے میں لاعلم نہیں تھیں۔ یہ جاب میرے لیے صرف کام نہیں ہے۔ میرا پیشن بھی ہے۔ میں جب کسی سسکتی ہوئی زندگی کو موت کے پنجوں سے نکال کر حیات کے حوالے کرتا ہوں تو اس وقت میں اپنے رب کو راضی کررہا ہوتا ہوں۔ اور تم چاہتی ہو میں اپنے رب کی نوکری چھوڑ کر تمہاری ملازمت اختیار کرلوں؟ میں کبھی یہ نہیں کرسکوں گا۔”
ضیغم کے خیال سے یہ بات آج ہی ختم ہوجاتی تو بہتر تھا۔
“تم جھوٹے ہو ضیغم! یہ جاب تمہارا پیشن یا تمہاری عبادت نہیں ہے۔ تمہاری سوکالڈ ایگو اور تمہارا بیک گراؤنڈ تمہیں اجازت نہیں دیتا کہ تم میرے ساتھ کھڑے ہو۔
کیا تم نہیں جانتے تھے؟ ابی کا سارا بزنس میرا ہے۔ اور مجھے ہی اس کو رن کرنا ہے؟ تم نے کیا سوچ کر مجھ سے شادی کی تھی؟ میں اپنا بزنس بینک بیلنس چھوڑ کر تمہاری اس دس ہزار کی جاب پر گزارا کروں گی؟ تم بھی تو مجھے جانتے تھے۔ میرا اسٹیٹس جانتے تھے۔ تم کیا چاہتے ہو؟ کل کو لوگوں میں میں تمہارا تعارف ایک رضاکار پولیس آفیسر کی حیثیت سے کرواؤں؟ میرا سر شرم سے جھک جائے؟ یہ چاہتے ہو تم؟”
غنائم پھٹ پڑی تھی۔ ضیغم نے بغور اس کی ہر بات کو سنا اور ٹھنڈے لہجے میں بولا۔
“نہیں! میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ تمہارا سر شرم سے جھک جائے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ تم نے میرے بارے میں غلط اندازہ لگایا۔ ہم مزید آگےنہیں بڑھ سکیں گے۔ غنائم! کیونکہ مجھے احساس ہورہا ہے کہ ہمارا شادی کا فیصلہ غلط تھا۔
تمہیں تمہاری دنیا مبارک ہو۔ ہمارا زندگی کو دیکھنے کا نظریہ ہی الگ ہے۔”
ضیغم کہہ کر خاموش ہوگیا۔ غنائم اپنی جگہ پتھر کی ہوگئی۔ وہ نہیں جانتی تھی۔ ضیغم یوں کھڑے کھڑے فیصلہ سنا دے گا۔
مگر اس کی بھی انا تھی۔
“ٹھیک ہے۔ چلے جاؤ میری زندگی سے۔ میں تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتی۔ تم چاہے جانے کے قابل ہی نہیں ہو۔ لیکن جس زندگی کے لیے تم مجھے چھوڑ رہے ہو۔ ایک دن وہ تمہیں اتنے زور سے ٹھوکر مارے گی کہ منہ کے بل گروگے تم ضیغم مصطفی! اور میں انتظار کروں گی تمہارے پچھتاوے کا۔”
غنائم نے چیخ کر کہا تھا۔ اور ضیغم اس مستعار لی ہوئی زندگیکو خداحافظ کہہ آیا تھا۔
یہاں ضیغم اور غنائم کی کہانی کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
آغاجان نے ضیغم کوبغور سنا تھا۔ اور پھر فقط ایک جملہ کہا۔
“محبت کو راستے میں چھوڑ دینا غیرتمند مردوں کا شیوہ نہیں۔”
ضیغم کچھ نہ کہہ سکا۔ وہ جان گیا تھا کہ اسے جاب کی قربانی دینی ہوگی۔
