اچانک کمرے میں شاتو کی آواز دوبارہ گونجی اس نے کہا “میں جارہی ہوں اور اب رات کو ٹھیک بارہ بجے آؤں گی لیکن میں یہی چاہوں گی کہ اب اس حویلی کا کوئی آدمی حویلی سے باہر نہ جائے”۔
کمرے میں دوبارہ قبرستان کا سا سناٹا پھیل گیا۔
چند منٹ ونود اور پروفیسر دونوں ایک دوسرے کو سکتہ کے عالم میں دیکھتے رہے۔ شاتوکے آخری جملے کا مطلب یہ تھا کہ اب حویلی کے سارے مکین اس کے قیدی تھے۔ یہ صورتحال ونود کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ اس نے پروفیسر سے کہا “میں حویلی سے باہر ضرور جاؤں گا۔۔۔“
“لیکن کس لئے؟” پروفیسر نے پوچھا۔
“محض یہ دیکھنے کیلئے شاتو پر اس کا کیا ردعمل ہوتا ہے میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے حکم کی خلاف ورزی پسند کرتی ہے یا نہیں۔۔۔” ونود نے مزید کہا “مجھے حیرت بھی ہے کیونکہ آج پہلی مرتبہ اس نے ہم سب پر ایک پابندی بھی لگائی ہے”۔
“لیکن میرا مشورہ ہے کہ تم ایسا نہ کرو۔۔۔”پروفیسر نے سنجیدہ ہوکر کہا۔
“یعنی میں شاتو کا قیدی بننا منظور کر لوں”۔
“ہاں۔۔۔” پروفیسر نے کہا۔
“لیکن یہ بالکل ناممکن ہے پروفیسر۔۔۔” ونود نے کھڑے ہوکر کہا “میں ابھی اور اسی وقت حویلی سے باہر جاؤں گا”۔
“یہ تمہارا بچپنا ہے مسٹر ونود۔۔۔” پروفیسر نے کہا “ویسے تمہیں اختیار ہے کہ تم جو چاہو کرو لیکن بلاوجہ شاتو کی روح کو دشمن بنانے میں ہمارا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ میرا مشورہ ہے کہ تم کم ازکم آج رات حویلی سے باہر نہ جاؤ اور میرے پاس ہی بیٹھے رہو، کیونکہ میں تم کو کتاب کا بقیہ حصہ سنانا چاہتا ہوں۔۔۔”
“ڈر گئے پروفیسر۔۔۔” ونود نے طنز کیا۔
“یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔۔۔” پروفیسر نے جواب دیا ” میں ڈرا نہیں ہوں” نہ میں شاتو کی روح سے کوئی مصلحت کر رہا ہوں بلکہ میں تمہیں خوش اسلوبی کے ساتھ روحوں کے جال سے نکالنا چاہتا ہوں اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں کرنا چاہتا۔۔۔”
“آپ خود بھی اسی جال میں پھنس چکے ہیں پروفیسر۔۔۔”ونود نے کہا “اب ہم آپ سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں”۔
“خیر۔۔۔” پروفیسر نے ایک لمبی سانس لینے کے بعد کہا۔ “اب تم کتاب کی بقیہ کہانی سنو اور تھوڑی دیر کیلئے بھول جاؤ کہ شاتونے ابھی چند منٹ قبل ہم پر کیا پابندی لگائی ہے۔۔۔”
“نہیں پروفیسر صاحب ۔۔۔”ونود نے کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا “مجھے حویلی کے باہر ضرور جانا ہے۔۔۔ میں شاتو کی طاقت آزمانا چاہتا ہوں جب کہ مجھے معلوم ہے کہ شاتو کی روح مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی کیونکہ میں اس کا محبوب ہوں۔۔۔”
پروفیسر نے دوبارہ ونود کو روکنا چاہا لیکن ونود مسکراتا ہوا کمر ے سے باہر نکل گیا۔
ونود باہر آیا تو چاروں طرف سناٹا پھیلا ہوا تھا اور اندھیرا بھی۔ ہوا چونکہ بہت تیز چل رہی تھی اس لئے درختوں سے ایک مہیب شور پیدا ہو رہا تھا۔ ماحول ڈراؤنا بھی تھا اور بھیانک بھی۔ ایک لمحہ کیلئے ونود کے دل میں ایک خوف سا پیدا ہوا اور اس نے سوچا کہ وہ پروفیسر کا مشورہ مان لے اور حویلی کے باہر نہ جائے لیکن پھر جیسے وہ خود پر ہنسا اس نے اپنے سر کو کچھ اس انداز سے جھٹکا دیا جیسے وہ خوف کو اپنے دل و دماغ سے نکال دینا چاہتا ہو اور پھر شانتا کے کمرے کی طرف مڑ گیا۔
شانتا اپنے بستر پر گہری نیند سورہی تھی۔ خوف کی لکیریں اب بھی اس کے چہرے پر ابھری ہوئی تھیں اس کے خوابیدہ نقوش پر اس وقت بھی الجھنوں کا ڈیرا باقی تھا۔ وہ دروازے پر کھڑا ہوکر دیر تک شانتا کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا، پھر اس نے اشارے سے کالکا کو باہر بلایا اور پوچھا “شانتا کو کس وقت نیند آئی”۔
“تقریباً بیس منٹ قبل” کالکانے جواب دیا۔
“وہ میرے جانے کے بعد پلنگ پر لیٹی رہی تھی یا کمرے کے باہر گئی تھی” ونود نے دوسرا سوال کیا۔
“بس۔۔۔پلنگ پر لیٹی رہی تھیں۔۔۔”
“خاموش رہی تھیں یا انہوں نے تم سے کوئی گفتگو کی تھی”۔
“جی نہیں۔۔۔” کالکا نے جواب دیا “وہ بالکل خاموش بستر پر پڑی رہی تھیں۔۔۔“
“اچھا ۔۔۔” ونود نے کہا “ان کو سونے دینا، وہ اگر اٹھ کر باہر جانا چاہیں تو ان کو باہر نہ جانے دینا، اور تم خود کمرے میں ہروقت موجود رہنا۔۔۔“
ونود کالکا کو یہ ہدایت دے کر پورٹیکو میں آیا تو شاتو کا بت بدستور چبوترے پر نصب تھا۔۔۔لیکن اس وقت سخت تاریکی کی وجہہ سے اس کے خدوخال نظر نہیں آرہے تھے۔۔۔ اُس کی مسکراہٹ کی ساری ادائیں اس وقت تاریکی میں مستور تھیں۔
ونود فوراے کے پاس آکر رکا۔۔۔بت کی طرف دیکھتے ہی دیکھتے اس کے لبوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ پھیلی۔۔۔اس نے شاتو کے بت کو مخاطب کرتے ہوئے بڑی آہستہ آواز میں کہا “شاتو۔۔۔۔تم کہتی ہو میں تمہارا محبوب ہوں۔۔۔تم نے میری خاطر اپنی زندگی برباد کی ہے۔۔۔شاتو۔۔۔تم خود ہی بتاؤ کہ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میں تمہارا قیدی بننا منظور کرلوں۔۔۔”
ونود اتنا کہہ کر چند لمحات کیلئے خاموش ہوا اور اُس نے پھر کہا “قیدی تو میں تمہیں بناؤں گا شاتو۔۔۔”
لیکن ونود کے یہ دونوں جملے جو یقیناً اس کی ذہنی سراسمیگی کے ثبوت تھے، ونود کے علاوہ اور کسی نے نہیں سنے۔۔۔ شائد بت نے بھی نہیں سنے اور شاید شاتو کی روح نے بھی نہیں سنے کیونکہ بت اسی طرح خاموش کھڑا رہا۔۔۔۔ سناٹا اسی طرح باقی رہا اور تیز ہوا کے جھکڑاسی طرح چلتے رہے۔
چند منٹ بت کے سامنے کھڑا رہنے کے بعد ونود ٹہلتا ہوا حویلی کے پھاٹک کی طرف روانہ ہو گیا۔۔۔ اس وقت وہ واقعی بڑا مطمئن نظر آ رہا تھا۔۔۔اس کے قدموں میں کوئی لغزش نہیں تھی اس کے چہرے پر بھی کوئی خوف نہیں تھا۔ وہ حویلی کے پھاٹک کی طرف اس انداز سے بڑھ رہا تھا جیسے وہ کسی خطرے کی طرف نہیں جا رہا ہو اپنی کسی جانی پہچانی محبوبہ سے ملنے جارہا ہو۔۔۔ اپنی کوئی پرانی تمنا پوری کرنے جارہا ہو۔۔۔۔
لیکن حویلی کے پھاٹک کے قریب پہنچتے ہی ونود کے قدم جیسے جم کر رہ گئے۔ وہ اگلا قدم اٹھا ہی نہ سکا کیونکہ حویلی کے پھاٹک پر شاتو کھڑی تھی۔
شاتو نے بڑی محبت بھری آواز میں اس سے کہا “میں نے تم کو منع کیا تھا راج کمار کہ تم حویلی سے باہر نہیں جاؤ گے۔۔۔”
“لیکن میں تمہارا حکم ماننے کیلئے مجبور نہیں ہوں۔۔۔” ونود نے ہمت کرکے کہا۔
“میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا راج کمار ۔۔۔” شاتو کا لہجہ بدستور نرم بھی رہا اور محبت بھرا بھی۔ “میں نے تو التجا کی تھی کیوں کہ میں تم کو کسی نئی پریشان میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی”۔
“حویلی سے باہر جانے میں میرا کیا نقصان ہوگا۔۔۔” ونود نے کہا ۔۔۔۔
“دشمن تمہاری گھات میں ہے۔۔۔” شاتو کی روح نے سرگوشی کی۔
“کون ہے میرا دشمن ۔۔۔”ونود چونکا۔ “وہی جو ہمیشہ سے تمہارے دشمن ہیں۔۔۔” شاتو نے جواب دیا اور پھر پھاٹک کے باہر اشارہ کرتے ہوئے کہا “اگر تم دیکھنا ہی چاہتے ہو کہ تمہارے دشمن کون ہیں تو تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔۔۔“
