وطن پہنچنا اُس سَیّاحِ جہاں گرد کا آرام و چَین سے،بعدِ حُصولِ سعادتِ قدم بوس ملنا والدین سے۔ پھر فیروز شاہ کا جانِ عالم کو تخت و تاج دینا، آپ گوشۂ عُزلت لینا۔ اور قتل وزیر زادے کا، سزائے اعمال کو پہنچنا اُس حرام زادے کا
اَبیات:
چل اے توسَنِ خامہ منزل رَساں
پھرا گھر کو شہ زادۂ خوش سِیر
وہ اس طرح پہنچا وطن کی طرف
بڑی فکر رہتی تھی ہر صبح و شام
وہ بچھڑے تو سب ہو گئے ایک جا
رہی شَرحِ جَورِ فلک نا تمام
کہ اب گھر پہنچتا ہے یہ کارواں
جھمکڑے کا عالم، بہت کرّ و فَر
بہار آئے جیسے چمن کی طرف
ہوئی فضلِ حق سے کہانی تمام
ہوئے اپنے مطلوب سے ہم جدا
سُرورِؔ حَزیں! توسَنِ خامہ تمام
غرض کہ شاہ زادۂ جانِ عالم منزل بہ منزل مسافت طے کر، مَعَ الخیر وطن پہنچا۔ دو کوس شہر سے باہر خِیامِ ذَوِی الاِحتِرام اِستادہ ہوئے، لشکرِ ظفر پَیکر نے مُقام کیا۔ یہ خبر فُسحت آباد میں گھر گھر مشہور ہوئی کہ کوئی غنیم بے خوف و بیم فوجِ عظیم لے کر وارِد ہوا ہے، دیکھیے ہوتا کیا ہے۔ شہر کا یہ نقشہ تھا: جس روز سے جانِ عالم مَفقودُ الخَبر، در بدر ہوا تھا؛ سُنسان، ویران، بے چراغ پڑا تھا اور بادشاہ گریباں چاک، سر پہ خاک، نہ تخت کی خبر، نہ سلطنت سے سَروکار، نہ ملک سے مطلب، نہ دربار سے غرض، دیوانہ وار، با دِلِ بے قرار محل میں پڑا رہتا تھا۔ نہ کسی کی سنتا تھا، نہ اپنی کہتا تھا۔ اور شہ زادے کی ماں بھی غمگین، اندوہ ناک، بے چین؛ دن رات غم کی حکایت، اندوہ کے بین، نصیب کی شکایت، لب پر شُور و شَین۔ خَلِشِ نَشترِ غم سے کوئی ساعت قرار نہ پاتی تھی، ہر وقت بلبلاتی تھی۔ یہاں تک دوریٔ دِلبَند، مہجورِیٔ فرزند میں دونوں روئے تھے کہ آنکھیں ان عزیزوں کی یوسفِ گم گشتہ کے فِراق میں، دید کے اِشتِیاق میں ہَم چَشمِ دیدۂ یعقوب علیہ السَّلام ہو گئی تھیں، بہ حکمِ آیۂ وا فی ہِدایہ: وَابیَضَّـــت عَینٰـــهُ مِنَ الحُزنِ فَھوَ کَــظِیمٌ۔ اور سچ ہے: فراقِ نورِ چشم میں نورِ چشم کب رہتا ہے۔ رات دن آنکھوں میں یکساں، ہر وقت سَراسیمہ و پریشاں؛ مگر اَرکانِ سلطنت، نمک خوارِ قدیم کوشش عظیم سے درپردہ ریاست کا نام سنبھالے تھے۔
