وہ جانتا تھا کہ اس وقت بلال کو اس کی ضرورت ہے تو وہ نور کے سونے کا انتظارا کرتا رہا جب وہ سو گئی تو شاہ بلال کے روم کی طرف ایا لیکن وہ روم میں نہیں تھا اب شاہ پریشان ہوا اگر اس وقت وہ گھر سے باہر چلا گیا تو وہ غصہ میں گاڑھی تیز چلاتا ہے ایسی بہت سی سوچے شاہ کو پریشان کر رہی تھی
وہ چلتا ہوا حریم کے روم میں ایا لیکن کمشش میں تھا اندر جائے یا نہیں لیکن پھر اندر ایا حریم شاہ کو دیکھا کر پریشان ہوئی جبکہ شاہ بلال کو دیکھ کر پر سکون ہوا شاہ کیا کچھ ہوا ہے حریم نے پوچھا جبکہ شاہ مسکرایا نہیں چھوٹی ماں کچھ نہیں ہوا اور آپ میری جگہ اس کو کیسے دے سکتی ہے شاہ نے بلال کی طرف اشارہ کیا جو کہ حریم کی گود میں سر رکھے سویا ہوا تھا
بچین سے ہی حریم کی گود میں صرف شاہ ہی سر رکھتا تھا اگر غلطی سے بلال یہ حرکت کرتا تو شاہ پورے گھر کو سر پر اٹھا لے تھا کیونکہ شاہ اپنی چھوٹی ماں سے بہت محبت کرتا تھا شاہ جھوٹ نہیں کیا ہوا ہے حریم نے لہجہ میں پریشانی لیے پوچھا شاہ اس کو پریشان دیکھ کر بولا کیا ہوا ہے چھوٹی ماں تو حریم نے ساری بات بتائی ( جو ابھی بلال اور احمد میں ہوئی تھی ) جبکہ کہ شاہ حریم کی بات پر شاکڈ تھا وہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ بلال نے بےتمیزی کی
وہ بھی چھوٹے پاپا سے حریم نے اپنی بات ختم کی اور شاہ کو سوالیاں نظریں سے دیکھا جیسے پوچھنا چاھ رہی ہو کہا ہوا کیا ہے جو بلال ایسے ری ایکٹ کر گیا وہ چھوٹی ماں بلال اور نور کا جھگڑا ہو ہے وہ یہ اس کی بات کو دل پر لے گیا ہے شاہ نے جلدی سے بات بنائی جبکہ حریم کچھ پر سکون ہوئی اچھا چھوٹی ماں آپ بھی سو جائے میں بلال سے صبح بات کر لو گا اور پریشان نہیں ہوے گیا سب ٹھیک ہو جائے گا شاہ نے حریم کا ماتھا چومتے ہوے کہا
حریم نے جاتے ہوے شاہ کو آواز دی تو وہ رکا احمد نیچے ہو گئے ان کو دیکھا لو اور ان سے کہنا کہ روم میں ائے حریم نے کہا جی شاہ نے کہا اور روم سے باہر آیا حریم کو تو وہ مطمئین کر گیا لیکن چھوٹے پاپا شاہ نے سوچا لیکن پھر بسم اللہ کرتے نیچے ایا جو بھی تھا احمد کا سامنا کرنا تھا
چھوٹے پاپا یار آپ یہاں کیا کر رہے ہے شاہ نے انجان بنتے ھوے پوچھا جبکہ اس کی بات پر احمد نے شاہ کو صرف گھورا یعنی وہ ساری بات بتائے کہ ہوا کیا ہے احمد کے گھورنے پر شاہ گھبرایا پھر وہی بات اس کو بتائی جو حریم کو بتائی تھی تمہارا باپ ہو میں یہ تم میں جو کہا ہے یہ آدھی بات ہے بکی آدھی احمد نے سرد لہجہ میں کہا
جبکہ شاہ اس کی بات پر حیران نہیں ہوا وہ جانتا تھا جب تک وہ ساری بات جان نہیں لیتے ایسے ہی سوال کرے گئے چھوٹے پاپا میں بلال کی طرف سے معافی مانگتا ہوں شاہ نے کہا شاہ نور ٹھیک ہے احمد نے اس کی بات کو نظراندرذ کرتے ہوے کہا جی وہ ٹھیک ہے شاہ نے کہا اور شکر کیا کہ احمد نے بات زیادہ نہیں بڑھی احمد نے گہرا سانس لیا چھوٹے پاپا وہ بس غصہ میں تھا آپ جانتے ہے وہ ایسا نہیں ہے صبح وہ معافی مانگے گا شاہ نے بلال
