عباس خان کا فکری سفر
کتاب’’سچ ‘‘کے حوالے سے
عباس خان ان ادیبوں میں شامل ہیں جو اپنے فکری سفر میں فلسفہ،سائنس ،مذہب اورادب
کے سارے دیاروں سے ہوتے ہوئے اپنی نامعلوم منزل کی جانب گامزن ہیں۔ان کی کتاب’’سچ‘‘ان کے ایسے ہی فکری سفرکی اب تک کی روداد ہے۔اسے پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ ہم فکری سطح پر ایک دوسرے سے خاصے قریب ہیں۔اس قربت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم میں فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔فکری
ہم آہنگی کی بعض لہریں بھی موجود ہیں لیکن اختلاف رائے کی بہت ساری گنجائشیں بھی سامنے آئی ہیں۔ ہمارے فکری قرب کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم دونوں اس دنیا اور اس کائنات کے سچ کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔اور اس سفر کے دوران ہم لگ بھگ ایک جیسے ہی دیاروں سے ہوتے ہوئے اُس عظیم سچ تک پہنچنے کا جتن کر رہے ہیں۔میں بنیادی طور پر عباس خان کی کتاب’’سچ‘‘کے مطالعہ کے بعد اس پر اپنے تاثرات لکھنا چاہ رہا ہوں لیکن اس فکری سفر میں عباس خان کے ہم رکاب ہوتے ہوئے مجھے اپنے فکری سفر کے جو مقامات یاد آئے ان کا ہلکا سا ذکر بھی برسبیل تذکرہ کرتاجاؤں گا۔
’’سچ‘‘کے ابتدائی صفحات میں ہی عباس خان نے اپنے فکری سفرکا رُخ متعین کر دیا ہے۔
’’انسانی اعمال و افعال کے پیچھے پانچ طاقتیں ہیں۔بنی نوع انسان کی تاریخ کو ان میں سے کسی ایک، دو، تین ،چاریابیک وقت سب کے زیرِ اثر کہا جا سکتا ہے۔یہ طاقتیں مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔مذہب
۲۔بھوک یا ذرائع پیداوار جن کی طرف کارل مارکس نے اشارہ کیا ہے۔
۳۔جنس جس کا شارح فرائیڈ ہے۔
۴۔خوف
۵۔لالچ یا خود غرضی
آخری دو کا نظریہ تھامس ہابز نے پیش کیا ہے۔
ان میں دو طاقتوں کا میں اضافہ کرتا ہوں۔یہ دو سچ اورموت ہیں۔موت کی بات علیحدہ کتاب میں کریں گے۔اس وقت سامنے صرف سچ ہے۔تمام انسانی اعمال و افعال کی تشریح سچ کی طرف رُخ کرکے کی جا سکتی ہے۔خود کو سچ پر جان کرانسان،انسان کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔‘‘(ص۶۔۷)
اس کے بعد عباس خان نے ول ڈیورنٹ اوربرٹرینڈ رسل کے ۱۹۳۱ء کے دو خطوط دئیے ہیں۔ول ڈیورنٹ نے سچ کی دریافت کو سب سے بڑا سانحہ قرار دیا ہے جبکہ برٹرینڈ رسل نے جواباََ لکھا کہ ’’ابھی تک
کوئی سچ دریافت نہیں ہوا۔‘‘(ص۹ تا ۱۱)
عباس خان نے سچ کی جستجو میں شروع میں ہی سقراط اور نیطشے کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔سقراط سچ کو اٹل قرار دیتا ہے جبکہ نیطشے کے بقول سچ اشخاص،مقامات اور زمانوں کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے۔(ص۱۳)
پھر اپنے سچ کی تلاش میں عباس خان نے خدا،کائنات اور انسان کو اپنی بحث کا بنیادی موضوع بنایا ہے۔ انسان کے حوالے سے انہوں نے انسان بذات خود،انسان جنس کے حوالے سے اور انسان بھوک کے حوالے سے، کی تخصیص بھی کر دی ہے۔ اپنے موضوع کے لیے دلائل اور حوالہ جات کے سلسلہ میں انہوں نے مذہب،فلسفہ،سائنس،تاریخ اور ادب کے ذرائع کو اہمیت دی ہے۔
’’سچ‘‘کو سمجھنے کے لیے عباس خان نے سب سے پہلے ’’جنسی جذبے‘‘(محبت)کو اہمیت دی ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر علی شریعتی کے ایک اہم اقتباس کو بنیاد بناتے ہیں۔اقتباس دیکھئے۔
’’انسان چار زندانوں میں مقید ہے۔زندان فطرت،زندان تاریخ،زندان جامعہ(زندان معاشرہ )
اورزندان ذات۔