اور پھر جیسے ہی ونود نے سامنے کی طرف دیکھا اس کے حلق سے ایک بھیانک چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔۔ وہ بے تحاشہ بھاگ کھڑا ہوا۔
جیسے ہی ونود نے سامنے کی طرف دیکھا اس کے حلق سے ایک بھیانک چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔۔ وہ بے تحاشہ بھاگ کھڑا ہوا۔
شاتو نے ٹھیک ہی کہا تھا، پھاٹک کے باہر ایسے بے شمار دیو قامت انسان کھڑے تھے جن کے رنگ کوئلے کی طرح سیاہ تھے، جن کے سروں پر سینگ اگے ہوئے تھے، آنکھیں مشعل کی طرح روشن تھیں اور جن کے مونہہ سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔
ونود وہاں سے بھاگ کر سیدھا فوارہ کے قریب پہنچا۔ شاتو کا بت ہمیشہ کی طرح اپنی جگہ کھڑا تھا۔ وہ انتہائی تیزی کے ساتھ پروفیسر کے کمرے میں داخل ہو گیا اور دھم سے اسی کرسی پر گر گیا جس پر سے وہ ابھی چند منٹ قبل اٹھ کر بھاگا تھا۔
ونود کو پریشان دیکھ کر اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی دیکھ کر اور اس کے جسم کو پیسنے میں نہایا ہوا دیکھ کر پروفیسر سمجھ گیا کہ ونود کسی بہت ہی بھیانک حادثہ سے دوچار ہوا ہے۔ اس نے کہا “شاتو نے ہم پر ٹھیک ہی پابندی لگائی تھی نا۔۔۔”
“ہاں۔۔۔” ونود نے مری ہوئی آوازمیں جواب دیا۔
” تم نے حویلی سے باہر نکلنے کی کوشش کی تھی۔۔۔” پروفیسر نے پوچھا۔
“ہاں۔۔۔”
“اور پھر ۔۔۔” پروفیسر نے پوچھا۔
ونود نے جواب میں ساری بات تفصیل سے بتا دی اور پھر کہا “اب آپ اپنی کتاب کا بقیہ حصہ سنا دیجئے۔۔۔”
“ضرور سناؤں گا لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے سوچا کیا ہے؟” پروفیسرنے پوچھا۔
“میں نے اپنے ایک دوست کو اپنی مدد کیلئے بلایا ہے پروفیسر۔۔۔”
“اس کے علاوہ ۔۔۔” پروفیسرنے دوسرا سوال کیا۔
“آپ بھی آ گئے ہیں اور اب میرا خیال ہے کہ ڈرامہ کا صرف ڈراپ سین باقی رہ گیا ہے۔۔۔” ونود نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
“میرا خیال ہے کہ آج رات کو حسب وعدہ بارہ بجے کے بعد شاتو کی روح بھی ضرور آئے گی اور بت زندہ ہوجائے گا۔۔۔”
چند لمحات کی خاموشی کے بعد اس نے مزید کہا “شاتو مجھے اپنا راج کمار محبوب کہتی ہے اور آپ کو اپنا چچا جسونت سنگھ کہتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم دونوں ماضی میں باپ بیٹے رہ چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ آواز کس کی ہے جو شانتا کو اپنی بیوی کہتی ہے”۔
“جلد ہی اس سوال کا جواب بھی معلوم ہوجائے گا۔۔۔” پروفیسر نے جواب دیا “کیوں کہ واقعات بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔۔۔ روزانہ کوئی نئی الجھن پیدا ہوتی ہے کوئی نیا انکشاف ہوتا ہے اس لئے بہت ممکن ہے کہ جلد ہی اس راز پر سے پردہ اٹھ جائے۔۔۔” اچانک پروفیسر نے پوچھا “آپ کی بیوی شانتا کہاں ہے۔۔۔” “
اپنے کمرے میں۔۔۔” ونود نے جواب دیا۔
“لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اپنے کمرے میں نہیں ہے۔۔۔” پروفیسر نے کہا۔
“کیوں۔۔۔؟” ونود نے گھبرا کر پوچھا “آپ یہ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ شانتا اس وقت اپنے کمرے میں نہیں ہے”۔
“میں نے ابھی تمہاری آمد سے قبل برآمدے میں کسی کے قدموں کی آواز سنی تھی۔ میں اٹھ کر کھڑکی تک آیا تھا لیکن اس وقت جانے والا گرزچکا تھا۔۔۔ مجھے صرف اس کی پرچھائیں ہی نظر آئی تھی۔۔۔”
“میں ابھی آیا۔۔۔” ونود اتنا کہہ کر کمرے سے نکل کر شانتا کے کمرے کی طرف دیوانہ وار بھا گا۔۔۔ شانتا کے کمرے کا دروازہ بدستور کھلا ہوا تھا اور کالکا شانتا کے پلنگ کے قریب بیٹھا ہوا اونگھ رہا تھا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔
شانتا کا بستر حالی تھا۔۔۔
شانتا نہ اپنے بستر پر تھی اور نہ کمرے میں۔۔۔
صاف ظاہر تھا کہ وہ کالکا کی لا علمی میں دبے پاؤں کمرے سے باہر نکل گئی تھی اور پروفیسر نے واقعی شانتا کا ہی سایہ دیکھا تھا۔۔۔
وہ چلایا۔ “شانتا۔۔۔”
اس کی چیخ اتنی دلدوز تھی کہ کالکا اونگھتے اونگھتے اچھل گیا وہ بھی گھبرا کر چلایا “کیا ہوا مالک۔۔۔“
ونود نے بدستور چلاتے ہوئے کہا کہ “شانتا کہاں گئی ہے”۔
“مجھے نہیں معلوم مالک۔۔۔” کالکا نے تقریباً روہانسہ ہوکر شانتا کے خالی بستر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا “میں ذرا سی دیر کیلئے اونگھ گیا تھا سرکار ۔۔۔ لیکن بی بی جی بھی تو سو رہی تھیں وہ آخر اچانک چلی کہاں گئیں۔۔۔”
ونود کے اعصاب پر جیسے فالج گرچکا تھا۔ وہ بت کی طرح کھڑا رہا اور پھٹی پھٹی نظروں سے شانتا کے خالی بستر کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کے بعد وہ دیوانوں کی طرح تہہ خانے کی سمت بھاگا۔۔ تاریکی سے ڈرے بغیر۔۔۔ سناٹے سے ڈرے بغیر۔۔۔انجام سے ڈرے بغیر۔۔۔ لیکن تہہ خانہ بھی خالی تھا۔۔۔
شانتا تہہ خانے میں بھی نہیں گئی تھی۔۔۔
تہہ خانے میں شانتا کو نہ پاکر ونود کے غم کی کوئی حد و انتہا نہ رہی۔ اب اس نے تمام نوکروں کو بھی ساتھ لے لیا۔۔۔ تاکہ شانتا کو تلاش کیا جاسکے۔۔۔ لیکن کوٹھی میں شانتا کا کوئی پتہ نہ تھا۔ سوال یہ تھا کہ شانتا کہاں چلی گئی ۔۔۔۔
اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔۔۔ بت کی بیداری میں صرف تیس منٹ باقی رہ گئے تھے۔ ونود چاہتا تھا کہ بت کے جاگنے سے پہلے وہ شانتا کو تلاش کرے لیکن شانتا واقعی حویلی میں نہیں تھی۔
ونود شانتا کی تلاش میں ناکامی کے بعد کوٹھی کے ایک گوشہ میں کھڑا تھا کہ ایک نوکر دوڑتا ہوا اس کے نزدیک آیا اور اُس نے بڑی پریشانی کے عالم میں کہا “مالکن باغ میں بے ہوش پڑی ہیں۔۔۔” لیکن جب ونود تمام نوکروں کے ہمراہ اس جگہ پہنچا تو شانتا پراسرار کنویں کی جگت پر بے ہوش پڑی تھی۔۔۔ اس کی سانس بڑی مدھم رفتار سے چل رہی تھی۔
تقریباً دس منٹ کی کوشش کے بعد شانتا ہوش میں آگئی۔ ونود نے پوچھا “تم باغ کیوں گئی تھیں۔۔۔”
“میں باغ خود نہیں گئی تھی مجھے کوئی انجانی طاقت وہاں گھسیٹ کر لے گئی تھی۔۔۔” شانتا نے مردہ آواز میں کہا۔
“باغ میں تم بے ہوش کیسے ہوگئیں۔۔۔” ونود نے دوسرا سوال کیا۔
“میرے کانوں میں ایک آواز آرہی تھی۔۔۔آؤ میرے ساتھ۔۔۔ آؤ میرے ساتھ۔۔۔ میں اس آواز کے حکم پر بستر سے اٹھی کمرے سے باہر نکلی، باغ پہنچی۔۔۔ لیکن آواز مسلسل گونجتی رہی “آؤ میرے ساتھ۔۔۔آؤ میرے ساتھ۔۔۔ حد یہ کہ میں کنویں کی جگت پر پہنچ گئی۔۔۔”
“اور پھر کیا ہوا۔۔۔” ونود نے گھبرا کر پوچھا۔
“میں خود محسوس کررہی تھی کہ میں نیم بیداری کی حالت میں ہوں۔” شانتا نے کہا
” میں یہ بھی محسوس کررہی تھی کہ اپنے اعصاب پر میرا کوئی اختیار باقی نہیں رہا ہے۔۔۔ میں کنویں کی جگت پر ایک زندہ لاش کی طرح کھڑی تھی کہ اچانک مجھے اندھیرے میں ایک روشنی نظر آئی میں نے اس روشنی کی طرف غور سے دیکھا تو یہ روشنی آہستہ آہستہ ایک جسم میں تبدیل ہونے لگی اور پھر یہ روشنی ایک مکمل جسم بن گئی۔”
