معروف علم دوست، ادیب، مبصر پروفیسر عطاء اللہ خان ۔ حیدر آباد
امین جالندھری صاحب کا تعلق حیدر آباد سندھ ہے ۔ سندھ کا وہ ایک خوبصورت شہر (جو کبھی خوبصورت تھا) اس کی ادبی فضا بہت ہی شاندار اور مالا مال تھی اور ایک طویل عرصے کے جمود کے بعد اب پھر گزشتہ کئی سالوںسے متحرک ہوئی ہے۔ اس سر زمین سے (اردو اور سندھی) ادب کے بہت سے نابغہ روزگار افراد نے جنم لیا اور اپنے فن سے جلا بخشی ۔ امین جالندھری اس شہر حیدر آباد کے ادبی منظر نامے میں بہت پہلے سے موجود ہیں ان کی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں روزگار کے حوالے سے پہلی جہت شعبہ بینکاری سے وابستہ رہے ملازمت سے سبکدوشی کے بعد دوسری جہت وکالت کا پیشہ اپنا لیا اور ابھی اسی سے وابستہ ہیں اور تیسری جہت ادب سے تعلق ہے۔ ان کی ایک ادبی تنظیم رابطہ ثقافتی تنظیم حیدر آباد کے بانی بھی ہیں جس کے تحت وہ اکثر پروگرام کرتے رہتے ہیں جس سے حیدر آباد کی ادبی فضا میں گہما گہمی رہتی ہے۔ امین جالندھری صاحب کا شمار بہترین نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی کتاب حرف حرف کہانی افسانوں کا مجموعہ یہ ان کا دوسراافسانوی مجموعہ ہے۔ جس میں26افسانے موجود ہیں۔ کتاب دیدہ زیب بھی ہے اور اس میں موجود کہانیاں بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں امین جالندھری صاحب ایک اچھے تخلیق کار ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر تخلیق کار کی تخلیق کو اس کا جائز حق ضرور ملنا چاہئے۔ کیو نکہ بقول میر تقی میرؔ
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
ادب میں شاعر ہو یا نثار ہودونوں معاشرے کی حقیقی تر جمانی کرتے ہیں کیوں کہ عصری زندگی کے تقاضے ایک شاعر کو کچھ کہنے اور ادیب کو کچھ لکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اچھے افسانہ نگار کی خوبی یہ ہونی چاہئے کہ وہ نفسیاتی تجزیے ، لوگوں یا کردار کو دماغ سے زیادہ دلوں کو ٹٹولے۔ امین جالندھری صاحب بھی اسی پیرائے پر عمل کرتے ہوئے اپنے ارد گرد میں ہونے والے واقعات اور حادثات کو اپنی قوت مشاہدہ کے ذریعے کہانی یا واقعہ کو افسانہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کیوں کہ افسانے میں انسانی زندگی کی ترجمانی ہوتی ہے اور افسانہ نگار فوٹو گرافی اور فن کاری کے فرق کو سمجھتا ہے اس لیے افسانہ نگار کی بصارت اور بصیرت کا قبلہ ضرور درست ہونا چاہیے۔ بصارت فوٹو گرافی کے مترادف ہوتی ہے ۔ انسان کی زندگی مختلف قسم کی ہوتی ہے جب کہ فنکاری یہ ہے کہ زندگی کیسی ہونی چاہیے، یہاں افسانہ نگار کا نظریہ، اس کا فن اس کی بصیرت مل کو ایک نئی دنیا تخلیق کرتے ہیں جس میںحقیقت نگاری بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ دراصل افسانہ نگار کا پیغام ہوتا ہے۔ امین جالندھری صاحب کافی عرصے سے افسانے لکھ رہے ہیں اور جو افسانے لکھے ہیں ان میں ان کی فنکاری نمایاں ہے وہ افسانے کی بُنت سے واقف ہیں انھیں کہانی گڑھنے کا فن آتا ہے۔ معاشرے کو انھوں نے قریب سے دیکھا ہے۔ زندگی کے مشاہدووں ، تجربوں کو اپنے افسانے پر برتنے کا فن بھی جانتے ہیں۔ افسانہ ایک اچھے کہانی کار کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کو لکھے اور کہانی کو افسانوی رنگ دے کر ایک خوب صورت افسانہ تخلیق کرے۔ لکھنے سے پہلے ہر افسانہ نگار کے ذہن میں ہوتا ہے کہ شاید عندیہ بیان نہ ہو سکے جو کچھ وہ اپنے قاری کو پہچانا چاہتا ہے وہ شاید نہ پہنچ سکے لیکن امین جالندھری صاحب بہت اعتماد سے اپنے قاری تک اپنی بات کا پہچانے کا فن جانتے ہیں۔
میں نے ان کے افسانے پڑھے انکا سارا زور سماجی حقیقت نگاری کی طرف ہے۔ معاشرے میں جو برائیاں جنم لے چکی ہیں اور ان کی گرفت بھی زیادہ گہری ہے اس کی وجہ سے محض دکھاوا ہماری زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ اب معاشرے میں اس طرح اندھیرا چھا گیا ہے کہ ہمارے ذہنوں سے برائی، برائی ہے کا تصور صرف دھندلا ہی نہیں گیا بلکہ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس کے مفہوم سے بھی نا آشنا ہو چکے ہیں۔ امین جالندھری صاحب کے افسانوں میں خاصے مشاہدے ہیںاور ان مشاہدوں میں گہرائی ہے معاشرتی زندگی میں ہمارے ہاں بے شمار رسم و رواج راہ پا گئے ہیں ان سے جو مسائل جنم لیتے ہیں ان سے کچھ نتائج اخذ کیے ہیں۔ امین جالندھری کو بحیثیت افسانہ نگار اس بات کا شدید احساس ہے کہ ایسے بھی لوگ ہیں جنہیںاپنی دولت کا اندازہ ہی نہیں ہے اور یہ ساری دولت انھوں نے مکر، چالبازی ، بد عنوانی اور ظلم و ستم سے پیدا کی ہے۔ یہ معاشی نا ہمواری، احساس کمتری اور مایوسی کا سبب بن جاتی ہے۔ بحیثیت تبصرہ نگار میں کسی خاص افسانے کا ذکر نہیں کرونگا کیونکہ میری نظر میں تخلیق کار یا افسانہ نگار کا ہر افسانہ اچھا ہوتا ہے اور جدا جدا فکر کے ساتھ ایک بہترین تخلیق ہوتا ہے میں بحیثیت ایک قاری کے یہ بھی دیکھتا ہوں کہ افسانہ نگار کا ہر طور پر افسانے میں قاری کو تشنہ رکھنا بھی ایک سبب ہے۔ جب تک تشنگی نہ ہو ہم سوچ نہیں سکتے افسانہ نگار کی خوبی یہی ہے کہ وہ قاری کو مسائل پر سوچنے پر مجبور کرے۔ امین جالندھری صاحب کو ان کی شاندار کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ہمیں چاہئے کہ تخلیق کار کو اور اس کے کام کو اس کی زندگی ہی میں سراہتے رہنا چاہیے تاکہ اس کا حوصلہ بلند ہو اور مزید کام کرتا رہے۔ میں ان کے لیے دعا گو ہوں اللہ ان کو زندگی اور صحت عطا فرمائے تاکہ ان کی دیگر تخلیقات بھی جلد شایع ہوں۔
بقول عبید اللہ علیم ؔ (مرحوم)
آج ان کی توقیر کرو کل ما تم بے قیمت ہوگا
دیکھو خونِ جگر سے لکھتے ہیں کیا کیا افسانے لوگ
٭٭٭٭٭٭٭
امین جالندھری یا پہلا افسانوی مجموعہ ۔
دو حرف ۔ ناشر: مکتبہ رابطہ حیدر آباد