زندان فطرت سے رہائی کا ذریعہ علم یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی(ہے)۔زندان تاریخ سے رہائی کا ذریعہ بھی علم ہے،یعنی تاریخ اور فلسفۂ تاریخ کا علم،زندان جامعہ(معاشرہ)سے رہائی بھی علم ہی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔یہ علم عمرانیات کا علم ہے۔لیکن زندان ذات سے رہائی علم کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔اگر انسان اپنی ذات کے زندان سے آزادی چاہتا ہے تو اس کا ذریعہ علم نہیں بلکہ عشق ہے۔‘‘(ص ۱۶)
اس اقتباس کے آخری نتیجہ کو پڑھتے ہوئے اپنا ایک شعر یاد آگیا۔
جس قدر ہوتا گیا تیری محبت کا اسیر
ذات کے زندان سے حیدر ؔرہا ہوتا گیا
مذکورہ بالا چار زندانوں کے ذکر کے ساتھ عباس خان لکھتے ہیں۔
’’انسان کا پہلا زندان فطرت ہے۔انسان فطرت کے سامنے بے بس ہے۔آب و ہوا،پہاڑ، دریا ، سمندر، جنگل، طوفان،فاصلے،موسم،اندھیرا،دلدلیں،کشش ثقل،مدوجزر،آسمانی بجلیاں،بارشیں اور درندے۔ وہ ان سے اتنا لرزاں رہا کہ ان کے سامنے سجدے میں گر گیا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے لیکن اب وہ اس زندان سے نکلنے میں کامیاب ہورہا ہے۔اب یہ سب اس کی حاکمیت تلے آتے جا رہے ہیں۔‘‘(ص۱۶)
دوسرے زندان یعنی زندان تاریخ کے حوالے سے عباس خان نے تاریخ کو تھوڑا سا کھنگالا ہے ۔ مختار مسعود کے ذریعے ٹائن بی کے حوالے سے طویل اقتباس درج کیے ہیں۔اس باب میں قرآن مجید کے حوالے بھی آتے ہیں اور علی عباس جلالپوری کا زاویۂ نگاہ بھی ایک موقف کے طور پر سامنے لایا گیا ہے۔اور پھرعباس خان یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔
’’تاریخ اور اس کے فلسفے کو سمجھ کر انسان تاریخ کے زندان سے باہر نکل رہا ہے۔ممکن ہے کہ ایک دن مکمل طور پر اس سے نکل آئے۔‘‘(ص۴۷)
تیسرے زندان کے بارے میں عباس خان لکھتے ہیں۔
’’تیسرازندان معاشرے کا ہے۔اسے عشاق کی زبان میں ظالم سماج کہتے ہیں۔اس قید خانے کی نشان دہی آغاز ہی میں ارسطونے کر دی تھی۔اس نے کہا کہ انسان ایک معاشرتی جانور ہے اور یہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔اس قید خانے نے انسان کو اس پریشانی سے دوچار کیا کہ سپہ گری جیسا پس منظر رکھنے والاغالبؔ بھی جس سے یوں فرار چاہتا ہے۔
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
۔۔۔۔معاشرے کی پابندیوں کے خلاف جنہوں نے آواز اُٹھائی یا تو ہیرو بن گئے یا راندۂ درگاہ (ہو)گئے۔۔۔۔علم عمرانیات کی رو سے انسان سماج کے شکنجوں سے نکل رہا ہے۔وہ بتدریج ان بندھنوں کو ختم کردے گا جنہوں نے بتدریج اس کو اپنے میں محصور کیا۔‘‘(ص۴۷۔۴۸)
انسان کے چوتھے زندان،زندان ذات کے بارے میں عباس خان لکھتے ہیں۔
’’یہ زندان باقی سب سے زیادہ گھناؤنااور تکلیف دہ ہے۔خود سے چھٹکارا پانا بے حد مشکل کام ہے۔انا،خودغرضی،لالچ،حسد،لذت پرستی،جاہ طلبی،املاک اور اولاد کی محبت،غصہ، نفرت، خوف اور بھوک اس پر اس طرح مسلط ہیں جس طرح زندگی۔۔۔۔۔۔۔دنیا کا کوئی علم،کوئی پولیس،کوئی عدالت اور کوئی ڈاکٹرانسان کواس کی ذات کے قید خانے سے رہائی نہیں دلا سکتا۔ ذات کے زندان سے رہائی صرف اور صرف عشق دلا سکتا ہے۔عشق میں تو انسان اپنے عقائد،اپنی خواہشات،اولاداور مال و متاع تو کیا اپنی جان تک قربان کر سکتا ہے۔‘‘(ص۴۸)
پھر عشق کے بیان میں عباس خان میراں کے کرشن کے تصور سے عشق،اورلیلیٰ و مجنوں کے عشق سے ہوتے ہوئے عشق کے بارے میں مغربی مفکرین کی آراء درج کرتے ہیں۔اور بات فرائیڈ تک پہنچتی ہے۔مغربی مفکرین میں ایک نام مانتین کا ہے۔ان کی رائے میں عشق کیا ہے،انہیں کے الفاظ میں دیکھئے۔
