عبداللہ جاوید
جس کو بھی دی صدا ، وہ بڑی دیر سے ملا
جو بھی بھلا لگا ، وہ بڑی دیر سے ملا
ملتے گئے جو لوگ وہ دل کو نہیں لگے
جس سے بھی دل لگا ، وہ بڑی دیر سے ملا
باہر سے کوئی عکس نہ دل میں اتر سکا
جو عکس دل میں تھا ، وہ بڑی دیر سے ملا
اک عمر کٹ گئی یونہی خوا بوں کو دیکھتے
تعبیر جو بنا ، وہ بڑی دیر سے ملا
ہم مدّتوں کسی کی پرستش نہ کر سکے
اپنا جو تھا خدا ، وہ بڑی دیر سے ملا
ہنگا مِ شکر ہے وہ ملا تو زہے نصیب
اب اس کا کیا گلہ، وہ بڑی دیر سے ملا
جاویدؔ گو دعا تری مقبول ہوگئی
جو تھا پسِ دعا، وہ بڑی دیر سے ملا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ننگے پا ؤں کی آہٹ تھی یا نرم ہوا کا جھونکا تھا
پچھلے پہر کے سنّاٹے میں دل دیوانہ چونکا تھا
پانچوں حواس کی بز م سجاکر اسکی یاد میں بیٹھے تھے
ہم سے پوچھو شبِ جدائی کب کب پتّا کھڑ کا تھا
اور بھی تھے اسکی محفل میں باتیں سب سے ہوتی تھیں
سب کی آنکھ بچا کر اس نے ہم کو تنہا دیکھا تھا
چاہ کی بازی ہار کے ہم نے کیا کھویا اور کیا پا یا
اس کے ملن کی بات نہ پوچھو سپنا سا اک دیکھا تھا
چاند گگن میں ایک ہے لیکن عکس ہزاروں پڑ تے ہیں
جس کی لگن میں ڈوب گئے ہم ، دریا میں اک سایہ تھا
دل کے دھڑکنے پر مت جاؤ دل تو یوں بھی دھڑکتا ہے
سوچو باتوں ہی با توں میں نام کسی کا آیا تھا
کیسا شکوہ کیسی شکایت دل میں یہی سوچو جاویدؔ
تم ہی گئے تھے اس کی گلی میں وہ کب تم تک آیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھلا جو پھو ل کوئی ، کوئی پھول مرجھایا
تضادِ زیست نے ہر رنگ میں ستم ڈھایا
جنوں سے کم تو نہیں ہے یہ شدّتِ احساس
جو شاخِ گل کہیں لچکی تو سانپ لہرایا
ہر ایک لمئحہ گزراں کا احترام کرو
بچھڑنے والا کبھی لو ٹ کر نہیں آیا
نگاہِ یار کی یہ روشنی رہے تو رہے
وگر نہ دہر میں جو کچھہ ہے سر بسر سایہ
رہا ہے پیشۂ آ با سپہ گری جا ویدؔ
یہ او ر بات ہمیں شا عر ی نے اپنا یا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ ہی ان کو جدا ہو نے دیا
جس میں تھا ان کا بھلا ہونے دیا
جان کر ان کو بگا ڑا پیار سے
با وفا کو بے وفا ہو نے دیا
لوگ سب آتے ر ہے ، جا تے رہے
دل کے گھر کو راستا ہونے دیا
آپ کے دل کو نہ اپنا کر سکے
اپنے دل کو آ پ کا ہونے دیا
زندگی میں خواب تو دیکھے نہیں
زندگی کو خواب سا ہونے دیا
آپ کے اور اپنے دل کے درمیاں
کھیل تھا یا عشق تھا ،ہونے دیا
صبر تھا یا ظلم تھا ، اپنے خلاف
جو نہ ہو نا تھا ہوا ، ہونے دیا
جان کر اپنا زیاں کرتے گئے
جان کر سب کا بھلا ہونے دیا
عمر بھر چنتے رہے خار و خزف
اور چمن کو خوشنما ہو نے دیا
جب ہرے پتّوں کو ڈھانپا برف نے
زخم کو دل کے ہر ا ہو نے دیا
ہم عدالت میں بھی سچ کہتے رہے
