ساختیات اور پسِ ساختیات کے مباحث جب میرے مطالعہ میں آئے تھے تو سچی بات ہے کہ انہیں سمجھنے کے لیے خاصی دماغ سوزی کرنا پڑتی تھی۔تاہم ایک نئے تنقیدی ڈسپلن کے طور پر میں نے نہ تو اس کی بے جا مخالفت کی اور نہ ہی اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا۔شروع میں جب ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب نے اسے یہودیوں کی سازش قرار دیا تو مجھے ان کی اس بات سے افسوس ہوا۔تب میرے ذہن میں وہ عمومی پاکستانی رویہ تھا جس کے باعث ہم ہر معاملہ میں سازشی تھیوری لے آتے ہیں۔تاہم جیسے جیسے اس ساختیات اور پسِ ساختیات کے اسرارتھوڑے بہت منکشف ہوتے گئے،ویسے ویسے مجھے ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کی بات میں وزن محسوس ہوتا گیا۔میں نے پاکستان میں ڈاکٹر وزیر آغا صاحب سے ذاتی ملاقاتوں میں اس تنقیدی ڈسپلن کو آسان الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کی۔کچھ پلے پڑا،کچھ پلے نہیں پڑا۔
دہلی میں قیام کے دوران جب دیوندر اسر صاحب سے ملاقاتیں ہوئیں تو ان کے ذریعے مجھے اس ڈسپلن کو نسبتاَ بہتر طور پر جاننے کا موقعہ ملااور اس کا کچھ اچھا تاثر نہیں بنا۔تخلیق میں سے مصنف کو منہا کرنا جدیدیت کا خاصا تھا۔اس کا یہ پہلو مناسب تھا کہ کسی فن پارے پر بات کرتے ہوئے اس کے مصنف کی ذاتی حیثیت اور مرتبہ اثر انداز نہ ہو ۔اور مطالعہ غیر جانبدارانہ ہو سکے۔لیکن مابعد جدیدیت مصنف کو منہا نہیں کر رہی تھی باقاعدہ موت کے گھاٹ اتار رہی تھی۔ مصنف کی موت کے اعلان کے ساتھ متن کو بھی غیر اہم کہا جا رہا تھااور اہمیت دی جا رہی تھی اس نام نہاد قاری کوجو در اصل مابعد جدید نقاد تھا۔ایسا نقاد جو خود تخلیقی لحاظ سے بانجھ تھاوہ تخلیق کاروں اور تخلیقات کو بے توقیر کرکے اپنے فرمودات کو ہی ادبِ عالیہ قرار دلوانا چاہ رہا تھا۔میں نے اسی زمانے میں اپنے ایک دو مضامین میں بھی اور رسائل میں چھپنے والے خطوط میں بھی اس رویے کی شدید مخالفت کی۔
اس حوالے سے میرے ان دوپرانے اقتباسات سے مابعد جدیدیت کے تعلق سے میرے مطالعہ اور میری سوچ کو کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے:
۱۔’’ساختیاتی ناقدین اس ڈسپلن کو مشکل،گنجلک اور ژولیدہ انداز میں بیان کرنے کی بجائے اگر عملی تنقید کے نمونے پیش کریں تو زیادہ بہتر ہے۔نارنگ صاحب نے اس سلسلے میں اولیت کا اعزاز حاصل کیا ہے ۔ان کامضمون’’فیض کو کیسے نہ پڑھیں‘‘ساختیاتی عملی تنقید کا شاندار نمونہ ہے۔ایک طرف قاری کی آزادی کا احساس اتنا شدید ہے کہ مصنف کو موت کے گھاٹ اتارنا ضروری ہے۔دوسری طرف بحیثیت ناقد ہدایت نامہ جاری کیا جا رہا ہے کہ فیض کو کیسے پڑھیں اور کیسے نہ پڑھیں۔
گستاخی معاف۔ادبی سطح پر یہ قاری کی آڑ میں تخلیقی لحاظ سے بانجھ نقادوں کی ادب پر مسلط ہونے کی ایک چال ہے اور عالمی سطح پر بعض امریکی دانشوروں کے احساسِ کمتری کی نفسیاتی تسکین۔‘‘
(خط مطبوعہ سہ ماہی دستک ہوڑہ،شمارہ نمبر ۳،جولائی تا دسمبر۱۹۹۴ء۔صفحہ نمبر۲۳۶،۲۳۷)
