نہ نہ کرتے بھی حالاتِ حاضرہ پر میرے کالموں کے تین مجموعے چھپ چکے ہیں۔اس کے بعد میں اس کارِ خیر سے توبہ تائب ہو چکا تھا۔لیکن مغربی دنیا کے بارے میں ہمارے پاکستانی معاشرے میں جو غلط فہمیاں جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی تھیں اور جن کے نتیجہ میں اہلِ مغرب کا کچھ بھی بگڑنے والا نہیں تھا،مجھے خیال آیا کہ اس حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے لایاجائے۔
اس احساس کے ساتھ میں نے چند مختصر سے کالممضامین لکھے جو ادھر اُدھر اخبارات میں چھپ گئے۔مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم لوگ شتر مرغ کی طرح اپنا سر ریت میں دے کر خوش نہ ہوں۔بلکہ کھلی آنکھوں سے بدلتی ہوئی دنیا کو دیکھیں۔سو اس طرح یہ مختصر سا چوتھا مجموعہ بھی بن گیا ہے۔
یہ صرف سات کالم لکھے گئے تھے۔لکھنے کو بہت کچھ ہے۔مثلاً:
پاکستانی قوم ہمیشہ داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر کے فریب کا ہی شکار ہوتی آرہی ہے۔آزاد عدلیہ کے نام پر افتخار چوہدری نے قوم کے ساتھ جو بھیانک مذاق کیا ہے،اس کی قیمت ابھی پوری قوم کو چکانا ہو گی۔میں اس معاملہ میں اعتزازاحسن،علی احمد کرد،اور فیصل رضا عابدی سے اتفاق کرتا ہوں۔ اوراپنے سابقہ کالموںمیں آزاد عدلیہ تحریک کی حمایت کرنے پر شرمندہ ہوں ۔ سپریم کورٹ عدلیہ کی آزادی کے نام پر ماورائے آئین فیصلے کرکے مادر پدر آزاد ہو چکی ہے۔اور اب تو پدر نے پسرکو بھی عدالتی تحفظ کے ساتھ لوٹ مار کی آزادی دلادی ہے۔
آزاد میڈیا بھی مادر پدر آزاد ہو چکا ہے۔حالاتِ حاضرہ کے پروگرام مار دھاڑ سے بھرپور شاہکار بن چکے ہیں۔اور ان ہندوستانی ریاستوں کے تہذیبی زوال کا نقشہ دکھا رہے ہیں جب تیتر،بٹیر اور مرغوں کی لڑائی سے لے کر ریچھ اور کتوں کی لڑائیوں تک کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ان تہذیبوں کے انجام سے پاکستان کے انجام کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔خدا کوئی بہتر صورت پیدا کردے اور ملک کسی بڑی تباہی سے بچ جائے۔میڈیا کے ماردھاڑ والے ٹاک شوز کو چھوڑ کر کامیڈی شوز دیکھے جائیں تواحساسِ زیاں اور بھی بڑھ جاتا ہے۔عربی کے ایک مشہور مقولہ کا اردو ترجمہ یوں ہے:کلام میں ظرافت کو وہی مرتبہ حاصل ہے جو کھانے میں نمک کوحاصل ہوتا ہے
کامیڈی شوز میں کھانا کم اور نمک زیادہ ہو چکا ہے،اس کے باوجود شوز کے اینکرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے بڑے لذیذ شو پیش کیے ہیں۔ایسے صاحبان اپنے پروگرام کی ریٹنگ کے ثبوت بھی پیش کرتے ہیں اور مجھ جیسے ناظرین یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ کسی محدود ریٹنگ کو معیار مانا جاسکتا ہے تو پھر پاکستان تو دنیا بھر میں فحش ویب سائٹس کو وزٹ کرنے والا پہلے نمبر کا ملک ہے۔ریٹنگ تو پھر سب سے زیادہ فحش ویب سائٹس کی ہوئی۔اس کے باوجود قومی منافقت کا یہ عالم کہ سپریم کورٹ میں فحاشی کے خلاف درخواستیں دائر کر دی گئی ہیں۔اس کے نتیجہ میں یہ سوال پھر اُٹھ کھڑا ہوا ہے کہ فحاشی کی تعریف کیا ہے اور اس کے حدودو قیود کیا ہیں؟
مجھے قرآن شریف کی بعض آیات میںمخصوص انسانی اعضاءکے الفاظ یاد آتے ہیں،انہیں ترجمہ کرتے ہوئے اردو کے اچھے پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے۔لیکن ان کی تھوڑی سی تشریح کرنا مقصود ہو تو شاید کوئی اپنے بچوں کے سامنے ایسا نہیں کر سکے گا۔مجھے بخاری شریف کا باب غسل بھی یاد آتا ہے۔مجھے اسلامی روایات میں مذکورمباشرت کے طریقوںکا دھیان بھی آتا ہے۔ان ساری حساس جنسی باتوں کو ایک احتیاط کے ساتھ ہی زیرِ بحث لایا جا سکتا ہے۔لیکن جو ملک فحش ویب سائٹس دیکھنے میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہواور وہاں اللہ کے نیک بندے فحاشیت کے خلاف سپریم کورٹ میں پہنچ چکے ہوں اور سپریم کورٹ کے اپنے احوال خود ایک فحش روپ اختیار کرچکے ہوں۔وہاں بندہ کس کس بات کی طرف توجہ کرے اور کس کس بات کی طرف توجہ دلائے۔
کالم نگاری کے نام پر جو کچھ بچا کھچا موجود تھا اس مختصر سی ای بک میں پیش کررہا ہوں۔
خوش رہو اہلِ چمن، ہم تو چمن چھوڑ چکے
حیدر قریشی(جرمنی) ۳۰اگست ۲۰۱۲ء