اور جھوٹا فیصلہ ہونے دیا
ہاتھ اٹھائے تو دعا مانگی نہیں
لکھنے والے کا لکھا ہونے دیا
آپ چھوٹے رہ گئے جا ویدؔ جی
او ر لوگوں کو بڑا ہونے دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کی دیوانگی کا سماں ہر طرف
آسماں ، آسماں آسماں ہر طرف
سوجھتا ہی نہیں راستہ کیا کریں
اک دھواں، اک دھواں، اک دھواں ہر طرف
اُڑ گئی ہے زمیں ، پاوئں رکھئے کہاں
فرش ہے یا کہ آ بِ رواں ہر طرف
ایک دریا ہے پیروں سے لپٹا ہوا
بے سکوں، بے سکوں، بے کراں ہر طرف
اصل چہرے کی پہچان ممکن نہیں
عکس ہی عکس ہیں در میاں ہر طرف
ایک صورت کی سو صورتیں بن گئیں
آئینے رکھ دیئے ہیں یہاں ہر طرف
اتنی آنکھیں کہاں، دیکھ سکتے جو ہم
آپ کے حسن کی کہکشاں ہر طرف
آپ سے دور جا تے تو جا تے کہاں
آپ ہی آپ تھے مہرباں ہر طرف
کون کہتا ہے جا ویدؔ جی مر گئے؟
وہ تو موجود ہیں اے میاں ہر طرف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناچنے لگتا ہے بازاروں کے بیچ
بند کیجیے دل کو دروازوں کے بیچ
عشق ہے ظاہر میں خوشبو کا سفر
راستہ جا تا ہے انگا روں کے بیچ
دیکھئے آکر کبھی دنیائے دل
بیٹھئے آکر کبھی یاروں کے بیچ
کاسۂ درویش بھی رکھ دیجئے
کچھ جگہ خالی ہے دستاروں کے بیچ
آپ کو نشہ نہیں کرتی شراب
آپ کا کیا کام مے خوا روں کے بیچ
شہر جاں تک آگئی جنگل کی آگ
جل رہی ہے عین گلزا روں کے بیچ
کیسی وحشت ہے زمیں سے تا فلک
چاند ہے سہما ہو ا تاروں کے بیچ
امن ہے بغداد میں چاروں طرف
فاختہ اُ ڑتی ہے تلواروں کے بیچ
مانگئے جاویدؔ اب مشرق کی خیر
گھرِ گیا مغر ب کے ہتھیا روں کے بیچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبھی آلام لے کر اُڑ گیا ہے
پرندہ دام لے کر اُڑ گیا ہے
دریچے میں ذرا سی دیر گا کر
وہ طائر شام لے کر اُڑ گیا ہے
ہم اس کا نام بھی کیسے بتا ئیں
جو اپنا نام لے کر اُڑ گیا ہے
ہمارے دل کا سودا کر نے وا لا
بڑا انعام لے کر اُڑ گیا ہے
جسے سا قی سمجھ کر جام سونپا
وہ ظالم جام لے کر اُ ڑگیا ہے
یقین کی روشنی کا ایک جگنو
سبھی اوہام لے کر اُڑ گیا ہے
کسی کی یاد کا خامو ش جھونکا
غمِ ایّام لے کر اُڑ گیا ہے
جسے جاویدؔ سمجھے تھے وہ لمحہ
خیالِ خام لے کر اُڑ گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھول کے لائق فضا رکھنی ہی تھی
ڈر ہوا سے تھا ہوا رکھنی ہی تھی
گو مزاجاَ ہم جدا تھے خلق سے
ساتھ میں خلقِ خدا رکھنی ہی تھی
یوں تو دل تھا گھر فقط ا للہ کا
بت جو پا لے تھے تو جا رکھنی ہی تھی
ترک کرنی تھی ہر اک رسمِ جہاں
ہاں مگر رسمِ وفا، رکھنی ہی تھی
صرف کعبے پر نہ تھی ، حجّت تمام
بعدِ کعبہ کر بلا ، رکھنی ہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی رکتا نہیں ہے راستے پر