کی بات کرتے ہوے کہا جبکہ احمد خاموش رہا چھوٹے پاپا چھوٹی ماں آپ کو یاد کر رہی ہے روم میں شاہ نے شرارت سے کہا ٹھیک ہے تم جاو احمد نے تھک ہوے اندز میں کہا
____________
شاہ روم میں ایا بے شک آج کا دن اور یہ رات بہت باری تھی ایک نظر نور کو دیکھا جو سوتے ہوے بہت معصوم دیکھ رہی تھی یہ اچھا ہے دونوں بہن بھائ میری نیند حرام کر کے خود سو رہے ہے شاہ بڑابڑیا اللہ پوچھا تمہیں بلال جو حرکت تم نے کی ہے آج میں نے چھوٹے پاپا اور چھوٹی ماں سے جھوٹ بولا وہ بھی تمہاری وجہ سے
شاہ بلال کوستا ہوا سوگئے
احمد روم میں ایا تو حریم اس کا انتظارا کر رہی تھی بہت دیر ان کے درمیان خاموشی رہی دونوں اپنی اپنی جگہ شرمندہ تھے
حریم احمد دونوں ایک ساتھ بولے بولو حریم کیا کہنا چاہتی ہو احمد بولا احمد میں بلال کی طرف سے معافی مانگنا چاہتی ہو میں جانتی ہوں کہ بلال کی باتوں سے تم ہڑٹ ہوے ہو پلیز پریشان نہیں ہو سب ٹھیک ہو جائے گا حریم نے کہا
اور صوفہ پر بیٹھ گئی حریم مجھے کچھ کہنا ہے اب احمد بولا تو جواب میں حریم نے بس اہم کہا اور روم میں پھر سے خاموشی ہوگئی احمد مناسب الفاظ تلاش کر رہا تھا
حریم تمہیں کیا لگتا ہے کہ جو کچھ ماضی میں ہوا اس کا قیصوار میں نے تمہیں ٹھریا ہے میں نے تمہیں کوئی سزا دی نہیں حریم میں نے خود کو سزا دی ان بیس سالوں میں نے تمہیں دیکھا نہیں تم سے بات نہیں کی یہ سزا میں نے اپنے لیے تجیوی کی تمہیں یاد ہو گا شادی کی رات میں نے وعدہ کیا تھا تمہاری حفاظت کرو گا
لیکن میں وہ وعدہ پورا نہیں کر سکا تمہاری کیا میں اپنی ڈول کی حفاظت نہیں کر سکا وہ ایا اور میری ڈول کو لیے گیا میں کچھ نہیں کر سکا حریم لیکن ان سب میں میں تمہارے ساتھ بہت غلط کر گیا مجھے معاف کردو احمد نے بے بسی سے کہا شائد بلال کی باتوں نے اس کو آئینہ دیکھا دیا تھا بیس سال بیس سال حریم کی سسکیوں میں ایک آواز ائی احمد اگئے ایا لیکن اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا جیسکا مطلب تھا کہ وہ۔وہی رہے حریم نے پھر سے بولنا شروع کیا
بیس سال گزرا گئے احمد کیا وہ میری بیٹی نہیں تھی احمد وہ تو میرے جسم کا حصہ تھی میں یہ نہیں کہتی کہ میرا دکھ بڑا تھا اور تمہارا چھوٹا یہ ہمہارے دکھ تھا لیکن افسوس کہ تم اکیلے ماتم کرتے رہے اور میں اکیلی تم نے ایک بارا میں جھوٹی تسلی نہیں دی میں نے کوشش کی ہر بار تمہیں تسلی دے دو لیکن تمہاری ضد نے میری
ہر کوشش ناکام کی سوچوں احمد ایک لاوارث لڑکی کو تم نے اپنا نام دیا وہ اٹھ سال بعد پھر سے لاوارث کر دیا کیسا محسوس ہوتا ہو گا مجھے اور پھر اس لڑکی کی زندگی میں اس کی وہ بیٹی واپس ائی جو اس سے نفرت کرتی ہے اور شائد ساری زندگی کرتی رہے گئی پتا ہے احمد اب نور کو دیکھ کر میں سوچتی ہو کہ کاش میں تم سے شادی کرنے سے بہتر مر جاتی
