ابر برسے تو وہ ساون کی پھواروں جیسا
اور کھل جائے تو پھر چاند ستاروں جیسا
اس کا آنچل ہے کہ ڈھلکا ہی چلا جاتا ہے
پھر بھی معصوم ہے وہ ابر کے پاروں جیسا
_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_
“ٹرن ٹرن”ٹیلیفون کی گھنٹی بجی تو رانیہ باہر جاتے جاتے پلٹی۔
“تھینکس گاڈ !لائن تو ملی۔”دوسری جانب مامون ضیاء نے لائن ملنے پر کلمہ و شکر ادا کیا۔
“ہیلو۔” رانیہ کی مترنم آواز مامون کے کان میں پڑی۔
“اسلام و علیکم! یہ رضیہ خالہ کا گھر ہے؟”
جی ہاں! آپ کون صاحب؟
میں رضیہ خالہ کا بھانجہ بات کر رہا ہوں کراچی سے ، رضیہ خالہ سے بات کرا دیجیئے۔
مامون نے مہزب لہجے میں اپنا تعارف کرایا۔
آپ کا نام؟
بھئی کیا یہ کافی نہیں ہے کہ میں رضیہ خالہ کا بھانجہ بات کر رہا ہوں ۔ مامون نے چڑ کر کہا۔
مسٹر بھانجے!
یہاں محلے میں میری اماں کو سب لڑکے لڑکیاں خالہ کہتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ سب کے سب اماں کی بھانجے بھانجیاں ہو گئے وہ بھی سگے والے۔ رانیہ نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
“لاحول ولاقوة” وہ غصے سے بولا۔
“یہ آپ نے اپنے لیے پڑھا ہے نا۔” رانیہ نے اسے مزید تپانے کو معصومیت سے کہا تو سمجھ گیا کہ اتنی دیر سے لائن بڑی کیوں مل رہی تھی، یقینًا یہ باتونی لڑکی ٹیلیفون پر اپنی کسی سہیلی سے گپیں مار رہی ہو گی۔
“میں ہارون ضیاء کا بھائی اور ضیاالدین کا بیٹا ،مامون ضیاء بات کر رہا ہوں ،آیا آپ کی سمجھ میں ،اب بات کرئیے میری خالہ رضیہ سے”مامون نے اپنا غصی ضبط کرت ہوئے اپنا مکمل تعارف کرایا۔
اور اگر نہ کراؤں بات تو۔” رانیہ کو بھی اپنے کزن کو ستانے کا مزہ آرہا تھا، جس کو آج تک اس نے دیکھا نہیں تھا۔ شرارت سے کہا۔
میں دیکھ لوں گا تمہیں ۔ وہ دانت پیستے ہوئے بولا۔
دیکھ لینا مگر اچھی نظر سے کہیں مجھے نظر ہی نہ لگا دینا۔
“دل تو تھپڑ مارنے کو چاہ رہا ہے” وہ بولا تو رانیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور مامون کو محسوس ہوا کہ جیسے اس کی سماعتوں میں جھرنے گنکنانے لگے ہوں ، کتنی دلنشیں ہنسی تھی اس کی وہ کھو سا گیا۔
اماں! آپ کے بھانجے مامون ضیاء کا کراچی سے فون ہے لیں بات کریں ہامون جادوگر سے”۔ رانیہ نے رضیہ بیگم کو آواز دے کر کہا مامون کو اس کا ہامون جادوگر کہنا سلگا گیا،کتنی دلیر تھی کیسی بے تکلفی سے کزن ہونے کا حق استعمال کر رہی تھی۔ مامون کو حیرت ہو رہی تھی۔
آخر یہ لڑکی کیا چیز ہے؟
رانیہ نے ریسیور رضیہ بیگم کو تھما دیا اور خود چھت پر سوکھے کپڑے اُتارنے چلی گئی۔ کپڑوں کا ڈھیر اتار کر آتھائے ہوئے نیچے آئی تو رضیہ بیگم کو خوشی سے برآمدے میں ٹہلتے دیکھا۔