عشال دل پر بوجھ لیے کمرے میں چلی آئی۔ جو کچھ لاؤنج میں وہ دیکھ کر آئی تھی۔ وہ اچھا نہیں تھا۔ آغا جان نے ضیغم کو غنائم کے پاسلوٹ جانے کو کہا تھا۔ لیکن اس بات سے عشال کا دل کیوں بوجھل ہو رہا تھا۔ وہسمجھ نہیں سکی۔ البتہ ضیغم کے لیے اس کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔
______________________________
اسپتال کی سرد راہداری خاموش تھی۔ اور شیشے کی دیوار سے چمکیلی دھوپ سر پٹک پٹک کر تھک چکی تھی۔ لیکن اسے اذن دخول نہیں مل سکا تھا۔ اندرونی طرف دو نفوس ایک دوسرے سے پشت پھیرے کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک زبیر عثمانی تھے۔ جو بظاہر خاموش دکھائی دیتے تھے لیکن ان کا ایک ایک عضو اس وقت اندرونی خلفشار کا گواہ تھا۔ وہ کئی بار اپنے اکلوتے بیٹے کے شایان شان الفاظ استعمال کرنے سے قاصر تھے۔ جس نے قسم کھا رکھی تھی انھیں زندگی میں ایک پل چین سکون کا نصیب نہیں ہونے دینا۔
“آخر کیا ضرورت تھی تمہیں یہ حرکت کرنے کی؟ یہ گھٹیا حرکت کرتے ہوئے تم نے ایک بار بھی ہمارے بارے میں سوچا؟”
زبیر صاحب نے دانت کچکچا کر بےنیاز کھڑے اس پتھر میں جونک لگانے کی کوشش کی۔ جو بے سود گئی۔
“ہمیں چھوڑو۔۔۔۔ کم ازکم اپنے بارے میں ہی سوچ لیا ہوتا! اس حرکت کے بعد ملک شہباز تمہارے ساتھ کیا کرسکتا ہے کچھ اندازہ ہے تمہیں؟ آخر تمہیں بچے سے پرابلم کیا ہے؟”
“تم سے کہہ رہا ہوں میں!”
شامی کے کوئی ردعمل نہ دینے پر زبیر صاحب نے اسے جھنجھوڑ کر اپنی جانب موڑا۔
“آپ کو نہیں لگتا؟ یہ میرا پرسنل میٹر ہے اور آپ کو اس میں اینٹرفئیر نہیں کرنا چاہیے؟”
شامی کے الفاظ کے برعکس اس کا انداز پرسکون تھا۔
“وہ جو اندر مر رہی ہے ناں؟ وہ ملک شہباز کی بیٹی ہے۔ اکلوتی بیٹی! جسے تم نے نہ جینے کے قابل چھوڑا ہے ناں موت کے۔۔۔۔! کیا سمجھتے ہو تم خود کو؟ ملک شہباز کی ایک کال تمہیں اٹھا کر سلاخوں کے پیچھے پٹخ سکتی ہے۔ لیکن وہ خاموش ہے تو صرف میری وجہ سے۔۔۔۔! آخر تمہاری پرابلم کیا ہے؟”
“ملک شہباز کے نام سے مت ڈرائیں۔ اور نہ آپ مجھے اس طرح بلیک میل کرسکتے ہیں۔ کیا میں نہیں جانتا آپ دونوں کے باہمی مفادات آپ دونوں ایکدوسرے کے اگینسٹ نہیں جانے دیں گے۔ لیکن میں آپ دونوں کی اس بزنس سیاست کا حصہ نہیں بن سکتا۔ مجھے اپنے طریقے سے جینا ہے۔ آپ سے ڈکٹیشن لے کر نہیں۔”
شامی پر رتی بھر اثر نہیں ہوا تھا۔ زبیر عثمانی جزبز ہوئے۔
“فائن! پھر ملک شہباز کو تم خود ہی ہینڈل کرو۔ آج کے بعد اپنے ہر معاملے کو تم خود سولو آؤٹ کروگے۔”
زبیر عثمانی کے پاس شامی نام کے پزل کا کوئی حل نہیں تھا۔ ویسے بھی وہ بچپن سے اتنے ٹکڑوں میں بٹ چکا تھا کہ اب اسے سلجھانا ان کے بس سے باہر تھا۔
شامی نے ایک بار پھر نظریں چمکیلے شیشے کے پار جمادی تھیں۔ زبیر عثمانی وہاں مزید نہیں ٹھہر سکتے تھے۔