۲۔ ’’جیسے ہی ہمارے یہاں ساختیاتی(اور ساخت شکن)تنقید کے چرچے ہونے لگے، بے معنی تحریروں میں خود ساختہ معنویت باور کرانے والے ناقدین اور شارحین کی بن آئی۔میں اس نئے تنقیدی ڈسپلن کو بھی ایک جزوی سچائی سمجھتا ہوں لیکن ہمارے ایسے ناقدین جو تخلیقی صلاحیت سے عاری تھے انہیں یہ تنقیدی ڈسپلن کچھ زیادہ ہی راس آنے لگا۔ انہوں نے سوچا کہ جب ہم کسی بے معنی ، بے تکی تحریر میں معانی کے صدرنگ جلوے پیدا کر لیتے ہیں تو پھر سارا کمال تو ہمارا اپنا ہوا۔ تخلیق کیا اور تخلیق کار کیا!___ چنانچہ قاری کی آڑ لے کر تخلیقی لحاظ سے بانجھ ناقدین نے تخلیق کار کو تخلیق سے اس طرح نکال باہر کیا جیسے مکھن میں سے بال ____ تخلیق کار کو اپنی ہی تخلیق کے قاری ہونے کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا۔یہ کھیل تماشہ ابھی جاری ہے ۔ کبھی ادب کی ٹوپی سے خرگوش نکال کر دکھائے جارہے ہیں اور کبھی رومال میں سے کبوتر برآمد ہو رہے ہیں۔ یار لوگ تماشے سے فارغ ہوں گے تو انہیں احساس ہو گا کہ ادب تو تخلیق کار ، تخلیق اور قاری کے مابین ایک توازن قائم کرتا ہے۔‘‘
(دیوندر اسر کے ناولٹ خوشبو بن کے لوٹیں گے پر لکھے گئے مضمون کا اقتباس۔مطبوعہ ماہنامہ اوراق لاہور،شمارہ :فروری مارچ ۱۹۹۵ء۔عالمی اردو ادب دہلی۔شمارہ :۱۹۹۵ء دیوندر اسر نمبر)
ایک اور نکتہ جو میرے لیے تشویش کا باعث رہا وہ یہ تھا کہ مابعد جدید تصورات کے مطابق مصنف اور تخلیق دونوں کی بے وقعتی کے نتیجہ میں ان مذہبی آسمانی کتابوں کی بھی تکذیب ہوتی تھی جن کوان کے ماننے والے مقدس درجہ دیتے ہیں،نہ صرف الہامی کتابوں کے متن کی نفی یا بے وقعتی ہوتی تھی بلکہ ان کے( مصنف)نازل کرنے والے خدا کی بھی نفی ہوتی تھی۔مابعد جدیدیت کے اس بنیادی نکتہ کو سمجھ لینے کے بعد میرے لیے اس ڈسپلن کی وہی حیثیت ہو گئی جو بہت پہلے ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب بیان کر چکے تھے۔
اس سب کچھ کے باوجود یہ سارے مباحث ایک علمی و ادبی دائرے میں چل رہے تھے۔
جب دہریوں سے مکالمہ ہو سکتا ہے تو مابعد جدید دانشوروں سے بھی مکالمہ کیا جا سکتا ہے۔یہاں تک سارا اختلاف اور اتفاق علم و ادب کی سطح تک تھا۔
لیکن جب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی ’’تصنیف‘‘’’ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ کے سرقے سامنے آئے تو بات مابعد جدیدیت کے مسئلہ سے ہٹ کر سرقہ یا اوریجنل کے نکتہ پر آگئی۔اس سلسلہ میں جدید ادب کے شمارہ نمبر ۹(جولائی تا دسمبر۲۰۰۷ء)میں عمران شاہد بھنڈر کا مضمون شائع کرتے ہوئے میں نے یہ نوٹ درج کیا:
’’عمران شاہد بھنڈر برمنگھم یونیورسٹی سے Postmodern Literary Theoryکے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔اس مضمون کا جواب گوپی چند نارنگ صاحب کو خود دینا چاہیے۔ان کے جواب کا انتظار رہے گا۔یہ مضمون ماہنامہ نیرنگِ خیال کے سالنامہ ۲۰۰۶ء میں چھپ چکا ہے تاہم اب عمران شاہد نے اس میں مزید اضافے کیے ہیں اور یہ مضمون پہلے سے دوگنا ہو گیا ہے۔سو یہ اپ ڈیٹیڈ مضمون جدید ادب میں شائع کیا جا رہا ۔ح۔ق‘‘
