(Last Updated On: )
ابا کی روانگی کے بعد ہم لوگوں نے اپنی وفا داریاں بدل لی تھیں اور ہماری زبان کے سبب کوئی ہم پر انگلی اٹھا نہیں سکتا تھا۔ لیکن ماں نے بہت جلد فیصلہ کر لیا کہ ہمیں اپنا پیدائشی ملک واپس لوٹ جانا چاہئے۔ شاید وہ روز روز کے خون خرابے سے تنگ آ گئی تھیں۔ شاید انھیں ڈر تھا کہ یہ ملک ہمیشہ انھیں میرے باپ کی یاد دلاتا رہے گا جس پر یہ الزام آسانی سے اور جائز طور پر لگایا جا سکتا تھا کہ وہ پاکستانی فوج کے مخبر تھے۔ میری پڑھائی رک چکی تھی اور کسی نے میرے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ ہم تو بس اس نئے نویلے ملک میں تھوڑے دنوں کے مہمان تھے۔ مگر ماں کو یہ فیصلہ لینے میں دو سال لگ گئے۔ شاید کوئی بھی فیصلہ اکیلے لینے میں وقت لگ جاتا ہے۔ شاید اپنے دل کے کسی گوشے میں اب بھی انھیں اس سمندری ڈاک کا انتظار تھا جو ایک تیسرے ملک کا دروازہ ہمارے لئے کھولنے والا تھا اور وہ اپنے ٹھکانے سے ہٹنا نہیں چاہ رہی تھیں۔ لیکن آخر کار وہ دن آ ہی گیا۔ اور پھر ہزاروں لوگوں کی طرح جو چوری چھپے اپنا وطن واپس لوٹ رہے تھے جسے انھوں نے ایک دہائی قبل چھوڑنے کی غلطی کی تھی ہمیں بھی غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کا موقع مل گیا۔ ’’یاد رکھو ارسلان۔۔۔‘‘ ماں نے اسباب باندھتے ہوئے کہا۔ ’’تم اپنے وطن واپس لوٹ رہے ہو۔ ایک مہاجر پرندے کی طرح جس کا وقت یہاں پر ختم ہو چکا ہے۔ کوئی کچھ بھی کہہ لے، تم کوئی جرم نہیں کر رہے ہو۔ اس بات کو دھیان میں رکھنا بہت ضروری ہے‘‘ بہت بعد میں مجھے اس کا خیال آیا تھا کہ ماں نے شاید ٹھیک نہیں کہا تھا۔ مہاجر پرندے تو بار بار ایک ہی جگہ لوٹ آتے ہیں جب کہ ہمارا سفر یک طرفہ اور آخری تھا جہاں سے اب ہم کبھی واپس آنے والے نہیں تھے۔ میں محلے میں جن لڑکوں کے ساتھ کھیلا کرتا انھیں جب ہمارے بارے میں پتہ چلا تو انھیں کوئی حیرت نہ ہوئی۔ ہندوستان تم لوگوں کے لئے صحیح جگہ ہے، میرے ایک دوست نے کہا جو ہمارے پڑوس میں رہتا تھا، مجھ سے دگنی عمر کا تھا، اور کسی پنسل کی طرح دبلا پتلا اور لمبا تھا۔ وہ طرح طرح کی کتابیں پڑھا کرتا اور اپنی ایک خاص سوچ رکھتا تھا۔ یہاں ہمیشہ تمہارے باپ کے سلسلے میں سوالات پوچھے جاتے رہیں گے۔ یاد رکھو، اگر ہوا تمہارے خلاف بہنے لگی یا کسی نے تمہاری مخبری کر دی تو انھیں اس کی کوئی پرواہ نہ ہو گی کہ تمہارے باپ کے ساتھ تم لوگوں کے تعلقات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکے ہیں اور تم اور تمہاری ماں اس ملک کی زبان بالکل مقامی لوگوں کی طرح بول سکتے ہو۔
میں وہ سفر کبھی بھول نہیں سکتا۔ مگر میرے لئے بہتر ہے کہ اسے بھلا دوں۔ میں آج بھی اس کے لئے خود کو گناہ گار تصور کرتا ہوں۔ اس دن مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ ایک ہی آسمان کے نیچے زندگی گذارنے کے باوجود لوگ ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہوتے ہیں۔ سچ کہا جائے تو یہ سفر ایسا تھا کہ اس کے بعد میرے لئے دنیا میں حیران ہونے کے لئے بہت کم چیزیں رہ گئی تھیں۔ شاید یہ اس کا نتیجہ ہے کہ اب میں بہت کم باتیں بول پاتا ہوں۔ دوسری طرف نہ میں بہت دیر تک بولتے رہنے والوں کو ٹھیک سے سمجھ پاتا ہوں نہ ان لوگوں کو جو پورے وقت خاموش رہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے پہلے والے کے پاس کوئی کہانی سرے سے نہیں ہوتی شاید اسی لئے وہ اتنے سارے لفظوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں جب کہ دوسرے کے پاس ایک ایسی کہانی ہوتی ہے جسے الفاظ کی شکل دینا نا ممکن ہوتا ہے۔