حریم نے روتے ہوے کہا جبکہ احمد اس کی بات پر اور شرمندہ ہوا سوری حریم سوری میرے پاس الفاظ نہیں ہے کہ ایک موقع نہیں دو گئی احمد نے ایک امیدی سے پوچھا اس کو شرمندہ دیکھ کر
ابھی کچھ آگ باقی تھی
تیرے ملنے بچھڑنے کی
میرا تن من بکھڑنے کی
میری سانسیں اکھڑنے کی
احمد میں نے اپنی زندگی کے اٹھ بہتریں سال تمہارے ساتھ گزراے ہے اور ان بیس سالوں کی وہ بے رخی مجھے تھوڑ نہیں پائی میں ان بیس سالوں سے اس دن کی منتظر کی کہ کب تم میرے پاس او گئے اور کبھی میں تم سے کہوں گئی میں نے تمہیں معاف کیا احمد معاف کیا کیونکہ مجھے تم سے محبت ہو گئی احمد اور محبت میں محبوب کو معاف کر دیا جاتا ہے
مجھے میری محبت نے کمزور کر دیا احمد حریم چلتی ہوئی احمد کے پاس ائی اور اس کے سینے پر مکار مارنے لگی میں نے معاف کیا احمد میں نے معاف کیا حریم نے کہا جبکہ احمد کو شاک لگا حریم اور محبت کہی میں کچھ غلط تو نہیں سن رہا
لیکن پھر مسکرایا حریم مجھے درد ہو رہا ہے احمد نے اس کے مکار مارنے پر چوٹ دی جبکہ حریم نے ہاتھ روک کر احمد کی طرف دیکھا اور پیچھے ہوئی اور واپس صوفہ کی طرف ائی جبکہ احمد نے اس کے بیٹھنے سے پہلے اپنی طرف کیھچا تو وہ اس کے سینے سے الگئی
بہت دیر وہ دونوں روتے رہے پھر احمد نے اس کو خود سے الگ کیا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا
ڈیڈ ماما بلال جو کب سے جھگا ہوا تھے بولا وہ دونوں روم میں بلال کے سو ہوے واجود کو فراموئش کیا ہوے تھے
مجھے معاف کر دے ڈیڈ بس آپ کو احساس دی لانا چاھتا تھے اس لیے وہ سب بکوس کر گیا کیونکہ میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں میں آپ کو اور ماما کو اور روتے ہوے نہیں دیکھا سکتا بلال نے شرمندہ ہوتے ہوے کہا جبکہ احمد کچھ وقت اس کو دیکھتا رہا پھر اگے بڑھ کر بلال کو گلے سے لگیا
شکریہ ڈیڈ کی جان مجھے فجر ہے تم پر احمد نے کہا کیونکہ آج سب بلال کی وجہ سے سب ٹھیک ہو تھا جبکہ بلال مسکرا پھر حریم نے بلال کو اپنے ساتھ لگیا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا
کچھ دیر سب کی آنکھیں نم رہی پھر احمد بولا یار تمہیں شرم نہیں اتی میاں بیوی کی باتے سنتے ہوے جبکہ بلال مسکرایا نہیں میں نے اپنے ماما اور ڈیڈ کی باتے سنی ہے اس میں شرم کیسی
صیح جا رہو ہو بیٹا احمد نے اس کے سر پر چیپ لگتے ہوے کہا ڈیڈ آپ سین آون کرے میں چلتا ہوں بلال نے کہا اور وہاں سے فورا بھاگ جبکہ بلال کی بات پر حریم کا منہ کھول گیا اور احمد کا قہقہا لگا