جدید ادب کے شمارہ نمبر ۹،۱۰اور ۱۱میں سرقوں کی نشاندہی کرنے والے تین مضامین شائع کیے گئے لیکن ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب نے ان کاکوئی جواب نہیں دیا۔شمارہ نمبر ۱۲جب چھپ رہا تھا تو اس میں نارنگ صاحب کے سرقوں کی نشان دہی کرنے والا کوئی مضمون شامل نہیں تھا۔لیکن انہوں نے اچانک شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے میرے پبلشر کرم فرما پر دباؤ ڈال دیا اور تقاضا کیا کہ خطوط کے صفحات پر جو تھوڑا بہت ان کے سرقوں پر رائے دی گئی ہے اسے بھی حذف کیا جائے۔(اس قصہ کی روداد کے لیے اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۱۷پر درج میرا مضمون’’جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲کی کہانی‘‘ ملا حظہ فرمائیے۔)
گوپی چند نارنگ صاحب شمارہ نمبر۱۲کے خطوط پر غیر ضروری ردِ عمل ظاہر کرکے سنسر شپ عائد نہ کرتے تو جدید ادب میں ایسا کوئی مضمون ویسے بھی شائع نہیں ہونا تھا۔تاہم ان کی سنسر شپ کے بعد مجھے اس کی روداد لکھنا پڑی۔اس روداد کے بعد میں نے صبر کر لیا تھا۔لیکن ڈاکٹر نارنگ صاحب اپنی سنسر شپ کی روداد چھپنے پر بھی سخت ناراض ہوئے۔اس کے جواب میں انہوں نے لندن کے ایک فارسی چور نقاد سے میرے خلاف ایک نہایت غلیظ اور ذلیل قسم کا مخالفانہ مضمون لکھوایا۔اس مضمون کی ویسے اشاعت پر بھی ہم لوگوں نے کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا کیونکہ نہ اس مضمون کی کوئی وقعت تھی اور نہ ان فورمز کی جہاں سے اسے شائع کیا گیا تھا۔
تاہم جب اس انتہائی بے ہودہ مضمون کو نصرت ظہیر صاحب کے ادبی رسالہ ادب ساز میں شائع کیا گیا تو پھر میرے دوستوں نے پوری طرح میرا ساتھ دیا۔ارشد خالد نے عکاس کا گوپی چند نارنگ نمبر نہ صرف شائع کیا بلکہ بہت مختصر عرصہ میں ایک معیاری نمبر شائع کر دکھایا۔یہ نارنگ صاحب کی اس حرکت کا مدلل اور علمی جواب تھاجو انہوں نے مذکورہ بے ہودہ مضمون کو ادب ساز میں شائع کرانے کی صورت میں کی تھی۔یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ نصرت ظہیر صاحب ایک طرف یہ سمجھتے ہیں کہ جب وہ ادبی سطح سے انتہائی گرا ہوا مضمون انہیں بھیجا گیا تو نارنگ صاحب نے انہیں اس کی اشاعت کے لیے نہیں کہا تاہم وہ یہ بھی باور کرتے ہیں کہ نارنگ صاحب کو اس سب کا علم رہا ہوگا۔جیسا کہ ان کے اپنے الفاظ ہیں:
’’آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ اس مضمون کے پیچھے نارنگ صاحب کا ہاتھ ہے۔میں نے کہا میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔میں نے شاید یہ بھی کہا کہ میں جانتا ہوں۔‘‘
یہاں مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ اگر نارنگ صاحب نے یہ مضمون لکھوایا اور ادب ساز میں چھپوایاتو انہوں نے خود عکاس کے نارنگ نمبر کی اشاعت کا بندوبست فرمالیا۔اگر نارنگ صاحب کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے تو پھر عکاس کے نارنگ نمبرکا ثواب نصرت ظہیر صاحب کو ملنا چاہیے۔
عکاس کے نارنگ نمبر کی اشاعت کے بعد پوری دنیا میں اس کی پذیرائی ہوئی۔مفادات کے اسیر گنتی کے چند لوگوں نے نارنگ صاحب کا دفاع کرنا چاہا لیکن کوئی ایک شخص بھی سرقوں کے ڈھیر سارے اقتباسات کے ٹھوس ثبوتوں کا کوئی علمی اور مدلل جواب پیش نہ کر سکا۔
اس کتاب کی اشاعت کا کریڈٹ بھی ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب ہی کو دیا جانا چاہیے۔