ہم جب اپنے پیدائشی وطن کے اسٹیشن میں اترے تو ماں کے چہرے پر ناخن کے کھرونچ کے دو گہرے نشان تھے جو پوری طرح سوکھے تو نہ تھے مگر اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ ماں کے ساتھ زندگی بھر رہ جانے والے تھے۔ سارا راستہ ماں کی دونوں آنکھوں میں ایک رقیق مادہ لرزتا رہا تھا لیکن آخر تک اس نے پانی بننے سے انکار کر دیا۔ ماں کو اپنے لوگوں کو ڈھونڈنے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ شاید وہ ہر پل اس جگہ کو اپنے خواب میں دیکھتی آئی تھی۔ یہ شہر کا بہت ہی گنجان علاقہ تھا جہاں ہر نکڑ پر لوہے کے ہائڈرنٹ کھڑے تھے جو دریا کا گدلا پانی اگلا کرتے اور ٹرام ڈپو کے اندرسے ٹرام گاڑیاں بجلی کے تاروں میں چنگاریاں جگاتی ہوئی نکلا کرتیں۔ یہاں پر اب بھی پرانے زمانے کی بہت ساری عمارتیں کھڑی تھیں جن کے گنبدوں کے نیچے روشندانوں میں مختلف رنگ و نسل کی بلیاں کبوتروں کی تاک میں بیٹھی رہتیں اور اینٹ کی دیواروں پر لیمپ کے آہنی ڈھانچے لگے ہوئے تھے جن کا زمانہ گذر چکا تھا اور اب ان میں روشنیوں کا کوئی انتظام نہ تھا۔ وہاں ہمارے بچے کھچے رشتے داروں کو ہماری کہانی سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ایک طرح سے یہ ٹھیک بھی تھا۔ میں دو سال کا تھا جب میرے نانا اپنے قریبی رشتے داروں کو کسی طرح کی بھنک دئے بغیر اپنے نقدی اور زیورات کے ساتھ راتوں رات میری نانی، اماں اور ابا کو لے کر مشرقی پاکستان کوچ کر گئے تھے۔ میری ماں ان کی اکلوتی اولاد تھی جس نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔ اب ہمیں لٹے لٹائے واپس آتے دیکھ کر کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ لوگ کس طرح سے ہمارا استقبال کریں۔ انھیں یہ بھی ڈر تھا کہ ہم کہیں نانا کی طرف سے اجمالی جائداد پر دعویٰ نہ کر بیٹھیں۔ جہاں تک ماں کا تعلق تھا، یہ شہر ان کا اپنا تھا۔ اس کے آنگن اور دالانوں میں ان کا بچپن گذرا تھا، اس کے گلی کوچے ان کے جانے پہچانے تھے، اور ان کے ذہن پر اس کے بازاروں اور پاٹھ شالاؤں کی یاد اب بھی تازہ تھی۔ لیکن میرے پاس تو سارا تجربہ ایک اور ہی ملک کا تھا جس کی پیدائش کو میں نے اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھا تھا، مگر جس کی شکل پوری طرح طئے ہونے سے پہلے ہی ہم اسے خیر باد کہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس نئے ملک کے لئے جس وفا داری کی ضرورت تھی کیا وہ میرے بس کی بات تھی؟ مگر اس سے زیادہ فرق پڑنے والا نہیں تھا۔ میں وہ تھا جس نے تاریخی واقعات کو اپنی آنکھوں کے سامنے پیش آتے دیکھا تھا اور ایسے انسان کے لئے اپنی وفا داری کو کوئی بھی شکل دینا آسان ہوتا ہے۔ آج بھی پُل پر بیٹھ کر جوتے چمکاتے وقت میں سوچا کرتا ہوں، میں تا عمر یہ کام نہیں کرنے والا، کہ میرے پاس دوسروں کے سلسلے میں تجربات زیادہ ہیں اور ایک دن میرے پاس کہنے کے لائق اتنی ساری باتیں ہوں گی کہ انھیں سن کر یہ دنیا اپنی نگلی دانتوں کے درمیان دبانے پر مجبور ہو جائے گی۔