’’عشق محض ادعیۂ منی کو خالی کرنے کی لذت کا نام ہے۔جس طرح ہم ادرار بول سے اپنا مثانہ خالی کرتے وقت یا رفع حاجت کے وقت بڑی انتڑیوں کے خالی ہونے سے تسکین محسوس کرتے ہیں،اسی طرح ادعیۂ منی کو خالی کر دینے میں ہمیں ایک گونہ حظ محسوس ہوتا ہے۔قدرت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے لئے لذت اور غلاظت کو ایک ہی جگہ جمع کردیا ہے۔‘‘(ص۔۵۷)
مانتین نے لطافت و کثافت کو لازم و ملزوم کی طرح بیان کیا ہے۔اس کا پہلا پرت دیکھا جائے تو جس مادہ(نطفہ) سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے،اسے عمومی طور ہمارے ہاں ناپاک سمجھا جاتا ہے۔اب اگر ایک ناپاک قطرے سے وجود پانے والا انسان پاکیزگی اور طہارت کی بات کرے تو اسے کیا کہا جائے؟ بات صرف یہیں تک نہیں رہتی۔روح جو روحانیت کے سفر پر گامزن ہوتی ہے،اس کا قیام بھی اسی نطفہ میں ہی ہوتا ہے۔یہ عقیدہ پہلے سے موجود ہے کہ روح ایک لطیف نور ہے جو نطفہ کے اندرموجود ہوتی ہے اور جسم کی نشوونما کے ساتھ یہ بھی مستحکم ہوتی چلی جاتی ہے۔اس عقیدہ کی آج کے دور کے کلوننگ کے کامیاب تجربہ نے سائنسی تصدیق بھی کر دی ہے۔تو پھر نطفہ کے قطرات جو روح کے نور کو اپنے اندر سنبھالے ہوئے ہیں،انہیںناپاک کیسے کہا جا سکتا ہے؟جبکہ دوسری طرف اس کے انزال کے بعد غسل طہارت واجب ہے۔
شایدلطافت میں سے کثافت کو اور کثافت میں سے لطافت کو نکلتے رہنا ہے۔اس سلسلہ میں قرآن شریف کی سورہ النحل آیت ۶۶ کے ارشاد کے مطابق:
وانّا لکم فی الانعام لعبراۃ۔۔۔۔لبناََ خالصاََ سآ ئِغاََ للشٰربین۔
تمہارے لیے جانوروں میں سوچنے کا مقام ہے کہ ہم نے ان کے پیٹ میں گوبر اور خون کے درمیان میں سے دودھ کی دھاریں نکال دی ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہیں۔
لطافت و کثافت کے بیان میں میرا ذہن ان امور کی طرف چلا گیا تو مناسب لگا کہ یہاں ان کا کچھ ذکر کردیا جائے۔خیر بات ہورہی تھی عباس خان کے فکری سفرکی۔
مغربی مفکرین سے گزر کر یونانی مفکرین کی باری آتی ہے۔فارسی شعراء کے فکرانگیز اشعار بھی یہاں ملتے ہیں۔ تاہم جب جوش ملیح آبادی اور ممتاز مفتی اس حصہ میں آتے ہیں تو لگتا ہے موضوع اپنی سنجیدگی سے باہر آگیا ہے۔جوش ملیح آبادی کی شہرت ان کے فرضی معاشقوں اور چند ایک حقیقی معاشقوں میں ڈھیر ساری رنگ آمیزی کے سوا کچھ نہیں ہے۔زبان و بیان پر دسترس اور قدرت رکھنا الگ خوبی ہے تاہم عشق کے باب میں جوش کو سنجیدگی سے لینا مناسب نہیں لگتا۔ممتاز مفتی کے ہاں اس موضوع پر اہم اقتباس مل سکتے ہیں لیکن جو اقتباس درج کیا گیا ہے وہ کوئی علمی یا فکری نکتہ پیش نہیں کرتابلکہ کسی مزاحیہ مضمون کا اقتباس لگتا ہے۔فرماتے ہیں۔
’’محبت میں چار مرحلوں سے گزرنا ضروری ہے ورنہ آپ کے کردارکی تکمیل نہیں ہو گی۔
۱۔کسی سے ٹوٹ کر محبت کرنا۔
۲۔کامیابی ایسی کہ محبوب دل و جان سے تمہیں اپنا لے،تخت پر بٹھا کر مور چھل کرے۔
۳۔پھر لات مار کر تخت کے نیچے گرادے،تذلیل کرے۔
۴۔اور آخر میںآپ محبوب سے بے نیاز ہو جائیں۔زخم مندمل ہو جائے،یوں جیسے کبھی لگا ہی نہ تھا۔‘‘
(ص ۵۷۔۵۸)
میں نے اپنے افسانہ’’روشن نقطہ‘‘میں عربی کی ایک روایت سے عشق کے چار مراحل درج کیے تھے۔
’’محبت کے چار سفر ہیں۔کامیابی کے لئے یہ سفر ضروری ہیں
محب سے محبوب کی طرف۔محبوب سے محب کی طرف
محب سے محب کی طرف۔ محبوب سے محبوب کی طرف‘‘
یہ یک طرفہ محبت سے دو طرفہ محبت ہو کرپھر’’ رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے ای رانجھا ہوئی‘‘کا مقام ہے۔
لگتا ہے ممتاز مفتی نے اس کی پیروڈی لکھ دی ہے۔