عکاس کے نارنگ نمبر کا کوئی علمی جواب جب بھی آئے گا اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔لیکن اس کے بعد نارنگ صاحب نے سرقوں کا انکشاف کرنے والے دوست عمران شاہد بھنڈر کے مقابلہ میں ارشد خالد مدیر عکاس کو اور ان کے مقابلہ میں مجھے زیادہ زد پر رکھ لیا۔ان کے کارندوں نے کسی دلیل کی بجائے گالی اور الزام تراشی کی زبان میں مہم شروع کر دی۔کبھی کوئی بے ہودہ الزام لگایا جا رہا ہے،کبھی کوئی حیلہ سازی کی جا رہی ہے۔اس ساری مہم جوئی کے نتیجہ میں مجھے ہر بارمبینہ الزام کے سلسلہ میں نہ صرف اپنی صفائی دینا پڑی بلکہ حقیقت کو اس طور آشکار کرنا پڑا کہ نارنگ صاحب کی ادبی سیاست کا طریقۂ واردات کھل کر سامنے آتا چلا گیا۔یوں اس کتاب میں شامل بنیادی مضامین لکھوانے کا سہرا بھی ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے سر بندھتا ہے۔میرے مضامین دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے جواب کے طور پر لکھے گئے ہیں۔گویا یہ مجادلہ میں نے نہیں کیا،مجھ پر مسلط کیا گیا۔اور جب یہ مجادلہ مجھ پر مسلط کیا گیا تو میں نے اس معرکے میں ہر بات پوری دلیل، ٹھوس ثبوت،پورے شواہداور علمی و ادبی سلیقے کے ساتھ کی۔الزامات کے جواب دینے کے ساتھ میں نے ہر بار بحث کونارنگ صاحب کے سرقوں کے موضوع پر فوکس کیا۔کیونکہ ان کے تمام حامی نارنگ صاحب کے سرقوں کے موضوع سے فرار کے لیے ہی حیلہ جوئیاں کر رہے تھے۔
اس سب کے باوجود نارنگ صاحب نے اگست کے مہینہ میں رمضان شریف کے دنوں میں پھر ایک ایسا ذلیل مضمون لکھوا کر شائع کرایا کہ اس کے جواب میں پھر یہ ساری بحث کتابی صورت میں چھپوانا ناگزیر ہو گئی۔ہر چند اس بار نارنگ صاحب نے ابھی ادب ساز جیسے کسی جریدہ میں یہ مضمون نہیں چھپوایا تاہم ان کی ادبی سیاست کے طریقۂ واردات کو سمجھ لینے کے بعدان کی اس حرکت کا اب فوری نوٹس لینا ناگزیر ہو گیا تھا۔ہم کبھی بھی کسی ذلیل ترین شخص کی سطح تک نہیں اتریں گے لیکن جب بھی نارنگ صاحب نے ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کیں ،اس کا جواب براہِ راست نارنگ صاحب کو دیا جائے گا۔عکاس کا نارنگ نمبربھی ایسا ہی جواب تھا اور اب میری یہ کتاب بھی ویسا ہی جواب ہے۔میں نارنگ صاحب سے وعدہ کرتا ہوں کہ وہ میرے خلاف یا اس کارِ خیر میں میرے ساتھیوں میں سے کسی کے خلاف، جب بھی کسی ارذل شخص سے غلاظت اچھالنے کی خدمت لیں گے انہیں بالکل اسی طرح خراجِ تحسین پیش کیا جائے گا جیسا عکاس کے نارنگ نمبر کی صورت میں کیا جا چکا ہے اور جیسا اب میری اس کتاب کی صورت میں کیا جارہا ہے۔ہمارے موقف اور ہمارے دلائل میں سچائی کی کتنی طاقت ہے،یہ بات نارنگ صاحب سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔
نارنگ صاحب کی ’’تصنیف‘‘ ’’ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘اردو ادب کی تاریخ کا سب سے بڑا سرقہ ہے۔یہ کسی شعر کے توارد ،کسی غزل یانظم کے مضامین مل جانے کی بات نہیں۔کسی اکا دکا نثری اقتباس سے فیضیاب ہونے والوں جیسی صورت بھی نہیں۔یہ بڑے سوچے سمجھے انداز میں اور بڑی کاری گری کے ساتھ کیا گیا بہت بڑا علمی و ادبی ڈاکہ ہے۔جو اردو دنیا کے لیے دہری ذلت کا موجب ہے۔ایک اس لیے کہ نارنگ صاحب نے اپنی علمی دھاک بٹھانے کے لیے یہ سارا سرقہ اردو زبان میں پیش کیا۔دوسری ذلت اس لیے کہ انہیں اردو والوں کی جہالت اور مفاد پرستی کے باعث پورا اطمینان تھا کہ ان کے سرقے کبھی بھی پکڑے نہیں جا سکیں گے۔یہ دو ذلتیں تو نارنگ صاحب کی طرف سے عطا کی گئی تھیں لیکن تیسری ذلت خودمفادات کے اسیر وہ اردو والے اردو کے ماتھے پر لگا رہے ہیں جو سرقوں کے سارے اقتباسات کو آمنے سامنے رکھ کر پرکھنے اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچنے کی بجائے اندھا دھند نارنگ صاحب کی حمایت کرکے اپنی جہالت کا اقرار کیے جا رہے ہیں ۔
نارنگ صاحب کے سرقوں سے توجہ ہٹانے والے مجادلہ والے مضامین کے علاوہ میں نے مابعد جدیدیت کے سلسلہ میں اپنی چند پرانی تحریریں اور ایک مکالمہ کو بھی اس کتاب میں شامل کر لیا ہے۔اور آخر میں عمران شاہد بھنڈر کے چار مضامین میں شامل ان اقتباسات کو یکجا کر دیا ہے جن کے متوازی اصل کتابوں کے اقتباس درج ہیں۔اس طرح غیر جانبدار قارئین کو حقیقت تک رسائی میں آسانی ہو جائے گی اور وہ اصل کتابوں کے ذریعے سچ اور جھوٹ کو پرکھ سکیں گے۔
اردو دنیا کی اس معرکہ آرائی کی خبریں ہندی اور انگریزی پریس تک بھی پہنچی ہیں۔اس سلسلہ میں چودھری محمد نعیم صاحب کے انگریزی کے دو مضامین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔میں ان کے دونوں مضامین اور ان پر آنے والے ردِ عمل کا ایک مختصر سا انتخاب بھی اس کتاب میں شامل کر رہا ہوں۔
مجھے معلوم ہے کہ اس معرکہ میں ابھی میں اور میرے دوچار دوست بہت اکیلے ہیں۔تاہم مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ہم نے جو حق اور سچ کی جنگ لڑی ہے اس میں بے سروسامانی کے باوجود ہمارا موقف سو فیصد درست ہے۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی زندگی بھر کی پبلک ریلشننگ دھری کی دھری رہ جائے گی اور ہمارایہ موقف اردو ادب کی تاریخ میں نہ صرف محفوظ رہے گا بلکہ اسی کی بنیاد پر نارنگ صاحب کے علمی قدوقامت کا تعین ہو گا۔
آخر میں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ان تمام دوستوں کا جنہوں نے کسی نہ کسی طور میرے ساتھ تعاون کرکے میری حوصلہ افزائی کی،میری ہمت بندھائی۔جنہوں نے ممکنہ حد تک میرا ساتھ دیا۔خاص طور پرپاکستان سے ڈاکٹر ظہور احمد اعوان،احمد ہمیش،نعیم الرحمن،کاوش عباسی اوراحمد حسین مجاہد کا، انڈیا سے شمیم حنفی،جگدیش پرکاش، منیشا سیٹھی،علی جاوید،وسیم راشد،تنہا تما پوری اور مطیع الرحمن عزیز کا،امریکہ سے چودھری محمد نعیم اور محمد عمر میمن کا،کینیڈا سے عبداللہ جاویداور رشید ندیم کا،ہالینڈ سے احسان سہگل اور ناصر نظامی کا،فرانس سے مبشر سعید کا،اٹلی سے جیم فے غوری کا،جرمنی سے خالد ملک ساحل اور راجہ محمد یوسف کااور انگلینڈ سے ساقی فاروقی ،جمیل الرحمن ،حمیدہ معین رضوی ،شبانہ یوسف ،نصیرحبیب اور اقبال نوید کی ہمت افزائی کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ خدا سب کو خوش رکھے ۔
حیدر قریشی(جرمنی سے) ۹ ستمبر ۲۰۰۹ء