نگو سرگی ویلے مسجد کے کھلے صحن میں جھاڑو دیتی تھی۔ نمازیوں کی آمد سے پہلے ہی سٹک جاتی۔ نماز فجر کے بعد کمی کمینوں کے بچے ہی مسجد سے ملحق مدرسے کے صحن میں جمع ہوتے تھے۔ جو چنگا چوکھا کھاتے بلکہ کھاتے ہی چلے جاتے تھے، جن کی تھالیاں بھی کمی دھوتے تھے، ان نکمے گھروں میں مولوی صاحب بذات خود قران پڑھانے جاتے تھے۔ رسم قل ہو، گھر میں منعقد کیا گیا میلاد ہو، یا نئی فیکٹری کی افتتاحی تقریب، مولوی صاحب رقت آمیز دعاؤں کے لیے شہرت رکھتے تھے۔ معاوضے کے مطابق آنسو کم زیادہ کر لینے پر بھی قادر تھے۔ وہ زمانے گئے جب مولوی تنگ دست ہوا کرتے تھے، اب تو ہٹی خوب چلتی ہے اور کچھ سرکار کی مہربانیوں سے لگے بندھے وظیفے بھی مقرر ہیں۔ حسبِ ضرورت مولویوں کو لڑاکا مرغوں کی طرح میدان میں اتار دیا جاتا ہے، پھر دیکھ تماشا! قصبے کے مخیر الحاج میاں منظور حسین نے مسجد سے ملحق ایک مدرسہ بھی بنوا دیا تھا۔ جن گھروں میں روٹیوں کے بھی لالے پڑے ہوتے وہ اپنے بچے مدرسے چھوڑ جاتے کہ یہاں بظاہر روٹی فری ملتی ہے۔ مدرسے کے صحن میں مولوی غریب غربا کی کلاس لیتے۔ ان کوڑھ مغزوں کو پڑھانے کا تو فائدہ کوئی نہیں ہے لیکن صبر شکر تو سکھایا، پڑھایا جا سکتا ہے ناں!! لفظوں سے کھلواڑ کیا جاتا تھا، بنا سمجھے لفظوں کو رٹایا جاتا۔ بچے رحل سامنے رکھے لفظوں کے جھولے پر ایسے جھولتے جیسے ہپناٹائز ہو گئے ہوں، مٹی رنگ کے زمین زادے، جنہیں جیون کے پٹھو گرم کھیل میں ٹھیکریوں کا کردار نبھانا ہے۔
نگو کی ماں نے جمعہ کے خطبے میں مولوی صاحب سے علم کی برکتیں سن کر سوچا کہ نگو بھی قرآن پڑھ لے تو شاید برکت کی چھتر چھاؤں ہم غریبوں کے سروں پر بھی آئے۔ جانتی نہیں تھی کہ برکتوں کی بھی بولیاں لگتی ہیں، نگو جب تک رہی ایک لمبی ہوک کے ساتھ ’ہائے اوئے میریا ڈاہڈیا ربا‘ کی تسبیح کرتی رہی۔ جب مسجد کے ملحق مدرسہ بن گیا تو بچیوں کا داخلہ مسجد اور مدرسہ میں ممنوع قرار پایا۔ ٹوٹے، ادھڑے مکانوں کے بیچ، چمکتی ٹائلوں سے مزین مسجد تمکنت اور کچھ رعونت لیے الگ سی نظر آتی۔ لشکتی مسجد میں میلے ملگجے لوگ کچھ اوپرے سے لگتے ہیں، کھلے عام آنے جانے میں کچھ جھجک سی محسوس ہوتی، اس لیے اب نگو سرگی ویلے مسجد کے کھلے دالان میں جھاڑو دیتی، بچپن میں اسی صحن میں سیپارہ پڑھنے آیا کرتی تھی۔ سیپارہ پڑھنے کے بعد سیدھی میاں صاحب کے گھر چلی جاتی۔ گھر کے چھوٹے موٹے کام نبٹاتی، اپنی ہم عمر چھوٹی بی بی کے کمرے کی صفائی کرتی۔ میاں صاحب کی بیگم ہر وقت پلنگ پر براجمان ٹی وی پر ڈرامے دیکھتی رہتی تھی۔ جانے کیسے تھک جاتی کہ ذرا نگہت کو فارغ دیکھتی تو آواز دے کر بلا لیتی چل شاواش ذرا پنڈلیوں پر پولی پولی مکیاں مار دے میاں صاحب کا گھر، ملک صاحب کا گھر، چودھری صاحب، راجے، ٹوانے سب گھروں میں ان کی گھر والیاں ایسے سٹور کی ہوئی تھیں جیسے اناج بھری بوریاں ذخیروں میں محفوظ ہوتی ہیں۔ روپہلی سنہری تاروں سے کشیدہ، ریشم میں لپٹی ہوئیں۔ کبھی گھر سے باہر نکلیں بھی تو تو چادروں، عباؤں میں پیک گٹھڑیاں دکھتیں۔
نگو کی ماں تو لٹکے پستانوں کے ساتھ دوپٹے کا ایک پلو سر پر دوسرا کندھے کے پیچھے لٹکائے، گوبر کا ٹوکرا اٹھائے کیٹ واک کرتی، پائنچے پنڈلیوں سے اوپر اٹھائے پانی میں چاولوں کی پنیری لگاتی، کھیت کے کنارے بیٹھی دامن اٹھائے بچے کو دودھ پلاتی بھی نظر آتی تھی۔ اور پھر کانٹوں سے بے پرواہ ننگے پیری چلتی ہوئی ماں نے نگو کو سکول بھی بھیجنا شروع کر دیا۔ نگو سکول سے چھٹی کے بعد میاں صاحب کے گھر اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتی تھی۔ چھوٹی بی بی کے کمرے میں رنگین کتابیں ریک میں سجی تھی۔ چھوٹی بی بی تو کورس کی کتابوں کے علاوہ کسی کتاب کو ہاتھ نہ لگاتی۔ لیپ ٹاپ، سیل فون اور جانے کیا کچھ، انہی کے ساتھ مصروف رہتی تھی۔ نگو ریک سے ایک ایک کتاب احتیاط سے اٹھاتی، رنگین تصویریں آنکھوں میں خواب بھر دیتی تھیں۔ لفظوں کو چھوتی، لفظ انگلیوں کے پوروں کے ساتھ چمٹ کر رہ جاتے، شریر لڑکوں کے سے چلبلے لفظ، لفظ جیسے چیونگم چباتی، آنکھیں مٹکاتی، پڑ پڑ بولتیں، کھلکھلاتی ہوئیں شوخ لڑکیاں ہوں، آکاش میں تیز ہواؤں میں ڈولتی پتنگیں ہوں، جیسے چھلکنے کو بیتاب پانی سے بھرے بادل ہوں۔
پھر رنگوں میں ہولی کھیلتی نگو کو بھی ایک ٹین کے بکسے، دو چارپائیوں، دو کرسیوں، چار کھیسوں سمیت دوسرے گھر پہنچا دیا گیا۔ جولاہا کھٹاکھٹ کھڈی چلاتا رہا۔ مکڑی جالا بنتی رہی۔ خاوند ملکوں کے پاس راہک تھا۔ ان سے ڈنڈا ڈولی کروا کر آتا تو گھر آ کر نگو کی ڈنڈا ڈولی کر دیتا۔ نگو اس ڈنڈا ڈولی کو معمول کی بات سمجھتی تھی۔ اور اس میں غیر معمولی ہے بھی کیا!!۔ ہوش سنبھالتے ہی تشدد کو مہمیز کرتی گالیاں اور الٹی پرات پر ہاتھوں کی تھاپ کے ساتھ ایسے گنگناتے بول سنتی آئی ہے جو پیار اور مار کے ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔
اڈی ٹپا کھیلتے سال گزرتے گئے۔ ہاتھ میں لا حاصلی رہی تو مسجد میں جھاڑو پھیرنے کی منت مانگ لی۔ بچہ پیدا کرنا کوئی خاص واقعہ نہیں ہوتا۔ یہ کمی عورتیں تین چار لمبی سانسوں میں کھٹاک سے بچہ نکال باہر کرتی ہیں یا کبھی کوئی رکاوٹ پڑ جائے تو تین چار ایڑیاں رگڑ کر جان دے دیتی ہیں، برادری کو مرنے، پرنے پر ہی تو بے فکری کا کھانا میسر آتا ہے۔ ہر دوسرے گھر میں ماں، بیٹی، بہو پیٹ سے ہیں، گھر کے صحن میں بندھی بھوری گائے یا پھر ٹوٹے، جھولتے دروازے کے پٹ سے جھانکتی بکری سب گابھن ہیں۔ ایسے میں اگر نگہت کا پاؤں بھاری نہیں ہوتا، تو کون سا زمین نے گول گھومنا چھوڑ دینا تھا!! لیکن جھاڑو کمال کر گیا۔
مولوی صاحب عام طور پر نومولود کے گھر میں یا ہسپتال جا کر کان میں اذان دینے کا فریضہ ادا کرتے تھے۔ جو ہوم سروس افورڈ نہیں کر سکتے، وہ باپ بچوں کو گود میں لیے آپ ہی مسجد میں آ جاتے۔ مولوی صاحب نے نگو کے بیٹے کا اسلامی یعنی عربی نام محمد عبد اللہ تجویز کیا، ساتھ ہی انگلی اٹھا کر تاکید بھی کی: اوئے کم ذاتو! نام بگاڑنا نہیں۔
نگو کا چھوٹی بی بی کے گھر جانے کا معمول جاری تھا۔ اب چھوٹی بی بی چھوٹی نہ رہی لیکن کہلاتی چھوٹی بی بی ہی تھی۔ میاں صاحب نے نیک شریف داماد لے پالک رکھ لیا تھا، نا خلف نکلا، بلے کی طرح گھر گھر دودھ سڑکنے کی عادت تھی۔ لوگ چوہدری بلے کو دیکھ کر ہی راہ بدل لیتے، دروازہ بھیڑ دیتے تھے۔ لعن طعن کرتے، پچھتاتے، میاں صاحب اور بڑی بی بی بھی اگلی دنیا کو سدھارے۔ چوہدری بلے کو دیسی کپی لڑ گئی، ہارٹ اٹیک کا پردہ ڈال کر دفنایا گیا تو چھوٹی بی بی نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ اب تو نگو سارا دن چھوٹی بی بی کے پاس ہی رہتی۔ رات ہی کو گھر جاتی۔ چھوٹی بی بی نیند اور ڈیپریشن کی گولیاں پھانک کر دن رات منہ سر لپیٹے پڑی رہتی تھی۔ پشتی نوکر گھر میں تھے نہ فکر نہ فاقہ۔ نگو سہیلی بھی تھی اور خدمتگار بھی۔ سکول کالج کی دوستوں کے ساتھ چھوٹی بی بی کی نبھتی نہیں تھی، کون نگو کی طرح انگلیوں کے اشارے پر چلتا ہے!۔ محمد عبد اللہ تو دو ماؤں کا سانجھا تھا۔ چھوٹے پلے کی طرح کوں کوں کرتا دونوں ماؤں کے گھروں میں دوڑ لگاتا رہتا۔ نگو اب محض نگو نہیں رہی نگو جھلی ہو گئی تھی۔ ہاتھ کام کاج میں لگے رہتے اور زبان پر ہائے اوہ میریا ڈاہڈیا ربا کے ساتھ ایک اور ورد بھی جاری ہو گیا۔ ’’میں اپنے پت کو پڑھا لکھا وڈا افسر بناؤں گی‘‘۔ نگو کے چاؤ کو ہوا دینے کے لیے گاؤں میں ہائی سکول تھا۔ ساری برادری میں جب بچہ روٹی کھانے جوگا ہو جاتا اسے روٹی کمانے پر لگا دیتے تھے۔ گھروں میں، کارخانوں، کاریگروں، کے پاس، چائے کے ڈھابوں میں، ٹرک ہوٹلوں میں یہ بچے بھاگتے دوڑتے، مار کھاتے نظر آتے، نگو جھلی کا بیٹا بیگ اٹھائے سکول جاتا دکھائی دیتا۔ لیکن وڈی افسری تو ایک طرف رہی سکول جاتے ہی وہ عمر بھر کے لیے عبد اللہ مصلی ہو کر رہ گیا۔ عبد اللاؤں کے تو ہر جماعت میں ڈھیر لگے تھے، ماسٹروں نے شناخت اور اوقات نمایاں کرنے کے لیے عبد اللہ کے ساتھ مصلی لگا دیا۔ نگو جھلی نے تو ہاتھ سے جھاڑو لے کر قلم تھمایا تھا کہ: ’پتر! اپنے نصیب آپ لکھ!‘ اور ماسٹروں کو بونس میں ہنسنے واسطے ایک لطیفہ میسر آ گیا۔