عشق کے بارے میںمختلف مفکرین کی آراء دینے کے بعد عباس خان نے دومثالیں عملی زندگی سے دی ہیں۔کنہیا لال گابا(کے ایل گابا)انڈیا کے معروف بیرسٹر،صحافی اور پھر بزنس مین رہے ہیں۔ان کی خود نوشت سوانح عمری کا ایک طویل حصہ اس میں شامل کیا گیا ہے اور یہ کافی غورطلب اور دلچسپ حصہ ہے۔انہوں نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں۔تینوں عورتیں مسلمان تھیں۔انہوں نے اپنے خاندان سے،اپنے سماج سے ٹکر لی۔ شدیدمشکلات سے گزرے لیکن عشق کی دھن میں شادی تک پہنچے۔ پہلی بیوی حسن آراء سے تین بچے ہوجانے کے باوجوداٹھارہ سال کے بعد علیحدگی ہو گئی۔ دسری بیوی سرور جو پہلے مخدوم غلام میراں شاہ(آف بھاولپور،صادق آباد) کی بیوی تھیں۔اور ان کے دو بچے رانی اور حسین بھی مخدوم صاحب سے تھے۔سرور کو جب مخدوم غلام میراں شاہ نے اپنے پاس بلایا تو وہ کے ایل گابا سے طلاق لے کرمخدوم صاحب کے دونوں بچوں سمیت ہندوستان سے پاکستان چلی گئیں۔ یہ جدائی ۲۶اپریل ۱۹۵۱ء کو ہوئی۔ کے ایل گابا کی تیسری شادی شجاعت النساء سے ہوئی۔اس روداد سے ظاہر یہ ہوا کہ جن شادیوں کے لیے انسان اپنا ایمان اورخاندان تک چھوڑنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔سماج سے ٹکراکر ہر طرح کی مصیبتیں سہتا ہے۔لیکن عشق میں کامیابی کے بعد پھر طلاق ہو جاتی ہے۔
دوسری مثال ظہیر مسانی کی کتاب سے لی گئی ہے۔اس میں ایک ہندو خاتون اور پارسی مردکے عشق کی داستان ہے جو خاندان اور سماج سے ٹکر لے کر کامیاب ہوئی مگر بعد میں تباہی کا شکار ہو گئی۔
ایسے واقعات درج کرنے کے بعد عباس خان لکھتے ہیں۔
’’عشق و محبت کے بارے میں ارباب بصیرت اور ارباب دل کے مشاہدات و تجربات آپ نے دیکھ لئے۔کیا ان سے ثابت ہوتا ہے کہ عشق و محبت اٹل سچائیاں ہیں؟۔قطعاََ نہیں۔‘‘(ص۸۸)
فرداور معاشرے کی کشمکش کو ایک الگ باب میں بیان کرتے ہوئے عباس خان نے زمین پر برف کے زمانے سے شروع ہو کر پتھر کے ادوار تک جائزہ لیا ہے۔زرعی معاشرے کے قیام و استحکام سے ہوتے ہوئے آج کے زمانے تک پہنچتے ہیں۔اس سے اگلے باب میں کرۂ ارض کی تخلیق کے نظریات پر بات کرتے ہوئے تاریخ کو ادھر ادھر سے الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں۔مختلف مذہبی و دیگر فکری تحریکوں سے متعارف کراتے ہیں۔یہاں ابن رشد اور ابن خلدون سے بھی ملاقات ہوتی ہے۔اس سلسلہ میں عباس خان نے دھرتی پر زندگی کی ابتدا کا کھوج لگانے کی بھی کاوش کی ہے۔کچھ ڈارون کے خیالات کے حوالے سے اور کچھ مختلف مذاہب کے تصورات کی رو سے۔اس سے اگلے باب میں مرد اور عورت کی تفریق کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔اس سلسلہ میں جدیدفیمینزم تحریک تک بات ہوئی ہے۔
یہاں اپنی ایک غلطی کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔میں نے اپنے سفر نامہ’’سوئے حجاز‘‘میں لکھا تھا کہ گلیلیو اپنی سائنسی سچائی کے باوجود جھوٹا اور بے ایمان قرار پایا تھا۔اس نے جان بچانے کے لئے معافی نامہ بھی لکھ دیا لیکن اس کے باوجود اسے سزائے موت دے دی گئی۔میں اس بات کو ایسے ہی سمجھتا تھا لیکن اب ’’سچ‘‘کے مطالعہ کے دوران معلوم ہوا کہ گلیلیوکو سزائے موت دینے کے بجائے گھر پر نظر بند کردیا گیا تھا اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی تھی۔عباس خان کے شکریہ کے ساتھ میں اپنی غلطی اور اپنے مغالطہ کو یہاں درست کرتا ہوں۔
