روزنامہ صبح ایبٹ آباد کے ادبی ایڈیشن ”ادب نامہ“میں میری شمولیت تو تقریباََ شروع سے ہی ہو گئی تھی۔جب برادرم احمد حسین مجاہد نے ”ادب نامہ“کی کمانڈ سنبھالی تو ابتدائی شماروں میں ہی میرا تعاون ان کے ساتھ رہا۔لیکن غالباََ شمارہ نمبر ۸یا ۹سے جب عامر سہیل نے یہ صفحہ ترتیب دینا شروع کیا تو میری شرکت زیادہ گھنی ہوتی گئی۔اور اب۲۷جون ۳۰۱۳ءکو”ادب نامہ“کا پچاسواںشمارہ شائع ہونے کے ساتھ اس کی ایک چھوٹی سی گولڈن جوبلی ہو گئی ہے۔ سونا جتنا مہنگا ہو چکا ہے اس کی مناسبت سے چھوٹی سی گولڈن جوبلی ہی مناسب ہے۔اس مناسبت سے میرا جی چاہا کہ عامر سہیل کی اس ساری محنت کا ایک سرسری سا جائزہ لیا جائے۔تاہم بدقسمتی سے میرے پاس ”ادب نامہ“کے پچاس شماروں کی مکمل فائل موجود نہیں ہے۔مکمل فائل ہوتی تو اسم شماری میں کوتاہی کی گنجائش نہ رہتی۔
سب سے پہلے ادب نامہ میں شائع ہونے والے شعرائے کرام کا ذکر کروں گا۔مغربی دنیا،بلاد عربیہ سے بلاد شرقیہ تک کئی ممالک کے اردو شعرائے کرام کی شعری تخلیقات ”ادب نامہ“میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ امریکہ سے صادق باجوہ،خالد عرفان،خالد خواجہ،کینیڈا سے عبداللہ جاوید،پروین شیر،آسٹریلیا سے ڈاکٹر ریاض اکبر،نوشی گیلانی،سعید خان،ملائیشیا سے عاطر عثمانی، جرمنی سے حنیف تمنا،خالد ملک ساحل،انگلینڈ سے ڈاکٹررضیہ اسماعیل،منصور آفاق،بلاد عربیہ سے شوکت علی ناز۔ دوحہ،قطر،شہزاد میر۔متحدہ عرب امارات،بشارت گیلانی سعودی عرب،اورانڈیا سے ڈاکٹر شہناز نبی۔کلکتہ،ترنم ریاض۔ دہلی، فہیم انور۔کولکاتا،ندا فاضلی۔بمبئی،کی تخلیقات قارئین روزنامہ صبح کے ادبی ذوق کی آبیاری کرتی رہیں۔تاہم عامر سہیل نے صرف بیرون ملک کے شعراءکو ہی اہمیت نہیں دی بلکہ اپنے علاقہ کے شعرائے کرام کو بھی بڑے پیمانے پر شائع کیا ۔اس سلسلہ میں ہزارہ کے شعرائے کرام کی ایک پوری کہکشاں جگمگاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ہزارہ کے شعراءمیںڈاکٹر محمد سفیان صفی،ارشاد شاکر اعوان،واحد سراج،صوفی عبدالرشید، سعداللہ سورج،سلطان سکون،سید علی سلمان،عنایت اللہ وسیم،اویس سویمبر،جمیل انور،کاشف بٹ،آصف ثاقب،افسر منہاس،حسن علی شاہ بخاری،محمد حنیف،پرویز ساحر،شفیق عطاری،نسیم عباسی،امتیازالحق امتیاز،سید عبداللہ شاہ مظہر،شہزاد نیر،ڈاکٹر عاکف گمریانی،جعفر اقبال،سقراط بن عامر،جان عالم،رستم نامی،تاج الدین تاج،عبدالوحید بسمل،فیاض ترین،احمد عطاءاللہ، ضیاالرشید ، اویس خالد،جمیل انور،وقتاََ فوقتاََ ”ادب نامہ“میں شائع ہوتے رہے۔ہزارہ کے ان مقامی شعراءمیں سے کئی شعراءپہلے ہی اپنی اہمیت سے پوری اردو دنیا کو متوجہ کر چکے ہیں،اور بعد میں آنے والے شعراءمیں سے بھی کئی ایک کے ہاں وسیع امکانات صاف دکھائی دیتے ہیں۔یوں ہزارہ کی مقامیت بذاتِ خود ایک بین الاقوامیت کا اظہار کر رہی ہے۔پاکستان کے دوسرے شہروں سے بھی متعدد شعرائے کرام ”ادب نامہ“میں چھپ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔اس حوالے سے یہ چند نام سامنے دکھائی دیتے ہیں۔ حسام حر۔پشاور،ڈاکٹر نذر عابد۔اٹک،کامران قمر۔کوئٹہ،نوید حیدر ہاشمی۔کوئٹہ،سید ماجد شاہ۔اسلام آباد،محمد اظہار الحق۔اسلام آباد،سیما غزل، ناصر علی سید۔پشاور،ایوب خاور۔لاہور،فرحت نواز۔رحیم یار خان،اکبر حمیدی۔اسلام آباد،واصف علی واصف،سعید شباب۔خانپور،تاجدار عادل۔کراچی،ارشد خالد ۔اسلام آباد،حنا نور۔پشاور،سجاد بابر۔ پشاور، اور عزیز اعجاز۔پشاور،۔
