ادب کا میڈیا سے شروع ہی سے ایک تعلق قائم رہا ہے اور اس تعلق کے ساتھ میڈیا سے ایک فاصلہ بھی رہا ہے۔ پرنٹ میڈیامیں کتاب کی صورت میں ادب کی اشاعت سے لے کر اخبار اور رسالوں میں ادب کی اشاعت تک ایک تعلق چھاپہ خانوں کی ابتدا سے چلا آرہا ہے۔اور اخبار کی اہمیت و افادیت کے باوجود ادب نے صحافت سے اپنا الگ تشخص بھی شروع سے قائم رکھا ہے۔اہلِ صحافت نے ادب کی جداگانہ شناخت کو کبھی اپنی عزت کا مسئلہ نہیں بنایا۔یوں کئی شاعر اور ادیب کئی اخبارات و رسائل کے مدیران رہ چکے ہیں،اور کئی صرف مکمل صحافی حضرات بھی اخبارات و رسائل کے ایڈیٹرز رہ چکے ہیں۔اس وقت بھی پرنٹ میڈیا میں یہ ملی جلی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔شاعر اور ادیب نہ ہوتے ہوئے بھی عام طور پر رسائل و جرائد کے مدیران میں زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب کی سوجھ بوجھ بھی معقول حد تک ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اخبارات اور غیر ادبی رسائل میں بھی ادب کو مناسب جگہ ملتی رہتی ہے۔ہر چند ادب ان کی پہلی یا دوسری ترجیح نہیں ہوتی پھر بھی ادب سے یکسر صرفِ نظر نہیں کیا جاتا۔ادب اور صحافت کی دنیا میں ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑاور کاری گری کی روایات بھی شروع سے ملتی ہیں۔اس سلسلہ میںادب میں شبلی نعمانی سے لے کر نیاز فتح پوری تک قمر زمانی بیگم اور ان سے ملتے جلتے فرضی قصوں کے اسکینڈلز بھی دیکھے جا سکتے ہیں اور اخبار”فتنہ“اور”جواب فتنہ“جیسے تماشے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ایک منفی رویہ ہونے کے باوجود ان سب واقعات میں ادب، آداب کی ایک تہذیب بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے۔پھر ادب اور صحافت میں ایسے واقعات آٹے میں نمک کی مقدار سے بھی کم رہے ہیں۔ان کے بر عکس ہجو گوئی کی ایک روایت طویل عرصہ سے اردو ادب میں موجود ہے اور صحافت میں بھی شدید اختلاف رائے کی صورت میں اس کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں۔اس سب کچھ کے باوجود ادب اور پرنٹ میڈیا کے درمیان ایک فاصلہ اور ایک ہم آہنگی ہمیشہ سے موجود رہی ہے اور اس خاص نوعیت کے تعلق میں ایک باوقار طریقِ کار صاف دکھائی دیتا ہے۔
پرنٹ میڈیا کے بعد جب ریڈیو کے ذریعے ہوا کے دوش پر صحافت کے فروغ کی صورت نکلی تو اس میں ادب کا بھی تھوڑا بہت حصہ ہمیشہ شامل رہا ہے۔ریڈیو سے سرکاری ٹی وی کے دور تک بھی اس روایت کو تھوڑی بہت ہیرا پھیری اور جانبداری کے ساتھ سہی لیکن پھر بھی قائم رکھا گیا۔سرکاری ٹی وی نے اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر یا پھر متعلقہ ٹی وی حکام کے پسندیدہ ادیبوں کو نمایاں کیا۔اس دور میں” میڈیاکر“ رائٹرز کی باقاعدہ کھیپ تیار کی گئی۔معیاری تخلیقی ادب کو عام طور پر نظر انداز کیا گیا۔