مبین مرزا (کراچی)
عبداللہ جاوید صاحب سے میری ملاقات تو بے شک حالیہ برسوں کا واقعہ ہے لیکن اُن سے تعارف خاصا پرانا ہے۔ اور وجہِ تعارف تھی اُن کی شاعری۔ میں نے اسّی کی دہائی کے اَوائل میں اُن کا کلام سب سے پہلے ’’فنون‘‘ میں پڑھا تھا اور اُن کے سنجیدہ تخلیقی رویّے کو ان کی شاعری میں ایک قدر کے طور پر محسوس کرکے مجھے خوشی ہوئی تھی۔ اس کے بعد اگر کہیں ان کے نام پر نگاہ پڑی تو میں نے یک گونہ دل چسپی سے اُن کے کلام کا مطالعہ کیا اور مسرّت حاصل کی۔ یہی نہیں اس عرصے میں کئی بار ثقہ اور متین لوگوں سے ان کی شاعری کا ذکر ہوا اور اچھے لفظوں میں ہوا۔ چناں چہ چند برس قبل جب اُن سے بالمشافہ رسم و رہِ محبت کا آغاز ہوا تو ان سے دیرینہ شناسائی سے بھی مذکور رہی اور وجہِ شناسائی بھی۔ لیکن ان سے ملاقاتوں کے بعد اب میں سوچتا ہوں کہ اس سے پہلے میں عبداللہ جاوید صاحب سے اپنے جس تعارف کو بڑی چیز سمجھتا تھا، وہ کس قدر واجبی سا تھا۔
اصل میں ہوتا یہ ہے کہ ہماری توجّہ آدمی کے کسی ایک پہلو یا اُس کی شخصیت کے کسی ایک رُخ پر مرکوز ہوجاتی ہے اور پھر ہم اُس کی بابت جو کچھ جانتے اور سوچتے ہیں وہ سب اسی ایک زاویے کا نظارہ ہوتا ہے۔ جب کہ امرِ واقعہ میں آدمی ہشت پہلو ہوتا ہے – اور ان میں سے ہر ہر پہلو اپنی جگہ جامع ہوتا ہے اور دوسرے کا تکملہ بھی۔ دیکھیے، میں یہ کیا بات لے بیٹھا جب کہ اس وقت مجھے بس دو اڑھائی فقرے عبداللہ جاوید صاحب کے افسانوں کی بابت کہنے ہیں، شخصیت کی عقدہ کشائی مقصود نہیں۔ لیکن خیر، ہماری یہ سب باتیں کچھ ایسی بے مقصد بھی نہیں ہیں۔ کسی تخلیق کار کا کام خواہ وہ کسی بھی صنفِ اظہار و بیاں میں ہو، اس کی ذات سے لا تعلق تو بہرحال نہیں ہوتا۔ عبداللہ جاوید صاحب کی شاعری کے حوالے سے بات کا آغاز ہوا تھا تو میں عرض کروں کہ ان کی بعض نظمیں پڑھتے ہوئے ہی نہیں بلکہ غزلوں کے بعض اشعار سے بھی مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان میں پوری ایک کہانی یا کوئی ایک مکمل واقعہ سا سما گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت میں نے عبداللہ جاوید کا کوئی افسانہ پڑھا تھا اور نہ ہی میں یہ جانتا تھا کہ وہ افسانے بھی لکھتے ہیں۔ ان کے افسانے تو میں نے اب آکر پڑھے ہیں۔ تو دیکھیے یہ وہی بات نہیں ہے کہ تخلیقی شخصیتِ کا ہر پہلو اپنی ایک انفرادی حیثیت بھی رکھتا ہے اور دوسرے کا تکملہ بھی بنتا ہے۔ اسی طرح ایک جامع تخلیقی شخصیت ہمارے سامنے آتی ہے۔
