“اچھا ہوا فواد تم آگئے میں تم سے۔۔۔۔۔۔”
”آپ بہت بکواس کر چکی ہیں محترمہ بہتر ہوگا فوراً یہاں سے چلی جائیں۔”
اسکی بات کاٹ کر وہ سخت لہجے میں بولا
”تمہیں اس لڑکی نے بھڑکایا ہے نا ہمارے خلاف میں جانتی ہوں یہ مما کے بارے میں بھی باتیں کرتی رہی ہے تم سے یہ جھوٹ بولتی ہے فواد یونی میں بھی پتہ نہیں کس کس کے ساتھ گھومتی تھی اس دن بھی کسی سے ملنے گئی تھی جب۔۔۔۔۔۔۔۔”
”بس” وہ دھاڑا۔ ”یہ لڑکی میری بیوی ہے اور میری محبت بھی۔” اس نے آنسو بہاتی سمل کو اپنے حصار میں لیا۔
”آج تو تم اس گھر میں داخل ہوگئی ہو لیکن آئندہ تم یا میری بیوی کے کردار پر بات کرنے والا کوئی بھی شخص یہاں نہیں آ سکے گا۔”
”نکل جاوُ یہاں سے۔” اس نےبلند آواز میں کہا۔
وہ نفی میں سر ہلاتی بھاگتی ہوئی باہر نکل گئی۔ اس کے جاتے ہی اس نے سمل کے کندھے پہ رکھا بازو۔ہٹایا اور کمرے میں چلا گیا جبکہ وہ گرنے کےانداز میں صوفے پہ بیٹھی پھوٹ پھوٹ کررودی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آکر وہ کمرے میں بند ہوگئی فواد سے ہونے والی بےعزتی پر اسکا خون کھول رہا تھا بےبس ہوتے ہوئے وہ آنسو بہانے رہی تھی جب صفیہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں
”سہانہ” انہوں نے پکارا
اس کے وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔
”سہانہ میری بچی” وہ نزدیک آئیں اور اس کے شانے پہ ہاتھ رکھا وہ تڑپ کراٹھی اور ان سے لپٹ گئی۔
”مما” اسکا خوبصورت چہرہ آنسووُں سے تر تھا۔
”کیا ہوا میری بچی کچھ بول تو کیوں رو رو کر میرا دل دہلا رہی ہے۔”
”مما وہ سمل۔۔۔۔” آنسووُں کی شدت سے اسکی آواز نہیں نکل رہی تھی۔
”مما وہ سمل نے چھین لیا ہے فواد کو مجھ سے اس نے بھڑکایا ہے اسے ہمارے خلاف وہ میری کوئی بات بھی نہیں سننا چاہتا”
وہ شدتوں سے روتے ہوئے بولی۔
صفیہ بیگم ایک پل کو سناٹے میں رہ گئیں
”لیکن بیٹا تم گئیں ہی کیوں وہاں؟ بھول جا اب اسے وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ گیا ہے۔” انہوں نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرا اور پیار سے بولیں۔
”نہیں مما اسے بھولنا نہیں ہے اسے حاصل کرنا ہے۔” وہ اپنا آپ چھڑاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
”بہت صبر کرلیا میں نے اب سمل برداشت کرے گی بچپن سے ہر اچھی چیز اسے ملتی رہی ہے حتی کہ ابا جان اور پاپا کا پیار بھی پر اس دفعہ میں اسے جیتنے نہیں دوں گی”۔
وہ حسد کی آگ میں جل رہی تھی
”میری بچی میری بات سن چھوڑ دے اس موئے فواد کا خیال۔ کتنی چاہت سے رشتہ مانگ رہے ہیں زوہیب کے گھروالے ایک دفعہ ان سے مل تو سہی۔” انہوں نے باقاعدہ اس کی منت کی۔ سمجھ نہیں آرہا تھا اسے کیسے سمجھائیں اپنی چال خود پہ ہی الٹتی نظر آرہی تھی۔
”صفیہ بھابھی۔ صفیہ بھابھی” غزالہ بیگم انہیں پکارتی ہوئیں اندر داخل ہوئیں۔
”ہاں بولو” وہ گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی اٹھ کھڑی ہوئیں جبکہ سہانہ واشروم میں بند ہوگئی تھی شاید اپنی مخدوش حالت چھپانا مقصود تھا۔
”بھابھی وہ نیچے لاشاری صاحب اور انکے گھر والے آئے ہیں آپ بھی آجائیں اور سہانہ کو بھی بلا لیں۔” اک نظر واشروم کے بند دروازے پرڈالتے ہوئے کہا۔
”اچھا چلو ہم چلتے ہیں سہانہ کو میں نے تیار ہونے بھیجا ہے آجاتی ہے ابھی۔” وہ کمرے سے نکلتے ہوئے بولیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے پر دستک ہوئی۔ ”آجائیں” اس نے ذرا کی ذرا لیپ ٹاپ سے نظر اٹھاتے ہوئے کہا۔ وہ جھجھکتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔
”وہ میں۔۔۔۔۔ وہ میں کہنے آئی تھی کہ آپ کھانا کھا لیں”
”اچھا!! وہ استہزائیہ سا مسکرایا۔
”مجھے لگا آپ کچھ اور کہنے آئی ہیں۔”
”میں بتانا چاہتی تھی آپکو مگر ہمت نہیں ہوئی مجھے لگا آپ ناراض ہونگے” وہ اسکا اشارہ سمجھ چکی تھی اس لیے جلدی سے بولی۔
”وہ آگے بڑھا اور اسکا ہاتھ تھام کر بیڈ پر بٹھا دیا اور نرمی سے بولا