میڈیاکر رائٹر بنے بغیر ادب کی خاموشی کے ساتھ خدمت کرنے والوں کو نظر انداز کیا گیا۔تاہم یہاں ادب کے نام پر جو کچھ پیش کیا گیااُس کی میڈیائی ضرورت کو اہمیت اور اولیت دینے کے باوجود اُس میں ادب کا ایک کم از کم معیار بہر حال ملحوظ رکھا گیا۔اس دورانیہ میں بعض ادیبوں کے مختلف نوعیت کے منفی رُخ اور منفی کام بھی سامنے آئے لیکن ان کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر رہی۔
یہاں تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ادب کے حوالے سے جو کچھ پیش کیا جاتا رہا،اس کے دوش بدوش بلکہ اس سب سے ایک قدم بڑھ کر ادبی رسائل بھی اپنا کردار ادا کرتے رہے۔بے شک اختلاف رائے رکھنے والے رسائل کے درمیان شدید اختلاف بھی نمایاں ہوا،ادبی مسابقت کی دوڑ میں،ان جرائد میں قارئین کی آراءکے ذریعے مدیرہی کے موقف کو ابھارنے کی دیدہ دانستہ کاوشیں بھی ہوئیں۔ادبی فیصلوں میں ڈنڈی مارنے کا رجحان بڑھا،اس کے باوجود ادبی رسائل کا ادب کے فروغ کا مجموعی کرداراتنا موثر تھا کہ ادبی دنیا کی چھوٹی موٹی کوتاہیاں قابلِ معافی بن جاتی تھیں۔
نئے ہزاریے کی پہلی صدی کے آغاز کے ساتھ سیٹلائٹ کے ذریعے ٹی وی چینلزکی بہار اور یلغار آئی تو ساتھ ہی انٹرنیٹ کے ذریعے اشاعت کے وسیع تر مواقع میسر آگئے۔سیٹلائٹ نے پرائیویٹ چینلز کی بھرمارکر دی۔چینل مالکان کے درمیان ریٹنگ کی دوڑ شروع ہو گئی۔سب سے پہلے خبروں کو پیش کرنے کی ہوڑمیںمصدقہ اورغیر مصدقہ کا فرق ہی نہ رہنے دیا گیا۔جو آگے نکل جاتاہے خبر کو سب سے پہلے پیش کرنے پر بار بار فخر کا اظہار کرتا ہے اور جو پیچھے رہ جاتا ہے وہ اپنی ناکامی کو اپنی صحافیانہ اخلاقیات کا نمونہ بنا کر بیان کرنے لگتا ہے۔جس قوم کو کسی اہلِ نظر کی رہنمائی کی ضرورت تھی اسے خبروں اور ان پر مختلف النوع تبصروںکے جال میں پھنسا دیا گیاہے۔
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
زمانے کی رفتار میں تیزی آئی تو میڈیا نے اس رفتار کو تیز تر کر دیا۔بے شک اتنی با خبری مہیا کر دی گئی ہے کہ انسان بے خبری کو ترس کر رہ گیا ہے۔اس کے بہت سے سماجی فائدے بھی ہوئے ہیں لیکن اس کے فائدوں کے مقابلہ میں ہونے والے دور رس نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔اس سے صحافت میں بلیک میلنگ کا ریٹ بھی آسمان تک جا پہنچا ہے۔میڈیا جس کرپشن اور معاشرتی لوٹ کھسوٹ کا سب سے زیادہ شور مچاتا ہے خود اس کے اپنے کئی مالکان اورکئی میڈیا اسٹارز نہ صرف ہر طرح کی اخلاقی و غیر اخلاقی کرپشن میں ملوث ہیں بلکہ ٹیکس چوری کلچرکو فروغ دے کر خود بھی اسی لوٹ کھسوٹ کا حصہ بنے ہوئے ہیں،جس کے خلاف بظاہر دن رات احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔ایک طرف میڈیا کی آزادی کے علمبردار بننے کا دعویٰ کرتے ہیں دوسری طرف ”آزادی“کی حد اتنی ہے کہ مذہبی دہشت گردوں کے سامنے سراپا احتیاط بنے ہوتے ہیں۔ سلمان تاثیر کو دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا اور میڈیا کو جرأت نہ ہوئی کہ ان کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ بول سکتا۔دہشت گردوں کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہوئے ہر کوئی احتیاط کرتا ہے لیکن ان کی وکالت کرنے والے کسی اگر مگر کے بغیر انہیں”ہمارے“قرار دے کر انہیں بے قصور ظاہر کرتے ہیں۔یہ سماجی سطح پر میڈیائی رویے کی ہلکی سی جھلک ہے۔ٹی وی کے تجزیاتی پروگرام تجزیہ کم اور ذاتی خواہشات کے آئنہ دار زیادہ ہوتے ہیں۔نقالی کا رجحان میڈیا کے غیر تخلیقی ارکان کی ذہنی صلاحیت کوتو بخوبی اجاگر کر تاہے لیکن اس رجحان کے باعث بعض تخلیقی اذہان بھی نقلِ محض بن کر رہ گئے ہیں۔کسی ایک چینل پر کوئی حالاتِ حاضرہ کا پروگرام اپنے کسی خاص انداز کی وجہ سے کامیاب لگنے لگتاہے تو حقائق تک رسائی حاصل کیے بغیردوسرے چینلز بھی ملتے جلتے انداز کے پروگرام کرنا شروع کر یتے ہیں۔مارننگ شوز ،کرائمزرپورٹس پر مبنی پروگرامز،معاشرتی مسائل ،جادو ٹونے اورجنات کے موضوعات سے لے کرکامیڈی شوزتک مسلسل نقالی کا رجحان دیکھا جا سکتا ہے۔ کامیڈی شوز میں پنجابی اسٹیج شوز کا عامیانہ پن پوری طرح سرایت کر گیا ہے۔پنجابی اسٹیج شومیں تھوڑی سی اصلاحِ احوال کی ضرورت تھی۔مثلاََ رشتوں کی تذلیل کرنے کی بجائے ان کے احترام کو ملحوظ رکھنا،ہر کسی کا تمسخر اڑانے کی بجائے ،اور جسمانی عیوب کی تضحیک کرنے کی بجائے معاشرے کے حقیقی معائب پر طنز کرنا اور مزاح کی صورت میں بھی دوسروں کو نشانہ بنانے کی بجائے خود کوزد پر رکھنا جیسی تبدیلیاں کر لی جائیں تو پنجابی اسٹیج شوآج بھی عالمی معیار کا تھیٹر بن سکتا ہے۔ٹی وی چینلز نے پنجابی تھیٹر کے فنکاروں کی پوری پوری فوج اپنے شوز میں بھرتی کر لی لیکن اصلاحِ احوال کی طرف کسی اینکر نے بھی توجہ نہیں کی۔نتیجہ یہ ہے کہ آج مختلف چینلز کے مزاحیہ شوزعمومی طور پر ویسا منظر پیش کر رہے ہیں جیسا ہندوستان کی بعض مسلمان ریاستوں کے زوال کے وقت ان معاشروں میںوہاں کی تہذیب کے نام پرانتہا درجہ کی پھکڑ بازی رائج ہو چکی تھی۔خدا نہ کرے کہ یہ سارے ٹی وی شوز پاکستان کے کسی تہذیبی یا جغرافیائی زوال کی علامت بن جائیں۔اور بعد میں ان ٹی وی شوز کی تہذیب کی بنیاد پر اس قومی زوال کی کہانی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔بہتر ہوگا کہ ایسے پروگراموں کے اینکرزنقل در نقل کی لہر میںہر کسی کی تذلیل کرنے کی بجائے شائستہ مزاح کے لیے محنت کر سکیں۔کیا دوسروں کی تذلیل و تضحیک کیے بغیرشائستہ مزاح پیدا نہیں کیا جاسکتا؟۔ بہتر ہوگا کہ اپنے تمام تر علم و فضل کے باوجود کامیڈی شوز کے اینکرز حضرات پہلے طنزو مزاح سے متعلق بنیادی لٹریچر کا مطالعہ کر لیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں اسی بہانے اپنی بعض شخصی کمزوریوں کا ادراک ہو جائے اور وہ ان پر قابو پا کر اپنے شوز کو بلیک میلنگ اسٹائل کی بجائے سچ مچ کے مزاحیہ پروگرام بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔
سرکاری ٹی وی نے اسٹیبلشمنٹ کی پسند اور اپنے حکام کی پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے جن میڈیاکر دانشوروں ،شاعروں اور ادیبوں کو قوم کا ترجمان بنایا تھا،اس بوئی ہوئی فصل کو کاٹنے کا وقت آیا تو آزاد میڈیا نے اس نوعیت کے میڈیاکر دانشوروں کے بھی نمبر دوقسم کے دانشوروں کی کھیپ تیار کر لی۔اور اب ایسے دانشوروں کی اتنی کھیپ تیار ہو چکی ہیں کہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔پرائیویٹ چینلز پر تلفظ کی فاش نوعیت کی غلطیاں اپنی جگہ،اشعار کو انتہائی برے انداز سے ،مسخ کرکے اور مکمل بے وزن کرکے پڑھتے ہوئے بھی یہ نئے میڈیاکر دانشور اتنے پُر اعتماد دکھائی دیتے ہیں کہ بندہ یہی سوچتا رہ جاتا ہے کہ اگر یہ ادب ہے تو پھر واقعی ادب کی موت ہو چکی۔اتنے چینلز کی بھرمار کے باوجود ایک بھی چینل ایسا نہیں جہاں زیادہ معیاری نہ سہی کم از کم پی ٹی وی کے پرانے معیار کے ادبی پروگرام ہی پیش کیے جا سکیں۔
انٹرنیٹ کی دنیا اتنی وسیع تر اورگلوبل ولیج کی بھرپور ترجمان ہے کہ اس کے مثبت فوائد کو جتنا اپنایا جائے اس میں خیر ہی خیر ہے۔اس میں شک نہیں ہے کہ ہماری اردو دنیا نے اس کے بہت سارے مثبت فوائد سے اچھا استفادہ کیا ہے۔اردو کی متعدد لائبریریوں کا قیام،ان لائبریریوں میں دینیات سے لے کر ادب اور سائنس تک مختلف موضوعات کی کتب کی آسان فراہمی ایک مثبت پیش رفت ہے ۔ہر چنداس میدان میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے لیکن جتنا کچھ دستیاب ہے وہ بھی اپنی جگہ نعمتِ خداوندی ہے۔ نعمتِ خداوندی کے الفاظ میں نے یونہی نہیں لکھ دئیے۔والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ ان کے بزرگوں کے زمانے میں بخاری شریف کی زیارت ہوجانا ہی بہت بڑی سعادت اور بہت بڑا کارِ ثواب سمجھا جاتا تھا۔کہاں سو، سوا سوسال پہلے کا وہ زمانہ اور کہاں آج کی دنیا کہ بخاری شریف سمیت حدیث کی ساری کتب آن لائن دستیاب ہیں اور ان کے اردو ترجمے بھی موجود ہیں۔قرآن شریف کے مختلف تراجم کی دستیابی کے ساتھ قرات سکھانے کا خودکار نظام تک مہیا کر دیا گیا ہے۔یہی صورتِ حال دوسرے مذاہب کی کتبِ مقدسہ کے معاملہ میں ہے۔ دینیات سے ہٹ کر دوسرے موضوعات کے حوالے سے کسی نوعیت کی تعلیمی ضرورت یاتحقیقی کام کے لیے مطلوب ہر قسم کا مواد عموماً انٹرنیٹ پر مل جاتا ہے۔صحت مند تفریح کا سامان بھی موجود ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میںمعلومات کی اتنے وسیع پیمانے پر فراہمی اتنی آسان اور اتنی ارزاں کبھی نہیں تھی۔