تو اب جو افسانے پڑھے تو اِن سے نہ صرف عبداللہ جاوید صاحب کی فن کاری کا ایک نیا رُخ سامنے آیا بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ ان کی مجموعی تخلیقی شخصیت کو بھی قدرے وسیع تناظر میں دیکھنے اور ان کے فن کارانہ سروکار کو سمجھنے کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جو ایک تاثر میں نے ابتداً اُن کے فن کارانہ مزاج کی بابت لیا تھا کہ وہ ایک سنجیدہ رویّے کے تخلیق کار ہیں تو وہ مزید مستحکم ہوا۔ اب آگے بڑھنے سے قبل یہ بہتر ہو گا کہ ہم پہلے یہ جان لیں، سنجیدہ رویّے سے آخر کیا مراد ہے؟ تو یوں ہے کہ میری ناچیز رائے میں فلسفیانہ اندازِ فکر، دانش ورانہ طرزِ اظہار اور دقیق عالمانہ اسلوبِ بیان وغیرہ تخلیقی فن کار کے رویّے کی سنجیدگی کے لیے خاص ضروری نہیں ہیں بلکہ اگر بُرا نہ مانا جائے تو مجھے یہ کہنے میں بھی تامّل نہیں کہ یہ خصائص تو ایک حد تک اس کے سنجیدہ رویّے کے لیے ضرر رساں ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ایسی سب چیزیں ناقدین اور تجزیہ نگاروں وغیرہ کے مطلب کی تو ہوا کرتی ہیں مگر اپنی طبعی شکل میں یہ تخلیق کار کے لیے کچھ ایسی مفیدِ مطلب نہیں ہوتیں۔ گریفائیٹ اپنی ابتدائی شکل میں جوہری کے کام کا نہیں ہوتا، وہ تو اسے اپنے لیے اس وقت استعمال کرتا ہے جب وہ ہزاروں درجے سینٹی گریڈ حدّت کے عمل سے گزر کر منقلب ہوجاتا ہے۔ تب اُس کے خواص بھی بدل جاتے ہیں اور اثرات بھی۔ تخلیقی پیرایے میں اظہار پانے والے علم و فلسفہ کی ماہیت بھی اسی طرح بدل جاتی ہے۔ تب اُن کے اثرات صرف دماغ تک محدود نہیں رہتے بلکہ دل تک پہنچتے ہیں۔ اور پھر وہ شعر و افسانہ کی آرائش کا کام نہیں کرتے اس کی قوت بن جاتے ہیں۔ تو فن کارانہ رویّے کی سنجیدگی سے مراد ہے مادّی اشیا کی غیر مادّی سطح پر اُس تفہیم کی جستجو جو بیک وقت شعور و احساس کی جہتوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ رویّہ اصل میں فن کو زندگی بنالینے سے پیدا ہوتا ہے – اور عبداللہ جاوید کے فن میں خواہ وہ شاعری ہو یا افسانہ ہمیں اسی رویّے کا نشان ملتا ہے۔
بات طول کھینچے گی اور یہ طوالت کا محل ہے اور نہ ہی میں اس وقت اس کا متحمل ہوسکتا ہوں ورنہ اس بات کی تشریح اور استناد کے لیے عبداللہ جاوید کے اشعار، نظموں کے ٹکڑے اور افسانوں کے اقتباسات سے یہاں پورا پورا کام لیا جاسکتا تھا۔ اگر یہ نہیں تو کم سے کم ایک کے بعد دوسرے افسانے کا خلاصہ بیان کرکے بھی بات کو آگے بڑھایا جاسکتا تھا۔ افسوس کہ نہ تو مجھے یہ کام اآتا ہے اور نہ ہی اچھا لگتا ہے۔ یوں بھی مدرّسی سے مجھے کوئی علاقہ نہیں اور یہ ہنر عام طور سے مدرّس نقادوں ہی کو آتا ہے کہ وہ اپنے ہر قاری کو کمرۂ جماعت میں بیٹھا ہو طالبِ علم سمجھ کر خلاصہ کاری کا نسخہ اس کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ میرے لیے تو یہی موزوں ہوگا کہ عبداللہ جاوید نے اپنے افسانوں میں جن موضوعات اور مسائل سے سروکار رکھا ہے، میں اُنھی کی بابت اپنے کچھ تاثرات عرض کروں۔