۲۷ستمبر۲۰۱۲ء کو” ادب نامہ“کا نعت نمبر شائع کیا گیا۔اس نمبر میں عامر سہیل کا مضمون ”ہزارہ میں نعت کی روایت“کلیدی مقالہ کا درجہ رکھتا ہے۔نعت گو حضرات میںہزارہ سے عبدالوحید بسمل،امان اللہ خان امان،تاج الدین تاج،صوفی عبدالرشید،بشیر احمد سوز،کی نعتیں اور اٹک سے ڈاکٹر نذر عابد کی نعت کے ساتھ نیویارک سے تنویر پھول اور جرمنی سے میری نعتیں اس نمبر میں شائع کی گئیں۔جو یقیناََ ہم سب کے لیے سعادت اور اعزاز ہے۔
کسی بھی اخبار کے ادبی ایڈیشن میں تازہ ادبی تقریبات کی اشاعت بہت اہمیت رکھتی ہے۔”ادب نامہ“میں ہزارہ کی ادبی تنظیموں کی تقریبات کی روداد کے ساتھ ملک کے دوسرے شہروں اور دوسرے ممالک کی تقریبات کی رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں۔اس سلسلہ میں صرف ان تنظیموں کے نام گنوا دینا کافی ہے جن کی تقریبات کی روداد شائع ہوتی رہی ہیں۔بزمِ علم و فن ایبٹ آباد ہزارہ،حلقہ یارانِ ادب بفہ، انجمن ترقی پسند مصنفین ہری پور،ہزارہ کانونٹ سکول مانسہرہ،نیا اسلوب ایبٹ آباد،انحراف اور اکادمی ادبیات کے اشتراک سے احمد حسین مجاہد کے اعزاز میں تقریب،عالمی فروغ اردو ادب،دوحہ،قلم کارواں حویلیاں،ادبی تنظیم مالا امریکہ،ادارہ فروغ ہند کو،پشاور،پاک بزمِ ادب قطر،معارف خان پور،آگہی انگلینڈ،سوچ۔رحیم یار خان ، پنجابی ادبی بیٹھک۔رحیم یار خان،خیبر لٹریری کلب پشاور،حلقہ ارباب ذوق پشاور،،پشتونخواہ سٹڈی سنٹر چار سدہ،۔۔۔۔۔۔۔ان ساری خبروں اور رپورٹوں سے مجلسی سطح پر اردو دنیا میں ہونے والی گہما گہمی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ انعامات و اعزازات کی خبروں کے حوالے سے ہزارہ کے دانشوربشیر احمد سوز کے لیے اکادمی ادبیات اسلام آباد کے انعام سے لے کرکولکاتا ۴۲۔پرگنہ کے خورشید اقبال کے لیے بہار اردو اکیڈمی کے ایوارڈ،تک ساری خبریں پڑھنے کو ملتی رہیں۔ایسی خبروں کے دوش بدوش نئی کتابوں کی اشاعت اوررسائل کے نئے شماروں کی اشاعت کی خبریں بھی ادب نامہ میں آتی رہیں۔سہ ماہی شعر و سخن مانسہرہ،ماہنامہ سبق اردو،بھدوہی،انڈیا،عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد ،نایاب خانپور،جدید ادب جرمنی،سہ ماہی عطا ئ،ڈیرہ اسماعیل خان،دستاویز دوحہ،رسائل کے ناموں اور چھپنے کے مقامات سے ان کے پھیلاؤ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔
عامر سہیل کا کتابوں اور رسالوں کے ساتھ ادبی شخصیات کے تعارف پر مبنی کالم”ادب دوست“اہتمام کے ساتھ لکھا جاتا رہااورشائع ہوتا رہا۔اس کالم کے علاوہ مختلف و متنوع ادبی موضوعات پر اور ادبی شخصیات کے کسی ادبی زاویے پر مختلف مضامین ”ادب نامہ“ میں شائع ہوتے رہے۔ان مضامین کے لکھنے والوں میں سے چند اہم نام یہاں درج کر رہا ہوں۔ زاہد منیر عامر(لاہور)،محمد حنیف خان (لکھنﺅ)، ڈاکٹر محمد سفیان صفی(ایبٹ آباد)،حیدر قریشی (جرمنی) ، احمد حسین مجاہد(ایبٹ آباد)،ڈاکٹر الطاف یوسف زئی(ایبٹ آباد)،مریم آفتاب(ایبٹ آباد ) ، عامر سہیل(ایبٹ آباد)،عادل سعید قریشی،سید ضمیر جعفری،ترنم ریاض(دہلی)،رشید امجد(اسلام آباد)،منشا یاد(اسلام آباد)،اختر حسین جعفری،بی بی حلیمہ بشریٰ(پشاور)،پروفیسر دل نواز عارف،مونا عامر (ایبٹ آباد)،ڈاکٹر صبیحہ خورشید (مہاراشٹر)،اور زاہد مسعود(لاہور)۔