شجر تک چل رہے ہیں راستے پر
یہ کیسا مرحلہ آیا سفر کا
مسافر جل رہے ہیں راستے پر
فرشتے بھا گتے ہیں راستے سے
شیاطیں پَل رہے ہیں راستے پر
جو صدیوں سے مسلسل چل رہے ہیں
وہ پل دو پل رہے ہیں راستے پر
کبھی تپتے ہوئے بے آب صحرا
کبھی جل تھل رہے ہیں راستے پر
کبھی رستہ اُ ڑا ہے آسماں تک
کبھی بادل رہے ہیں راستے پر
یقیں سے کوئی کہہ سکتا نہیں یہ
گزشتہ کل رہے ہیں راستے پر
بدلتے منظروں کی زد پہ جا ویدؔ
بہت بے کل رہے ہیں راستے پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلک پر جب ستارے ٹوٹتے ہیں
زمیں پر دل ہما رے ٹوٹتے ہیں
یہ کیسے فیصلے ہوتے ہیں اوپر
جو نیچے عہد سارے ٹوٹتے ہیں
سُبک موجوں سے بن جا تے ہیں دھارے
سُبک موجوں سے دھا رے ٹوٹتے ہیں
کوئی طوفاں دستک دے رہا ہے
لبِ دریا کنا رے ٹوٹتے ہیں
جُدا یہ بات کچھ برسے نہ برسے
بظاہر ابر پارے ٹوٹتے ہیں
بجا ئے آب قحطِ آب بر سا
یونہی اکثر سہا رے ٹوٹتے ہیں
خوشی کے مو ڑ پر ہی کیوں یہ آخر
ہمارے خواب سارے ٹوٹتے ہیں
ہمیں پہچان ہوتی ہے خد ا کی
ارادے جب ہما رے ٹوٹتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہمیں ہو نا ہے ؟ کیا ہو نا نہیں ؟
موت سے پہلے پتا ہونا نہیں
روح کا تن سے جدا ہونا تو ہے
روح کی قسمت فنا ہونا نہیں
موت بے شک ہی نہیں بر حق بھی ہے
موت اپنی انتہا ہونا نہیں
ما ورا ئے مرگ بھی ہے زندگی
زندگی کے ما سوا ہونا نہیں
اس کی مرضی ہے اسا سِ ہست و بود
اس کی مرضی کے سوا ہو نا نہیں
ہے خدا لاابتداء لاانتہا
صرف ہونا ہی خدا ہونا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بند دروازے کہاں تک کھولتے
کیا زمیں سے آسماں تک کھولتے
دائرہ در دائرہ تھی زندگی
دائروں کو ہم کہاں تک کھولتے
آپ نے پوچھا تو ہوتا دل کا حال
ہم زباں کیا زخمِ جاں تک کھولتے
کوئی دل کا رازداں ملتا اگر
چاک سینے کے دہاں تک کھو لتے
عشق کی نشتر زنی کا حال ہم
یادِ یا رِ مہرباں تک کھولتے
مہرباں سورج کے سارے راز بھی
سایۂ نامہرباں تک کھولتے
کشتیِ عمرِ رواں کا باب ہم
جنگِ باد و بادباں تک کھولتے
ذہن و دل کی جستجو کا ما حصل
ماورائے بے نشاں تک کھولتے
کھولتے ہر چیز کے سارے پرت
سب یقینوں کو گماں تک کھولتے
لمحے لمحے کو رواں رکھنے کے ساتھ
لا زماں و لا مکاں تک کھولتے
نقل کی بھی نقل تھے جاویدؔ جی
اصل کو کیسے کہاں تک کھولتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غم کی پر چھائیں میں درخت رہا
اب کے موسم ہی اتنا سخت رہا
جیسے دریا کے دو کنارے ہوں
ہم رہے ،درمیان وقت رہا
زندگی انتظا ر میں کا ٹی
اور یہ انتظار ، سخت رہا
تخت پر کون تھا نہ دیکھ سکے
بعد میں وہ رہا نہ تخت رہا
کیا رہا اپنے ساتھ زا دِ سفر