جب وُرودِ لشکر بہ ایں کّر و فَر سُنا، وزیرِ اعظم کو جانِ عالم کے پاس حال دریافت کرنے بھیجا۔ بس کہ شہ زادۂ با اِمتیاز کی مُفارَقَت کو عرصۂ دراز ہوا تھا؛ اس کے سوا وہ سامان، جاہ و حَشَم، لشکر کا چَم و خَم، فوج ہزار در ہزار، اَنبوہِ بے شمار، خزانۂ لا اِنتہا دیکھ کر وزیر گھبرایا، اپنے شہ زادے کا وہم و گماں نہ آیا۔ دست بستہ عرض کی: قبلۂ عالم! گردِشِ طالعِ و اژوٗں، نیرنگیٔ گَردونِ دوٗں سے وارِثِ تختِ سلطنت یہاں کا دفعتاً گُم ہو گیا۔ بادشاہِ آسماں جاہ ہمارا، مصیبت کا مارا جگر گوشے کی مُفارقت میں دامانِ صبر، گریبانِ شکیب پارہ پارہ کر کے؛ نورِ نظر بھی اس اپنے قُرّۃُ العین، طاقتِ بَصَر کے ہجر میں گریے کی نذر کر چکا ہے۔ زیست بہ نام ہے، مر چکا ہے۔ ہَنُوز اُس عَینُ الکمال کے قدم کی خاک سُرمۂٔ چشمِ مُشتاقاں و کحلُ الجَواہرِ دیدہِ مُنتظِراں نہیں ہوئی۔ بعدِ رسمِ سلام حضور کو یہ پیام دیا ہے کہ اگر خواہشِ تخت یا تمنائے تاج منظورِ خاطر ہے؛ بِسمِ اللہ، کل نہیں آج حاضر ہے؛ مگر سامانِ جنگ و جِدال، گرم بازارِیٔ عرصۂ قتال، خوں رِیزیٔ بندہ ہائے خدا ناحق، نارَوا ہے۔ مجھے تختِ سلطنت تختۂ تابوت سے بدتر ہے، اِلّا معاملۂ قضا و قَدَر سے مجبور فردِ بَشَر ہے۔ ہر چند جینے سے سخت جی بیزار ہے، لیکن مرجانے کا کسے اختیار ہے۔ شعر:
مرنے کو میں تو راضی ہوں، موت کو موت آ گئی
زندگی اب گلے پڑی، اس کی میں کیا دوا کروں
شرحِ سخت جانی موٗجِبِ پریشانیٔ گوشِ حق نِیُوش جان کر طوٗل کو مختصر کیا۔ جانِ عالم نے یہ سن کر رو دیا۔ وزیر کو گلے سے لگایا، خِلعتِ فاخِرہ عِنایت کیا، پھر کہا : افسوس! تم نے گود کے پالے عرصۂ قلیل میں بُھلا ڈالے۔ بعدِ آداب و کورنِش عرض کرنا کہ بدَولَتِ کشش اُلفتِ پِدَری و تاثیرِ دعائے سحری سے خانہ زادِ بامراد زندہ و سالم شَرفِ آستاں بُوس سے مشرف ہوا۔ اس وقت وزیر نے پہچانا، قدموں پر گرا۔ پھر سر اٹھا کر بے اجازت بھاگا اور بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا ، پکارا: مبارک ہو۔ اُستاد:
بوئے یوسف سوئے پیغمبرِ کَنعاں آئی
اے شاہِ با اقبال و اے صاحبِ جاہ و جلال! بہ عنایتِ جامعُ المُتفَرِقین اور باعِثِ برکتِ دعائے مُہاجِرین وہ نَیرِ اَوجِ بختیاری، کَوکَبِ دَرَخشندۂ سپہرِ شَہر یاری با فوج و لشکر اور مجمع حورانِ پری پیکر یہاں آیا اور اس اجڑے نگر کو آباد کیا، بسایا۔ مُشتاقوں کا دلِ اَلَم رَسیدہ شاد کیا۔ شُکر صَد شُکر نالۂ شب گیر با تاثیر تھا۔ بادشاہ کو تو مرتبۂ یاس حاصل تھا، وزیر سے یہ کلمہ فرمایا، میر تقی:
کوئی اور ہو گی، وقتِ سحر ہو جو مُستَجاب
شرمندۂ اثر تو ہماری دعا نہیں