انٹرنیٹ پر کوئی بھی سنجیدہ اور با معنی کام کرنے والوں کے لیے اپنے بلاگس بنانے سے لے کر اپنی ویب سائٹس بنانے تک کی سہولیات موجود ہیں۔اردومیں لکھنے کی سہولت بھی عام کر دی گئی ہے۔مختلف ٹی وی چینلز جو ہر جگہ نہیں دیکھے جا سکتے انٹرنیٹ کے ذریعے ان کی دستیابی بھی آسان ہو چکی ہے۔موبائل فون پر ساری انٹرنیٹ سروسزکا مہیا کردیا جانا بجائے خود ایک حیران کن کام ہے جو اَب معمولاتِ زندگی میں شمار ہوتا ہے۔
اس قسم کی مزید ہزار ہاخوبیاں ہیں جو انٹرنیٹ کی برکت سے ہرخاص و عام کے لیے دستیاب ہیں۔لیکن ان سب کے دوش بدوش ایک ایسی خرابی بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے جو کم از کم ہمارے معاشرے اور ہمارے ماحول کے لیے انتہائی تباہ کن ہے۔سوشل میڈیاکے نام پر فیس بک ، ٹویٹراور یوٹیوب سے لے کر مختلف ٹی وی شوزکو پیش کرنے والے انٹرنیٹ ٹی وی نیٹ سروسز تک میں آزادیٔ اظہار کے نام پرنجی تاثرات دینے کے جو تماشے لگے ہوئے ہےں،وہ گھٹیا پروپیگنڈہ کے باعث محض دل کی بھڑاس نکالنے کے ٹھکانے بن کر رہ گئے ہیں۔ایسے ٹھکانے جہاںبعض اوقات بازاری زبان اورگالی گلوچ کی سطح سے بھی زیادہ گھٹیا زبان کو استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے ۔مذہبی،فرقہ وارانہ،سیاسی،ادبی اور دیگر مختلف سماجی گروہوں کی اختلافی سرگرمیاںاظہارِ رائے کی تمیز اور تہذیب کے ساتھ چلتیں تو معاشرے کے لیے خیر کا موجب بن سکتی تھیں۔لیکن جہاں مذہب اور فرقوں کے نام پر غلیظ ترین زبان استعمال کی جاتی ہواور انتہائی ذلیل ترین حرکات کا مظاہرہ کیا جاتا ہو،وہاں زندگی کے باقی شعبوں میں کسی خیر کی صورت دیکھنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔اظہارِ رائے کی یہ مادر پدر آزادی سوشل میڈیا کے کسی بھی فورم پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس آزادی کا ایک سخت مگر ایک لحاظ سے دلچسپ اثر اخبار اور ٹی وی پر دیکھنے کو ملا۔میں نے دیکھا کہ دوسروں پر بہت زیادہ بااصول بنتے ہوئے بے اصولی تنقید کرنے والے ٹی وی اینکرز سوشل میڈیا پر اپنے بارے میں دئیے جانے والے گالیوں والے ردِ عمل پر مایوس تھے اور بعض ایسے ردِ عمل سے اس حد تک دل برداشتہ تھے کہ یہ کام چھوڑ کر کسی دیہات میں بس جانے کا ذکر بھی کر رہے تھے۔ ادب میں پرانے زمانے میں ایسے قبیلے موجود رہے ہیں جو قلمی غنڈہ گردی کرتے ہوئے خود سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف گم نام مراسلہ بازی کیا کرتے تھے اور اس مراسلہ بازی میں انتہائی لچر اور فحش زبان استعمال کی جاتی تھی۔ اسی طرح کے ایک ادبی قبیلے کے ایک کالم نگارکو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے کالم میں اخلاقیات کی دُہائی دے رہے تھے۔مجھے اس قبیلے کی کئی پرانی سرگرمیاں یاد آئیں اور مجھے ایک پل کے لیے یہ سب اچھا لگا کہ مکافاتِ عمل کی ایک صورت دیکھنے کو ملی۔