زخم خوردہ بدن ہی رخت رہا
سب رویے انا کی بھینٹ رہے
جو رویہّ تھا سخت ، سخت رہا
دکھ تو یہ ہے کہ یہ ہمارا وطن
ایک ہو کر بھی لخت لخت رہا
ایک ہوکر بھی ہم نہ ایک ہوئے
ڈالیوں سے جدا درخت رہا
باہمی گفتگو تھی لا حاصل
سب کا لہجہ بڑ ا کرخت رہا
بخت کی بات گو زباں پہ رہی
ہاتھ میں اپنے ،اپنا بخت رہا
ہم ہی جا ویدؔ وقت سے روٹھے
ڈھونڈھتا ہم کو ، اپنا وقت رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چمکا جو چاند رات کا چہر ہ نکھر گیا
مانگے کا نور بھی تو بڑا کام کر گیا
یہ بھی بہت ہے سینکڑوں پودے ہرے ہوئے
کیا غم جو بارشوں میں کوئی پھول مر گیا
سا حل پہ لو گ یونہی کھڑے دیکھتے رہے
دریا میں ہم جو اترے تو دریا اتر گیا
ہر سخت مرحلے پہ اکیلے ہی ر ہ گئے
جو کارواں تھا ساتھ ہما رے بکھر گیا
سایہ بھی آپ کا ہے فقط روشنی کے ساتھ
ڈھونڈو گے تیر گی میں کہ سایہ کدھر گیا
جھپکی پلک تو موسمِ گل کا پتہ نہ تھا
’ جھونکا سا اک ہوا کا ادھر سے ادھر گیا‘
ہم جس کے انتظار میں جاگے تمام رات
آیا بھی وہ توخواب کی صورت گزرگیا
مشکل ہے اب کسی کا سمانا نگاہ میں
وہ اک جھلک کے ساتھ ہی آنکھوں کو بھر گیا
ہم نے توگل کی ، چاند کی ، تا رے کی بات کی
سب اہلِ انجمن کا گماں آپ پر گیا
بجلی کا قمقمہ سا چراغِ حیات ہے
ٹوٹا نفس کا تار اندھیرا اُ بھر گیا
جیتے جی مر چکے تھے مگر اپنا ہر نفس
ہم ہی پہ سانس لینے کا الزام دھر گیا
گھر ہی نہیں رہا ہے سلا مت بتائیں کیا
غالبؔ کے بعد سیلِ بلا کس کے گھر گیا
مقطع کہو کہ لطفِ سخن کا بھر م رہے
جاویدؔ اب غزل کا نشہ سا اتر گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی باتوں کے پردے میں کہہ لیتے ہیں اپنی بات
آج کی دنیا میں سنتا ہے کون بھلا کس کے حا لا ت
کس کو اتنی فرصت ہے کہ دل کا زخمِ نہاں دیکھے
کس کو رکنے دیتے ہیں یاں قدموں سے لپٹے لمحات
اسکے لب و رخسار کی باتیں سکھ کے دنوں کی با تیں ہیں
اسکی زلف کے ذکر کے پیچھے پھیلی ہوئی ہے درد کی رات
دنیا کے اصنام میں سارے ایک صنم ہی سچا ہے
جیسے خدا کی ذات ہے سچّی باقی سا رے لات و منا ت
اہلِ مجاز صنم کہتے ہیں اہلِ حقیقت اس کو خدا
ہم سے اگر پوچھو تو یارو وہ ہے سپنوں کی سوغات
آگ اور خون کے اس دریا سے کون ہے یاں جو پا ر ہوا
زیست میں کس کی جیت ہوئی ہے کس نے نہیں کھائی ہے مات
روز و شب کی یکسانی پر سانس گھٹی سی جا تی ہے
دن میں بھی ہے سنّا ٹا سا رات تو کہنے کو ہے رات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک انجا نے سفر میں تھے کھلا مدّت کے بعد
ہم فقط اک رہ گزر میں تھے کھلا مدّت کے بعد
اجنبی اک راستہ تھا ، پاوئں سے لپٹا ہوا
اندر ،اندر ،ایک ڈر میں تھے کھلا مدّت کے بعد
چل رہے تھے زندگی کا خواب سا دل میں لئے