اگلے باب میں فلسفے کے حوالے سے سچ کو جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔علم الاعدادکی کرشمہ سازی کی ایک جھلک بھی دکھائی گئی ہے۔یونانی فلسفیوں سے لے کر کانٹ،ڈیکارٹ ،ہیگل سے ہوتے ہوئے دوسرے مغربی مفکرین تک کی فکریات کے ذریعے فلسفہ کو چھاناگیا ہے۔اس میں ایک طرح سے یونان سے لے کر اب تک کے سارے فلسفیانہ نشیب و فرازکا مختصر ترین خلاصہ آگیا ہے۔اگلے صفحات پر عباس خان نے کائنات کی معرفت اور انسان کی خود شناسی کو فلسفے،مذہب اور سائنس کا آغاز قرار دیا ہے۔اور پھر آج کی تازہ ترین سائنسی پیش رفت کے طور پر ہگز بوسون(گاڈ پارٹیکل)کا ذکر بھی کرتے ہیں۔تاہم یہ بہت ہی سرسری سا ذکر ہے ۔میں اپنی تفہیم کے مطابق اس تجربہ سے منسلک ایک دو اہم نکات کوبھی یہاں درج کردینا چاہتا ہوں۔یہ اقتباس میرے ایک مضمون سے لیا گیا ہے۔
’’ مذکورہ سب پارٹیکل کو’’گاڈ پارٹیکل ‘‘نام دے کر سائنس دانوں نے مجھ جیسے ’’نان سائنس‘‘ بندے کے لیے سہولت فراہم کر دی۔مجھے ایسے لگتا ہے کہ یہ سب پارٹیکل مذہبی زبان میں حکمِ خداوندی تھا،وہ آیااور اس کا آنا’’کُن‘‘ کا اعلان تھا۔چنانچہ اس کے ساتھ ہی سترہ میل لمبی دائرے کی شکل میںبے حد محدود سطح کا سہی لیکن تخلیقِ کائنات کا منظر ایک بار پھر دہرادیا گیا۔
کُن کا اک لفظ اسیروں پہ کہیں سے اترا
آسماں ہو گئے تخلیق قفس کے اندر
عجیب اتفاق ہے کہ ۲۰۰۳ء میں سوئٹزرلینڈ میںوہ سرنگ بننا شروع ہوئی ،جس میں یہ تجربہ کیا گیا ۔ تب میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا کوئی تجربہ ہونے جا رہا ہے،لیکن اُسی برس ایک غزل ہوئی جس میں میرا یہ شعر بھی شامل تھا۔یہ حسنِ اتفاق میرے لیے ذاتی مسرت کا باعث ہے۔
ایک بھارتی خاتون سائنس دان نے جو اس سارے منظر کو دیکھنے والوں میں شامل تھیں، بعد میں کہا کہ ’’گاڈ پارٹیکل‘‘ہمیں دوبارہ دکھائی نہیں دیالیکن ہم اسے ڈھونڈ رہے ہیں۔اس کی مثال ایسے ہے جیسے ہم کسی کھیت میں کوئی سوئی تلاش کر رہے ہوں۔لیکن چونکہ اس کی ہستی ہے، اس لیے ہم اسے ڈھونڈ رہے ہیں،چاہے اس میں کتنا وقت ہی کیوں نہ لگ جائے۔
’’گاڈ پارٹیکل‘‘ کی صورت میں ایک ہلکی سی جھلک دکھائی دی ہے تو ہمارے عظیم سائنس دان بھی ،اپنی اصطلاحات کے دائرے میں رہتے ہوئے سہی خدا کی تلاش میں نکل کھڑے ہیں۔ مجھے تو یہ سارے سائنس دان اس وقت کے صوفی لگنے لگے ہیں۔ نام اور نوعیت کے فرق کے باوجود جستجوئے الہٰی کا یہ جذبہ اپنی جگہ دلچسپ بھی ہے اور حیران کن بھی۔سائنس دانوںکی پہلی کوشش یہ ہے کہ گاڈ پارٹیکل کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکے کہ مادے کو حجم کیسے ملا؟پھر مادے کو توانائی اور توانائی کو مادے میں تبدیل کرلینے کا کوئی آسان رستہ تلاش کرنا مشکل نہ رہے گا۔
یہاں تک لکھتے ہوئے میں سچ مچ حیرت اور خوشی سے بھر گیا ہوں۔اگر مذکورہ کامیابیاں حاصل ہو گئیں تو سامنے کی بات یہ ہے کہ سچ مچ میں روشنی کی رفتار سے سفر کرنا ممکن ہو جائے گا۔یہ روشنی کی رفتار سے سفر کر سکنے کی بات مذہبی عقائد اور قصے کہانیوں سے ہوتی ہوئی عملی صورت اختیار کرنے کے قریب آگئی ہے۔لا تنفزون الا بسُلطٰن ۔ تم’’ سلطان‘‘کے بغیر زمین و آسمان کے کناروں سے نہیں نکل سکتے۔
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
(مضمون’’ادب،سائنس اور الہٰیات‘‘از حیدرقریشی۔بحوالہ ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘۔ص ۴۷۶۔۴۷۷)
عباس خان اپنی کتاب’’سچ‘‘میں سلسلۂ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے مذاہبِ عالَم پر نظر ڈالتے ہیں۔ہندومت،بدھ مت،جین مت،سکھ مت،مجوسیت،شنٹو مت،تاؤ مت،یہودیت، مسیحیت، اور اسلام کے بارے میں مختصر تعارف کرایا گیا ہے۔ان مذاہب کی تعلیمات کا بھی ہلکا سا ذکر کیا گیا ہے۔