لیکن یہ سب تو شاید میرے لیے کسی حد تک ذاتی نوعیت کی خوشی ہو سکتی تھی۔جس سے کچھ دیر کے بعد میں خود بھی شرمندہ ہوا۔اگر ادبی تہذیب کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ سب شرمناک تھا اور میں بہر حال سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کے باعث گندی زبان کے استعمال کی مذمت کروں گا۔
سوشل میڈیا پر جو چیز بہت زیادہ مقبول ظاہر کی جاتی ہے،بعض استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر عموماً یہ مقبولیت مصنوعی اور خود ساختہ ہوتی ہے۔مختلف گروہوں نے اپنی انٹرنیٹ ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں جو ایک سے زیادہ اکاؤنٹس بنا کر”کمپنی کی مشہوری“کرتے رہتے ہیں۔اس مصنوعی گیم کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے صرف ٹاپ کی دو مثالیں پیش کروں گا۔پاکستان کی دو شخصیات سوشل میڈیا کی سب سے مقبول شخصیات تھیں۔پہلے نمبر پر سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور دوسرے نمبر پرسابق کرکٹراور آج کے ایک سیاسی لیڈر عمران خان۔سوشل میڈیا پراپنی سب سے زیادہ مقبولیت کے دھوکے میں جنرل پرویز مشرف بے تاب ہو کر لندن سے پاکستان پہنچ گئے۔ اور پھر جلد ہی قانونی موشگافیوں کی زد میں آکر قیدِ تنہائی میں ڈال دئیے گئے۔عمران خان اپنی انٹرنیٹ مقبولیت کے بل پر ایک بال سے دو مضبوط وکٹوں کو گرانے نکل کھڑے ہوئے اور بڑی مشکل سے اور دوسروں کی مدد لے کر صرف ایک صوبے میں حکومت بنا پائے۔ سوشل میڈیا میںسیاسی اور سماجی سطح پر مقبولیت کا بھرم کھولنے کے لیے اور اصل حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے یہ دو مثالیں کافی ہیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعے جرائم کی نت نئی ترکیبوں کے سلسلے بھی سامنے آنے لگ گئے ہیں۔سماجی سطح پر کتنے ہی گھر ان روابط کے باعث نہ صرف ٹوٹے ہیں بلکہ تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ جنسی بے راہروی اور بلیک میلنگ سے اغوا برائے تاوان تک کتنے ہی جرائم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ادبی لحاظ سے بھی سوشل میڈیاپر کوئی خوش کن صورتِ حال دکھائی نہیں دیتی۔ایک طرف تو بے وزن شاعروں کی بھرمار ہے اور انہیں داد دینے کا وسیع سلسلہ بھی مربوط طور پر دکھائی دیتا ہے۔دوسری طرف جینوئن ادیبوں کی اپنی اپنی ٹولیاں اور مدح سرائی کے بچکانہ سلسلے ہیں۔ان فورمز کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ کئی ایسے شاعروں اور ادیبوں کے بارے میںجو یہ تاثر موجود تھا کہ وہ شہرت سے بے نیاز ادبی کام کرنے کی لگن میں مگن رہتے ہیں۔یہاں ان کی بے نیازیوں کے بھرم کھلے ہیں۔اور شہرت کے حصول کے لیے ان کی جانب سے ایسی ایسی مضحکہ خیز حرکات دیکھنے میں آئی ہیں کہ اپنے ادیب کہلانے پر بھی شرمندگی سی ہونے لگتی ہے۔یہاں ادب کے تعلق سے دو نسبتاََ معقول واقعات کا ہلکا سا اشارا کرنا چاہوںگا۔