وزیر نے مکرّر عرض کی: بہ سَرِ اَقدسِ حضور، شبِ دیَجور ہماری یُمنِ قدم سے اس شمع انجمن افروزِ سُلطانی کے روشن ہوئی۔ ہر گلی اس شہرِ ویراں کی رشکِ گلشن ہوئی۔ اس گفتگو میں وزیر تھا کہ جانِ عالم تنہا داخل ہوا۔ محل میں محشر کا قیام ہوا، رونا پیٹنا مچا، رنڈیوں کا اِزدِحام ہوا۔ ماں باپ نے گلے سے لگایا۔ شہ زادہ بِالرّاسِ و العَین آداب بجا لایا۔ عیَن عنایتِ الہی دیکھیے، اسی دم دونوں کی آنکھوں میں بینائی آئی، جسم میں تاب و توانائی آئی۔ بادشاہ جلد سوار ہوا، بہوؤں سے لشکر میں جا کر دو چار ہوا۔ شہر والوں نے یہ ماجرا سنا؛ صغیر و کبیر، بَرنا و پیر دوڑے۔ دونوں لشکر جلو میں ہمراہ، آگے آگے جہاں پناہ، روپیہ اشرفی دو رویہ تَصدُّق ہوتا، محل سرا میں لا کر داخل کیا۔ جانِ عالم کی ماں نے انجمن آرا اور ملکہ مہر نگار کو دیکھا، جان و دل دونوں پر نثار کیا، بہت سا پیار کیا۔ مبارک سلامت کی صدا در و دیوار سے پیدا ہوئی۔ جس نےدیکھا، وہ شیدا ہوئی۔
دوسرے دن ملکہ اور انجمن آرا نے شاہ فیروز بخت سے عرض کی کہ اگر حضرت کی اجازت ہو تو شہزادے کی محل سرائے قدیم میں ہم جائیں، ماہ طلعت سے ملاقات کر آئیں۔ بادشاہ نے فرمایا: وہ عورت بد بخت سخت منہ پھٹ، بڑھ بولی، فضول ہے؛ اسے شرمندہ کرنے سے کیا حصول ہے۔ میاں مٹھو بھی حاضر تھے، بول اٹھے: قبلۂ عالم ! یگانگت مقتضیٔ ملاقات خواہ نخواہ ہے، باہم رہ و رسم بڑھے گی، مدارات ہوگی، خفت و ذلت کی کیا بات ہو گی۔ بادشاہ چپ ہو رہا۔ شہزادیوں نے سواری طلب کی۔ طائرِ پرّاں نے پیش قدمی کر کے ماہ طلعت کو سلام کیا۔ اس نے سر جھکا لیا۔ یکایک سواریاں پہنچیں۔ اس وقت وہ بیچاری خفت کی ماری اٹھی، استقبال کیا۔ دونوں نے گلے سے لگایا، مسند پر جا بیٹھیں۔
ملکہ بڑی مقرر، خوش بیاں تھی؛ انجمن آرا نِموہی بے زباں تھی؛ سلسلۂ کلام بہ دل داریٔ تمام کھولا کہ ہماری جانب اور گمان نہ لانا، ہم بہر حال شریکِ بشاشت، مونسِ رنج و ملال ہیں۔ توتا انجمن آرا کے سامنے آیا، پھر ماہ طلعت سے کہا: غریب نواز ! اتنا زبان مبارک سے فرماؤ کہ آج سچا کون ہے، جھوٹے کے منہ میں کیا ہے ؟ اور تو کیا کہوں، آپ کی کج بحثی کے باعث جان عالم کے ہاتھ یہ لوگ مہر جبیں، ماہ سیما آئے، گو اتنا چکر ہوا؛ میرے سبب آپ کو ندامت ہوئی، جھوٹے کے منہ میں گھی شکر ہوا۔
انجمن آرا تو سیدھی، بھولی تھی؛ توتے سے بد مزہ ہوئی، فرمایا: دیوانے! کیا بیہودہ بکتا ہے ! بے حکم خدا کسی سے کیا ہو سکتا ہے ! پھر ماہ طلعت سے کہا : سنو میری جان ! یہ جانور بے شعور، عقل سے دور، حیوانیت سے مجبور ہے۔ دنیا کا کارخانہ فسانہ ہے۔ رہا یہ حسن و خوبیٔ عارض، عارضی شےہے، اس پر کیا اِترانا ہے! یہ کیفیت، یہ جوبن، یہ سِن؛ چار دن کا ہے ناپائیدار،اس کا کیا اعتبار ! رنگِ چمنِ دنیا جاوداں نہیں۔ کون سی بہار ہے جسے دغدغۂ خزاں نہیں۔ حسن پر غرور بے جا ہے، سرورؔ یہ کہتا ہے، شعر:
