بانسری اور مُجھ میں فرق کُچھ نہیں بابا
زخم اُس کے سینے پر زخم میرے سینے میں
زخم پا کے وہ بھی خوش زخم پا کے میں بھی خوش
وہ بھی گیت گاتی ہے میں بھی گنگناتا ہوں
زخم دینے والوں پر وہ بھی مسکراتی ہے میں بھی مُسکراتا ہوں
اَب کے برس یوں ساون برسا بیتے زمانے یاد آئے
کوئل کی آواز سُنی تو میت پرانے یاد آئے
اشکوں کے سیلاب میں جیسے آج کہیں دِل ڈوب گیا
آنکھیں ٹوٹ کے برسی ہیں جو خواب سہانے یاد آئے
اَب کے برس یوں ساون برسا اب کے برس یوں
خوشیوں سے بیزار ہوا دِل خوب غموں کے میلے ہیں
دِیکھ کے حالت اَپنے گھر کی سب ویرانے یاد آئے
اَب کے برس یوں ساون برسا اب کے برس یوں
کون کسی کے پیار کو سمجھے عالم حوس پرستی کا
جو مِٹ گے تھے پیار کی خاطر لوگ پرانے یاد آئے
اَب کے برس یوں ساون برسا اب کے برس یوں
جام چھلکتے نین تھے اُن کے ہم بھی کُچھ پی لیتے تھے
دِل مچلا ہے آج تو ساقی وہ پیمانے یاد آئے
اَب کے برس یوں ساون برسا اب کے برس یوں
شب بھر جوش میں شمع جلی اور سب کو جلا کے راکھ کیا
آخری دم جب سحر ہوئی تو پھر پروانے یاد آئے
اَب کے برس یوں ساون برسا اب کے برس یوں
وقت کا سورج ماند پڑے تو سایہ ساتھ نہیں دیتا
ہوئے بشیرؔ وہ تنہا تو پھر ہم دیوانے یاد آئے
اَب کے برس یوں ساون برسا اب کے برس یوں