اور فناکی رہ گزر میں تھے کھلا مدّت کے بعد
وقت کو باہر گزرتا دیکھنے والے یہ لوگ
وقت کے اندر سفر میں تھے کھلا مدّت کے بعد
اک طلسمِ ہفت پیکر تھی یہ دنیا او ر ہم
ایک جا دو کے نگر میں تھے کھلا مدّت کے بعد
پہلے ہی پتھر سے چکنا چور ہو کر رہ گیا
آپ بھی شیشے کے گھر میں تھے کھلا مدّت کے بعد
ہم نے جن کو دل میں ،آنکھوں میں سجا رکھا تھا وہ
اک زمانے کی نظر میں تھے کھلا مدّت کے بعد
جو زما نے پر اثر انداز ہوتے تھے وہ لوگ
خود زمانے کے اثر میں تھے کھلا مدّت کے بعد
ایک ہم ہی حادثوں کزد پہ کچھ آئے نہ تھے
حادثے سب بحروبر میں تھے کھلا مدّت کے بعد
زندگی کے گھر میں تھے کچھ ٹمٹماتے سے دیئے
قمقمے سب بام و در میں تھے کھلا مدّت کے بعد
جو نظر آتا نہیں سب پر نظر رکھتے ہوئے
ہر گھڑی اس کی نظر میں تھے کھلا مدّت کے بعد
عصرِ حاضر کو غرض شہرت سے ہے فن سے نہیں
ہم عبث عرض ہنر میں تھے کھلا مدّت کے بعد
ہم ہی خود جاویدؔ تھے اپنے مقابل دو بدو
وسوسے اپنے ہی دل میں تھے کھلا مدّت کے بعد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راہ میں دھوپ تھی سایوں کے شجر پیچھے تھے
دل تڑپتا تھا ، مگر دل کے نگر پیچھے تھے
راستے نے کہاں دیکھے تھے مسا فر ایسے
جن کے تن آگے تھے، کا ٹے ہوئے سر پیچھے تھے
فا ختہ امن کے تھی ،نوکِ سناں پر آگے
شہرِ تا را ج میں ، ٹوٹے ہوئے پر پیچھے تھے
کارواں والوں نے ان کو نہ کبھی یاد کیا
کیا ہو ئے راہ میں ، جو خاک بسر پیچھے تھے
یہ بھی دیکھا ہے تقسیمِ انعا مات کے وقت
بے ہنر آگے تھے اور اہلِ ہنر پیچھے تھے
فرض بھی کر لیں کہ رَن میں تھے لڑا نے والے
مرنے اور مارنے والوں سے مگر پیچھے تھے
ہم چلے جا تے تھے جاویدؔ سفر کی دھن میں
جن کو سمجھا تھا کہ آگے ہیں و ہ گھر پیچھے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روح کو قا لب کے اندر جاننا مشکل ہوا
لفظ میں احساس کو پہچاننا مشکل ہوا
لے اُڑی پتّے ہو ا تو شاخِ گل بے بس ہوئی
پھول پر سا ئے کی چادر تاننا مشکل ہوا
اپنے خلوت خا نہء دل سے جو نکلے تو ہمیں
سب کے غم میں اپنا غم بھی جاننا مشکل ہوا
وقت نے جب آئنہ ہم کو دکھا یا رو پڑے
اپنی صورت آپ ہی پہچاننا مشکل ہوا
اس مشینی عہد میں کیا ذات کیا عرفانِ ذات
آدمی کو آدمی گر داننا مشکل ہوا
دل نہ چھوٹا کیجیے نا قدریِ احباب پر
عیب جویوں کو ہنر پہچاننا مشکل ہوا
کیا کریں جاویدؔ اس بہروپیوں کے دیس میں
گل کو گل کانٹے کو کا نٹا ماننا مشکل ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غم تمہارا تھا ہمیشہ
یہ سہا را تھا ہمیشہ
ہجر کی تاریک شب میں
یاد ، تارا تھا ہمیشہ
تم ہمارے تھے ، نہیں تھے
دل تمہارا تھا ہمیشہ
ڈوبنے سے ڈرنے وا لو !
