اردو میں ماہیا نگاری کی غلط روش کے بعد درست وزن میں ماہیا نگاری اور اصلاح احوال کا آغاز ۱۹۹۰ءمیں ہوا۔ اور اب کہ ۱۹۹۶ءگذر چکاہے، لگ بھگ چھ سال کے عرصہ میں نہ صرف ماہیے کے وزن کی درستی کا مسئلہ حل ہوا ہے بلکہ اس کے مزاج کو سمجھنے کی مخلصانہ کوششیں بھی ہوئی ہیں۔ گزشتہ ۶برسوں میں ماہیے کی بحث نے کیا کیا رخ اختیار کیا۔۔۔؟ اس کی بیشتر رُوداد میں نے اپنے تاثرات کے ساتھ اس کتاب میں یک جا کرنے کی کوشش کی ہے۔ کوشش کا لفظ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ۱۹۹۲ ءمیں جب ماہیے پر پہلا تنقیدی مضمون شائع ہو، انہیں ایام میں مجھے ترک وطن کرنا پڑا۔ بیرون ملک آکر شاید میں تمام رسائل پر پوری نظر نہیں رکھ سکا۔ ماہیے کی بحث جب عروج پر پہنچی میں وطن عزیز سے دو ر تھا اس کے باوجود مقدور بھر اس کی بحث میں شریک رہا۔
میں ادب میں کسی قول اور نظریے کو حرف آخر نہیں سمجھتا ۔ ماہیے کے سلسلے میں میرا ایک موقف ہے جسے میں نے دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان دلائل کو ان سے بہتر دلائل کے ساتھ توڑا جا سکتا ہے۔ لیکن پتھر کے ساتھ نہیں ۔۔۔ گزشتہ چھ برسوں میں اختلاف رائے رکھنے والوں میں تین طرح کے احباب سامنے آئے:
۱۔ وہ احباب جو خلوص اور نیک نیتی سے سمجھتے تھے کہ شاید ماہیے کا وزن دونوں طرح سے ہے، اس لئے ماہیے کے دونوں وزن ٹھیک ہیں۔
۲۔ وہ احباب جو پہلے تین ہم وزن مصرعوں کے ”ماہیے“ لکھ رہے تھے۔ بعض کی ایسے ”ماہیوں “ کی کتابیں تک چھپ گئی تھی۔ انہوں نے حقیقت حال ظاہر ہو جانے کے بعد اپنے غلط وزن کے ”ماہیوں“ کو ماہیے منوانے کے لئے امداد باہمی کے طور پر مہم چلائی۔ تاہم ذاتی پریشانی کے باعث ان احباب نے ”طے شدہ نتائج حاصل کرنے والا تحقیقی انداز“ اختیار کرنے کے باوجود زیادہ تر ادبی زبان میں اپنا موقف پیش کیا ۔
۳۔ وہ کرم فرما جو مجھ سے کسی اور سبب سے ذاتی طور پر ناراض تھے۔ انہوں نے محض مجھے نیچا دکھانے کی غرض سے خلط بحث کیا۔ حقائق کو دیدہ دانستہ مسخ کیا۔ ادبی فضا کو گرد آلود کیا۔ یہ کرم فرما ماہیے کی آڑ میں اپنی زخمی انا کیلئے مرہم چاہتے ہیں، بصورت دیگر گرد اڑاتے رہیں گے۔
سو یہ کتاب تیسری قسم کے کرم فرماﺅں کے لئے ہر گز نہیں ہے۔ پہلے دونوں طرح کے احباب کے لئے اور ان تمام ادب دوستوں کے لئے یہ کتاب لکھی گئی ہے جو کسی کی طرفداری یا مخالفت کے جذبے کے بغیر ماہیے کے وزن اور مزاج کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
اس کتاب کی تکمیل کیلئے مجھے بہت سے حوالوں کی ضرورت تھی جو یہاں دستیاب نہ تھے۔ جن دوستوں نے میرے مطلوبہ حوالہ جات فراہم کرنے میں میری مدد کی ان میں جناب امین خیال، محترم ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی ، برادرم صفدر رضا صفی ، برادرم انور مینائی اور برادرم عارف فرہاد کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ میں ان تمام دوستوں کے تعاون پر ان کا شکرگزار ہوں ۔ جن دوستوں نے میری مودبانہ درخواست کے باوجود مجھے میرا مطلوبہ مواد فراہم کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرلی(حالانکہ میں مطلوبہ مواد کی فراہمی کیلئے جملہ اخراجات بھی ادا کر رہا تھا) میں ان کا بھی شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ در اصل نو شہرہ ، راولپنڈی اور کراچی کے یہ دوست غلط وزن کے ”ماہیے“ کے حامی ہیں شاید اس لئے ایک ادبی معاملے میں تعاون کرنے میں انہیں انقباض محسوس ہوا ۔ ادبی معاملات میں اختلاف رائے جرم نہیں ہوتا۔ تحقیقی معاملات میں کسی فرد کی انا کے مقابلے میں حقائق محترم ہوتے ہیں۔ بہر حال ان دوستوں کی خاموشی کی مجبوری بھی برحق ہے۔
ماہیا” کتاب دل“ ہے۔ اس کتاب میں ماہیے کی۔۔۔۔ پنجابی اور اردو ماہیے کی مختصر سی کہانی کے ساتھ اس ”کتاب ِدل“ کی چھوٹی سی تفسیر بھی کی گئی ہے، اس امید کے ساتھ کہ:
” لکھی جائیں گی کتا ب دل کی تفسیر یںبہت“۔۔
ماہیے کے وزن اور مزاج کے سلسلے میں ایک واضح موقف رکھنے کے باوجود میں نے اپنے ذہن کی کھڑکیوں اور دل کے دروازے کو کھلا رکھا ہوا ہے۔ علمی اور ادبی سطح پر کوئی نئی بات مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کی جائے تو میں اسے قبول کرنے میں دیر نہیں کروں گا۔ اسی طرح میں توقع رکھتا ہوں کہ اگر میرے موقف میں جان ہے تو علمی، ادبی مزاج رکھنے والے احباب اسے خوشدلی سے قبول کریں گے۔
حیدر قریشی(جرمنی)
مورخہ۱۳جنوری ۱۹۹۷ئ