تو عبداللہ جاوید کے افسانوں کو پڑھ کر جو سب سے پہلی بات مجھے محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ یہ سب افسانے بالکل الگ ہیں۔ ان میں چھیڑے گئے موضوعات، اٹھائے گئے سوالات اور بیان کیے گئے نکات سب کچھ ایک دوسرے سے الگ ہے۔ کرداروں میں ایسی کوئی مماثلت نظر نہیں آتی کہ ایک افسانے کا کوئی کردار کسی دوسرے افسانے کے کسی کردار کی یاد دلائے یا تسلسل محسوس ہو یا پھر کسی کے مزاج کا رنگ کہیں اور چھلکتا نظر آئے۔ کسی کے لہجے پر کسی دوسرے کی چھاپ دکھائی دے۔ غرض یہاں جو کچھ ہے اُسے ہم تنوّع یا رنگا رنگی کا ہی نام دے سکتے ہیں۔ ان کے جتنے افسانے میری نظر سے گزرے ہیں، ان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اُن کے یہاں رنگا رنگ اور پُرتنوّع صورتِ حال ہمیں نظر آتی ہے۔ اچھا تو اب اس کی داد یہ ہوسکتی ہے کہ اُن کا افسانوی منظر نامہ بہت وسیع ہے یا یہ کہ کینوس بڑا یا لمبا یا چوڑا وغیرہ ہے۔ ظاہر ہے، اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ یہ بھی ایک بات تو ہے اور اس کی بھی داد افسانہ نگار کو ملنی چاہیے۔
تاہم کیا کسی فن کار کی فکری و فنی حیثیت محض اس نکتے کی بنیاد پر مسلّمہ ہوسکتی ہے کہ اس کے یہاں کینوس بہت وسیع ہے یا یہ کہ اُس نے بہت سے موضوعات کو چھوا ہے یا پھر یہ کہ اُس کے یہاں زندگی کے بارہ، بیس یا پچاس رنگ سمٹ آئے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ صرف و محض اس بنیاد پر کسی فن کار کے اصل منصب کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ دیکھنے کی جو بات ہے وہ تو یہ ہے کہ یہ سارے رنگ مل کر کیا شے بناتے ہیں۔ یعنی دو جمع چار ضرب پانچ تقسیم چھ – ان سب کا حاصل کیا نکلا؟ اصل میں یہ جو حاصل ہوتا ہے، یہ فن کار کے فن کی وحدت یا کلّیت کو بیان کرتا ہے۔ گویا وسعت یا لمبائی چوڑائی کے کوئی معنی نہیں اگر ان کے ساتھ گہرائی بھی ہمارے سامنے نہ آرہی ہو۔ رنگا رنگی کی داد یہ نہیں کہ فن کار نے آپ کی آنکھوں میں قوسِ قزح بھر دی بلکہ بات تو یہ ہے کہ ان رنگوں نے مل کر اُس رنگ کو آپ کے اندر جگایا کہ نہیں جو ظاہراً آنکھوں کے آگے موجود نہیں تھا۔ یہی وہ شے ہے جو فن کی دلیل بھی ہے اور اُس کا جواز بھی۔
عبداللہ جاوید کے افسانوں میں ’’میری بیوی‘‘ کو پڑھتے ہوئے میاں اور بیوی دونوں کے کردار اور اُن کی الگ الگ دُنیائیں جب ہمارے سامنے آتی ہیں تو ہم صرف اُن کے تضاد‘ ٹکراؤ اور تصادم ہی کو نہیں دیکھتے بلکہ وہ نکتہ ہماری نظر میں آجاتا ہے جہاں ہم انھیں باہم ہوتے، آپس میں ملتے اور ایک دوسرے کو Complimentکرتے ہوئے زندگی کے کُل میں ڈھلتے دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ’’اللہ میاں‘‘ نام کے افسانے میں باپ، سماج اور بچے کا کردار ہے۔ یا پھر ’’جہانِ دیگر کے راستے پر‘‘ بوڑھا اور دو ماہ کی بچی کا کردار ہے۔ ان سب کے رویّے، حالات، ان کو درپیش الگ الگ حالات اور متفرق بلکہ بسااوقات قطعی متضاد حقائق، ان کے اپنے اپنے دائرے میں زندگی کا تجربہ اور احساس کی نوعیت وغیرہ پر ہم غور کرتے ہیں تو یہ سب آپس میں متصادم نظر آتے ہیں، ایک ٹکراؤ کی سی کیفیت دکھائی دیتی ہے جیسے باہم درآویزاں لکیریں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوں۔ یہی تو سوچنے کی بات ہے کہ عبداللہ جاوید کے افسانوں میں کرداروں، حالات اور حقائق کی یہ لکیریں کیا صرف ایک دوسرے کو کاٹ کر یا ایک دوسرے سے کٹ کر رہ جاتی ہیں یا کہیں پہنچتی بھی ہیں؟ اور اگر پہنچتی ہیں تو یکسر متضاد سمتوں میں یا اس کٹاؤ کے عمل کے بعد کوئی ایک رُخ وہ مل کر اختیار کرلیتی ہیں؟ اپنے افسانوں میں عبداللہ جاوید نے اسی سوال کو جاننے اور اس کے جواب کو پانے کی جستجو کی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتِحال ان کے کا میاب ترین افسا نے ’وجود ‘ میں دکھا ئی دیتی ہے جس میں ایک دوسر ے کو کاٹتی ہوئی یہ لکیریں ، کاٹنے کے ساتھ ساتھ کسی خاص سمت کی جا نب بڑھتی ہوئی محسوس ہو تی ہیں۔
اصل میں ادب انسانی زندگی کے جس تجربے کو معرضِ بیان میں لاتا ہے وہ بظاہر کتنا ہی سادہ نظر آئے بباطن وہ سادہ یا اِکہر نہیں بلکہ پیچیدہ اور تہ دار ہوتا ہے۔ یہ فن کی بلندی اور فن کار کی ہنر مندی ہے کہ وہ اُسے پیش کرتے ہوئے چیستان بنانے کی بجائے حقیقتِ معلومہ کی سطح پر اور روز مرّہ محاورے میں بیان کردے۔ اس کے لیے اُسے کبھی تو نقطے کو پھیلا کر دائرہ بنانا پڑتا ہے اور کبھی پھیلے ہوئے دائرے کو نقطے میں سمیٹ کر دکھاناہوتا ہے۔ یہ فن کے تقاضے کا معاملہ ہے۔ عبداللہ جاوید فن اور اُس کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ادب کی مختلف اصناف میں جس قرینے سے انھوں نے اظہار کیا ہے، اُن کے پیشِ نظر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ انھیں ان تقاضوں کو بخوبی پورا کرنا آتا ہے۔
افسانے پڑھ کر مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ اپنے مغربی کرداروں اور اُن کی زندگی اور سماج کے حوالوں اور سوالوں کو موضوعِ اظہار بنانے کے باوجود عبداللہ جاوید کے افسانے ہمارے افسانوی مزاج سے مغائرت کا رشتہ نہیں رکھتے۔ ان کے فن کے اگر کچھ الگ اور مخصوص نشانات ہیں تو اِس کے ساتھ ہی ساتھ وہ اردو افسانے کی فکری و فنی فضا سے بھی مربوط ہیں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ انھوں نے بعض کردار بے شک مغربی دُنیا سے لیے ہیں یا بعض مسائل اور موضوعات ان کے یہاں ضرور مغرب سے آئے ہیں لیکن ان کے بیان میں عبداللہ جاوید کی توجہ ہر دو صورتوں میں اُس انسانی احساس پر رہی ہے جو زمینوں اور زمانوں کی مغائرت کا اسیر نہیں ہوتا ہے۔ یہ احساس دراصل انسانوں کو بانٹ کر نہیں بلکہ انھیں جوڑ کر ہمارے سامنے لاتا ہے۔ یہ کچھ وہی بات ہے جس کی طرف اوراقِ گزشتہ میں اشارہ کیا تھا کہ سارے رنگوں کو ملاکر ایک نیا رنگ بنانا۔