خیر تو ہے اماں کیا کہہ دیا اس ہامون جادوگر نے جو آپ اس قدر خوش دکھائی دے رہی ہیں ؟ رانیہ نے کپڑے تحت پر رکھتے ہوئے ان کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“اے نام کیوں بگاڑ رہی ہے بچے کا اتنا پیارا نام ہے مامون سب اسے چاند کہتے ہیں “مون” وہ پرسوں یہاں آرہا ہے اس کی تین مہینے کی کوئی ٹرینیگ ہے اس لیے کہہ رہا تھا کچھ دن آپ کے پاس رہوں گا پھر کوئی بندوبست کو لوں گا۔ تین ماہ تک آپ پر بوجھ نہیں بنوں گا۔ میں نے تو ڈانٹ دیا کہ یہ کیسی باتیں کرتے ہو، خالہ کے گھر پہلی بار آرہے ہو اور کہیں اور جانے کی بات بھی سوچے ہوئے ہو ۔یہ میں نہ ہونے دونگی۔ تم تین ماہ یہاں رہو گے ورنہ آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بڑی نہ نہ کرتا رہا بلآخر مان گیا” رضیہ بیگم نے ساری بات تفصیل سے بتا دی۔
“اماں ابھی کل تو میرے امتحان ختم ہوئے ہیں اور ابھی پڑھائی کی تھکن بھی نہیں اتری کہ آپ نے مستقل مہمان کو دعوت دے دی ہے۔ وہ بھی تین مہینے کے لیے گویا میری ساری چھٹیاں ان موصوف کی خاطر توضح کرتے ضائع ہو جائیں گی”۔ رانیہ نے منہ بنا کر کہا۔
چپ نادان مہمان الله کی رحمت ہوتا ہے اور پہلی بار مامون یہاں آ رہا ہے کبھی چار سال کی عمر آیا تھا بڑے گھر کا بچہ ہے ، کار کوٹھی کا عیش وآرام ہے نوکر چاکر آگے پیچھے پھرتے ہیں اس کے۔
پھر بھی آپ نے اسے اپنے اس چھ سات مرلے کے گھر آنے کے لیے کہہ دیایہاں کون سے نوکر چاکر ہیں جو اس ہامون جادوگر کی خدمت گزاری میں لگے رہیں گےاور روز روز نت نئے پکون کہاں سے لائیں گے ہم اسے، بیشک ابا کا جنرل اسٹور ہے مگر بھانجے کو اس کی حیٽیت کے مطابق نہیں رکھ سکیں گے یہاں ۔ رانیہ نے سنجیدہ اور سپاٹ لہجے میں کہا تو وہ بولیں ۔
ہم مامون کو اپنی حیٽیت کے مطابق رکھیں گے اس کے ماں باپ کو ہمارے حالات کا علم ہے۔
اماں یہ مامون ضیاء آپ کی خالہ کی بیٹی سلمٰی آنٹی کا بیٹا ہے نا؟
ہاں اور تمیز سے بات کر ، پانچ سال بڑا ہے وہ عمر میں تجھ سے ایم سی ایس کیا ہے، بڑی اچھی نوکری ملی ہے اسے لاہور میں ۔
ملی ہو گی میری بلا سے ، میری چھٹیاں تو برباد ہوگئیں نآں اس کی وجہ سے ۔ رانیہ کپڑوں کی تہہ لگاتے ہوئے بولی۔
وہ تجھے کیا کہہ دے گا، خبر دار جو اس کے سامنے کوئی الٹی سیدھی بات کی ہاں ۔اوپر والا کمرہ اچھی طرح سے صاف کر کے پلنگ پر نئی چادر بچھا دینا اور غسل خانے میں نیا تولیہ اور صابن وغیرہ بھی رکھ دینا۔ امں نے ہدایات دینا شروع کر دیں اور رانیہ غصے سے پیر پٹختی اوپر چلی گئی۔
_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*
رضیہ بیگم اور امجد علی کے دو بچے تھے ایک بیٹا اسجد علی اور اس سے پانچ سال چھوٹی رانیہ علی، امجد علی کا جنرل سٹور تھا جو کامیابی سے چل رہا تھا۔ سات مرلے کا مکان بھی اپنا تھا۔
اسجد نے ایف اے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی اور سنار کاکام سیکھ کر اپنے دوست کے ساتھ دبئی چلا گیا، اور اس کا کام خود سے چل نکلا تھا۔ گھر والوں کو بھول گیا تھا، سال بھر سے اس کا کوئی خط نہیں آیا تھا۔ بس بکا عید پر فون کر کے اس نے جیسے اپنا فرض پورا کر دیا تھا۔رضیہ بیگم اور امجد علی کو اکلوتے بیٹے کی لاپروائی اور بے حسی کا بہت رنج تھا اور وہ دونوں دل ہی دل میں بیٹے کی یاد میں خون کے آنسو روتے تھے۔