احمد آپ ہسنے رہے ہے بلال بہت بے شرم ہوتا جا رہا ہے کوئی شرم باکی نہیں ہے اس لڑکے میں حریم نے غصہ سے کہا حریم تم غصہ میں آج بھی اتنی ہی پیاری لگتی ہو تو پھر سین آون کرے احمد نے شرارت سے کہا احمد اس عمر میں بھی شرم نہیں انی آپ کو حریم نے کہا اور بیڈ پر لیٹ گئی
اور احمد بھی مسکراتا ہوا یبڈ پر لیٹ گا آج ان دونوں کو سکون کی نیند انی تھی کیونکہ دونوں نے ایک ایسا سفر کیا تھا جو کہ صبر کے بغیر ممکن نہیں تھا
___________
نور کی آنکھ کھولی تو شاہ شسشہ کے سامنے تیار ہو رہا تھا گھڑی دیکھی تو صبح کے ۹ بجے رہے تھے اتنی دیر تک میں کیسے سوتی رہی نماز بھی نہیں پڑھی آج میں نے نور نے خود سے کہا پھر بیڈ سے اٹھی تو تو اچانک سر میں درد اٹھا اور چکر کھاتی زمیں پر گرئی شاہ تو اس کے گرنے پر اس کی طرف متوجہ ہوا نور شاہ نے کہا اور بھاگ کر نور کے پاس ایا
نور کیا ہوا شاہ نے اس کو بیڈ پر بیٹھتے ہوے پوچھا پتا نہیں بس سر چکرا رہا ہے نور نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا اوکے ری ریلکس نور ڈاکٹر نے کہا تھا کچھ ماہ کی بات ہے سر درد ٹھیک ہو جائے گا وارث نے کہا وارث مجھے واش روم جانا ہے نور نے کہا اوکے شاہ اس کو سہارا دیتے ہوے واش روم تک لایا میں باہر ہو آپ جاو وارث نے کہا لیکن نور اندر نہیں گئی وارث مجھے نہیں ہو رہا سر بری ترہا چکرا ہے نور نے رونہسی کہا
ٹھیک ہے میں باہر کیسی کو دیکھتا ہوں تو آپ کی مدر کر دے وارث نے کہا اور روم کے باہر چلا گیا کچھ دیر بعد واپس ایا تو ساتھ حریم تھی جبکہ نور حریم کو دیکھا کر شاکڈ تھی اس۔ نے ایک بار وارث کو دیکھا اور وارث نے آنکھیں ہی آنکھیں میں کچھ اشارہ کیا جیسکا مطلب تھا کہ ری ریلکس کچھ نہیں ہو گا
حریم اس کی طعبیت کا سن کر پریشان ہوئی لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ نور اس سے نفرت کرتی وہ اس سے مدر نہیں لے گئی لیکن نور کو خاموش دیکھ کر وہ حیران ہوئی
___________
دو دن ہو گئے تھے لیکن بلال نور کے پاس نہیں آیا وہ اب بھی نور سے ناراض تھا اور نور نے بہت کوشش کی کے وہ بلال سے بات کرے لیکن وہ نور کو زیادہ تر اگنور کرتا نور کو اس کا رویہ برا لگا آج نور نے اس کے لیے بریانی بنائی لیکن بلال اب تک گھر نہیں آیا نور کو اس کا انتظارا کرتے ۱۲ بج گئے نور اب مایوس ہوئی وہ اب رونا ارہا تھا وہ بالکنی میں بیٹھی کچھ سوچنے میں مصروف تھی
تو شاہ اس کے پاس ایا نور سرد ہو رہی ہے اندر اجائے شاہ نے کہا وارث بھائ کیوں نہیں ائے اب تک نور نے پوچھا اس کو کوئی کام تھا شائد لیٹ ائے شاہ نے سراسری سا جواب دیا اور اندر اگیا کچھ وقت بعد بھی نور روم میں نہیں ائی تو شاہ دوبارا بالکنی میں گئے نور کیا سونا نہیں ہے آج وارث نے پوچھا وارث بھائ مجھے سے بہت ناراض ہے وہ مجھے سے بات بھی نہیں کرتے میں کیا کرو نور نے کہا اور آخری بات پر رونے لگئی