____________________________________
آغاجان نے آہستہ سے سانس خارج کی۔ اور مسح کے انداز میں چہرے اور داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ ان کا دل بوجھل تھا۔ بہت چھوٹی عمر میں ضیغم نے والدین کو کھو دیا تھا۔ لیکن اس معصوم بچے کا صبر کمال تھا۔ والدین کے بعد وہ اپنے دادا کی سرپرستی میں آگیا تھا۔ آغاجان اس وقت مصر میں ایک کانفرنس میں شریک تھے۔ انھوں نے جب ضیغم کو دیکھا تو وہ چار سال کا سنجیدہ اور ایک سمجھدار بچہ تھا۔ جو والدین کی موت کو قبول کرچکا تھا۔ آغاجان نے اسے کبھی ضد کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ تھوڑا بڑا ہونے پر ہی اس نے اپنی ذمہ داریاں خود اٹھانے کی کوشش شروع کردی تھی۔ رضا انصاری اس کے دادا ضیغم کے لیے اپنا آپ وقف کرچکے تھے۔ مگر ضیغم نے پھر انھیں کوئی شکایت نہیں ہونے دی۔ آغاجان کے دل میں اس یتیم اور حساس بچے کے لیے بےپناہ محبت تھی۔ اس کی عمر کے بچے اپنے والدین کے ساتھ کیسی کیسی ضدیں کرتے تھے۔ جبکہ اس نے کبھی ضرورت بھی بیان نہیں کی تھی۔ ایسے موقعوں پر آغاجان کا دل اس کے لیے محبت سے بھر جاتا تھا۔
وہ سولہ سال کا ہوا ہی تھا کہ رضا انصاری بھی داغ مفارقت دے گئے۔ تب آغاجان کا دل کٹ کر رہ گیا۔ انھیں اس کی قسمت پر ٹوٹ کر رونا آیا۔ اور ضیغم نے ان کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا تھا۔
” روئیں نہیں دادو! مجھے یقین ہے اللہ کو مجھ سے پیار ہے۔ ستر ماؤں سے زیادہ۔ اسی لیے تو وہ مجھے خود سے زیادہ نزدیک کررہا ہے۔”
اور آغا سمیع الدین اسے سینے سے لگانے پر مجبور ہوگئیے تھے۔
آگے کا سارا سفر ضیغم نے اپنے بل پر طے کیا تھس۔ اس نے کئی طرح کی جزوقتی نوکریاں کیں۔ تعلیم مکمل کی۔ اور پولیس کے شعبہءحادثات اور رضاکار ڈیپارٹمنٹ میں بھرتی ہوگیا۔
عشال کے حوالے سے ضیغم ان کا پہلا انتخاب تھا۔ لیکن انھوں نے مناسب وقت کے لیے اپنی اس خواہش کو دل میں ہی رکھا۔ مگر اس سے پہلے ہی غنائم اس کی زندگی میں آگئی۔ اور آغاجان نے اسے اللہ کی مرضی جان کر اپنی خواہش کو زبان نہیں دی۔ اور اب۔۔۔۔۔ یہ محبت بھی اسے راس نہیں آئی تھی۔ جانے اس کے نصیب میں اللہ نے کتنے امتحان لکھے تھے؟
“الہی! میرے بچے کو اچھا مقدر عطا فرما۔”
___________________________________
“آغاجان ٹھیک کہتے ہیں۔ شریک سفر اگر کمزور پڑ جائے تو مرد پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بہرحال آخری فیصلہ انسان کا اپنا ہوتا ہے۔ اس کے اچھے یا برے نتائج کی ذمہ داری قبول کرنا پڑتی ہے۔ اور شریک سفر کو راستے میں چھوڑ دینا کم ظرفی ہے۔ اور میں کم ظرفی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ عشال!”
