(Last Updated On: )
اب یاد کسے قصۂ پارینہ ہمارا
اس شہر میں اک یار تھا دیرینہ ہمارا
اک بار جو سنتا ہے وہ سنتا ہے دوبارہ
یہ حسنِ سماعت ہے کہ سازینہ ہمارا
آئینہ بنے پھرنا مشقت کوئی کم ہے
اس پر یہ ستم شہر ہے نابینا ہمارا
حاجت کوئی پوری نہیں ہو پاتی ہماری
قسطوں میں دیا جاتا ہے روزینہ ہمارا
ہم سب کو میسر تھے مگر حسبِ طبعیت
یاروں سے غلط لگ گیا تخمینہ ہمارا
شہرت کی یہ سیڑھی ہے قرینے سے پھلانگو
اک زینہ تمہارا ہے تو اک زینہ ہمارا
کاشر یہی رونا ہے کہ رونا نہیں آتا
معلوم تو ہے کس نے سکوں چھینا ہمارا