مذاہب کی دنیا سے آگے چل کر عباس خان نے’’ زندگی کے ہر شعبے میں سچ سے متعلق تضادات‘‘ کو بیان کرتے ہوئے ادب کے شعبے میں اپنا اپنا سچ منوانے کی جنگ کی بات ہے۔ایڈگر ایلن پو،بادلئیر،حافظ شیرازی،غالب اور سعادت حسن منٹو کی شہرت کے نشیب و فراز کے اشارے دئیے گئے ہیں۔اس سے آگے چلتے ہیں تو ماضی و حال میں جھانکتے ہوئے علوم و فنون کے منفی کردارکا ذکرکرتے ہیں۔روسو کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’علوم و فنون کا منبع گناہ اور بدی ہے۔مثلاََ فلکیات کی ابتدا توہمات سے ہوئی۔فصاحت و بلاغت کی ابتدا چاپلوسی،چالبازی،نفرت اور خواہشات سے ہوئی۔ریاضی نے لالچ سے اور طبیعات نے فضول حیرت سے جنم لیا۔جبکہ اخلاقیات کا منبع غرور ہے۔مختصر یہ کہ ہر علم کی ابتدا برائی سے ہوئی ہے۔علوم کا مقصد بھی گھٹیا ہے۔۔۔۔اس سے دولت کی ہوس بڑھتی ہے اور سماجی وقار کی عمارت اخلاقی بنیادوں کے بجائے معاشی بنیادوں پر کھڑی کی جاتی ہے۔‘‘(ص۔۱۷۷)
روسو نے جو بات اکھڑپن کے ساتھ درشت انداز میں کہی ہے اسے ہمارے صوفی شاعر بڑے آرام سے اور رسان سے یوں بیان کر چکے ہیں۔
علموں بس کریں او یار اکو الف تیرے درکار
اور پھر الف کو بھی زیادہ سمجھا جاتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے۔
اک نقطے وچ گل مکدی اے
پھڑ نقطہ، چھوڑ حساباں نو ں کر دور کفر دیاں باباں نوں
چھڈ دوزخ،گور، عذاباں نوں کرصاف دلے دیاں خواباں نوں
گل ایسے گھر وچ ڈھکدی اے اک نقطے وچ گل مکدی اے
دراصل یہ حضرت علیؓ کے اس فرمان کا عکس ہے۔’’علم ایک نقطہ تھا جسے جاہلوں نے بڑھا دیا ہے۔‘‘
مزید آگے چل کر عباس خان نے ایک طرف مذہب کے مثبت کردار کی تعریف کی ہے مگر ساتھ ہی مذہب کا فرقوں میں تقسیم ہو کر ہر فرقے کی جانب سے مذہب پر اجارہ داری کے منفی رویے کی نشان دہی کی ہے۔ انہوں نے مذاہب کے حوالے سے رابندر ناتھ ٹیگور کا ایک عمدہ اقتباس پیش کیا ہے۔
’’انسان مذہب کے لئے اپنا مال لٹا دے گا،اپنی جان دے دے گااور جنگیں لڑے گالیکن مذہب کے مطابق زندگی بسر نہیں کرے گا۔‘‘(ص ۱۸۲)
شاید مجھے بھی اس حقیقت کا کچھ کچھ ادراک ہونے لگا تھا جب میں نے اپنے انشائیہ’’اپنا اپنا سچ‘‘ میںیہ لکھا تھا۔
’’ شاید یہ معاملہ کچھ ایسے ہی ہے کہ جب کوئی خود کو سچا کہتا ہے تو گویا اپنے خوبصورت ہونے کا اعلان کرتا ہے لیکن پھر ساتھ ہی دوسروں کو بدصورت بھی قرار دیتا ہے۔ اصولاً کسی کو اپنی خوبصورتی کے ثبوت کے لئے دوسروں کی بدصورتی کو نمایاں کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ اگر آپ خوبصورت ہیں تو کسی کی بدصورتی کی نشاندہی کئے بغیر بھی آپ خوبصورت ہیں، لیکن اگر آپ بدصورت ہیں تو بے شک سارے جہان کی بدصورتی ثابت کردیجئے اس سے آپ کا خوبصورت ہونا ثابت نہیں ہوسکے گا۔ چونکہ ہم اصلاًسچائی کی بات کر رہے ہیں اس لئے مختلف گروہوں اور افراد کی سچائیوں کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہے اور ہر کسی کو اپنے اپنے سچ کی حفاظت کرنی چاہئے۔ نظریاتی سچ کی حفاظت نظریات پر عمل پیرا ہونے سے ہوتی ہے۔‘‘
کتاب کے آخر تک آتے آتے عباس خان نے اپنے معاشرے کی مروجہ سچائیوں کو عمدگی کے ساتھ بے نقاب کیا ہے۔آپ لکھتے ہیں۔