رانیہ کو اسجد علی پر غصہ آیا کرتا تھا، اسے دولت والوں سے اس لیے سخت چڑ ہو گئی تھی کہ وہ خون کے رشتوں کو دولت کی ہوس میں بھلا دیتے ہیں ۔
رزق کی اندھی دوڑ میں رشتے کتنے پیچھے رہ جاتے ہیں رانیہ کو بہت کم عمری میں ہی اس کا احساس ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے مڈل کلاس سے تعلق ہونے پر شاکر تھی ۔ اسے روپے پیسے کا ر کوٹھی کی خواہش تھینہ ہوس۔ حال ہی میں اس نے بی ایس سی کا امتحان دیا تھا ۔ وہ بہت ذہین تھی ہر سال اعلی نمبروں سے پاس ہوئی تھے ہمیشہ اے گریڈ لیتی تھی۔ اس بار بھی وہ پُر امید تھی ۔۔
_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*
رضیہ بیگم کی ایک ہی خالہ تھیں اور سلمٰی ان کی بیٹی تھیں ان کی شادی ضیاء الدین سے ہوئی تھی جو کار کوٹھی کے مالک تھے ۔ ان کے دو چھوٹے بیٹے تھے۔ ہارون ضیاء اور مامون ضیاء۔ ہارون ضیاء جو کہ شادی شدہ اور بچوں والے تھے فیکٹری چلا رہے تھے ان سے چار سال چھوٹا مامون تھا بہت لائق تھا۔ ایم سی ایس کرنے بعد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کر رہا تھا اور اب اس سے اچھی کمپنی میں جاب ملنے پر ٹریننگ کے لیے لاہور آرہا تھا۔ رضیہ بیگم کے ایک ہی بھائی تھے۔مجید غفار اور ان کی بیوی رخسانا مجید ان کی تین بیٹیاں او دو بیٹے تھےرخسانا مجید رانیہ کو اپنی بہو بنانا چاہتی تھیں اور امجد علی کے بھائی ارشد علی بھی رانیہ کو اپنی بہو بنانے چاہتے تھے دونوں طرف دولت اورجہیز کا بھاری لالچ تھا کہ اسجد علی دبئی گیا ہے تو خوب دولت کما کما کر بھیج رہا ہو گا۔ لیکن جب انہیں گھر میں کوئی خوشگوار تبدیلی نظر نہ آئی اور یہ معلوم ہوا کہ اسجد علی نے گھر والوں سے رابطہ ہی ختم کر رکھا ہے ، پیسے بھی نہیں بھیجتا تو وہ دونوں پیچھے ہٹ گئے۔ رانیہ ان کی نیتوں سے بے خبر نہیں تھی جبھی وہ ان سب سے اور دولت سے بیزار رہتی تھی۔ جس نے اس کے خون کے رشتوں میں کھوٹ پیدا کر دیا تھا ۔ اس کے سگے بھائی کو اس سے دور کر دیا تھا۔
_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_
امجد ہاؤس چم چم کر رہا تھا رانیہ نے اماں (رضیہ بیگم ) کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اوپنوالے کمرے کو بھی دھو کر ، جالے صاف کر کے خوب سلیقے سے سیٹ کر دیا تھا اور باقی گھر کو بھی دھو کر صاف کر ستھرا کر دیا تھا۔
مامون بارہ بجے کی فلائٹ سے آرہا تھا ابا دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے گھر ہی آئے تھے ۔ رانیہ نے چکن بریانی ، مٹن قورمہ ، کسٹررڈ اور سلاد بنیا تھا۔
اماں یہ موصوف تین ماہ رہیں گے اور آپ نے آج ہی سارے پکوان پکوا لئے۔ رانیہ نے پانی پیتے ہوئے کہا۔
پہلی بار آیا ہے مامون یہاں کیا سوچتا کہ خالہ ایک وقت اچھا کھانا بھی نہیں کھلا سکتی ۔