“یہ جسم کس کاتھا شانتا” ونود نے پوچھا۔۔۔” آدمی کا یا عورت کا۔”
“یہ مرد کا جسم تھا” شانتا نے جواب دیا “اور پھر یہ جسم میرے قریب آنے لگا۔۔۔حد یہ کہ بالکل قریب آگیا۔ اب اس جسم سے آواز آئی “میں تمہیں لینے آیا ہوں نرمل۔۔۔ تم میری ہو۔۔۔ آج میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا یہاں سے بہت دور ۔۔۔ بادلوں سے بھی آگے۔۔۔”
شانتا نے اپنے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے مزید کہا “جب یہ جسم میرے بالکل قریب آگیا تو میں نے ایسا محسوس کیا جیسے میں برف ہوتی جا رہی ہوں۔۔۔ اچانک مجھے بہت زیادہ سردی لگنے لگی اور پھر میں بے ہوش ہوگئی، آنکھ کھلی تو آپ مجھے جگارہے تھے”۔
ونود شانتا کی یہ داستان سن کر حیران ہو گیا۔ اس نے پوچھا: ” کیا تم اس جسم کا حلیہ بتا سکتی ہو۔۔۔”
“ہاں ۔۔۔” شانتا نے کہا “وہ سفید لباس پہنحے تھا۔ اس کے چہرے پر داڑھی اور مونچھیں تھیں، تندرستی اچھی تھی، آنکھیں بڑی بڑی اور روشن تھیں، خدوخال بڑے تیکھے تھے اور ۔۔۔اور اس کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔۔۔”
“کیا تم بتاسکتی ہو کہ تمہیں بالکل اچانک ٹھنڈ کیوں لگنے لگی” ونود نے مزید پوچھا۔
“میرا خیال ہے کہ یہ ٹھنڈ اس جسم سے ہی آرہی تھی کیونکہ جب تک یہ جسم میرے قریب نہیں آیا تھا مجھے ٹھنڈ نہیں لگ رہی تھی”۔ شانتا نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
شانتا کی حالت اتنی خراب ہورہی تھی کہ ونود اپنا سابقہ فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو گیا۔ اس نے کہا “تم پریشان نہ ہو شانتا۔۔۔ میں کل صبح ہی تمہیں پتا جی کے پاس شہر بھیج دوں گا”۔
“اور آپ یہیں رہیں گے۔۔۔” شانتا نے پوچھا۔
“ہاں۔۔۔ مجھے اپنے دوست کا انتظار ہے۔۔۔ وہ آجائے گا تو میں بھی چلا جاؤں گا”۔ ونود نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔۔۔ ونود اسی دن مجھے خط بھیج کر اگات پور طلب کرچکا تھا اور اس نے اس خط کا تذکرہ شانتا سے نہیں کیا تھا۔
“پھر میں بھی نہیں جاؤں گی۔۔۔” شانتا نے ذرا مضبوط لہجے میں کہا “تمہارا دوست آرہا ہے یہ تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔۔۔”
“خیر۔۔۔”ونود نے کہا “اور تم سو جاؤ۔۔۔میں ذرا پروفیسر کے پاس جارہا ہوں۔۔۔”
اتنا کہہ کر ونود نے گھڑی دیکھی۔۔۔” بارہ بج کر پچیس منٹ ہوچکے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بت بیدار ہوچکا تھا۔
وہ بڑی تیزی سے کمرے سے باہر نکلا۔۔۔ اور پھر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ فوارے کے چبوترے سے شاتو کا مجسمہ غائب تھا۔ بت زندہ ہوچکا تھا۔
ونود اب پروفیسر کے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ اور داخل ہوتے ہی چیخنے لگا کیوںکہ پروفیسر تارک ناتھ کمرے کے فرش پر مردہ پڑے تھے۔
پروفیسر تارک ناتھ مرچکے تھے
پروفیسر تارک ناتھ کی لاش فرش پر بالکل چت پڑی تھی۔
ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ پہلی نظر میں ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان کی گردن کو آہنی ہاتھوں سے دبادیا گیا ہو، ان کے جسم کے کسی حصے پر کسی چوٹ کا نشان نہیں تھا کوئی زخم نہیں تھا لیکن ان کے چہرے پر خوف اور دہشت جم کر رہ گئی تھی۔
پروفیسر کی اس خلاف توقع موت نے ونود کے حواس معطل کر دئے چند لمحات کیلئے وہ بالکل ساکت ہو کر رہ گیا۔ وہ سوچتا رہا کہ کیا ایک روح بھی کسی کا قتل کر سکتی ہے۔
اچانک اس کے کانوں میں وہی جانی پہنچانی آواز گونجی۔ شاتو اسی کمرے میں موجود تھی۔ اور اب بالکل صاف نظر آ رہی تھی۔ بت واقعی زندہ ہوگیا تھا۔ شاتو نے بڑے محبت بھرے لہجے میں ونود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
“آج میری ایک بڑی دیرینہ تمنا پوری ہوگئی راج کمار۔۔۔”
“یعنی اپنے چچا کو قتل کرنے کی تمنا۔۔۔” ونود نے بڑی دھیمی آواز میں کہا۔
“نہیں۔۔۔” شاتو نے کہا “میں نے اپنے چچا کا قتل نہیں کیا ہے”۔
“تم روح ہوکر جھوٹ بول رہی ہو شاتو۔۔۔” ونود نے کہا۔
“پروفیسر تارک ناتھ میرے مہمان تھے اور تم نے ان کا قتل کرکے میری راہ میں کانٹے بودئیے ہیں۔۔۔ مجھے بتاؤ کہ جب پولیس مجھ سے یہ پوچھے گی کہ ان کا قتل کس نے کیا ہے تو میں کیا جواب دوں گا؟ میں اگر پولیس سے کہوں گا کہ ان کا قتل ایک عورت کے زندہ بت نے کیا ہے تو دنیا میں میری بات کا کون یقین مانے گا”۔
“پروفیسر تارک ناتھ کا قتل میں نے نہیں کیا ہے راج کمار۔۔۔” شاتو نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “تم خود سوچو کہ ایک بھتیجی اپنے چچا کا قتل کیسے کرسکتی ہے”۔
“بالکل اسی طرح جس طرح ایک بھائی اپنے بھائی کا قتل کر سکتا ہے۔ تمہارے چچا نے تمہارے باپ کا قتل کیا تھا اس لئے تم نے اس کا بدلہ بے چارے پروفیسر کا قتل کر کے لے لیا حالانکہ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ ان کی شکل تمہارے ظالم چچا سے ملتی جلتی تھی”۔
“میں پھر کہتی ہوں کہ میں نے پروفیسر کا قتل نہیں کیا ہے”۔ شاتو نے اب اپنی مسکراہٹ ختم کردی۔ وہ اچانک سنجیدہ ہوگئی۔
“پھر۔۔۔ ان کا قتل کس نے کیا” ونود نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا “میں ابھی دس پندرہ منٹ قبل ان کو اسی کمرے میں زندہ چھوڑ گیا تھا۔ یقیناً ان کا قتل ہوا ہے”۔
“انہوں نے خودکشی کی ہے راج کمار۔۔۔” شاتو نے کہا۔
“خودکشی۔۔۔”ونود نے گھبرا کر کہا۔
“ہاں ۔۔۔۔خودکشی۔۔۔۔”شاتو دوبارہ مسکرائی “وہ مجھے دیکھ کر ڈر گئے، میں ان کے سامنے اپنے مکمل جسم کے ساتھ آ گئی تھی۔۔۔ میں نے ان سے صرف اتنا کہا تھا “کہو چاچا جی۔۔۔ اب تم میرے جال میں آگے نا۔۔۔”
“اور اس کے بعد ۔۔۔” ونود نے جلدی سے پوچھا۔
“اور اس کے بعد ان کے حلق سے خود بخود گھٹی گھٹی چیخیں نکلنے لگیں، میں جیسے جیسے ان کے قریب آتی گئی وہ پیچھے ہٹتے گئے۔ اور پھر وہ اس طرح چیخنے لگے جیسے میں ان کا گلا دبا رہی ہوں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے میں نے ان کے جسم کو چھوا تک نہیں تھا“
شاتو نے مزید کہا: “وہ ڈر گئے تھے خوف کی وجہ سے ان کا دم نکل گیا۔۔۔ اور یہی میری تمنا تھی”۔
چند لمحات کی خاموشی کے بعد شاتو نے دوبارہ اپنے خوبصورت چہرے پر مسکراہٹ پیدا کرنے کے بعد کہا “اس میں کوئی شک نہیں کہ میں ان کی موت چاہتی تھی بلکہ خود اپنی آنکھوں سے ان کو مرتے دیکھنا چاہتی تھی۔ میں نے اسی لئے کہا تھا کہ آج میری ایک بہت پرانی تمنا پوری ہوگئی ۔۔۔“
“اور اب مجھے یہ بھی بتادو کہ تم اس حویلی میں اور کس کس کی موت چاہتی ہو۔۔۔” ونود نے اپنی آواز میں زہر کی تلخی گھولتے ہوئے کہا۔
“ہر اس انسان کی موت جو میرے اور تمہارے درمیان حائل ہوگا” شاتو بولی۔
“میں تمہیں ختم کردوں گا شاتو۔۔۔” ونود چیخا۔
“مجھے فنا نہیں ہے راج کمار۔۔۔” شاتو نے جواب دیا۔
“نکل جاؤ یہاں سے” ونود غصہ میں دیوانوں کی طرح چیخا۔