’’ادھر انسانی آبادی میں اضافہ طوفانی شکل اختیار کر چکا ہے۔صفائی اور معاشرتی نظم و ضبط کا فقدان ہے۔تعلیم برائے نام ہے۔قانون کے خلاف کام کرنا سب سے بڑی بہادری سمجھا جاتا ہے۔امن عامہ کا تصور صرف کتابوں میں ملتا ہے۔رشوت،اقربا پروری،خوردبرد،ذخیرہ اندوزی،ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ بنیادی حقوق بن چکے ہیں۔جمہوریت کا مطلب ہے ہر شے پر چاہے نجی ہے چاہے سرکاری،ڈاکہ زنی۔عورت پاؤں کی جوتی ہے۔تکبروغروربڑائی کی دلیل ہیں۔مذہب کو مذہب کے نام پر مجروح کیا جاتا ہے۔وقار بدمعاشی سے حاصل ہوتا ہے۔مغربی ممالک کی آسائشوں کی طرف حسرت سے دیکھنا۔وہاں رہائش کے لئے سردھڑ کی بازی لگا دینا۔وہاں کی رہائش کو ترقی کی معراج سمجھنا۔
کچھ سچائیاں مشترکہ ہیں۔ایک دوسرے کا خو ف ،جنگیں،اسلحے کی دوڑ،ملکی مفادات،اقلیتوں کی بد حالی، تہذیبوں کا ٹکراؤ،منشیات،عورتوں کا غیر اخلاقی مقاصد کے لئے اغوا،قزاقی،کمزور کے ذرائع پر بے جا تصرف،سیاسی پناہ،غیرقانونی انتقال آبادی،سرحدی تنازعات،نسلی امتیاز،معاشی ناکہ بندی،گمراہ کن اشتہار بازی اور جاسوسی۔
سچ شخصی ہے،خاندانی ہے،قبائلی ہے،قومی ہے اور بین الاقوامی ہے۔سچ لمحاتی ہے،ایک دن کے لئے ہے،ایک ہفتے کے لئے ہے،ایک ماہ کے لئے ہے،ایک سال کے لئے ہے اور بغیر مدت کے ہے۔انسانی فطرت کے سامنے یہ یوں آیا اور یوں گیا۔
جھوٹ نے سچ کا روپ بھی دھارا ہے۔محبت کرنے والوں میں یہ فن کہلاتا ہے۔وکلاء کے لئے پیشہ اور سیاست دانوں کے لئے ضرورت۔اداروں کے سربراہ اسے انتظام کا نام دیتے ہیں اور ماتحت اسے بہانہ کہتے ہیں۔۔۔۔مزید براں کسی وقت اور کسی مقام پر ایک کا سچ دوسرے کے لئے جھوٹ کا درجہ رکھتا ہے یا جھوٹ سچ کا۔اب تو خود انسان کا بھروسہ نہیں۔اس کی سرشت اور تشخیص خطرے میں ہے۔جینز کے شعبے میں کام کرنے والے سائنس دان اسے کچھ سے کچھ بنا سکتے ہیں۔‘‘(ص ۲۰۱۵۔۲۰۱۶)
سچ کو سمجھنے کے لیے ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔یہاں پہلے اپنے انشائیہ’’یہ خیروشر کے سلسلے‘‘سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔
’’میرا اپناخیال ہے کہ ہر سچ میں کچھ نہ کچھ جھوٹ اور ہر جھوٹ میں کچھ نہ کچھ سچ ضرور ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص تاروں بھرا آسمان دیکھ کر کہے کہ میں اس وقت آسمان پر موجود اتنے سارے ستارے دیکھ رہاہوں، تویہ بات بالکل سچ ہوگی۔ اس کے باوجود اس میں غیرارادی جھوٹ بھی شامل ہوگا۔ کیونکہ حقیقتاً جن ستاروں کی روشنی ہم تک پہنچ رہی ہوتی ہے وہ اس وقت کی نہیں ہزاروں برس پہلے کی ہوتی ہے۔ ۔۔۔ مکمل سچائی تو صرف خدا تعالیٰ کی ہستی ہے۔ باقی سب جزوی سچائیاں ہیں اس لئے اپنے جزو پر نازاں ہو کر کسی دوسرے پر انگلی اٹھانے والے کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسی وقت اس کی اپنی باقی ساری انگلیاں خود اُسی پر اٹھی ہوتی ہیں۔‘‘
اور اب اپنے انشائیہ ’’اپنا اپنا سچ‘‘کا اختتامی اقتباس پیش کردیتا ہوں کہ اس میں پہلے انشائیہ والی بات کی توسیع موجودہے۔
’’سچی بات یہ ہے کہ ہر نظریہ ایک جزوی سچائی ہے۔ کامل سچائی صرف اور صرف وہ حقیقتِ عظمیٰ ہے جو خالقِ کائنات ہے۔ جو اس کائنات میں جاری و ساری بھی ہے اور اس سے باہر بھی ہے جو ہر شے پر محیط ہے۔ اس کامل سچائی کا اپنی اپنی بساط کے مطابق صرف اندازہ کیا جاسکتا ہے، احاطہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ لامحدود ہے۔ جب ایک بوند روشنی کامالک جگنو سورج کی اصل تپش کا اندازہ نہیں کرسکتا اور ایک قطرہ سمندر کی وسعت اور گہرائی کا ادارک نہیں کرسکتا تو ہم سارے انسان اس عظیم ہستی، اس لامحدود سچائی کا ادراک کیسے کرسکتے ہیں جس کے لئے کامل سچائی کا لفظ بھی نامکمل لگتا ہے۔‘‘
