سہیل اختر(بھوبھنیشور)
ابھی امید زندہ ہے
ابھی امید کی آنکھوں میں
اک شئے جھلملاتی ہے
ابھی سانسوں کے سینے میں بھی
کوئی شئے دھڑکتی ہے
ابھی تک خواہشوں کے تن میں
تھوڑی جان باقی ہے
اگر چہ زندگی ناکامیوں کے
گھر میں رہتی ہے
ہمیشہ دردد سہتی ہے
مگر خاموش رہتی ہے
کبھی بھی تبصرہ بے کیف دن پر
یہ نہیں کرتی
کبھی شکوہ کوئیبے نور شاموں کا نہیں کرتی
مقدر کی طرح تاریک راتیں
اس کے حصے میں
مگر تنہائیوں سےذکر تک ان کا نہیں کرتی
اسے رشتوں کی
عیاری سے بھی شکوہ نہیں کوئی
اسے وعدوں کی
مکاری سے بھی شکوہ نہیں کوئی
نہ کچھ اقرار کی بھی
بے وفائی کا گلہ اس کو
خموشی سے سداحالات کا ہر جبر سہتی ہے
بچاری زندگی
لیکن ہمیشہ صبر کرتی ہے
محبت کی اسے
ہر اک ادا پر پیار آتا ہے
وہ ہر احساس کا
نازک سے نازک لمس بھی
محسوس کرتی ہے
وہ مجبوری کی تو
گونگی زباں تک بھی سمجھتی ہے
تڑپ جاتی ہے جب
امید کی آنکھوں میں
آنسو کوئی آتا ہے
اگر چہ ہو چکی ہے
دیر جیسی دیر اب
لیکن․․․․․
اسے کامل یقیں ہے خواہ کچھ بھی ہو
امیدوں کا سویرا ایک دن ہوگا
خوشی کے سب پرندے لوٹ آ ئیں گے
وہ ان کے ساتھ مل کر چہچہائے گی
محبت گیت کائے گی