“ونود میرا غم نہ بڑھاؤ۔۔۔” شاتو نے بڑی نرمی سے جواب “صدیوں سے میں جس آگ میں جل رہی ہوں اس میں تیل نہ ڈالو۔۔۔”
“میں کہتا ہوں نکل جاؤ یہاں سے “ونود دوبارہ چلایا۔
“بہت اچھا! میں چلی جاؤں گی لیکن ایک بات یاد رکھنا راجکمار کہ عورت کی محبت اگر نفرت میں بدل جاتی ہے تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا ہے”۔ شاتونے بڑی مدھم آواز میں کہا “عورت کا انتقام بڑا بھیانک ہوتا ہے راج کمار”۔
“میں تیرے انتقام سے نہیں ڈرتا” ونود نے کہا۔
“ڈرنا پڑے گا تمہیں راج کمار۔۔۔” شاتو نے جواب دیا اور آہستہ قدموں کے ساتھ کمرے کے باہر جانے لگی۔۔۔ لیکن جیسے ہی وہ ونود کے قریب آئی اور ونود نے اس کے آنکھوں میں آنسو کے موتی چمکتے دیکھے ونود کا سارا غصہ کافور ہوگیا۔ اس کے دل میں بالکل اچانک شاتو کیلئے ایک محبت سی پیدا ہوگئی۔
شاتو کیلئے ونود کا یہ جذبہ بالکل نیا تھا۔ کیونکہ آج تک اُس کے دل میں شاتو کیلئے کوئی محبت نہیں پیدا ہوئی تھی۔ شاتو کمرے سے باہر نکلی تو ونود نے کہا “شاتو ۔۔۔ میری ایک بات سنتی جاؤ۔۔۔”
لیکن شاتو نے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔
ونود بھی اس کے ساتھ کمرے سے باہر نکلا۔ اس نے دوبارہ شاتو کو آواز دی لیکن شاتو جیسے بہری ہو چکی تھی وہ آگے بڑھتی رہی۔ حوض میں داخل ہوئی، چبوترے پر چڑھی اور ونود کے دیکھتے ہی دیکھتے دوبارہ بت میں تبدیل ہو گئی۔
ونود حوض کے قریب آیا، اس نے شاتو کے بت کی طرف دیکھا محض چند لمحات قبل شاتو کی آنکھوں میں آنسو تھے لیکن وہ آنسو زندہ شاتو کی آنکھوں میں تھے۔ اس وقت جو شاتو اس کے سامنے تھی وہ مسکرا رہی تھی۔
ونوددیر تک اس دل فریب مسکراہٹ پر نظریں جمائے رہا اور پھر خود اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے آہستہ سے کہا “مجھے معاف کردو شاتو”۔
لیکن شاتو کا بت خاموش رہا۔
شانتا اپنے کمرے میں بے ہوش پڑی تھی۔ پروفیسر تارک ناتھ کی لاش اپنے کمرے کے فرش پر پڑی تھی۔ باہر ونود بالکل ساکت نگاہوں سے شاتو کے بت کی طرف دیکھ رہا تھا اور وقت بڑی تیزی سے گذر رہا تھا۔
ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے حویلی میں موت کا سایہ پھیل گیا ہو۔
اب تک حویلی کے نوکر اس صورتحال سے بے خبر تھے، ونود نے ان کو حویلی کے آسیب کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔ لیکن اب حویلی کے نوکروں کو بھی سب کچھ معلوم ہوگیا تھا۔ دونوکر تو اپنا سامان لے کر اگات پوری کی آبادی میں چلے گئے۔ اور باقی نوکروں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ صبح ہوتے ہی حویلی کی ملازمت چھوڑ دیں گے۔
لیکن۔۔۔ ونود کو حویلی کے حالات کی ان تبدیلیوں کا کوئی علم نہ تھا وہ بس شاتو کے مسکراتے بت کی طرف دیکھے جارہا تھا۔ اس بات کو اب تک اس نے سینکڑوں مرتبہ دیکھا تھا۔ اُس وقت بھی دیکھا تھا جب بت کو کنویں سے نکالا گیا تھا اور وہ کیچڑ میں لت پت تھا اور اس وقت بھی دیکھا تھا جب بت کو صاف کر کے فوارے کے چبوترے پر نصب کیا گیا تھا۔
اس نے اب تک بت کے بدلتے ہوئے کئی انداز دیکھے تھے۔ اس نے اس بت کو زندہ بھی دیکھا تھا، بولتے ہوئے بھی دیکھا تھا، ہنستے ہوئے بھی دیکھا تھا اور آنسو بہاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ لیکن آج پہلی مرتبہ پتھر کے اس بت نے اس کے حواس خمسہ پر ایک جادو سا کردیا تھا۔ آج پہلی مرتبہ اس کو بت سے ہمدردی ہو رہی تھی۔ آج پہلی مرتبہ اس کو بت کی آنکھوں میں خود اپنی جھلک نظر آ رہی تھی۔ وہ بت کی طرف دیکھ بھی رہا تھا اور سوچ بھی رہا تھا کہ شاتو کی اس مسکراہٹ کے پیچھے غم کی کتنی دل سوز داستان مستور ہے۔ شاتو کی اس مسکراہٹ میں کتنی الم ناک کہانی پوشیدہ ہے۔
اور اب ونود کو افسوس ہورہا تھا کہ وہ شاتو سے اس کی کہانی نہ سن سکا۔۔۔ شاتو کی یہ کہانی ادھوری رہ گئی۔ کیونکہ شائد اب شاتو کی روح دوبارہ کبھی بھی اس سے ملنے نہیں آئے گی۔ شائد اب شاتو کا بت دوبارہ کبھی نہیں زندہ ہوگا۔
سوچتے سوچتے ونود کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ ایک مرتبہ پھر اس کے لبوں سے بے ساختہ نکلا۔
“شاتو مجھے معاف کردو۔ میں اپنے الفاط واپس لیتا ہوں شاتو۔ مجھے بڑا افسوس ہے کہ میری وجہ سے تم کو دکھ پہنچا۔”
لیکن شاتو کا بت بدستور خاموش رہا۔
ونود کے الفاظ کا شاتو پر کوئی ردعمل نہیں ہوا۔
اب ونود کی قوت فیصلہ جواب دے چکی تھی۔
وہ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ فوارے کے بت پر آخری نظر ڈالنے کے بعد وہاں سے شانتا کے کمرے کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں وہ کمرہ پڑتا تھا جس میں پروفیسر تارک ناتھ کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ اس نے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر ایک مرتبہ لاش پر نظر ڈالی۔ چند لمحات تک کچھ سوچا اور پھر اس نے آگے بڑھ کر کمرے کا دروازہ بند کردیا۔
ونود جب شانتا کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں پلنگ پر پڑی ہوئی تھی۔ اس نے شانتا کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور خاموشی کے ساتھ پلنگ کے قریب رکھی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
پلنگ کے قریب وفادار کالکا فرش پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کافی دیر تک روتا رہا ہو ونود نے اس سے کہا “غم نہ کرو کالکا، سب ٹھیک ہوجائے “۔
“نہیں مالک۔۔۔۔” کالکا نے روہانسی آواز میں کہا “اب آپ کو یہ حویلی خالی کردینا چاہئے”۔
“میں خود کبھی یہی فیصلہ کرچکا ہوں”۔ ونود نے ہاتھ کی کلائی پر بندھی ہوئی گڑھی دیکھتے ہوئے کہا “اس وقت رات کے دو بجے ہیں۔۔۔ صبح آٹھ بجے ہم یہ حویلی خالی کردیں گے۔ تم ضروری سامان باندھ لو۔ باقی سامان پھر منگوا لیا جائیگا”۔
“پھر میں جاؤں۔۔۔” کالکا نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
“ہاں۔۔۔لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم آج کی رات ایک لمحہ کیلئے بھی نہ سونا۔ شانتا کی حالت ٹھیک نہیں ہے کسی وقت بھی اس کی طبعیت زیادہ خراب ہو سکتی ہے اور اس وقت اگر تم سورہے ہوگے تو میری پریشانی بڑھ جائے گی۔ میں بھی اسی لئے تمام رات جاگنا چاہتا ہوں”۔ ونود نے کہا اور گردن گھماکر شانتا کی طرف دیکھنے لگا۔
تقریباً پندرہ منٹ بعد شانتا نے آنکھیں کھولیں۔ ونود کو اپنے بالکل قریب بیٹھے دیکھ کر اس کے لبوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ پھیلی اور اس نے بڑی آہستہ آواز میں کہا
“میں اب ٹھیک ہوں ونود۔۔۔تم زیادہ پریشان نہ ہو”۔
“ہم صبح سات بجے یہ حویلی خالی کردیں گے”۔ ونود نے کہا۔
“اور بت کا کیا کرو گے”شانتا نے پوچھا۔
“میں اس کو دوبارہ چلتے وقت کنویں میں پھینک دوں گا”۔ ونود نے بڑے ڈرمائی انداز میں جواب دیا
“اور شانتا اس طرح ہم ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس بت کی نحوست سے نجات پاجائیں گے”۔