نور آپ فون کر لو اس کو بات کرو اس سے میرا نہیں خیال کہ وہ آپ سے زیادہ دیر تک ناراض رہا سکتا ہے وارث نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوے کہا اور اگر انہوں نے میرا فون نہیں اٹھیا تو نور نے پوچھا تو شاہ مسکرایا ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ آپ سے بہت محبت کرتا ہے نور نے گہرا سانس لیا اور بلال کو فون کیا بیل جا رہی تھی ہیلو بلال کی آواز ائی مصروف سی بھائ نور نے بس اتنا ہی کہا ڈول کیا ہوا ہے کیونکہ اس کی آواز سے پتا چل رہا تھا کہ وہ
رو رہی ہے بھائ آپ کب تک گھر او گئے نور نے ہمت کر کے پوچھا لیکن دوسری طرف اب خاموشی تھی نور میں کچھ مصروف ہو کام ختم ہوتے ہی اجاو گا بلال نے لہجہ میں اب نرمی نہیں تھی اور فون بند ہو گیا نور کو برا لگا لیکن پھر کچھ سوچ کر مسکرائ اور اندر روم میں گئی
______________
صبح نور نے نماز ادا کی اور پھر بالکنی میں ائی اس کی نظر نیچے گئی اس ہی وقت گھر میں بلال کی گاڑھی داخل ہوتی دیکھی دی اس کا مطلب تھا کہ وہ ساری رات گھر نہیں آیا
کچھ وقت بعد
نور اب بلال کے روم میں موجود تھی اور بلال روم میں نہیں تھا اور واش روم سے پانی گرانے کی آواز آرہی تھی بلال باہر آیا تو نور کو اپنے روم میں۔ دیکھا کر حیران ہوا لیکن پھر اگنور کرتا ہوا شسشہ کے پاس ایا بھائ مجھے آپ سے بات کرنی ہے نور نے کہا نور مجھے سونا ہے بعد میں بات کرتے ہے بلال نے کہا بھائ میں سوری کرنے ائی ہو مجھے وہ کچھ نہیں کہانا چاہی تھا نور نے اس کی بات کو نظراندرذ کرتے ہوے کہا اور رونے لگئی
بلال اس کے رونے سے اور بھی چرے گیا نور آگر آپ کا ایک بھی انسو اور نکالا تو مجھے سے برا کوئی نہیں بلال نے سختی سے کہا اس کی بات پر نور نے اپنا چہرہ مڑ لیا لیکن روم سے نہیں گئی کچھ وقت روم میں خاموش رہی بلال اس کو دیکھتا رہا اور نور منہ مڑے بے آواز روتی رہی
بلال نے گہرا سانس لیا اور چلتا ہوا اس کے پاس ایا نور کو اپنے ساتھ لگیا شششش چپ بھائ کی جان بلال نے کہا بھائ سوری نور اس کے پہلے کچھ اور کہتی بلال نے اس کی بات کاٹی میں آپ سے ناراض نہیں تھا بس غصہ تھا مجھے آپ پر آپ کیسے کہا سکتی ہو کہ آپ کو اس گھر میں نہیں رہنا آپ کو میرے ساتھ نہیں رہنا
بلال نے کہا بھائ بس مجھے نہیں پتا تھا کہ میں نے ایسا کیوں کہا لیکن اب میں شرمندہ ہو آپ دو دن سے مجھے سے بات نہیں کر رہے ہے میں بہت پریشان ہو نور نے کہا نور مجھے سے وعدہ کرو کہ آج کے بعد آپ مجھے آپنی ہر بات شئیر کرو گئی بلال نے کہا تو نور اس سے الگ ہوئی وعدہ بھائ نور نے مسکراتے ہوے کہا
اور بھائ میں اور وارث کل اسلام آباد جا رہے ہے نور نے اس کو بتایا جانتا ہوا شاہ نے بتایا تھا بھائ میں آپ کو بہت مس کرو گئی نور نے کہا میں بھی اپنے بچے کو بہت مس کرو گا بلال نے اس کے ہی اندز میں کہا
____________