”سمل! میرے خیال میں ہمارا رشتہ اس نہج پہ آچکا ہے جہاں آپ مجھے کچھ بھی بلاججھک کہہ سکتی ہیں میں سہانہ کے بارے میں پہلے ہی ٹھٹھک گیا تھا اسی لیے آپ سے پوچھا تھا مگر آپ چھپا گئیں۔” لہجے میں ہلکا سا شکوہ درآیا۔
”آپکو مجھے بتانا چاہئیے تھا یہ ضروری تھا آپکی حفاظت کےلیے۔”
”آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔” اس نے نگاہیں اٹھائیں وہ لو دیتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہاتھا نگاہیں ملنے پر مسکرایا
”اس طرح مجھے دیکھیں گی تو کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔” لہجہ شرارتی تھا۔
”میں کھانا لگاتی ہوں” وہ سٹپٹاتے ہوئے اٹھی۔
فواد کا قہقہ بے ساختہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”السلام علیکم!” انہوں نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے اونچی آواز میں سلام کیا۔
”وعلیکم السلام” ثمینہ لاشاری بولتے ہوئے اٹھیں اور ان کے گلے لگ گئیں۔
”کیسی ہیں آپ بھابھی اور ہماری بیٹی کہاں ہے؟”
”میں ٹھیک ہوں اور سہانہ آرہی ہے بس” خود کو سنبھالتے ہوئے وہ بولیں۔
”آپ کیسے ہیں بھائی صاحب؟” لاشاری صاحب سے پوچھا۔
”اللہ کا شکر ہے بھابھی۔ یہ آپ اپنے بیٹے سے ملیے۔” ساتھ بیٹھے خوبرو نوجوان کی طرف اشارہ کیا۔
”السلام علیکم آنٹی” زوہیب ان کے سامنے جھکا۔
”وعلیکم السلام بیٹے جیتے رہو” ”غزالہ!ابا جان اور ان لوگوں کو نہیں بتایا؟”
”فون کردیا ہے بھابھی! آرہے ہیں وہ لوگ”
یمنی مہمانوں کوچائے سرو کررہی تھی
”یمنی بیٹے سہانہ کو بلائیں نا میں اپنی بیٹی سے ملنا چاہتی ہوں” انہوں نے پھر اصرار کیا صفیہ بیگم پہلو بدل کر رہ گئیں۔
یمنی “جی” کہتے ہوئے باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہانہ گلاس ونڈو کے پاس کھڑی ہلکے نم بالوں میں برش پھیر رہی تھی جب وہ اندر داخل ہوئی۔
”سہانہ تیار ہوگئی ہو تو آجاوُ۔”
”مجھے نہیں آنا تم جاوُ” بنا ہلٹے وہ بے حد اطمینان سے بولی۔
”یہ کیا کہہ رہی ہو چلو آوُ آنٹی بلارہی ہیں تمہیں” اس نے کہتے ہوئے اسکا بازو پکڑا۔
”چھوڑو مجھے کہا نا نہیں آنا” کہتے ہوئے اس نے بازو چھڑایا اور دوبارہ گھوم گئی۔
”دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا مامی کو بھیجتی ہوں وہی لے جائیں گی تمہیں” بے حد غصے سے بولتے ہوئے وہ باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود کو کمپوز کرنے کے بعد جب وہ دوبارہ ڈرائنگ روم میں آئی تو چائے کے ساتھ۔خوش گپیوں کادور چل رہاتھا۔ابا جان اور ابتہاج،منہاج صاحب آ چکے تھے جبکہ عمران کسی کام کے سلسلے میں اسلام آباد گیا تھا۔
”بیٹے سہانہ کو نہیں لائیں تم؟”
”آنٹی وہ آرہی ہے” ان کے استفسار پر وہ دھیرے سے بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں سفید شرٹ اور پاجامے میں ملبوس سہانہ اندر داخل ہوئی۔
”السلام علیکم” اس کے سلام کرنے پر سب متوجہ ہوگئے۔
”وعلیکم السلام” آوُ بیٹا بیٹھو میں کب سے اپنی بیٹی کا انتظار کر رہی تھی” انہوں نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔
”دیکھیے بھابھی زبانی کلامی بات تو مردوں میں طے ہو ہی چکی ہے اگر ابا جان اور آپ دونوں کی اجازت ہو تو” انہوں نے کہتے ہوئے مخملی ڈبیا پرس سے نکالی اور ایک نظر ان سب کو دیکھا۔
ابا جان اور ابتہاج صاحب کے چہرے پر۔رضامندی تھی انہوں نے کچھ کہنا چاہا مگر ابتہاج صاحب کے اشارے پر بدقت اثبات میں سر ہلا پائیں۔
رضامندی پاتے ہی بیگم لاشاری نے جگمگ کرتی انگوٹھی ڈبیا سے نکال کر سہانہ کی انگلی میں سجادی اسکا چہرہ تپنے لگا کسی کے کچھ سمجھنے سے پہلے وہ اٹھی اور باہر نکل گئی۔ ایک پل کو سب ساکت رہ گئے۔
”ہماری سہانہ بہت شرمیلی ہے” پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوئے غزالہ بیگم نے بات کو سنبھالا
ثمینہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا اور سب کو مبارکباد دینے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...