عشق دھارا تھا ہمیشہ
کیسی دریا سے شکا یت
جب کنارا تھا ہمیشہ
حسن اس کا ، عشق اپنا
استعارہ تھا ہمیشہ
گنبد و محراب و منبر
اور منارا تھا ہمیشہ
خار و گل ، صیاد و بلبل
باغ سارا تھا ہمیشہ
کو ٹھیوں ، محلو ں کے نیچے
گھر ہمارا تھا ہمیشہ
سب فسانے تھے ازل سے
ہر نظارہ تھا ہمیشہ
نسلِ انسانی کے ہاتھوں
میں خسا رہ تھا ہمیشہ
(سورۃالعصر) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک سیلِ بے پناہ کی صورت رواں ہے وقت
تنکے سمجھ رہے ہیں کہ وہم و گماں ہے وقت
پرکھو تو جیسے تیغِ دو دم ہے کھنچی ہوئی
ٹا لو تو ایک اڑ تا ہوا سا دھواں ہے وقت
ہم اس کے ساتھ ہیں کہ وہ ہے اپنے ساتھ ساتھ
کس کو خبر کہ ہم ہیں رواں یا رواں ہے وقت
تا ریخ کیا ہے وقت کے قدموں کی گرد ہے
قوموں کے اوج و پست کی اک داستاں ہے وقت
خا مو شیوں میں سرّ نہاں کھولتا ہوا
گونگا ہے لا کھ پھربھی سراپا زباں ہے وقت
ہمدم نہیں رفیق نہیں ہم نوا نہیں
لیکن ہمارا سب سے بڑا رازداں ہے وقت
کُل کائنا ت اپنے جلو میں لئے ہوئے
جا ویدؔ ہست و بود کا اک کارواں ہے وقت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راستے نے کہاں دیکھے تھے مسافر ایسے
جنکے تن آگے تھے ، کاٹے ہوئے سر پیچھے تھے
فا ختہ امن کی تھی، نوکِ سناں پر آگےؔ
شہرِ تا راج میں ، ٹوٹے ہوئے پر پیچھے تھے
کارواں والوں نے ان کو نہ کبھی یاد کیا
کیا ہوئے راہ میں ، جو خاک بس پیچھے تھے
یہ بھی دیکھا ہے کہ تقسیمِ انعا مات کے وقت
بے ہنر آگے تھے، او ر اہلِ ہنر پیچھے تھے
فرض بھی کر لیں کہ رَن میں تھے لڑانے والے
مرنے اور مارنے وا لوں سے مگر پیچھے تھے
ہم چلے جا تے تھے جا ویدؔ سفر کی دھن میں
جن کو سمجھا تھاکہ آگے ہیں وہ گھر پیچھے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غم کی پرچھائیں میں درخت رہا
اب کے مو سم ہی اتنا سخت رہا
جیسے دریا کے دو کنا رے ہوں
ہم رہے، درمیان وقت رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موئن جو ڈارو
میرا ماضی مری ہستی کا موئن جو ڈارو
تو اسے دیکھ کر ممکن ہے فسردہ بھی نہ ہو
لوگ آتے ہیں یہاں ذوقِ نظارہ لے کر
ذوقِ نظارہ سے ممکن نہیں
انساں کو نجات !
یہ بھی اک تلخ حقیقت ہے مرے دوست کہ آج
یہ کھنڈر
کل جو تھااک قصرِنگا رینِجہاں
آج مرحوم تمنّا ؤں کا گورِستاں ہے
لوگ آتے ہیں یہاں ذوقِ تجسّس لے کر
اور کچھ دیر نظارہ کر کے
اپنی راہوں پہ چلے جا تے ہیں
کس کو احسا س ہے اس خاک کے ہر ذرّے میں
دلِ حساس کے زخموں کا لہو شامل ہے
ہر طرف پھیلی ہوئی گہری سی تاریکی میں
آرزوؤں کی حنا جذبوں کی ضو شا مل ہے
لوگ کہتے ہیں کہ جو وقت کٹا، بیت چکا
بات جو بیت چکی ، بیت چکی ختم ہو ئی !