“پروفیسر تارک ناتھ کیا سوگئے ہیں”شانتا نے پوچھا۔
“ہاں۔۔۔میں ابھی ان کے کمرے سے ہی آرہا ہوں”۔ ونود نے پروفیسر کی موت کی بات شانتا سے چھپانا ہی مناسب سمجھی۔
تمام رات ونود شانتا کے پلنگ کے پاس بیٹھا رہا۔ دونوں کی رات آنکھوں آنکھوں میں کٹ گئی۔ ایک مرتبہ شانتا نے ونود سے کچھ پوچھنا بھی چاہا لیکن ونود نے بات ٹال دی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس پر کچھ خوف بھی طاری تھا۔ اسے رہ رہ کر خیال آجاتا تھا کہ شاتو اس سے اپنی بے عزتی کا بدلہ ضرور لے گی۔ رات اسی طرح گذر گئی۔
صبح چھ بنجے کالکا نے اس سے آکر کہا ۔۔۔”مالک میں نے ضروری سامان باندھ لیا ہے”۔
ونود نے جواب دیا”بہت اچھا کیا۔۔۔ اب تم ناشتہ تیار کرو۔۔۔ہم یہاں سے آٹھ بجے تک روانہ ہو جائیں گے۔” کالکا کے جانے کے بعد شانتا نے ونود سے کہا “آپ پروفیسر تارک ناتھ سے بھی جاکر کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنا سامان باندھ لیں”۔
اور جیسے پروفیسر تارک ناتھ کا نام سنتے ہی وہ چونک پڑا۔ اب اسے یاد آیا کہ حویلی میں ایک ایسے آدمی کی لاش بھی پڑی ہے جو کل رات کو بارہ بجے تک زندہ تھا جو اس کا مہمان تھا اور جس کی موت حادثہ قتل بھی سمجھی جا سکتی ہے۔ اس نے شانتا کے سوال کے جواب میں کہا “تم نے ٹھیک کہا۔ میں ابھی جاکر ان کو بھی اپنے فیصلے سے مطلع کردیتا ہوں کہ ہم لوگ یہ حویلی خالی کررہے ہیں”۔ ونود اتنا کہہ کر شانتا کے کمرے سے باہر نکلا، حویلی میں چاروں سناٹا پھیلا ہوا تھا۔
ابھی دن کی روشی بھی اچھی طرح نہیں پھیلی تھی۔ ونود چند منٹ تک راہدری میں کھڑا سوچتا رہا کہ پروفیسر تارک ناتھ کی لاش کے سلسلے میں اس کو کیا قدم اٹھانا چاہئے۔ اور پھر جیسے اس کے ذہن میں ایک حل بجلی کے کوندے کی طرح لپکا۔
اس نے سوچا “کیوں نہ پروفیسر کی لاش کو اسی تہہ خانے میں رکھ دیا جائے جس میں ہڈیوں کا انسانی پنجر پڑا ہے ۔“
ونود نے سوچا اس طرح ایک عرصہ تک کسی کی لاش کے بارے میں کوئی پتہ نہ چل سکے گا ۔ اس اثناء میں لاش سڑ گل جائے گی ، اور پرفیسر کی موت کا راز تہہ خانے کے اندھیرے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہوجائے گا ۔ ونود کو پوری طرح یہ احساس تھا کہ اگر اس نے پروفیسر کی لاش نہ چھپائی تو لازمی طور پر اسی پر قتل کا شک کیا جائے گا ، کیوں کہ وہ جس سے بھی ان کی موت کا اصل سبب بیان کرے گا وہ اس کو دیوانہ سمجھے گا ۔
پروفیسر کی لاش کو تہہ خانے میں چھپانے کا فیصلہ کرتے ہی جیسے ونود کو اطمینان بھی ہوگیا اور اس کے بدن میں ایک نئی چستی بھی پیدا ہوگئی ۔ وہ بلی کی طرح دبے پاؤں پرفیسر کے کمرے میں داخل ہوا اس نے اس کی لاش کندھے پر اٹھائی اور حویلی کے اندرونی راستے سے حویلی کے پچھلے حصے پہنچ گیا ۔
یہاں پہنچنے کے بعد اس نے یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ کوئی نوکر تو آس پاس موجود نہیں ہے اس نے چاروں طرف دیکھا اور تہہ خانے کی طرف روانہ ہوگیا ۔
تہہ خانے میں بڑا سخت اندھیرا تھا لیکن چوں کہ ونود یہاں کئی مرتبہ آچکا تھا اس لیے اس کو اس کے اندر داخل ہونے میں کوئی خاص دقت نہیں ہوئی ۔ تہہ خانے کے چبوترے پر انسانی پنجر بدستور پڑا ہوا تھا ۔
ایک لمحہ کے لیے ونود کے دل میں ایک خوف سا طاری ہوا لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اس خوف پر قابو پالیا اور پروفیسر کی لاش چبوترے کے قریب فرش پر لٹادی ۔
ونود اس کے بعد فوراً تہہ خانے سے باہر نکل آیا کیوں کہ ابھی اس کو ایک اور کام بھی کرنا تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ پروفیسر کا اٹیچی کیس بھی اسی تہہ خانے میں رکھ دے ۔
پندرہ منٹ کے اندر وہ اس کام سے بھی فارغ ہوگیا ۔
تہہ خانے میں پروفیسر کی لاش اور اس کا سامان رکھنے کے بعد جب وہ واپس آرہا تھا تو غیرارادی طور پر اس کی نظر شاتو کے بت پر پڑ گئی اور جیسے وہ اپنی جگہ لرز کر رہ گیا ۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے شاتو اس کی طرف بڑی طنزیہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔ دوسرے ہی لمحہ اس نے بُت کی طرف سے نگاہیں پھیرلیں اور تیز تیز قدموں کے ساتھ شانتا کے کمرے میں داخل ہوگیا ۔
شانتا بدستور پلنگ پر لیٹی تھی ۔ اس نے ونود سے پوچھا “کیا پروفیسر تارک ناتھ جانے کے لیے تیار ہوگئے ۔“
“ہاں ۔” ونود نے کہا “تیار بھی ہوگئے اور چلے بھی گئے ۔“
“تم نے ان کو ناشتہ تو کرادیا ہوگا ۔” شانتا نے کہا ۔
“انھیں جانے کی جلدی تھی ۔” ونود نے مختصر سا جواب دیا ۔
اس گفتگو کے بعد دونوں خاموش ہوگئے ۔ ونود کا دل اب بھی بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا ۔ اس کا جسم پسینے میں نہایا ہوا تھا اور اس کے ہونٹ بالکل خشک ہوگئے تھے ۔ شانتا اپنے شوہر کا دکھ چونکہ بڑھانا نہیں چاہتی تھی اس لئے اس نے بھی خاموشی اختیار کرلی ۔ اس نے ونود سے اور کوئی سوال نہیں کیا ۔
اور ۔۔۔ بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی وہ وقت تھا جب میں ونود کی اس آسیب زدہ حویلی میں داخل ہوا ۔ حویلی کے باغیچے میں چونکہ مجھے کالکا مل گیا تھا تھا ، اس لیے مجھے شانتا کے کمرے میں پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی ۔۔۔ ونود اور شانتا کے تصور میں بھی نہ تھا کہ میں اس طرح بالکل اچانک ان کے کمرے میں داخل ہوجاؤں گا ۔
شانتا اور ونود کے پژمردہ چہرے دیکھ کر میری حیرت کی کوئی حد و انتہا نہ رہی ۔ دونوں مجھے دیکھ کر مسکرائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ونود مجھ سے بغل گیر ہونے کے لیے کھڑا ہوگیا ۔ اس کے چہرے پر ایک بالکل انوکھا سکون اُبھر آیا ۔ اس نے مجھ سے کہا “تم بالکل ٹھیک وقت پر آگئے دوست ۔۔۔۔۔۔ ورنہ ہم لوگ ایک گھنٹہ کے اندر یہ حویلی خالی کرنے والے تھے ۔”
“تم بلاتے اور میں نہ آتا یہ کیسے ممکن تھا ونود ۔۔۔” میں نے اتنا کہہ کر شانتا کی طرف دیکھا ۔۔۔ وہ واقعی برسوں کی بیمار نظر آرہی تھی ۔۔۔۔
میں پہلے ہی اس کا اعتراف کرچکا ہوں کہ کبھی شانتا میری محبوبہ تھی ، کبھی شانتا میری دنیا تھی ، کبھی شانتا میری تمناؤں کا آخری مرکز تھی ۔ یہ ہم دونوں کی بدقسمتی تھی کہ شانتا کی شادی میرے بجائے ونود سے ہوگئی ۔ اس ونود سے جو میرا دوست تھا ، ونود اور شانتا کی شادی پر میں خاموش تماشائی بنا رہا تھا ۔ ونود کے ہاتھوں میری دل کی دنیا لُٹ چکی تھی ۔ اور میں نے اپنے دوست سے اس کا تذکرہ کبھی نہیں کیا تھا ۔ اپنی شادی کے بعد شانتا نے بھی خود کو اپنے شوہر کے وجود میں ضم کردیا تھا ۔ اور میں اس کے لیے بالکل اجنبی ہوگیا تھا ۔ اور یا اس کے شوہر کا دوست ۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں تھا کہ میں نے شانتا کی تصویر اپنے دل سے بالکل مٹا دی تھی ۔ شانتا مجھے اب بھی یاد تھی ، اس کا شبنم سے دھلا چہرہ ، اس کی جھیل جیسی آنکھیں ، اس کے پھول جیسے رخسار ، اس کے سرخ لب ، اس کا خوبصورت جسم مجھے اب بھی یاد آیا کرتا تھا ۔۔۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ میں اس یاد کو کبھی ایک گناہ سمجھتا تھا ۔۔۔۔