بہتا دریا ہے یہ حسن،اس میں ارے دھولے ہاتھ
بے خبر اتنا ہے کیوں بر سر ساحل بیٹھا
کُلُّ مَن عَلَیهــــا فانٍ وَیَبقی وَجهُ ربِّكَ ذُو الجَـــلالِ والإکرام۔
نظر پڑا چمن دہر میں جو ہم کو مکاں
ہمارے زعم میں اس سا کوئی نہیں ناداں
شکستہ رنگیٔ گل شاہدِ چمن ہے یہاں
ہزار خوار ہوئی دیکھی بلبلِ نالاں
جو اپنے حسنِ دو روزہ پہ کچھ ہوا نازاں
کہ اس بہار کا انجام آخرش ہے خزاں
گھمنڈ اس پہ، حماقت کی بس نشانی ہے
مقام عبرت و حیرت سرائے فانی ہے
آخرکار دونوں نے ماہ طلعت کو شیریں بیانی اور اپنی خوش زبانی سے شگفتہ خاطر، خنداں رو کیا، معاملہ یک سو کیا۔ دو چار گھڑی ہنسی خوشی، اختلاط رہا؛ مگر توتا نوک چوک، چھیڑ چھاڑ کیے گیا۔ پھر رخصت ہوئیں۔ اس نے حاضر ہونے کا وعدہ کیا۔ واقعی جنھیں اللہ حسنِ بے مثال، مرتبۂ جاہ و جلال دیتا ہے؛ ان لوگوں کا دلِ صفا منزل غبارِ کلفت اورعجب و نَخوت سے صاف اور مِرآتِ سینہ زنگِ حسد و کینہ سے شفاف ہوتا ہے۔القصّہ، باہم بے رنج و الم رہنے لگے۔شب شاد، ہر روز خنداں، خرم و فرحاں بسر کرنے لگے۔ نئے سر سے وہ اُجڑا ہوا شہر بسا۔ بِنائے ظلم و ستم منہدم ہوئی۔مُروّج عدل و دَاد ہوا۔دونا سابق سے حال میں آباد ہوا۔خزاں چمن سے دور ہوئی۔بلبلِ نالاں چہچہے کرنے لگی، مسرور ہوئی۔
ایک روز جانِ عالم نے تمام خلقت کو دَرِ شہر پناہ پر طلب کر کے، وہ بکری کا بچہ دکھا، نمک حرامیاں اُس کی سنا، جلاد سے حکم کیا: اس کے اعضا اعضا سے جدا، بے دست و پا کر کے، زاغ و زغن کو، گوشت کی بوٹیاں اُڑا کر، کھلا دو۔ شکاری کتوں کو، لہو اس کا بہا کر، چٹا دو۔ بہ مجرّد فرمان اسی آن بند بند تیغِ تیز سے جدا ہو گیا۔ ایک عالم یہ سانحہ سن کے حیرت کا مبتلا ہوگیا۔ سب نے اس بے دین پر لعنت و نفریں کی۔ جان عالم نے دولت سرا کی راہ لی۔ اسی روز فیروز شاہ نے تاج وتخت بیٹے کو حوالے کیا، خود گوشۂ تنہائی لیا۔ بادشاہ شب اپنی عبادت اور بیداری میں سحر کرتا تھا؛ وہ تو قائمُ الّیل، صائمُ النہار مشہور ہوا۔ جان عالم ہر روز تخت پر جلوہ افروز ہو، عدل کی داد دے کے، شب کو پری پیکروں میں بسر کرتا تھا؛ یہ عادل و سخی، رحیم و شجاع یکتائے روزگار مشہور ہوا۔ ذکر دونوں کا تا قیامِ قیامت صفحۂ روزگار، ورقِ لیل و نہار پر اور بَرزَبانِ یگانہ و بیگانہ رہا۔بات باقی رہ گئی، نہیں تو دورِ دوراں میں کس کا دَور رہا، کس کا زمانہ رہا !