ضیغم کو افسردہ اور ملول دیکھ کر عشال اس کے پاس چلی آئی تھی۔ لیکن اس کے پاس وہ الفاظ نہیں تھے۔ جن سے وہ ضیغم کے دل کو بوجھ بانٹ لیتی۔ عشال کو مسلسل خاموش پاکر اس نے خود ہی بات کا آغاز کردیا تھا۔
“ضیغم بھائی! یہ فیصلہ آپ کے لیے بوجھ بن کیسے بن گیا؟ جبکہ آپ کو تو محبت تھی ناں؟ کیا محبت بھی کبھی بوجھ بن سکتی ہے؟ یا پھر یہ محض ایک لفظ ہے۔ جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے؟”
عشال کے حلق میں آنسو جمع ہو رہے تھے۔
“نہیں عشال! محبت کبھی بوجھ نہیں ہوتی۔ ہاں تعلق کے معاملے میں ہم کبھی کبھی خوغرض ہوجاتے ہیں۔ میرا اور غنائم کا مسئلہ محبت نہیں ہے۔ ہم دو مختلف دنیاؤں کے باسی ہیں۔ ہم سے ایک دوسرے کو پرکھنے میں غلطی ہوئی۔ لیکن اس غلطی کی سزا ہم خود سے وابستہ دوسرے لوگوں کو نہیں دے سکتے۔ غنائم اپنی محبت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ تو پھر مجھے اپنی عزت نفس پر سمجھوتہ کرنا ہے۔”
اتنا کہہ کر وہ اپنے کمرے کی جانب چلا گیا تھا۔ اور عشال اس کی چھوڑی ہوئی کرسی کو دیکھ کر رہ گئی۔
__________________________________
وہ بہت دور سے پیدل چل رہا تھا۔ پہاڑوں پر ابھی برف نہیں جمی تھی۔ لیکن بارش اور بادلوں کی دھوپ چھاوں خوب جاری تھی۔ اس نے اوپر کو جاتی نیم پختہ ڈھلوان پر قدم رکھے اور سیل فون پر نوٹ کیا گیا پتہ دیکھ کر تسلی کی۔ لکڑی کے مضبوط کواڑوں پر موٹا سا تالا پڑا ہوا تھا۔ شہیر نے چابی نکال کر تالے میں گھمائی۔ زنجیر اتار کر ہاتھ میں لی اور کواڑوں کو دھکیل کر اندر داخل ہوگیا۔ اور اردگرد کا جائزہ لینے لگا۔ یہ کشادہ سا ایک ہال نما کمرہ تھا۔ جس کے وسط سے سیڑھیاں گولائی کی شکل میں اوپر کی طرف جارہی تھیں۔ دیواروں میں کشادہ کھڑکیاں تھیں جو فی الحال بند تھیں اور اسی وجہ سے ماحول پر تاریکی کا راج تھا۔ صرف دروازہ کھلنے کی وجہ سے روشنی اندھیرے کی چادر کو چاک کررہی تھی۔ سیڑھیوں کے زینے کے نیچے چمڑے کا ایک صوفہ تھا۔ شہیر نے آگے بڑھ کر سوئچ آن کرنا چاہا لیکن بجلی کی فراہمی شاید مقطع تھی۔ کچن کاؤنٹر کے ساتھ لکڑی کا مضبوط مگر پتلا سا ستون تھا جس پر کیل کے ساتھ لالٹین لٹک رہی تھی۔ شہیر نے اسے کھنگالا تھوڑا ساتیل پیندے میں موجود تھا۔ شہیر نے بیگ کی جیب سے لائٹر نکالا اور لالٹین جلائی۔ ایک زرد سی روشنی کمرے کے وسط میں پھیل گئی۔
اچانک دروازے پر دستک دیتا ہوا ایک شخص اندر داخل ہوا۔
“السلام علیکم ڈاکٹر صیب!
“اچھا تو آپ پہنچ گئے جی؟ کوئی مسئلہ تے نئیں ہویا؟”
“پہاڑی وضع قطع کےحامل اس شخص کے انداز میں خاصی بےتکلفی تھی۔
آپ کی تعریف؟”
شہیر نے تعارف چاہا۔
“اساڈی کے تریف سر جی؟ تریف تے تساں جئے بڈے لوگاں دی ہونڑی چئی دی اے۔ جیڑے کار بار چھوڑ کے اناں پاڑاں وچ آ بسے ہو۔”
“آپ کا نام جاننا چاہ رہا تھا۔”
شہیر نے نرمی سے جتایا۔
“او اچھا اچھا! میں جی عمر گل! شہزاد باؤ نے دسیا ہوسی۔ اوہ! تسی ہالی تائیں نیرے وچ کھلتے دے او۔ میں جنریٹر لے آیاں۔ سروس واسطے دکان تے دتا سی۔ فکر نہ کرو۔ ہونڑیں لائٹ آجاندی اے۔”
وہ بیک وقت کئی موضوع نمٹادینے میں ماہر لگتا تھا۔ شہیر نے فقط سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔ ڈاکٹر شہزاد نے اسے بتایا تو تھا کہ ایک ملازم ہے۔ کوئی بھی مسئلہ ہو وہ بتادیا جائے۔ او اب عمر گل کو دیکھ کر اسے بخوبی اندازہ ہورہا تھا کہ وہ ہرفن مولا ٹائپ شخص ہے۔
عمر گل جنریٹر چلانے کے لیے باہر نکل گیا تو شہیر اپنا مختصر سامان اٹھا کر سیڑھیاں چڑھ گیا۔ یقینا بیڈروم اوپر ہی تھا۔ نیچے تو صرف ایک ہال نما لاؤنج تھا۔ جس کی اونچی چھت لکڑی کے ستونوں پر قائم تھی۔
____________________________________