آج بھی جب شانتا نے اپنی کمھلائی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھا تو میرا دل اندر ہی اندر تڑپ کر رہ گیا ۔۔۔۔۔ میں بیان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ شانتا کو اس حالت میں دیکھ کر مجھے کتنا دکھ ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔
بہرحال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ونود سے بہت سے سوالات کئے اور ونود نے مجھے سب کچھ بتا دیا ۔ لیکن اس نے جس طرح تارک ناتھ کا انجام شانتا سے چھپایا تھا اسی طرح اس نے مجھے بھی تاریکی میں رکھا ، وہ مجھے بھی جھوٹ بول گیا ۔۔۔۔۔۔
شاتو کے بت کی داستاں سننے کے بعد میں نے ونود سے کہا “اب تمہیں حویلی سے جانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔“
“لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” ونود نے کہا “مجھے پورا یقین ہے کہ اب شاتو مجھے سے اپنی بے عزتی کا بدلہ یا اپنی ناکامی کا انتقام ضرور لے گی ۔۔۔“
جواب میں میں نے کہا “روح کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ونود ۔ تم کہتے ہو کہ بُت روزآنہ رات کو بارہ بجے زندہ ہوجاتا ہے ، آج میں بھی اس کو زندہ دیکھنا چاہتا ہوں ۔ میں شاتو سے باتیں بھی کروں گا ۔ اور اس سے یہ بھی دریافت کروں گا کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے ۔”
ونود نے اس کے بعد خاموشی اختیار کرلی ۔ ویسے میں اس کا چہرہ دیکھ کر یہی اندازہ لگا رہا تھا کہ وہ حویلی سے جانے کے لیے بہت بے چین ہے ۔
ونود اور شانتا سے گفتگو کے بعد میں باہر نکلا ۔۔۔۔ راہداری سے گزرنے کے بعد میری نگاہ بھی شاتو کے بت پر پڑی ۔ بُت واقعی بڑا خوبصورت تھا ۔ میں دیر تک اس بت کو دیکھتا رہا اور پھر جیسے چونک گیا ۔ کیوں کہ حویلی میں پولیس کی موٹر داخل ہورہی تھی ۔
موٹر میں ایک پولیس انسپکٹر تھا اور آٹھ سپاہی ۔ ۔۔۔۔۔ میں پولیس کی اس بھاری جمیعت کو دیکھ کر حیران رہ گیا ۔
انسپکٹر نے موٹر سے اتر کر سب سے پہلے مجھ سے ہی بات کی ۔ اس نے پوچھا “میں مسٹر ونود سے ملنا چاہتا ہوں ، کیا آپ کا نام ہی ونود ہے ؟”
“جی نہیں ۔” میں نے کہا “مسٹر ونود اندر حویلی میں موجود ہیں ۔ میں ان کا دوست ہوں اور ابھی ابھی آیا ہوں ۔ لیکن آپ کو ونود سے کیا کام ہے ؟“
“آپ مجھے ان کے پاس لے چلیے ۔” انسپکٹر نے بڑے تحکمانہ لہجے میں کہا ۔ چنانچہ میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا کہ میں اس کو ونود کے کمرے تک پہنچا دوں ۔
پولیس انسپکٹر کو دیکھتے ہی ونود کے چہرے کا رنگ اڑ گیا ۔۔۔۔ اور انسپکٹر نے اس کے قریب آکر کہا ” میں آپ کو پروفیسر تارک ناتھ کے قتل کے الزام میں گرفتار کر رہا ہوں مسٹر ونود ۔”
ونود چیخ پڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا “لیکن میں نے ان کا قتل نہیں کیا ہے ۔۔۔۔ ”
“مجھے سب معلوم ہے ۔۔۔۔ اور آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ میں تہہ خانے سے ان کی لاش برآمد کرنے بھی جا رہا ہوں ۔”
میری حیرت کی بھی کوئی انتہا نہ رہی میں نے پوچھا “آپ کو یہ سب اطلاعات کس نے دی ہیں ۔۔۔۔“
” ایک عورت نے ۔ ” انسپکٹر پولیس نے کہا “اس نے مجھے اطلاع دی ہے کہ ونود نے پروفیسر تارک ناتھ کا قتل کر کے ان کی لاش تہہ خانے میں چھپادی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
” کیا اس عورت نے اپنا نام بتایا ہے ؟ ” میں نے پوچھا ۔
“جی ہاں ۔۔۔۔ ” انسپکٹر نے کہا ” اس کا نام شاتو ہے اور وہ اسی حویلی میں رہتی ہے ۔”
شاتو کا نام سنتے ہی ونود چیخنے لگا ۔
شاتو کا نام سنتے ہی ونود چیخنے لگا ۔
ونود چیختا رہا ۔۔۔۔
“یہ بالکل جھوٹ ہے ۔۔۔” یہ بالکل بکواس ہے ۔” میں نے تارک ناتھ کا خون نہیں کیا ہے ۔۔۔” لیکن انسپکٹر پولیس نے اس کی چیخوں کو بالکل نظر انداز کردیا اور اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں ۔
ہتکھڑیاں پہننے کے بعد ونود پر جیسے سکتہ سا طاری ہوگیا ۔
چند منٹ بعد انسپکٹر پولیس تہہ خانے سے پروفیسر تارک ناتھ کی لاش بھی نکال لایا ۔۔۔ اب اس نے ونود سے پوچھا “یہ پروفیسر تارک ناتھ کی لاش ہے جو کل شام کو شہر سے آئے تھے ، آپ نے ان کو اس حویلی میں ٹھہرایا تھا اور رات کے بارہ بجے کے بعد آپ نے ان کا قتل کردیا تھا ۔
ونود جواب دینے کے بجائے خاموش رہا ۔
انسپکٹر پولیس نے مزید کہا “اب میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں ۔۔۔ مجھے پوری ایمانداری سے بتا دیجیے کہ آپ نے پروفیسر کا قتل کیوں کیا ہے ۔“
لیکن ونود ایک بت کی طرح خاموش رہا ۔
“آپ کی خاموشی ، آپ کی مصیبتوں میں اضافہ کردے گی ،مسٹر ونود ۔”
انسپکٹر نے بڑے ملائم لہجے میں کہا ” اس لیے میں جو کچھ پوچھوں آپ مجھے بتا دیجیے ۔۔”
“میں نے تارک ناتھ کا قتل نہیں کیا ہے ۔” ونود نے مری مری آواز میں جواب دیا ۔
“یہ ہر مجرم کہتا ہے ۔۔۔۔” انسپکٹر نے کہا “خیر ۔۔۔۔ آپ یہ بتائیے کہ تہہ خانے میں جو انسانی ہڈیاں پڑی ہیں وہ کس کی ہیں ؟“
“یہ ہڈیاں صدیوں پرانی ہیں ۔” ونود نے جواب دیا ۔
“میں شاتو سے ملنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔ آپ اس کو بلوائیے۔۔۔۔”
انسپکٹر نے کہا ۔۔
شاتو بھی مر چکی ہے ۔۔۔” ونود نے کہا ۔
“کیا آپ نے اس کا بھی قتل کردیا ہے ۔۔؟” انسپکٹر نے بڑی حیرت سے سوال کیا وہ ابھی چار گھنٹے قبل مجھ سے مل چکی ہے ۔”
“میں آپ سے سچ کہتا ہوں شاتو نام کی کوئی عورت زندہ نہیں ہے ” ونود نے کہا “آپ سے جو عورت ملنے آئی تھی وہ شاتو نہیں تھی ۔ وہ شاتو کا بھوت تھا ۔۔۔۔ وہ شاتو کی روح تھی ، وہ شاتو کا سایہ تھا ۔۔۔۔۔“
“میرا خیال ہے کہ آپ پاگل ہوگئے ہیں مسٹر ونود ۔۔۔” انسپکٹر نے بڑی حیرت سے کہا ۔
“جی نہیں ۔۔۔ ونود نے کہا “میں پاگل نہیں ہوں ۔۔ میں آپ کو پوری کہانی سنائے دیتا ہوں ، کہانی سننے کے بعد آپ یقیناً میرے بارے میں اپنا فیصلہ بدل دیں گے۔”
ونود نے اس کے بعد اب تک کی پوری کہانی انسپکٹر کو سنادی ۔
ونود نے واقعی اب کوئی بات نہیں چھپائی تھی ۔ کہانی سن کر خود مجھے بھی حیرت ہوئی ، کیوں کہ ونود نے مجھے بھی تارک ناتھ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا ۔۔۔۔ میں نے بھی اس کی داستان کی تصدیق کردی اور شانتا نے بھی ۔۔۔۔ لیکن انسپکٹر نے اس کہانی پر بالکل یقین نہیں کیا ۔ اس نے کہا ” واقعی آپ ایک بے مثال افسانہ نگار ہیں مسٹر ونود ۔۔۔۔“
اب انسپکٹر مجھ سے مخاطب ہوا اس نے مجھ سے پوچھا “آپ یہاں کیوں آئے ہیں ۔“
“ونود نے مجھے بلایا تھا ۔” میں نے جواب دیا ۔
“کس لیے بلایا تھا۔” انسپکٹر نے مجھ سے پوچھا ۔۔۔۔
“وہ مجھے اپنی کہانی سنا کر مجھ سے مشورہ لینا چاہتا تھا کہ ان پراسرار حالات میں اسے کیا کرنا چاہیے ۔ میں اس کا بہت پرانا دوست ہوں ۔” میں نے جواب دیا ۔