جس طرح جانِ عالم کے مطلب ملے،اسی طرح کل عالم کی مراد اور تمنائے دلی اللہ دے۔ علی الخصوص سامعین، ناظرین، راقم و مولف کی خواہش و آرزو بہ تصدّقِ رسولِ عَربی بَر آئے۔ بِحُــرمَةِ النِــبیّ وَآلِهِ الأمجــاد بالنُونِ وَالصَاد۔ بہ اسباب ظاہر یہ فسانہ ہے، نادرِ زمانہ ہے، مضمونِ چکیدۂ دل و تحریرِ خامہ ہے؛ اگر دیدۂ غور و نظرِ تامل سے مُلاحظہ کرو تو حقیقت میں کارنامہ ہے۔ مولف:
گلزار کو جہاں کے ہم نے بہ غور دیکھا
اک رنگ پر نہیں ہے رنگین اس کا نقشہ
روتی چمن میں شبنم، ہنسنے پہ ہے گلوں کے
دیکھا بہ چشمِ عبرت ہم نے طلسمِ دنیا
پابند یاں نہ ہوئے، جس کو کہ عقل کچھ ہو
آتی صدا جرس سے کانوں میں ہے یہ پیہم
ازبہرِ پنجتن تو سن لے دعا یہ خالق!
اہلِ دَوَل کا مجھ کو محتاج تو نہ کرنا
کعبہ بھی اور مدینہ دکھلا سرورؔ کو تو
کیابےثبات، ہے ہے ! دلچسپ یہ مکاں ہے
ہے فصلِ گل کبھی تو گہ موسمِ خزاں ہے
نالے سے بلبلوں کے جو گل ہے، شادماں ہے
رشکِ حباب شبنم واللّہ بے گماں ہے
دُنیا ہے نام جس کا، وہ قحبۂ جہاں ہے
غافل عبث ہو، رَو میں یاروں کا کارواں ہے
جو ہے نہاں جہاں میں،تجھ پر وہ سب عیاں ہے
احسان کا بار اُن کے مجھ کو بہت گراں ہے
وہ مدعائے دل ہے، یہ آرزوئے جاں ہے
تاریخ مولف:
جس نے کہ سنا اس کو، یہ کہنے لگا دل میں
تاریخ سرورؔ اِس کی منظور ہوئی جس دم
یارب یہ فسانہ ہے یا سحر ہے بابِل کا
بے ساختہ جی بولا “نشتر ہے رگِ دل کا”
جس دم یہ کہانی تمام ہوئی، بہ طریقِ اصلاح جناب قبلہ و کعبہ آغا نوازش حسین خاں صاحب، عرف مرزا خانی، متخلص بہ نوازش کی نظرِ فیض اثر سے گزری؛ اس تاریخ سے زینت بخشی: قطعۂ استاد:
برای خاطرِ یاران و احباب
بجستم سالِ تاریخش نوازشؔ
سُرورؔ ایں قصہ را چوں کرد ایجاد
فلک ایں “گلستانِ بے خزاں داد”
یہ فسانہ رائج جو ہوا؛ بندے کے دوست تھے نیک سیرت، ستودہ صفات، خجستہ افعال، اکملِ ہر کمال، تعلّقِ دہر سے مِثلِ سرو آزاد لالہ دُرگا پرشاد۔ ہنربیں، عیب پوش، تخلّص مدہوش ۔ خمِ محبت سے مے الفت جوش میں آئی، یہ تاریخِ مستانہ زیبِ فسانہ فرمائی، مدہوشؔ:
کہا فسانہ جو یہ عجائب سرورِؔ دل خستہ و حزیں نے