کتاب کے آخر میں عباس خان نے مختلف نوعیت کے بارہ سوال اُٹھائے ہیں۔یہ ایسے سوالات ہیں کہ ان پر اپنا موقف دینے کے لئے پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔شاید عباس خان کا کوئی اور قاری یہ ہمت کر گزرے۔یہاں پہلے ان کادرج کردہ آخری سوال پیش کررہا ہوں۔
’’ ۱۲۔ کیا اقوام متحدہ کو ایک مقتدر عالمی پارلیمنٹ میں نہیں بدلا جا سکتا؟‘‘(ص۔۲۲۲)
انڈیا اور پاکستان نے جب ایٹمی دھماکے کئے تھے،تب میں نے ایٹمی جنگ کے بعد کی فضا کے موضوع پر لکھے ہوئے اپنے تین افسانے ، اپنے پیش لفظ کے ساتھ ’’ایٹمی جنگ‘‘کے عنوان سے شائع کردئیے تھے۔یہ افسانے’’حوا کی تلاش‘‘(مطبوعہ ۱۹۸۱ء)،’’گلاب شہزادے کی کہانی‘‘(مطبوعہ ۱۹۸۲ ء ) اور ’’کاکروچ‘‘(مطبوعہ ۱۹۹۲ء)تھے۔یہ مختصر سی کتاب اردو اور ہندی دونوں اسکرپٹس میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے پیش لفظ کا آخری حصہ یہاں درج کرتا ہوں کہ اس میں بالواسطہ طور پر عباس خان کے بارھویں سوال پر میرا موقف کافی حد تک بیان ہوگیا ہے۔
’’انڈیا اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے سیاسی پس منظر سے قطع نظر، میرے لیے یہ نئی صورتحال قدرے اطمینان کا موجب بن رہی ہے کہ دونوں طرف یہ احساس ہونے لگا ہے کہ کسی ایک کی ہلاکت کا مطلب لازمی طور پر دوسرے کی بھی ہلاکت ہے۔اس بات کو اچھے انداز میں کہا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کا جینا مرنا اب ساتھ ساتھ ہے۔غور کریں تو یہ ساتھ جینا اور ساتھ مرنا تو محبت کا مقام ہے۔تو پھر کیوں نہ ہم سب مل کر محبت کے اس مقام کو پہچانیں!
انسان کی انسان سے محبت کو صرف برِ صغیر تک ہی کیوں محدود رکھا جائے۔کرّۂ ارض ،اس بے پناہ کائنات میں ایک بے حد چھوٹی سی دنیا ہے۔اس دنیا میں ساری جغرافیائی اکائیاں اپنی اپنی جگہ ایک سچ ہیں۔لیکن کرّۂ ارض خود ایک بڑی جغرافیائی اکائی بھی ہے۔اس دھرتی کے سارے انسان اپنے قومیتی،علاقائی اور مذہبی تشخص کے ساتھ۔۔۔اپنے اپنے تشخص کو قائم رکھتے ہوئے پوری دھرتی کو ایک ملک بنا لیں اور اس ملک کے باشندے کہلانے میں خوشی محسوس کرنے لگیںتو شاید ایٹمی جنگ کے سارے خطرات ختم ہو جائیں۔لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟
پوری دھرتی کو ایک ملک بنانے کا خواب اور وحدتِ انسانی کی آرزو شاید بہت دور کی منزل ہے۔یہ دوری قائم رہے یا ختم ہوجائے، اس کا انحصار تو ساری دنیا کے ملکوں کے باہمی اعتماد اور یقین پر ہے۔ایک عام آدمی کے لیے شاید یہ کسی دیوانے کا خواب ہو،پھر بھی آئیے ہم سب مل کر دعا کریں۔
دنیا میں محبت کے فروغ کی دعا!
دھرتی پر نسلِ انسانی کے قائم رہنے کی دعا!‘‘
اب اس وقت کا امکانی سچ یہی دکھائی دیتا ہے کہ انسان یا تو ایٹمی جنگ کا شکار ہو کرپتھر کے دور میں واپس جانے والا ہے یا پھر خلائی دورمیں جانے والا ہے۔اگر گاڈ پارٹیکل سائنسی سطح پر ہاتھ آگیا تو روشنی کی رفتار سے سفر کرناممکن ہو جائے گا۔سقراط اور نیطشے نے سچ کے بارے میں جو متضاد آراء دی ہیں،مجھے لگتا ہے دونوں باتیں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔
؎ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
ثبات والا رُخ سقراط کے سچ کا اٹل ہونا درست قراردیتا ہے تو تغیر کی حقیقت نیطشے کے ’’افراد، مقامات اور زمانوں کے ساتھ بدلنے والے سچ‘‘کی تصدیق کرتی ہے۔
میں عباس خان کا شکر گزار ہوں کہ ان کی فکرانگیزکتاب ’’سچ ‘‘کے مطالعہ نے مجھے فکری طور پر متحرک کیا،مزید غوروفکر کی طرف مائل کیا۔
یہ غوروفکر ابھی جاری ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر ۲۵۔دسمبر۲۰۱۶ء ۔عباس خان نمبر۔