عبد اللہ مصلی لکھنے پڑھنے میں طرار تھا۔ حرفوں کے جوڑ توڑ میں بھی ماہر ہو گیا۔ کمی ماں پیو کی اولاد تھا۔ اس لیے ماسٹروں کی خدمت میں بھی پیش پیش رہتا۔ سکول ماسٹر جب بور ہوتے تو آواز دے کر عبد اللہ کو بلا لیتے ۔‘‘اووو مصلی اوئے!۔۔‘‘ ماسٹر بولتا: ’’تیں کاہے کو جما رے؟‘‘ (بیک گراونڈ میں دبی دبی ہنسی کی کھی کھی)، عبد اللہ ابھی ’کیوں‘ کے روبرو سٹپٹا رہا ہوتا کہ ماسٹر اگر مگر کے ساتھ روشن امکانات پر روشن ڈالنے لگتا: ’’اوئے! تیں ماں اٹ (اینٹ) جم لیتی، تیں پیو دیوار میں لگا لیتا‘‘۔ ہاہاہا کی بے ہنگم آواز کے ساتھ ماسٹر کی توند اچھلتی نظر آتی۔ لطیفے بھی تو ستم گر ہیں جن باتوں پر رونا بنتا ہے، انہی باتوں پر ہنساتے ہیں۔ پھر پیو کم بخت بھی نہیں رہا، سانپ کاٹے پر پرلوک سدھارا۔ سال رسی ٹاپتے گزرتے گئے۔ اب عبد اللہ مصلی چھریرا پھرتیلا کالا ہرن لگتا تھا، دسویں کے امتحان کی تیاری بھی کرتا، موقعہ ملنے پر چھوٹا موٹا کام بھی پکڑ لیتا۔ دیواروں پر ڈسٹمپر کرنے کا ماہر تھا، شادی بیاہوں میں ویٹر بھی بن جاتا۔ چھوٹی بی بی کے گھر کا تو ہر کام جو چار دیواری سے باہر تھا، اسی کے ذمہ تھا۔ چوکڑیاں بھرتا، گھنٹوں کا کام منٹوں میں نبٹاتا۔ دسویں پاس کرنے سے پہلے ہی ماں نے عبد اللہ مصلی کا بیاہ رچا دیا۔ مورنی سی لڑکی بیاہ لائی، عبد اللہ مور کی طرح پنکھ پھیلائے اس کے ارد گرد پائل ڈالتا رہتا کہ مورنی کو بھی چار دن ہی عطا ہوئے تھے، پورے ہوئے۔ دائی نے کوشش تو بہت کی لیکن خون نہیں رکا۔ نچڑی گئی، شوہدی میں خون تھا ہی کتنا! پائلیں بھول کر مور اپنے پاؤں ہی دیکھتا رہ گیا۔ ابھی بے بسی ششدر ہی کھڑی تھی کہ الھڑ، بے نیاز قدرت نے پھر سٹیرنگ گھما دیا۔ بد حواس ہوئی نگو جھلی نے سڑک پار کرتے ہوئے ٹریکٹر کو ٹکر دے ماری، جان سے گئی، شکر ہے کہ ٹریکٹر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ورنہ ٹوانے ڈرائیور کی جان نکال لیتے۔
کھلنڈرا عبد اللہ ماں کے جاتے ہی بڈھا ہو گیا۔ جھکے کندھوں کے ساتھ اپنے آپ کے ساتھ باتیں کرتا رہتا۔ جب رونے کو جی چاہتا تو آتے جاتوں کو روک کر لطیفے سنانے لگتا۔ اپنے لطیفوں پر آپ ہی ہنستے ہوئے آنکھوں میں آنسو آ جاتے، ہنسی رک جاتی پر آنسو نہ تھمتے۔