کہ جس کی تاثیر سے بیاں کی، ہر ایک دل بے قرار دیکھا
جہاں پہ کچھ گُل کی گفتگو ہے، وہاں پہ کچھ اور رنگ و بو ہے
جہاں خزاں کی خلش ہے اس میں، وہاں پہ کیا کیا نہ خار دیکھا
جہاں کیا غم نے ہے جگر خوں، نظر پڑا واں شفق کا عالم
کہیں جو ہے داغ دل کا پھولا، تو اس جگہ لالہ زار دیکھا
کہیں جو چشمے کا ماجرا ہے، دکھائی وہ آب و تاب اس نے
کہ چشمۂ چشم سے ہر اک کے رواں ہوا چشمہ سار دیکھا
کہیں جو دریا کا ذکر آیا، تو کشتیٔ دل ہے نذرِ طوفاں
جو کوہ نے سر کہیں اٹھایا، تو جان کو سنگسار دیکھا
ہوا ہے جس جس جگہ پر اس میں بیانِ سحر و طِلسم و جادو
تو قدرتِ حق سے اس مکاں پر نئی طرح کا حصار دیکھا
جو قید میں دیو کی پھنسا ہے کسی جگہ پر کوئی پری رو
تو کیا نہ سامان چھوٹنے کا وہاں پہ بر روئے کار دیکھا
جہاں لکھا اس فسانہ پیرا نے حال کچھ رنج و بے کسی کا
وہاں پہ ہمدم نہ کوئی پایا، نہ کوئی مونس، نہ یار دیکھا
کسی جگہ پر جو جوگ آسن کا جوگیوں کے بیاں ہے اس میں
جو خوب چھانا، تو اس جگہ کچھ نہ غیر مُشتِ غُبار دیکھا
شکستگىٔ بیاں کے آگے تو زرد ہے رنگ زعفراں کو
جہاں ہے کچھ روپ بستگی کا، وہاں پہ دل کو فشار دیکھا
کہیں جو آمد کی یار کی کچھ خبر کا چرچا کیا ہے اُس نے
تو دیدہ ہر اہل دید کا واں پہ وقفِ صد انتظار دیکھا
جو وصل کی شب کا کچھ بیاں ہے، تو جمع ہے خاطرِ پریشاں
جو روزِ ہجراں کا غم لکھا ہے، تو دل کو کیا انتشار دیکھا
جو بزم کا کچھ بیاں کیا ہے، تو کوئی مجلس نہ دیکھی ایسی
جہاں پہ کچھ رزم کا بیاں ہے، ہر اک کو اسفندیار دیکھا
جہاں سخاوت کا کچھ بیاں ہے، نہ پوچھ احوال واں کا مجھ سے
کہ حاصلِ بحر و کانِ عالم کو ایک دم میں نثار دیکھا
کہیں کھنچی ہے جو تیغِ ابرو، تو ہو گئے دل کے ٹکڑے ٹکڑے
کہیں جو تیرِ نگاہ چھوٹا، تو صاف سینے کے پار دیکھا
خرابیٔ حالِ عاشق ایسی، کہ جس پہ رونا فلک کو آوے
کہیں یہ معشوق کی ہے خوبی کہ ملک تک زرنگار دیکھا
نہ پوچھو حال اس فسانے کا تم کہ ڈھنگ کیا کیا بھرے ہیں اس میں
جو حسن دیکھا تو زور دیکھا، جو عشق دیکھا تو زار دیکھا
ہوئی جو مدہوشؔ کو یہ خواہش کہ سالِ تاریخ اِس کا لکھیے
تو کھینچ کر “آہ” دل سے نکلا “خزاں سے رنگِ بہار دیکھا”