دل یہ کہتا ہے مرا زخم ابھی بھر نہ سکا
بات جو بیت چکی دل میں کھٹکتی ہے ابھی
اور احساس میں کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں
کسی مہتاب سے چہرے کے دل آویز نقوش !!
یہ گزرتا ہوالمحہ ہے اک آ زاد پرند
برق رفتا ری سے اُڑتا ہی چلا جا تا ہے
ایک موہوم حقیقت ہے ،حقیقت ہی سہی
اک بدلتی ہوئی شے
جس کا نہ ادراک ہو!!
اور گزر اہوالمحہ ہے گرفتارِقفس
یاد کے پردے پہ ابھرا ہوااک نقشِ دوام
اک اٹل ٹھوس حقیقت جو نہ بد لے گی کبھی
ایک تاریخ جو ہرلمحۂ ساکت میں ہے قید
’’ وقت لا فانی! ‘‘
’’ عد م وقت ‘‘ کی حالت کا شعور!
ایسے ہی وقت سے ما ضی مرا تشکیل ہوا
اس کو تخریب بھی کہہ سکتے ہیں کہنے والے
گر تو آیا ہے یہاں
ذوقِ نظارہ لے کر
میں بھی تا ریخ کے بوسیدہ ورق الٹوں گا
تا کہ کھنڈر سے تجھے شہر کا ادراک ملے
اور مٹّی کے ہر اک ذرّے سے
دلِ حسّاس کے زخموں کا لہو پھوٹ بہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( موجِ صد رنگ)
سر وائیو ل
بدلتے موسموں کے ساتھ ہی
حلیے بدلتے ہیں شجر
خزاں پہلے تو ہولی کھیلتی ہے
پتّے، پتّے سے شجر
صدرنگ پوشا کیں پہن کر
رقص کرتے ہیں
ہوا
مستی لٹاتی
ناچتی ہے اور نچاتی ہے
شجر
انجام سے کچھ بے خبر
کچھ با خبر
ہو ا کے دوست بن کر
رقص کرتے ہیں
ہوا جب
جھومتی شاخوں کے سر سے
کھینچ لیتی ہے
ردائیں۔
قبائے برگ و گل
اک اک شجر کی،
پتّا ، پتّا
پتّی ، پتّی
جب اتر تی ہے
شجر
بے پیرہن
اور بے حیا ،
ز میں بستہ
بڑ ے لا چا ر لگتے ہیں
برہنہ
سرسے پا تک۔
سرد ،
یخ بستہ
ہواؤں کے تھپیڑے
سہنے والے
ہر شجر کو
خواب دیتا ہے
وہی
جو زندہ رہنے کو
کئی اسباب دیتا ہے
شجر کو ، آپ کو ، ہم کو ،
ہوا والوں کو ،
زمین و آب والوں ،
آسماں والوں کو۔
وہ جن کو زندہ رکھنا چاہتا ہے
جہاں بھی ہوں
وہی تو خواب دیتا ہے
آنے والے اچھے مو سم کے
شجر کو
کبھی تو برف رُت
چاندی کے گہنوں سے
سجا تی ہے
برہنہ ڈالیوں کو، چا ؤ سے
دلہن بناتی ہے
خزاں کی چیرہ دستی
موسمِ سرماں کی یخ سر دی
بھی اک دن
بھو لی بسری بات ہو جا تی ہے
زمیں
انگڑائی لے کر
سبز مخمل اوڑھ لیتی ہے
نئے کپڑے پہن کر
پیڑ ، پودے
رقص کر تے ہیں
ہوا
پھولوں کو چٹکا تی ہے
اور پتّوں کو چمکا کر
شجر
اک اک شجر کو
شان سے
جینا سکھا تی ہے۔! !