لفظ عبد اللہ مصلی کے سر پر مچھروں کی طرح گھوں گھوں کرتے رہتے، پکڑائی نہیں دیتے تھے۔ اب وہ امتحان شمتحان بھول کر ایک نئی کٹھالی میں پڑ گیا۔ کاکی سنبھالتا، رنگ روغن کرتا، کئی بار امتحان دیا لیکن کامیاب نہ ہوا۔ چھوٹی بی بی کے پاس بیٹھا عبد اللہ مصلی اپنے دکھڑے قہقہوں میں پرو رہا تھا: ماسٹر صاحب راستے میں مل گئے تو میں نے انھیں کہا کہ ماسٹر جی! میں تو نہ پڑھ سکا لیکن اپنی کاکی کو یونیورسٹی میں پڑھاؤں گا۔ بی بی! ماسٹر جی کا تو ہاسا ہی نکل گیا۔ کہنے لگے:
’’اوئے تو واقعی نگو جھلی دا پتر ہے، وہ بھی کہتی تھی میرا پت وڈا افسر بنے گا، ذات دی کوڑھ کر لی تے شہتیراںنوں جپھے‘‘۔ اور پھر مجھے تھپکا دے کر یہ کہتے ہوئے ایک طرف کر دیا ’’پچھے ہٹ اوئے نماز سے دیر کروا دی‘‘ اور مسجد کی طرف لپک گئے۔
کوڑھ کر لی سہی پر کاکی کو سکول ضرور بھیجوں گا۔ کاکی جس کے نصیب میں نام بھی نہیں تھا ہر کوئی کاکی کاکی ہی کی صدا لگاتا تھا، اپنے ننھے منے ہاتھوں سے فرش پر پوچا لگا رہی تھی۔ حیران، پریشان، سوال اٹھاتی، کاکی کی آنکھیں ہو بہو اپنی دادی جیسی تھیں۔ وہ چھوٹی بچی سے زیادہ ایک ادھیڑ عمر عورت دکھائی دیتی تھی۔ عبد اللہ مصلی جب اسے ہر وقت جھاڑو پوچا کرتے دیکھتا تو اس کا دل کسی بے مہر مٹھی میں بھنچتا تھا۔ چھوٹی بی بی تو مہارانی تھی۔ دوسروں کو استعمال کرنے کا ہنر خوب جانتی تھی۔ کاکی جب تک اس کے پیروں کی تیل سے مالش نہ کرتی اسے نیند نہ آتی۔ جب بھی عبد اللہ مصلی کاکی کو سکول بھیجنے کی بات کرتا تو وہ گھما پھرا کر بات نگو جھلی تک لے آتی۔ ‘‘نگو جھلی جب تک رہی آس نراش کے ہیر پھیر میں رہی، نہ قدموں نے زمین کو چھوا، نہ آسمان نے داد رسی کی۔ لفظ انگارے ہی رہے، پھول نہ بنے۔ اوروں کو بھی دیکھ جیسے ڈھور ڈنگر ہوں، کیسے امن سکون سے رہتے ہیں، جو مل گیا کھا لیا، نہ ملا تو نہ سہی، گلے میں سنگل ڈالے، اپنے مالکوں کے در پر پڑے، خصم اپنڑے دا در نہ چھڈ دے، بھاویں وجنڑ جتے۔۔۔۔۔۔ دکھ بھری لمبی سانس ادھوری چھوڑ کر چھوٹی بی بی بولی: ’’اللہ بخشے کاکی کی ماں نہیں رہی، تو کیا! میں ہوں نا۔۔۔۔، تو چنتا نہ کر! کاکی کو کام کاج میں ماہر کر دوں گی۔ جہیز بھی اچھا دوں گی، تو پرائے دھن کو پڑھا لکھا کر کیا کرے گا!!! بیٹوں جیسا ہے تبھی سمجھاتی ہوں ورنہ مجھے کیا پڑی! رب سوھنڑے نے مجھے کسی آزمائش میں ڈالا ہی نہیں۔ گھر میں ہر طرح کا فضل ہے لیکن دیکھ پتر! اس نکی جہی کو لفظوں کے گورکھ دھندے میں نہ الجھا، اس نے تو گھاس کی طرح زمین پر ہی بچھنا ہے لفظ لگ گئے نا، تو سر اٹھا لے گی بن موت ماری جائے گی…….‘‘