فیس بک پر بعض ادیبوں نے اپنے الگ الگ فورمز بھی بنا رکھے ہیں۔ایک فورم پر اعلان کیا گیا کہ یہاں ایک شاعر کی نظم پیش کی جایا کرے گی اور اس پر سیر حاصل گفتگو ہوا کرے گی۔پھر اُس ساری گفتگو کو فلاں ادبی رسالہ میں شائع کر دیا جایا کرے گا۔پہلے ایک دو دوسرے شعراءکی نظمیں پیش ہوئیں،ان پر بات بھی چلی۔ اس کے بعد زیرِ گفتگو رسالہ کے مدیر نے اپنی نظم پیش کی۔اس میں لوگوں نے زیادہ دلچسپی نہ لی۔کوئی خاص گفتگو نہ ہوپائی۔نتیجہ یہ ہوا کہ جو مکالمہ رسالہ میں شائع کیے جانے کا اعلان کیا گیا تھا،وہ شائع نہیں کیا جا سکا۔ایک اور شاعر نے اپنے نام کے بغیر نظم پیش کی تو بعض قارئین نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔بعض نے ہلکا سا مذاق اُڑایا۔اس پر شاعر موصوف نے اپنے نام کے ساتھ قارئین کو بتایا کہ آپ جس شاعر کی نظم پر ایسی رائے دے رہے ہیں ،اگر آپ کو اس کا نام معلوم ہوجائے تو آپ سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ جائیں گے۔اس پر قارئین نے تقاضا کیا کہ شاعر کانام بتائیں،انہوں نے اپنا اسمِ گرامی بتایا کہ یہ میری نظم ہے۔اور پھر انہوں نے دیکھا کہ ان کے انکشاف کے بعد بھی قارئین کے رویے میں کوئی فرق نہ آیا اور پھر فیس بک کے قارئین کے رویے پر خود ان کا اپنا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ مذکورہ دونوں نظم نگار نظم کے اچھے شاعر ہیں۔لیکن اپنی تمام تر بے نیازی کے باوجود فیس بک پر مقبولیت کے شوق میں انہیں تیسرے درجہ کا ادبی شعور رکھنے والوں کے ہاتھوں تمسخر کا نشانہ بننا پڑا۔
میڈیاکر دانشوروں کی طرح سوشل میڈیا نے بھی اپنی قماش کے شاعروں کی ایک کھیپ پیدا کی ہے۔ان میں بعض اچھے شعر کہنے والے شاعر بھی موجود ہیں۔تاہم یہاں ان کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ جب ان کی کوئی غزل فیس بک پر سجائی جاتی ہے تو سات شعر پڑھے جانے کے ٹائم سے بھی پہلے ہی اس غزل کی تعریف میں سات قارئین(عموماََ خواتین )کی جانب سے اسے پسند کرنے کے ریمارکس آجاتے ہیں۔اور دمبدم ان کی مقبولیت بڑھتی چلی جاتی ہے۔یہاں مجھے ایک پرانے مزاحیہ پروگرام”ففٹی ففٹی“کا ایک لطیفہ یاد آگیا ہے۔پروگرام میں ایک میوزیم دکھایا جاتا ہے۔اس میوزیم میں موجود ایک قلم پر بات ہوتی ہے۔گائیڈ بتا رہا ہوتا ہے کہ اس تاریخی قلم سے پروگرام”ففٹی ففٹی“کی تعریف میں دس ہزار خطوط لکھے گئے ہیں۔اور پھر مزید وضاحت کرتا ہے کہ یہ قلم ”ففٹی ففٹی“کے پروڈیوسر کا ہے۔”ففٹی ففٹی“ والوں کا لطیفہ سو فی صد حقیقت کی صورت میں فیس بک کے ”مقبول ترین شاعروں“ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ادب اور صحافت کے حوالے سے میں شروع میں ہی قمر زمانی بیگم اور اخبار”فتنہ“اور”جواب فتنہ“کاذکر کرچکا ہوں۔