انسپکٹر پولیس نے اس کے بعد مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا ۔ اس نے شانتا سے پوچھا “آپ نے پروفیسر تارک ناتھ کو دیکھا تھا ۔”
جی ۔۔۔ نہیں ۔” شانتا نے مردہ آواز میں جواب دیا “البتہ میرے پتی نے مجھے ان کی آمد کی اطلاع ضرور دی تھی ۔” شانتا نے مزید کہا “لیکن میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میرے پتی نے ان کا قتل نہیں کیا ہے ۔“
انسپکٹر پولیس مسکرایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی یہ مسکراہٹ اس امر کا ثبوت تھی کہ وہ ہم سب کو جھوٹا سمجھ رہا ہے ، اس نے ہماری کہانی پر قطعی یقین نہیں کیا ہے ۔
اچانک میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا ۔۔۔۔ میں نے انسپکٹر سے پوچھا “شاتو آپ سے کس وقت ملنے آئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
“تقریبا چار بجے صبح ۔۔۔۔ “انسپکٹر نے جواب دیا ۔ وہ اب بھی مسکرا رہا تھا ۔
“کیا اس نے آپ کو قتل کی اطلاع دینے کے علاوہ اور بھی کچھ کہا تھا ۔۔۔” میں نے پوچھا ۔
” جی ہاں ۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا تھا کہ وہ ونود کی حویلی میں رہتی ہے ۔۔۔” انسپکٹر نے جواب دیا “اور اسی لیے میں اس سے ملنا چاہتا تھا اور اسی لیے میں آپ کی اس کہانی پر ایک فیصد بھی یقین کررہا ہوں کہ شاتو نام کی کوئی عورت اس حویلی میں نہیں رہتی ہے اور یہ کہ اس کو مرے ہوئے ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ۔“
“لیکن انسپکٹر صاحب ۔۔۔۔ می ابھی اور اسی جگی ثابت کرسکتا ہوں کہ شاتو ایک زندہ عورت کا نام نہیں ہے۔” میں نے کہا ۔
وہ کیسے ؟” انسپکٹر نے حیرت سے پوچھا ۔
“آپ میرے ساتھ باہر چلنے کی زحمت گوارا کریں ۔” میں اتنا کہہ کر کھڑا ہوگیا ۔
انسپکٹر نے میرا جملہ سن کر چند لمحات تک میری طرف حیرت بھری نظروں سے دیکھا اور پھر ونود کو اسی کمرے میں چھوڑ کر میرے ساتھ باہر نکل آیا ۔۔۔۔ میں نے اس سے کہا “میں آپ کو شاتو سے ملانے لیے جا رہا ہوں ۔۔۔“
“لیکن ابھی آپ کہہ چکے ہیں کہ شاتو زندہ نہیں ہے ۔۔“
انسپکٹر نے کہا ۔
“میں نے ٹھیک کہا تھا ۔۔۔۔” میں نے جواب دیا اور اس کو لے کر حوض تک پہنچ گیا ۔ اب میں نے شاتو کے بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا “انسپکٹر صاحب ۔۔۔۔ آپ اس بت کو غور سے دیکھیں اور پھر یہ بتائیں کہ کیا یہ اسی عورت کا بت نہیں ہے جو آپ کے پاس قتل کی اطلاع دینے کے لیے آئی تھی ۔
انسپکٹر نے بت کی طرف دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہ گیا ۔ اب اس کی حیرت کی باری تھی ۔ چند لمحات کے بعد اس نے کہا “واقعی ۔۔۔۔۔ یہ اسی عورت کا بت ہے ، وہی آنکھیں ، وہی لب ، وہی جسم ، وہی قد ، حد یہ کہ اس بت کا لباس بھی وہی ہے جو وہ عورت پہنے تھی ۔
“بت کی طرف سے نظریں ہٹانے کے بعد انسپکٹر نے مجھ سے مزید کہا “فی الحال میں یہ ایک طلسم ہی کہوں گا ۔۔۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں ونود کو رہا کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا ۔ میں ونود کو اپنے ساتھ لے جانے اور اس کو پروفیسر کے قتل کے الزام میں حراست میں رکھنے پر مجبور ہوں ۔
حالات اس کے خلاف ہیں لیکن اگر آپ چاہیں تو افسران اعلیٰ سے مل کر اس کی رہائی کی کوشش کرسکتے ہیں ۔۔۔ ورنہ عدالت کے دروازے کھلے ہیں ۔
انسپکٹر نے مزید کہا “میرا خیال ہے کہ دنیا میں کوئی بھی شخص یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوگا کہ ایک بت بھی زندہ ہوسکتا ہے ۔“
“لیکن اگر آپ چاہیں تو آج رات کو بارہ بجے یہاں آکر بت کو زندہ دیکھ سکتے ہیں ۔” میں نے ونود کی رہائی کے لیے مزید وکالت کی ۔
“مجھے یہ تماشہ دیکھنے کی فرصت نہیں ہے ۔” انسپکٹر نے جواب دیا اور اس کمرے کی طرف روانہ ہوگیا جہاں ونود سپاہیوں کی حراست میں بیٹھا تھا ۔
میں نے ونود کی موجودگی میں ایک مرتبہ پھر انسپکٹر کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بالکل نہیں پسیجا ۔ اس نے پنچ نامہ تیار کیا اور ہم سب کی دستخط لے لئے ۔۔۔۔۔۔ اب وہ روانگی کے لیے بالکل تیار تھا ۔ پروفیسر کی لاش لاری میں لادی جا چکی تھی ۔
میں نے انسپکٹر سے پوچھا “آپ ونود کو اپنی حراست میں کب تک رکھیں گے ۔۔۔۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اسے جیل کب بھجیں گے ۔۔۔۔۔“
“مجسٹریٹ کے سامنے حاضر کرنے کے بعد میں شام تک انھیں جیل بھیج دوں گا۔” انسپکٹر نے جواب دیا۔
“اور پروفیسر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آپ کو کب مل جائے گی ۔” میں نے پوچھا ۔
“آج شام تک ۔۔۔۔”انسپکٹر نے کہا “لیکن آپ کو پوسٹ مارٹم رپورٹ سے کیا دلچسپی ہے ۔“
“اس لیے دلچسپی ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ یہ ظاہر کردے گی کہ پروفیسر کی موت کیسے واقع ہوئی ۔ اس کا قتل ہوا ہے یا وہ قدرتی موت مرا ہے ۔”
میرا جواب سن کر انسپکٹر نے غور سے میری طرف دیکھا اور پھر پوچھا معلوم ہوتا ہے آپ کو ڈاکٹری لائن کا بھی تجربہ ہے ۔”
“تجربہ نہیں ۔۔۔۔۔” میں نے کہا “میں خود ڈاکٹر ہوں اور پروفیسر کی لاش پر سرسری نظریں ڈالنے کے بعد ہی میں اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہوں کہ ان کی موت قدرتی طور پر ہوئی ہے کوئی بھی انسانی ہاتھ ان کی موت کا ذمہ دار نہیں ہے ۔“
“تم ٹھیک کہتے ہو کمار ۔۔اچانک انود نے کہا “وہ ڈر کر مرا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور یا پھر جیسا کہ میں کہ چکا ہوں شاتو نے اس کو انتہائی خوف زدہ کرکے مرنے پر مجبور کردیا ہے ۔“
“بہرحال ۔۔۔” انسپکٹر نے ایک طویل سانس لینے کے بعد کہا” سارا فیصلہ عدالت کرے گی ۔ میں تو قانون کا غلام ہوں اور قانون پر عمل کرنا میرا فرض ہے ۔”
انسپکٹر اتنا کہہ کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔۔ اور اس نے ونود سے کہا “آئیے مسٹر ونود۔۔۔” اور ونود بھی کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیر کانپ رپے تھے ، وہ بیدِمجنوں کی طرح لرزاں تھا ۔ اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اس کی جسمانی قوتوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہو ۔
منظر اتنا دل خراش تھا کہ کود میری آنکھیں بھی نم ہوگئیں ۔
میرے تصور میں بھی نہ تھا کہ میرے حویلی پہنچتے ہی ونود ایک خوف ناک مصیبت سے دو چار ہوجائے گا ایک ایسی مصیبت سے جس سے نجات پانے کی بظاہر کوئی صورت نہ تھی ۔
میں نے ونود کی طرف دیکھا اور ونود نے میری طرف اف کتنی مایوسی تھی اس کی آنکھوں میں ۔۔۔۔ آج بھی جب میں ان آنکھوں کو ویرانی کا تصور کرتا ہوں تو میرا کلیجہ کانپ جاتا ہے ۔
ونود پولیس کی حراست میں باہر جانے لگا تو شانتا دوڑ کر اس سے لپٹ گئی وہ چیخنے لگی “نہیں نہیں میں اپنے دیوتا کو نہیں جانے دوں گی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بالکل بے گناہ ہے ۔ اس نے کوئی قتل نہیں کیا ہے ۔ ۔۔۔۔
