(Last Updated On: )
کاوش عباسی(کراچی)
جی کرتاہے
جتنی اچھی خبریں ہو ں میری خبریں ہوں
جیون یوں افراط و تفریط میں کھویا گیا ہے
میری مٹھی میں جو کچھ ہے
(میں نے برسوں سے جو پسِ انداز کیا)
سب بے جیون لگتاہے اور لگتا ہے
جو کچھ مجھ سے باہر ہے،میرے پاس نہیں ہے
وہ جیون ہے اس میں جیون رس ہے
اور جو میرے سینے ،میری بانہوں میں ہے ،
وہ جیون پس ہے
دوسرے جس رہ میں جو قدم بھریں ،وہ جادۂ نورہے
اور اس جادۂ نو رسے میرا جیون رستہ نصیبوں دورہے
سوچتا ہوں
کیا میرا مقدر روئی ،ہاری سانس ہی ہے
میراجیون اس روئی ،ہاری،ادھ جیتی سانس کی
پھانس ہی ہے
یا میں بھی اپنے زر جو برسے
شاخِ عمل کے مہکتے پھولوں کی مانند چہک سکتا ہوں
ہر لمحے کی اچھی خبر کی مثال بنا
اک خوش رو ،خوش پیمان افق پہ چمک سکتا ہوں؟!