وہ آ گیا ہے خبردار جو اس کے سامنے کوئی الٹی سیدھی بکواس کی ۔ شرمندہ نہ کر دینا مجھے اس کے سامنے ۔
رضیہ بیگم نے آہستگی سے اسے ڈپٹتے ہوئے کہا ۔
ہاں جیسے پہلے تو میں ہر کسی کے سامنے آپ کو شرمندہ کرتی رہی ہوں ناں ۔
اری میری رانی ! میرا مطلب یہ تھوڑی تھا۔ اچھا دس پندرہ منٹ میں کھنا دینا اور مامون کو بھی آ کر سلام کر دینا۔
اس حلیے میں رانیہ نے اپنی میلے کپڑوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ صبح سے تو آپ نے کچن میں گھسا رکھا ہے میں کھانا لگا کر نہانے چلی جاؤں گی۔
اچھا ٹھیک ہے ڈھنگ کے کپڑے پہننا رضیہ بیگم نے جلدی سے کہا اور تیزی سے ڈرائنگ روم میں چلی گئیں ۔
جہاں مامون آ چکا تھا اور امجد علی سے محوِ گفتگو تھا۔
رضیہ بیگم سے بھی وہ بہت مہذب انداز میں ملا کچھ دیر دونوں میاں بیوی اس سے گھر والوں کی، اس کی ملازمت کی بابت گفتگو کرتے رہے پھر تینوں نے مل کر کھانا کھایا۔ مومون کو ٹیلی فون پر بات کرنے لڑکی یعنی رانیہ کو دیکھنے کی تمنا تھی اور وہ بھی کہیں بھی نظر نہیں آئی تھی۔ امجد علی کھانے کے بعد مامون کو آرام کا کہہ کر واپس اسٹور پر چلے۔ گئے تھے۔
خالہ جان میں نے جب فون کیا تھا تو کس نے اٹھایا تھا۔
رانیہ نے اٹھایا تھا۔
رانیہ کون؟
اسے سلمٰی بیگم نے بتایا تھا کہ رانیہ ان کی بیٹی ہے مگر وہ انجان بن کر پوچھ رہا تھا۔
میری اکلوتی بیٹی ہے اور کون تم لوگ کبھی ملے جو نہیں اسی لئے معلوم نہیں ہے۔
کھانا اسی نے پکایا تھا صبح سے کام میں لگی ہوئی تھی شائد سو گئی ہو۔
بیٹا اب تم بھی آرام کرو تمہارا کمرہ اوپر چھت پر ہے اپنا سامان بھی وہیں لے جاؤ ان شاء الله شام کو ملاقات ہو گی۔رضیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔
ٹھیک ہے خالہ جان ! وہ سعادت مندی سے بولا اور اپنا سوٹ کیس اٹھا کر سیڑھیاں چڑھتا جونہی اوپر پہنچا اس کی نظر رانیہ پر پڑی جو نہانے کے بعد دھوپ سینکنے چھت پر آ گئی تھی۔ وہ سفید شلوار ہلکی نیلے رنگ کی کاٹن کی قمیض دوپٹے میں نکھری نکھری بے حد دلکس لگ رہی تھی۔ رانیہ بھی آہٹ سن کر سیڑھیوں کی جانب پڑی تو اپنے روبرو ایک چھ فٹ لمبے ، مضبوط وجیہہ۔سرخ و سفید رنگت والے خوبرو جوان کو دیکھ کر سٹپٹا گئی، اسے خیال نہیں رہا تھا کہ اوپر تو اب مامون کا کمرہ سیٹ کر دیا گیا ہے۔
وہ آرام کرنے یہی آتا مگر رانیہ تو نہا کپر حسب عادت اوپر آگئی تھی۔ اب شرمندہ سی واپس جانے لگی تو مامون نے اس کے سراپے پر گہری نگاہ ڈالتے ہوئے شوخ لہجے میں مسکرا کہا۔
اوہ تو آپ ہیں ملکہ رانیہ
اوہ تو آپ ہیں ہامون جادوگر۔ رانیہ نے برجستہ جواب دیا تو مامون کو بے اختیار ہنسی آگئی اور وہ نروس ہو کر نیچے جانے کے ارادے سے آگے بڑھی ہی تھی کہ مامون نے اس کا ہاتھ تھامنے کی جسارت کر ڈالی۔ رانیہ اس کی اس حرکت پر حیران رہ گئی۔
_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...