یہ ظلم ہے ۔۔۔۔۔۔ میں یہ بے انصافی نہیں ہونے دوں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔“
ونود ایک بے بس اور مجبور انسان کی طرح شانتا کی یہ بےکسی دیکھتا رہا ۔ اس کے بعد اس نے شانتا سے کہا “یہ تمہاری دیوانگی ہے تم اپنا یہ حال بنا کر میری مشکل آسان نہیں کروگی شانتا ۔۔۔۔۔ مجھے جانے دو ، میرا یہ دوست یہاں موجود ہے ، وہ تمہاری بھی حفاظت کرے گا اور میری رہائی کی کوشش بھی کرے گا ۔ اس لیے اب تم اپنے آنسو پونچھ ڈالو ۔۔۔“
ونود نے شانتا کو کچھ اس طرح سمجھایا اور تسلی دی کہ شانتا نے اس کا دامن چھوڑ دیا ۔۔۔ اور ایک بت کی طرح کھڑی ہوگئی ۔
اب نوکروں نے بھی رونا اور چلانا بند کردیا تھا ۔۔۔۔ لیکن یہ خاموشی بالکل لمحاتی تھی کیوں کہ جیسے ہی پولیس کی حراست میں ونود پولیس لاری میں سوار ہوا ، ایک مرتبہ پھر سب رونے لگے ۔۔۔۔ لاری باہر نکلی تو شانتا دوبارہ پچھاڑیں کھا رہی تھی ۔۔۔۔ بالک لایسا معلوم ہورہا تھا جیسے زندہ ونود باہر نہ جارہا ہو ، ونود کی لاش باہر جا رہی ہو ۔
ونود کی لاری باہر نکلی اور میں نے شاتو کے بت کی طرف دیکھا۔ بت کے چہرے پر بدستور مسکراہٹ موجود تھی ، لیکن میں نے ایسا محسوس کیا جیسے بت کی یہ مسکراہٹ کچھ اور بھی زیادہ گہری ہو گئی تھی۔ میں دیر تک بت کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔۔ شانتا روتی رہی ، نوکر آنسو بہاتے رہے اور ماحول کی افسردگی بڑھتی رہی۔
یقیناًشاتو نے اپنے انتقام کی ابتدا کردی تھی۔
میں نے شانتا کو سمجھانے کیلئے اس کا بازو پکڑا اور کہا:
شانتا۔ رونے کے بجائے آؤ اب ہم دونوں یہ سوچیں کہ ونود کی رہائی کیلئے ہمیں فوری طورپر کیا کارروائی کرنا چاہئے۔۔۔۔”
میرا جملہ سن کر شانتا نے میری طرف آنسو بھری نظروں سے دیکھا اور جیسے میرا کلیجہ کانپ گیا۔۔۔۔ بڑی اداسی تھی ان نظروں میں بڑی مجبوری تھی ان آنکھوں میں ۔۔۔۔ یہ آنکھیں کیا تھیں، درد اور غم کا ایک لہریں مارتا ہوا سمندر تھا۔۔۔ میں ان نظروں کی تاب نہ لاسکا اور اب خود میری آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ میں نے شانتا سے کہا
“خود مجھے بھی کچھ کم غم نہیں ہے شانتا۔۔۔۔ تم یقین جانو خود میرا کلیجہ بھی ونود کی اس مصیبت پر پھٹا جارہا ہے”۔
چند منٹ تک میں شانتا کو اس طرح سمجھاتا رہا۔ حد یہ کہ شانتا کو کچھ صبر آگیا۔ اور وہ تھکے تھکے قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔ میں نے شانتا سے کہا۔ تم چل کر آرام کرو، میں ابھی آتا ہوں۔
“آرام اب قسمت میں کہاں رہ گیا ہے کمار”۔۔۔۔ شانتا نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
لیکن ہر مصیبت عارضی ہوتی ہے شانتا۔۔۔۔ میں نے مزید سمجھایا۔
شانتا نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیاوہ خاموشی کے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہوگئی۔ میں نوکروں کے پاس آیا۔ کالکا سے میری واقفیت چوں کہ پرانی تھی اس لئے میں نے اس سے پوچھا ونود کااسکوٹر کہاں ہے؟
“میں نے اسے رات ہی کو گیرج میں رکھ دیا تھا”۔ کالکا نے جواب دیا۔
تم اس کی ضروری صفائی کردو میں تھوڑی دیر بعد شہر جاؤں گا۔ میں نے کہا۔
اتنا کہہ کر جب میں دوبارہ شانتا کے کمرے میں داخل ہوا تو شانتا پلنگ پر لیٹ چکی تھی اور خالی خالی نظروں سے چھت کی طرف دیکھ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ چونکی اور اس نے پوچھا “تم ابھی کالکا سے کیا کہہ رہے تھے۔۔۔؟ ”
“میں اس سے کہہ رہا تھا کہ وہ ونود کا اسکوٹر صاف کردے”۔
“لیکن کیوں۔۔۔۔” شانتا نے پوچھا۔
“میں ونود کی رہائی کے سلسلے میں شہر جانا چاہتا ہوں۔ میں کسی وکیل سے مل کر قانونی مشورہ کرنا چاہتا ہوں”۔ میں نے جواب دیا۔
“میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی۔۔۔” شانتا نے بڑی آہستہ آواز میں کہا۔
“نہیں۔۔۔ میں تمہیں ساتھ نہیں لے جاؤں گا اور اصولاً تمہیں حویلی ہی میں موجود رہنا چاہئے”۔
“میں اس حویلی میں تنہا نہیں رہ سکتی کمار”۔ شانتا نے بڑے دلگیر لہجے میں کہا “میں پاگل ہوجاؤں گی میں مرجاؤں گی”۔
“نہیں شانتا،ل میں نے کہا میں تمہیں ساتھ نہیں لے جاؤں گا”۔
“مجھے اپنے ساتھ نہ لے جاکر تم میرے ساتھ دشمنی کروگے کمار”۔ شانتا نے کہا۔
“تم پہلیوں میں باتیں نہ کرو” میں نے الجھن کھاکر کہا۔
“میں پہلیاں نہیں بجھارہی ہوں کمار۔۔۔، شانتا نے بڑی نرم آواز میں کہا “تمہیں خود یہ بات معلوم ہے کہ اس حویلی میں شاتو کے علاوہ ایک مرد کی روح بھی موجود ہے اور یہ روح مجھے تنہا پاتے ہی میرے قریب آجاتی ہے اور مجھ سے باتیں کرنے لگتی ہے”۔ ایک لمحہ تک خاموش رہنے کے بعد اس نے مزید کہا
“وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہے کمار۔۔۔۔ تم اگر مجھے حویلی میں تنہا چھوڑ دوگے تو وہ مجھے دبوچ لے گا۔۔۔۔ وہ میرا خون پی لے گی”۔
“لیکن شانتا میں شام تک واپس آجاؤں گا اور اس دوران کالکا تمہارے بالکل قریب موجود رہے گا وہ ایک لمحہ کیلئے بھی تم کو تنہا نہیں چھوڑے گا”۔
“جیسی تمہاری مرضی۔” شانتا نے انتہائی نا اُمید ہوکر کہا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور مجھے اطمینان ہوگیا۔
اب میں نے کالکا کو آواز دی۔ وہ آیاتو قبل اس کے کہ میں اس سے کچھ کہتا اُس نے مجھ سے کہا “بڑا غضب ہوا بابو جی”۔
کیا ہوا۔۔۔؟ میں نے پریشان ہوکر پوچھا۔
“تمام نوکر حویلی چھوڑ کر جاچکے ہیں۔۔۔ میں نے ان کو بہت سمجھایا، لیکن وہ یہاں رہنے پر راضی نہیں ہوتے وہ بڑے خوف زدہ بھی تھے اور بہت پریشان سبھی”کالکا نے کہا۔
“اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب حویلی میں تمہارے علاوہ اور کوئی نوکر نہیں ہے”۔ میں نے انتہائی پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
“جی ہاں”۔ کالکا نے جواب دیا۔
شانتا بھی میری اور کالکا کی گفتگو سن رہی تھی اور اس نے آنکھیں کھولیں اور کہا “میری بات مانو کمار۔۔۔۔ تو ہم یہ حویلی ہی کیوں نہ چھوڑ دیں۔۔۔ آخر یہاں رہنے سے فائدہ بھی کیا ہے”۔
“حویلی چھوڑدیں گے تو کہانی ادھوری رہ جائے گی شانتا”۔ میں نے جواب دیا
“اور میں یہاں کہانی مکمل کرنے آیا ہوں۔۔۔۔ ونود نے مجھے یہاں مسائل کو حل کرنے کیلئے بلایا تھا اور میں اس حویلی کے مسائل حل کرکے رہوں گا”۔
الغرض۔۔۔! کالکا کو شانتا کے کمرے میں چھوڑ کر میں ونود کا ایک اسکوٹر لے کر شہر روانہ ہوگیا میں جلد ازجلد ونود کی رہائی کے سلسلے میں کسی بڑے وکیل سے مشورہ کرنا چاہتا تھا۔ روانگی سے قبل میں نے شاتو کے خاموش بت کی طرف دیکھا۔ بت مسکرارہا تھا اچانک خود بخود میرے لبوں پر بھی مسکراہٹ تیرنے لگی۔ میں نے شاتو کے بت سے مخاطب ہوکر کہا “میں آج رات کو بارہ بجے تم سے ملاقات ضرورکروں گا شاتو اور دیکھوں گا کہ تم کتنے پانی میں ہو”۔
مجھے پورا یقین تھا کہ شاتو کی روح میرے قریب ضرور موجود ہوگی ورنہ میں یہ جملہ نہ کہتا۔ میں شاتو کو چیلنج نہ کرتا۔
یہ کتاب تعمیر نیوز ویب سائٹ کے اس صفحہ سے لی گئ ہے۔