ادبی مضامین کے ساتھ ساتھ متعدد کتابوں پر مختصر تبصرے بھی تسلسل کے ساتھ شائع کیے جاتے رہے۔ البتہ مضامین اور دوسری اصناف کے مقابلہ میں افسانے اور انشائیے بہت کم شائع کیے گئے۔تاہم جو افسانے شائع کیے گئے ان میں پرانے اور نئے لکھنے والوں میں ایک توازن کو ملحوظ رکھا گیا ۔ ”ادب نامہ“میں ان افسانہ نگاروں کے افسانے میری نظر سے گزرے۔ جوگندر پال (دہلی)، شموئل احمد (انڈیا)،کلیم خارجی(ایبٹ آباد)،مریم آفتاب(ایبٹ آباد)۔بی بی حلیمہ بشریٰ (پشاور)،۔انشائیوں کی شرح افسانوں سے بھی کم رہی۔اکبر حمیدی اور حیدر قریشی کا ایک ایک انشائیہ شائع ہوا۔
ادبی شخصیات یا ان کی کتاب رسالے کے حوالے سے خصوصی تعارف میں صادق باجوہ،انور خواجہ،عبداللہ جاوید،معید رشیدی،خورشید اقبال،محمد اظہار الحق،اکبر حمیدی،ناصر عباس نیر،احمد حسین مجاہد، منشا یاد، مختار مسعود اورارشد خالد کے نام لیے جا سکتے ہیں،جنہیں خصوصی اہمیت دی گئی۔ان ناموں کے علاوہ علامہ اقبال،میرا جی،خلیل جبران،رابندر ناتھ ٹیگور،ہرمن ہیسے،وزیر آغا،ساحر لدھیانوی،مولانا ظفر علی خان اورفیض احمد فیض جیسی اہم اور عہد ساز ادبی شخصیات کو بھی کسی نہ کسی رنگ میں عام ڈگر سے ہٹ کر”ادب نامہ“ میں یاد کیا گیا۔
ادب نامہ میں شائع کیا جانے والا ایک شذرہ”ظفر اقبال غالب یا مغلوب“ایسا ہنگامہ خیز ثابت ہوا کہ اس کی بازگشت پوری اردو دنیا میں سنی گئی۔جبکہ ”فیض احمد فیض اور امریکی مفادات“کے زیر عنوان تحریرایک انکشاف کرنے کے بعد مزید انکشافات کو سامنے لانے کا امکان رکھتی ہے۔بعض سنجیدہ ترقی پسند لکھنے والوں نے اس طرف توجہ کی ہے لیکن پھر کسی انجانے خوف سے یا پھر کسی احتیاط کے باعث خاموشی اختیار کر لی ہے۔تاہم انکشاف کے امکانات پھر بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔
مجموعی طور پر روزنامہ صبح ایبٹ آباد کے ادبی صفحہ ”ادب نامہ“کے پچاس شمارے عامر سہیل کی محنت،لگن اور ادب سے محبت کا نتیجہ ہیں۔عامر سہیل کے ساتھ ”ادب نامہ“کی تزئین و ترتیب میں ہمیشہ گہری دلچسپی لینے والے اسٹاف کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ”ادب نامہ“کو اتنا دیدہ زیب بنا دیا ہے کہ ملک کے کسی بھی بڑے اخبار کے ادبی ایڈیشن کے مقابلہ میں پورے اعتماد کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔انٹرنیٹ کی دنیا نے اور ادبی گروپس کی سہولت نے اب ”ادب نامہ“کو بھی ایک وسیع حلقۂ قرات دے دیا ہے،چنانچہ دنیا بھر کے اردو ادیب گھر بیٹھے کمپیوٹر کے ذریعے ہر ہفتہ ”ادب نامہ“حاصل کرتے ہیں اور اسے پڑھنے کے بعد اپنے مشوروں سے بھی نوازتے ہیں۔مجھے ذاتی طور پر کئی دوستوں نے ادب نامہ میں چھپنے والی تحریروں کے حوالے سے اپنی آراءسے نوازا ہے،نوازتے رہتے ہیں۔ایسے دوستوں،کرم فرماؤں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ ”ادب نامہ“کے پچاس شماروں کی اشاعت مکمل ہونے پر میں اس کی ابتدا کرنے والے دوست احمد حسین مجاہدکو،اسے پوری لگن کے ساتھ پچاس ہفتوں کی تکمیل تک پہنچانے والے عامر سہیل کو ،”ادب نامہ“کے تزئین کاروں کو اور ادارہ روزنامہ صبح ایبٹ آباد کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔میری دعا ہے کہ ”ادب نامہ“ کا یہ سلسلہ پچاس ہفتوں سے پچاس مہینوں اور پھر پچاس برسوں تک کا سفر طے کرتا چلا جائے۔آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ادب نامہ“روزنامہ صبح ایبٹ آباد ۔۴جولائی ۲۰۱۳ء