سوشل میڈیا کے جن معائب کا میں نے ذکر کیا ہے،وہ سب ادب سمیت ہمارے پورے معاشرہ میں کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہے ہیں۔تاہم ان سب کی مقدار آٹے میں نمک کی طرح رہی ہے۔سوشل میڈیا پر خرابی یہ ہوئی ہے کہ یہ سارے معائب اور ساری خرابیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ نمک میں آٹے والی صورت بن گئی ہے۔پرانی برائیوں کو بڑے پیمانے پر دہرانے کے ساتھ ہم نے کئی نئی برائیاں بھی ایجاد کر ڈالی ہیں۔وہ ساری ایجادیں سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی ہمارے پورے معاشرے میں سرایت کرنے لگی ہیں۔
ان ساری برائیوں کا عام طور پر اور ادبی خرابیوں کا خاص طور پر تدارک کرنے کے لیے ایک تجویز میرے ذہن میں آتی ہے۔سوشل میڈیا پر کسی بھی فورم کی رکنیت کے لیے اس ملک کے شناختی کارڈ کے مطابق اس کے نمبر کا اندراج لازم کیا جانا چاہیے۔ اور ہر فورم پر ایک شناختی کارڈپر ایک اکاؤنٹ کھولنے کی پابندی لگ جائے۔ اگرشناختی کارڈ کے نمبر کے بغیر کسی کو بھی اکاؤنٹ کھولنے کا موقعہ نہ ملے ،اورپہلے سے موجود اکاؤنٹس کو بھی شناختی کارڈ نمبر کے ساتھ مشروط کرکے ری فریش کیا جائے تو پہلے مرحلہ میں پچاس فی صد سے زائد اکاؤنٹ غائب ہو جائیں گے۔غائب ہونے والے اکاؤنٹس کی شرح پچاس فی صد سے زائد ہو سکتی ہے،کم ہر گز نہیں ہو گی۔اس تجویز کو میں نے سادہ انداز میں بیان کیا ہے۔حکومتی سطح پر تیکنیکی ماہرین اسے مزید غور کرکے زیادہ موثر بنا سکتے ہیں۔
ادب ہو یا زندگی کا کوئی اور شعبہ ہو،اختلاف رائے کے اظہار کا حق ہر کسی کو ملنا چاہیے۔اس پر کوئی ناروا پابندی لگے تو اس کی مزاحمت کی جانی چاہیے۔لیکن چوروں کی طرح چھپ کر وار کرنے والوں اور اختلاف رائے کے نام پر انتہائی شرم ناک قسم کی گالیاں بکنے والوں کو اس سے باز رکھنے کے لیے، ان کی شناخت واضح ہونی چاہیے۔اگر پاکستان آغاز کرے اور جنوبی ایشیا کے ملکوں کو ساتھ لے کر عالمی سطح پر حکومتوں کو تحریک کی جائے تو شناختی کارڈنمبر کی بنیاد پر سوشل میڈیا کے فورمز کی رکنیت کومشروط کرکے سائبر ورلڈ کے ان سارے فورمز کو زیادہ مہذب،بہتر اور موثر بنایا جا سکتا ہے۔خرابیاں یکسر ختم نہیں ہوں گی لیکن ان میں خاطر خواہ کمی ہو گی اور انٹرنیٹ کی اس جدید تردنیا میں ہم سب کو اپنی خامیوں پر قابو پا کر بہتر اور صحت مند کردار ادا کرنے کا موقعہ ملے گا۔تب ہم سب اس گلوبل ولیج کے اچھے شہری بن سکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انٹرنیٹ میگزین ادبی منظر اسلام آباد۔شمارہ مارچ ۲۰۱۴ء
http://issuu.com/adabi-manzar/docs/adabi_manzar_shumara_1
عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر۱۹۔مئی ۲۰۱۴ء
سہ ماہی کولاژ کراچی ۔شمارہ نمبر ۳۔ سال ۲۰۱۴ء