عبد اللہ مصلی چھوٹی بی بی کے پاس اکڑوں بیٹھا سر ہلاتا رہتا لیکن آنکھوں آنکھوں میں کاکی سے سکول بھیجنے کا وعدہ بھی کرتا رہتا تھا۔
کئی دن کی بیکاری کے بعد چھوٹی بی بی سے کچھ پیسے ادھار مانگے، پلو میں کاکی سے کیا گیا سکول بھیجنے کا وعدہ باندھا۔ نزدیک قصبے کی پرچون مارکیٹ سے ایک بڑا تھیلا پاپڑوں کا خریدا، سائیکل پر رکھ کر بازار کا ایک چکر لگایا۔ ایک دو بچوں نے پاپڑ خریدے، اکثر نے ماؤں سے ڈانٹ ہی کھائی۔ لڑکیوں کے کالج کے سامنے کافی دیر کھڑا رہا، لڑکیوں کو باتوں اور ذائقوں کے چٹخارے پسند ہوتے ہیں۔ اس لیے وہاں کافی بکری ہو گئی۔ شام ڈھلے گاؤں کی طرف جاتے ہوئے نظر شادی ہال کے باہر گراونڈ میں لگے قناتوں پر پڑی۔ کیا شاندار قناتیں تھیں جیسے کسی بادشاہ نے پڑاؤ کیا ہو۔ ادھ بھرے پولی تھین بیگ کی طرف نگاہ کی، نیم دلی کے ساتھ ذیلی سڑک کے کنارے کھڑا ہو گیا۔ رانا صاحب کے بیٹے کا ولیمہ تھا۔ شادی تو لاہور میں ہوئی تھی۔ ووٹرز اور دوڑ میں ذرا پیچھے رہ جانے والے شریکوں کے لیے ولیمہ قصبے ہی میں ارینج کیا گیا تھا کہ اپنا ساڑ یہیں پھونک لیں، نئی رشتے داری تک دھواں نہ پہنچے۔ چونچیں طوطوں کی طرح لال کیے، کتر کتر بولتی ہوئیں، شراروں غراروں میں الجھتی عورتوں کا ریوڑ لاکھوں کروڑوں کی مالیت کے لہنگے کا ذکر اس شد مد سے کر رہا تھا جیسے ساری دنیا اس لہنگے کے حدود اربعہ میں سمائی ہوئی ہے۔ میمنوں کی طرح نٹ کھٹ اچھلتے کودتے بچے اس کے گرد جمع ہو گئے۔ بھیڑ کے ریلے میں بہتا ہوا عبد اللہ مصلی قنات کے اندر کیسے پہنچا اسے خبر ہی نہ ہوئی، خبر تب ہوئی، جب ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر آ کر لگا: اوئے! تجھے ہمت کیسے ہوئی اندر گھسنے کی! ایک گھونسا اڑتا ہوا آیا دوسرا بھی، کچھ ٹھڈے زیر ناف اور مضبوطی سے تھاما ہوا پاپڑوں کا تھیلا ہاتھ سے چھوٹ گیا۔۔ تڑاق تڑاق دھن دھننن دھن۔۔۔، اتنے میں آواز آئی: ’’کھانا لگ گیا ہے۔‘‘
ہجوم عبد اللہ مصلی کو وہیں چھوڑ کر کھانے کی میزوں کی طرف دوڑ پڑا۔ اوجھڑیوں کے تودے سنہری پنی لگی کرسیوں پر بکھرے تھے۔ ان اوجھڑیوں میں خوراک کے ڈھیر ایسے گرتے جیسے فلیش کے بعد کموڈ کے پائپ لائن سے گزر کر فضلہ گٹروں میں گرتا ہے۔
چہرے غائب ہو گئے تھے بس فربہ گردنوں پر سور کی تھوتھنیاں فکس تھیں۔ پیلے پاپڑ سبز گھاس پر، بکھرے ہوئے تھے۔ زمین پر سفر تمام ہوا، کھلے منہ، کھلی ہتھیلیوں اور چاروں شانے چت پڑا عبد اللہ مصلی شاید اس جہاں پہنچ گیا جو ستاروں سے آگے ہے
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...