اب یہ سوال کرنا کہ عبداللہ جاوید صاحب نے افسانے کم کیوں لکھے؟ یا جو لکھے بھی سہی ان کی طرف ایسی بے نیاز کا انداز کیوں اختیار کیا کہ وہ اُس طور پر منظرِ عام پر نہ آسکے جس طرح انھیں آنا چاہیے تھا – اور پھر اس طرح کی گفتگو کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ انھوں نے اپنے تخلیقی جوہر کے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے یا یہ کہ اردو ادب کے ساتھ بڑی زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں کہ اپنی نگارشات کو جو ادبِ عالیہ کے شہ پارے ہیں، منظرِ عام پر نہیں لائے- میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی باتوں کے کوئی معنی نہیں ہوتے تھے۔ اگر کبھی ان باتوں کے کوئی معنی تھے بھی سہی تو آج بہرحال نہیں ہیں، کیوں کہ ایسی باتیں ہمارے یہاں ان لوگوں کے بارے میں بھی کہی جاچکی ہیں جن کا لکھنا یا نہ لکھنا برابر تھا (بلکہ نہ لکھنا ہی بہتر تھا)۔ چنانچہ اب تک عبداللہ جاوید صاحب کا اپنے افسانوں کے بارے میں جو بھی اندازِ نظر رہا ہو اور چاہے آئندہ جو بھی وہ سوچ رکھتے ہوں، انھیں ان افسانوں کو مرتّب بہرحال کرنا چاہیے۔ جو چند سرسری باتیں سطورِ گزشتہ میں ان کے افسانوں کی بابت کہی گئی ہیں وہ ادب کے ایک ادنیٰ قاری کے محض تاثرات کا درجہ رکھتی ہیں – جب کہ یہ افسانے اس سے زیادہ توجہ کے طالب ہیں اور!
امید ہے کہ اپنی مجموعی صورت میں جب وہ یکجا ہو کر سامنے آئیں گے تو سنجیدہ اہلِ نقد سے ضرور توجہ حاصل کریں گے اور خیال انگیز گفتگو کا باعث ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجِ صد رنگ پہلی مرتبہ ۱۹۶۹ء کے اواخر میں شائع ہوئی۔اس کی اشاعت میں میرا کوئی حصہ نہیں تھا۔ ۔ ۔ اشاعت کے کچھ عرصے بعدادارے نے اطلاع بھجوائی کہ کتاب کی نکاسی مکمل ہو گئی ہے لیکن جاوید صاحب تو جاوید صاحب ہیں،ان سے یہ بھی نہیں ہوا کہ دوسری اشاعت کے لیے دو لفظی خط لکھ دیتے۔بہر حال موجِ صد رنگ کی دوسری اشاعت(غیر معمولی تاخیر سے)نذرِ قارئین و ناظرین ہے۔اس کی اشاعت کے ضمن میں محبی صابر وسیم اور مُبین مرزا کے تعاون کی شکر گزار ہوں۔
(اقتباس: مجھے بھی کچھ کہنا ہے از شہناز خانم
مطبوعہ موجِ صد رنگ طبع دوم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مجھے بھی کچھ کہنا ہے) اس عنوان کے تحت میں نے حصارِ امکاں میں کچھ عرض معروض کیا تھا۔جاوید صاحب کا ذکر بھی آگیا تھا،اس سے گریز کرتے ہوئے یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ جاوید صاحب کے تساہل کی بنا پر موجودہ کتاب خواب سماں کیکی اشاعت میں بڑی تاخیر اور دقت پیش آئی۔بہر حال محبانِ گرامی صابر وسیم اور مبین مرزا کی اعانت اور عنایت نے اس بظاہر ناممکن کام کو ممکن بنا دیا۔حصارِ امکاں پرجن اصحابِ قلم نے تبصرے لکھے،مضامین تحریر کیے یا مکتوبات سے نوازا،ان کی تہہِ دل سے سپاس گزار ہوں۔مدیراںِ جرائد و اخبارات کی بھی ممنون ہوں کہ ان قدردانانِ گرامی قدر کے تعاون کے بغیر یہ سب ممکن نہ ہوتا۔توقع کرتی ہوں کہ خواب سماں اپنے پڑھنے والوں کے دلوں میں جگہ پانے میں ضرور کامیاب ہو گی۔
(مجھے بھی کچھ کہنا ہے از شہناز خانم مطبوعہ حصارِ امکاں)