شرافت عباس ناز کا پہلا شعری مجموعہ”ابھی غزل ہے فروزاں“غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔ اس مجموعہ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں دونوں شعری اصناف میں اظہار پر یکساں قدرت حاصل ہے۔غزل کے چند اشعار سے ان کی شعر گوئی کے تیورکو دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
دریا میں موج،موج میں دھارا ہی اور ہے اب کے تو نا خدا کا اشارہ ہی اور ہے
بہت دن ہو گئے شیخ و برہمن سے کشاکش میں مذاقاََ ہی سہی اس بار کچھ تعظیم کر دیکھوں
چڑھتا ہے جو دریا وہ اتر جاتا ہے سائیں اک روز تو دل خود سے بھی بھر جاتا ہے سائیں
سارا دن اس کو بھلانے کی تگ و دو میں کٹا شام کے سائے ڈھلے تو اس کی یاد آئی بہت
عجب نہیں کہ چلے ہم سراب کی جانب عجب تو یہ ہے کہ دریا دلی کے ساتھ چلے
شرافت عباس ناز کی نظموں کا انداز بھی ایسے ہی لب و لہجے اور شان کا حامل ہے۔ہمارے ہاں کوئٹہ کے شاعروں کے لیے عام طور پر پنجابی لہجہ میں”کوٹے کا شاعر“کا طنز کردیا جاتا ہے۔شرافت عباس ناز کی شاعری نے اس طنزکو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ان کی شاعری اردو کی شاعری ہے اور ان کی ذات کے بھرپور اظہار کے ساتھ بھرپور شاعری ہے۔میں اس مجموعہ کا کھلے بازؤں کے ساتھ خیر مقدم کرتا ہوں!
(جدید ادب جرمنی شمارہ نمبر ۱۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