عبداللہ جاوید
مہلت
صبح دم ، اشکِ شبنم کوئی
دیر تک عارضِ گل پہ ٹہرا رہا
اک نئے دن کا سورج
( جو خود بھی نیا اور تازہ تھا)
نیم خوابیدہ چہرہ چھپا تا رہا
ابر کی اوٹ میں دیر تک
کسمسا تا رہا
پا س کے پیڑ پر نیند سے جاگ کر
چہچہہا تی رہیں
ننھّی چڑیاں کئی گیت گاتی رہیں
اورپہاڑی کی چوٹی پہ بیٹھا ہوا
ایک شا ہین
اپنے زخمی پرو بال کا سوچ کر
غم زدہ ہے کہ پیڑوں کی چڑیوں
کے اوپر جھپٹنے کا یارا نہیں
آج کی صبج مہلت میسّر ہے
چڑیوں کو ، شبنم کو ،
ہم کو ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا ک با ر پھر
( ایک روما نی نظم)
وقت کے بہتے ہوئے
دریا میں تھی
یا فقط
محسوس ہوتی تھی کہیں
اور کہیں
محسوس بھی ہوتی نہ تھی
موج اک چھوٹی سی
تیرے نام کی
موج
اک چھوٹی سی
میرے نام کی
تم کہ اپنے وقت میں تھیں
میں کہ اپنے وقت میں تھا
وقت کے بہتے ہوئے
دریا کے بیچ
اپنے اندر کی کشش سے
تند دریا کی روش سے
ایک دوجے کے قریب آئیں
قریب
اتنا قریب
آنکھ بھر کر دیکھنے
پہچان لینے
جاننے ، جتنا قریب۔۔!
’’تم ہو۔۔؟ ‘‘
وہ لہرا کے بو لی
’’ تم ہو۔۔؟ ‘‘
میں لہرا کے بولا
’’میں تمہیں کیسے نہیں پہچانتی
میرے ہو تم
تم مجھے کیسے نہیں پہچانتے
کس کی ہوں میں۔؟ ‘‘
’’ اک بار پھر ‘‘
میں نے کہا
’’اک بار پھر ‘‘
اس نے کہا
ساتھ ہم رہنے لگے
ساتھ ہم بہنے لگے
اک بار پھر
وقت کے دریا کے بیچ
وقت نے ہنس کر کہا
’’ اک بار پھر․․․‘‘!
اور۔۔ اک سیلِ بلا
درمیاں حائل ہوئی
اک بار پھر۔
اک بار پھر۔
اک بار پھر !!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضرورت
ٹپکتے ٹپکتے ہوئے خشک آنسو
یہ دل نے کہا
’’ آنسوؤں کی زباں کوسمجھنے کی مہلت نہیں ہے
جہاں کو کہ سارا جہاں
تیز سے تیز تر دوڑ نے میںمگن ہے ‘‘
یہاں آنسوؤں کی ہے قیمت نہ و قعت
کوئی رو تی آنکھوں کوچہروں کودیکھنا بھی نہیں چاہتا
یہاں سرد آ ہوںکراہوں کو
چیخوں کو سننے کے قابلسماعت نہیں ہے
سماعت اگر ہے تو فرصت نہیں ہے
جو فرصت اگر ہے
ضرورت نہیں ہے۔!
عبداللہ جاوید
لفظ لکھتے رہو
لفظ لکھتے رہو
انگلیاں او ر قلم
اپنے خونِ جگر میںڈبو تے رہولفظ لکھتے رہو
اپنے چھوٹے بڑے درد و غم
اور چھوٹی بڑی ، جھوٹی ، سچّی خوشی
بھولی بھٹکی خوشی
دوسروں کے غموں اور خوشیوں سے
آمیز کر تے ہوئے
ساتھ جیتے ہوئے ،ساتھ مرتے ہوئے
عصرِ حاضر کے فرعون و قا رون کے
روپ ،بہروپ کو
مکر کی چھاؤں کو ، جبر کی دھوپ کودیکھتے بھالتے۔۔
اور تا ر یخ کے آئینے میں عیاں
آنسوؤں سے رچاخو ں میں ڈوبا ہوا
جدلیاتِ زماں و مکاں کا بناعکسِ نو دیکھتے ۔۔
اپنے لفظوں میں فقروں میں
مصرعوں میں ، شعروں میںحرف اور صوت کی
سب خفی و جلیظاہری ، باطنی
صورتوں میں سمو تے رہو
لفظ لکھتے رہو !